تحریر: شاہ خالد مصباحی لوجہاد کی دوغلی پالیسیوں کا دوغلہ پن رویہ آخر کب تک
لوجہاد کی دوغلی پالیسیوں کا دوغلہ پن رویہ آخر کب تک
اتر پردیش کے سی ، ایم ، یوگی ادیتھ ناتھ جی جہاں مذہبی منافرت کی رس عوام میں گھول کر کرسی اقتدار پر پہونچے وہیں پر مخی منتری بننے کے بعد بھی اپنی ایک طرفہ بیان بازیوں سے باز نہیں آ رہے ہیں__ کبھی مولویوں اور شریعت کو نشانہ بناکر اپنی سیاست اور ہنود کے بیچ اپنی قیادت گرماتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلم بچوں کو نشانہ بنانے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ؛ جو کہ مسلم طبقوں کے لیے قابل فکر و تعجب خیز ہے
میں بتادوں کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے جمعہ کے روز محکمہ قانون و انصاف کو لو جہاد مخالف قانون کا مسودہ بھیجا ہے۔
یو این آئی نے ذرائع کے حوالہ سے کہا ہے کہ ریاست کے محکمہ داخلہ نے محکمہ قانون و انصاف کو لوجہاد پر بنائے جانے والے قانون کا مسودہ بھیج دیا ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
حکومت کے دعویٰ کے مطابق اس قانون کا مقصد لالچ، دباؤ، دھمکی یا شادی کا دلاسہ دے کر تبدیل مذہب کی روک تھام ہے۔
لو جہاد! لفظی رو سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس کے کنسیپٹ اور یکطرفہ کارروائی سے ضرور ہم اہل ہند معترض ہیں ، کیونکہ یہ سویدھان کے آرٹیکل 14 / 21 کی مخالفت کرتا ہے ، آزادی فکر اور کسی بھی بالغ کے اپنے مرضی سے کسی بھی مذہب کے ماننے اور اس کے احکام کے فلو کرنے پر پرتیبندھ لگاتا ہے
لوجہاد کا موجودہ تصور
جب بھی کبھی لو جہاد کا نام لیا جاتا ہے تو اس سے مسلم طبقوں ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اگر کوئی ہندو لڑکی اپنی رضامندی سے مسلم طبقہ میں شادی کر لیتی ہے تو اس کی اس قانونی آزادی کی تعبیر یہ ہندو یوا واہنی کے سر کردہ لو جہاد سے کرتے ہیں
لیکن افسوس اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے تواس کوگھر واپسی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔۔۔ آخر یہ کہاں کا قانون ۔۔۔ اور انصاف ہے ؟۔
یوگی ادیتھ ناتھ جی! لو جہاد کا تصور صرف اور صرف مسلم سمودائے کے ساتھ خاص کرکے اس پرقانون پاس کرنا یہ سرا سر نقطہ انصاف سے گرا ہوا اور آئین ہند کے خلاف ہے
ذرائع کے مطابق نئے لو جہاد مخالف قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 5 سال کی قید ہوگی اور اس میں غیر ضمانتی دفعات بھی عائد کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں اس نئے قانون میں بھاری جرمانے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔
غالب گمان ہے کہ یوپی حکوت یہ بل اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں پیش کرے۔
یوپی اسمبلی کے سرمائی اجلاس کا آغاز اگلے مہینے ہوگا۔تاہم امکانات یہ بھی ہیں کہ جلدی کے خاطر حکومت بل سے پہلے اس پر آرڈیننس لے آئے۔نئے قانون میں تبدیل مذہب کے لئے دباو ڈالنا مجرمانہ عمل ہوگا ۔
اس لیے ہم ہندی مسلمانوں کو چاہیے کہ اس کے خلاف اپنی متحدہ آواز کو بلند کریں ، شہروں شہروں میں اس کے خلاف مضبوط مورچہ نکالیں — دگر نہ خاک میں پنہاں ہوگئیں صورت مسلم
مسلم دھرم گروں ، علما کرام اور سربراہان کو ضرور اس مسئلے پر اپنی فکر پیش عوام کرنی چاہیے اور اپنی سربراہی میں ان کے منصوبوں کو کچلنے کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
ورنہ یہ خاموشی پوری قوم کی مستقبل پر عظیم خدشہ لاحق کرسکتی ہے
بالآخر ان قانون کے رکھوالوں کو اس بات کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ مسلم لڑکیوں کو جو بھلا ، پھسلا کر یا عشق مجازی میں پھنسا کر مذہب تبدیل کروادینا ؛ اس کو گھر واپسی سے تعبیر کرنا کہاں تک درست اور قوم مسلم کے ساتھ انصاف ہے؟
تحریر: شاہ خالد مصباحی، سدھارتھ نگری
اس مضمون کو بھی پڑھیں قسط وار ہے
زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا قسط دوم
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع