تحریر: طارق انور مصباحی ٓ(کیرلا)۔ اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط نہم
اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے قسط نہم
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
سوال اول : متکلم نے اپنے 18:جون 2020کے خطاب میں کہا کہ ہم عام حالات میں یاواقعہ باغ فدک کے ذکرکے موقع پربھی حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے لفظ خطا کے استعمال کودرست نہیں سمجھتے اورصرف حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق روافض کے طعن کو دفع کرنے کے واسطے بوجہ حاجت لفظ خطا کا استعمال کرتے ہیں تو سوال ہے کہ ایک ہی لفظ کا استعمال کبھی صحیح اورکبھی غلط ہو،ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
جواب : متعددایسے امور ہیں کہ عام حالات میں ان کا ذکر حرام وناجائز ہے اور بوقت حاجت و ضرورت اس کا ذکر جائز ہے۔ متکلم نے انہی مسائل کے پیش نظرایسا بیان دیاہے۔اس سے متکلم کا حسن اعتقاد بالکل ظاہر ہے۔ اس حسن اعتقادکے سبب متکلم کی تحسین ہونی چاہئے،نہ کہ تنقید
۔(۱)صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان نے رