از قلم: طارق انور مصباحی (کیرلا)۔ اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط ہشتم
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط ہشتم
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
قسط ہفتم میں اس بات کی وضاحت رقم کی گئی ہے کہ حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے لیے مطلق لفظ خطا کا استعمال نہیں کیا جائے گا،کیوں کہ وہ محتمل ہے،اور اس کابعض معنی،یعنی گناہ کرنا حضرات انبیاے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے لیے ثابت نہیں،کیوں کہ وہ نفوس قدسیہ معصوم ہیں۔
مومن بہ کی عظمت شان کے پیش نظرایسے محتمل الفاظ کا استعمال صحیح نہیں،جس کے متعدد معانی میں سے کوئی معنی مومن بہ کے لیے ثابت نہ ہو، اوروہ تنقیص شان پردلالت کرے۔
حضرات انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے لیے خطائے اجتہادی کا استعمال وارد ہوا ہے،یعنی مقید استعمال وارد ہواہے۔اسی طرح جہاں قرینہ موجود ہوکہ خطا سے خطائے اجتہادی مراد ہے تو ایسا استعمال بھی وارد ہوا ہے۔ مطلق استعمال اور مقیداستعمال کے فرق کوملحوظ رکھا جائے۔
چوں کہ وہ مقید لفظ ایک ہی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے،اور وہ مفہوم بہت سے علما کی تحقیق کے مطابق حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حق میں ثابت ہے تو اس مقید لفظ کا اطلاق جائزہوگا۔
اب اس وصف سے مقید ہونے کے سبب لفظ خطا،محتمل لفظ باقی نہیں رہا،بلکہ متعین فی المفہوم ہوگیا تو اب اس پر محتمل لفظ کا حکم بھی منطبق نہیں ہو گا۔ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے اجتہاد سے متعلق علمائے اہل سنت وجماعت کے چار قول ہیں
۔(۱)حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے خطائے اجتہادی نہیں ہوتی۔علماے کرام کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔بعض کتابوں میں اسے جمہور کا قول بتایا گیا ہے۔یہ درست نہیں
۔(۲)خطائے اجتہادی ہوتی ہے،لیکن اس پر ثبات وقرار نہیں ہوتا،بلکہ رب تعالیٰ وحی کے ذریعہ اپنے حکم سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کومطلع فرمادیتا ہے۔یہ اکثر اہل سنت وجماعت کاقول ہے
۔(۳)خطائے اجتہادی ہوتی ہے،اور اس پر ثبات وقرار بھی ہوتا ہے۔یہ قول بعید ومہجور ہے
۔(۴)حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے خطائے اجتہادی نہیں ہوتی،دیگر انبیا ے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے اجتہاد میں خطا ہوسکتی ہے۔
یہ بعض علما کا قول ہے۔
مذکورہ بالا اقوال میں سے قول دوم اکثر اہل سنت وجماعت کا قول ہے۔ قول سوم کو المعتقد المنتقد (ص 112 – المجمع الاسلامی مبارک پور) میں قول بعید ومہجورکہا گیا۔
قول دوم اکثر اہل سنت وجماعت کا قول ہے،پھر وہ بعید ومہجور کیسے ہوسکتا ہے۔اس مقام پرالمعتقدالمنتقدکی عبارت پر غور کرنے سے بھی واضح ہے کہ وہ قول ثالث سے متعلق ہے،کیوں کہ عہد نبوی کے بعد کے زمانے سے بھی اس بحث کا تعلق ہے۔درج ذیل قول پر بحث ہے۔
۔(قال العلامۃ ابن حجر فی تحقیق کلمات الکفر:والذی یظہر انہ لوقال:ان کان ما قالہ النبی الفلانی صدقا نجوت-یکون کفرً ا)(المعتقد المنتقدص 112-المجمع الاسلامی مبارک پور)۔
یہ عہد رسالت سے متعلق خاص حکم نہیں ہے،بلکہ عام حکم ذہے تو گویاعہدرسالت کے بعد بھی کسی نے مذکورہ قول کہا تو حکم کفر ہے۔اس پر بحث کرتے ہوئے یہ بات آئی کہ بعض علما اجتہاد انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام میں خطا کے قائل ہیں تو اس اعتبارسے اگر کسی قائل نے کہا کہ اگر فلاں نبی کی وہ بات سچی ہو تو میں نجات پاگیا۔
اور جب حضرات انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے اجتہادی قول میں خطا کا احتمال ہے اور اسی احتمال خطا کے سبب اس نے کہا کہ اگر فلاں نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فلاں قول حق ہے تومیں نجات پاگیاتو اس میں حرج نہیں ہونا چاہئے،کیوں کہ خطائے اجتہادی کا احتمال ہے،اور خطائے اجتہادی کے امکان کے تناظر میں قائل مذکور کا قول درست ہونا چاہئے،کیوں کہ صدق اس کو کہا جاتا ہے جو واقع کے مطابق ہو،اور خطا واقع کے مطابق نہیں ہوتی تووہ صدق نہیں ہوگی،گر چہ اس کو کذب بھی نہیں کہا جائے گا،کیوں کہ قصداً خلاف واقع بات کہنا کذب ہے اور بلاقصد خلاف واقع بات کہنا خطا ہے،پس کذب اور خطا میں فرق ہے۔یہ اسلامی اصطلاح ہے۔
اب بتایا جائے کہ قول دوم کے مطابق یہاں اجتہاد ی خطا کی بات صحیح ہوگی،یا قول سوم کے مطابق؟۔
قول دوم کے مطابق قائل مذکور کا قول عہد رسالت کے بعد یقینا غلط ہے،کیوں کہ قول دوم میں یہ ہے کہ حضرات انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کو خطائے اجتہادی کی صورت میں رب تعالیٰ مطلع فرمادیتا ہے اور ان کی حیات طیبہ میں خطائے اجتہادی زائل ہو جاتی ہے تو عہد نبوی کے بعد کوئی ایسا قول مصطفوی باقی نہیں رہے گا جس میں خطائے اجتہادی کا احتمال ہو، اور جس اجتہادی حکم سے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم نازل نہیں فرمایا تو عدم نزول حکم اس اجتہادی قول کے صحیح ہونے کی قطعی دلیل ہوگی۔
اسی طرح دیگر انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے یہ متعلق بھی یہ قول ان کی حیات طیبہ کے بعد یقینا غلط ہو گا,کیوں کہ اطلاع خداوندی سے ان حضرات قدسیہ کی حیات طیبہ ہی میں خطائے اجتہادی زائل ہو جاتی ہے۔قول ثالث کے مطابق چوں کہ اجتہادی خطا پرحضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کاثبات وقرار صحیح ہے تو ان نفوس قدسیہ کے وصال کے بعد محض اسی قول ثالث کے تناظرمیں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چوں کہ اجتہادی خطا پر حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کا ثبات وقرار صحیح ہے تو کسی نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے بعد بھی کسی نے اس نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اجتہادی حکم سے متعلق ایسی بات کہی تو اس قول کے صحیح ہونے کا امکان ہے
لیکن وہ امکان و احتمال مذکورہ قول میں فقہا کے یہاں قبول نہیں۔جب محض قول ثالث کے مطابق قائل مذکورکے قول کی صحت کا امکان ہے تواسی قول ثالث کا بعید ومہجورہونا ثابت کیا گیاہے۔اگرکوئی قول دوم کے مطابق قائل مذکور کے قول کی صحت کو ثابت کرے گا توجواب دیا جائے گا کہ جب اس قول کے مطابق کسی نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کاخطائے اجتہادی پر ثبات وقرار درست ہی نہیں تو کسی خاص نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے بعد اس قول دوم کے مطابق ان نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کسی قول سے متعلق قائل مذکور کے قول کی صحت کا امکان ہی نہیں۔
جب قول کوبعید ومہجوربتا کر جواب دیا جار ہا ہے تو واضح ہے کہ جس قول کے مطابق قائل مذکور کے قول کی صحت کا امکان ہے،اسی قول کو بعید ومہجور بتایا جارہا ہے۔علامہ بدایونی قدس سرہ العزیز کی عبارت درج ذیل ہے۔ ہماری محررہ بالا تشریح کے مطابق منقولہ ذیل عبارت پر غور کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ حق واضح ہوجائے گا۔
(قال العلامۃ ابن حجر فی تحقیق کلمات الکفر:والذی یظہر انہ لوقال:ان کان ما قالہ النبی الفلانی صدقًا نجوت-یکون کفرً ا،ایضًا-ولا یشترط ذکر ذکرجمیع الانبیاء-ولا ان یکون ما قال ذلک النبی یقطع بانہ عن وحی۔
فان قلت:للانبیاء الاجتہاد-وجری قول فی انہ یجوز علیہم الخطأ فی الاجتہاد-فاذا قال ذلک فی شیء یحتمل کونہ ناشئا عن اجتہاد،لا وحی،کیف یکفر بہ؟قلت: القول بعدم الکفر حینئذ وان کان لہ نوع من الظہور-لکن القول بالکفر اظہر۔
لأن الاتیان ب”ان“التی ہی للشک والتردد فی ہذا المقام یشعر بترددہ فی تطرق الکذب الی ذلک النبی-وہذا کفر۔
غیر ان القول بجواز الخطأ علیہم فی اجتہادہم قول بعید مہجور-فلا یلتفت الیہ-و علی التنزل فقولہ:”ان کان صدقا“یدل کما تقرر علی ترددہ فی الکذب-وہو غیر الخطأ۔ل
أن الخطأ ذکر خلاف الواقع مع عدم التعمد-بخلاف الکذب،فانہ یدل شرعاً علی الاخبار بخلاف الواقع تعمدا-فیصح الکفر بذلک-وان قلنا بہذا القول المہجور-لأن قولہ:”ان کان صدقا“-لا یتأتی بناؤہ علیہ لما تقرر واتضح-وللہ الحمد)(المعتقد المنتقدص 112-المجمع الاسلامی مبارک پور)۔
توضیح : قائل مذکورکے کافر ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے قول میں لفظ”اِن“کا استعمال ہوا ہے اور مذکورہ لفظ شک وتردد کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔توگویا قائل ان نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قول کی صداقت وسچائی میں شک کر رہا ہے اوراس قول میں معاذاللہ تعالیٰ ان نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف کذب کو منسوب کررہا ہے،اور کسی نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صدق وسچائی میں شک کرنا اور ان کی طرف کذب کومنسوب کرنا کفر ہے،پس ان نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کے صدق میں شک وترددکے سبب قائل مذکور کافر ہوگا۔
بالفرض اگر خطائے اجتہادی سے متعلق قول ثالث کو تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی قائل مذکورفقہا کے یہاں کفر سے نہیں بچ سکے گا،کیوں کہ قول مذکور سے کذب نبی ظاہر ہورہا ہے،نہ کہ وقوع خطا،اور کذب وخطا میں فرق ہے۔صدق کے بالمقا بل کذب آتا ہے۔جب قائل مذکور نے صدق کو مشکوک قراردیا تو کذب کی صورت پیدا ہوئی۔خطا کے بالمقابل صحت ہے۔
اگر قائل مذکورکہتا ”ان کان ما قالہ النبی الفلانی صحیحا نجوت“۔ تب خطائے اجتہادی مرادلینے کا احتمال ہوتا،لیکن نہ قائل نے ایسا لفظ کہا،نہ ہی یہاں خطائے اجتہادی مرادلینے کا احتمال ظاہر ہوپایا۔گرچہ یہاں خطائے اجتہادی مراد لینے کا احتمال بعیدہے،لیکن احتمال بعیدفقہا کے یہاں مقبول نہیں،پس اصول فقہاکے طورپر حکم کفر عائد ہوجائے گا:واللہ تعالیٰ اعلم
قول دوم کی دلیل
حضرات انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام سے متعلق خطائے اجتہادی کا قول صحیح ہے،لیکن اس پر ثبات وقرار کاقول درست نہیں،بلکہ رب تعالیٰ وحی کے ذریعہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کواس باب میں اپنے حکم سے مطلع فرمادیتا ہے۔
یہ اکثر اہل سنت وجماعت کاقول ہے۔علامہ بحرالعلوم عبد العلی فرنگی محلی قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:((ہل یجوز علیہ)صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم(الخطأ)فی اجتہادہ وکذا فی اجتہاد سائر الانبیاء(فالاکثر)من اہل السنۃ قالوا: (نعم)یجوز-(وقیل:لا)یجوز-ونقل ہذا النفی عن الروافض ایضا(اما انہ لا یقرر علیہ فاتفاق))(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص 411-دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
خطائے اجتہادی کا اطلاق
علماے سلف وخلف کی تحریروں میں حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے واسطے خطائے اجتہادی کے لفظ کا اطلاق وارد ہے۔ حالیہ چندماہ میں علمائے کرام نے اپنے مقالات ومضامین میں اسلاف کرام کی بہت سی عبارتیں نقل فرمادی ہیں،ان سے استفادہ کریں۔
ایک مثال مندرجہ ذیل ہے۔ صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان نے سورہ بقرہ:آیت36کی تفسیر میں تحریرفرمایا:”یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی،اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی“۔(خزائن العرفان)۔
قرینہ کے ساتھ لفظ خطا کا مطلق استعمال
اگر قرینہ موجود ہوکہ لفظ خطا سے اجتہادی خطا مراد ہے تو ایسے مقام پرلفظ خطا کامطلق استعمال وارد ہے۔
امام ابوالبرکات نسفی (م710ھ)نے رقم فرمایا:(ولنا قولہ تعالی:(ففہمناہا سلیمان)ای الحکومۃ والفتوٰی،او القصۃ-واذا اختص سلیمان بالفہم-وہو اصابۃ الحق بالنظر فی الحق کان الاٰخر خطأ-و ما قضی داؤد،کان رأیا-اذ لو کان وحیا لما حل لسلیمان مخالفتہ-ثم تخصیص سلیمان بفہم القضیۃ یقتضی ان یکون الاٰخر خطأ) (کشف الاسرار شرح المنار جلد دوم ص 304 305–دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
توضیح : مسلم الثبوت کی منقولہ بالا عبارت میں بھی لفظ خطا کا مطلق استعمال وارد ہے۔چوں کہ وہاں اجتہاد کی بحث ہے تو خطائے اجتہادی مراد ہونے پر واضح قرینہ موجود ہے۔
بوجہ ضرورت فعل خطا کا مطلق استعمال
ملااحمد جیون جون پوری قدس سرہ القوی کی درج ذیل عبارت میں خطائے اجتہادی کی نسبت حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف کی گئی ہے۔
اس میں فعل کا مطلق استعمال ہے،کیوں کہ کوئی ایساخاص فعل نہیں جو خطائے اجتہادی کے معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔یہاں قرینہ موجودہے کہ اجتہادی خطا مراد ہے۔
وقد وقعت فی زمان داؤد وسلیمان علیہما السلام حادثۃ رعی الغنم حرث قوم، فحکم داؤد علیہ السلام بشئ واخطأ فیہ-وسلیمان علیہ السلام بشئ آخر-واصاب فیہ- فیقول اللّٰہ تعالی حکایۃ عنہما:((ففہمناہا سلیمان وکلا آتینا حکما وعلما))ای ففہمنا تلک الفتوی سلیمان آخرالامر-وکل واحد من داؤد وسلیمان آتینا حکما وعلما فی ابتداء المقدمات-فعلم من قولہ:((ففہمناہا)ان المجتہد یخطئ ویصب۔
ومن قولہ:(وکلا آتینا) انہما مصیبان فی ابتداء المقدمات-وان اخطأ داؤد فی آخر الامر-والقصۃ مع الاستدلال مذکورۃ فی الکتب) (نورالانوار جلد دوم ص 304 310–دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت ، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع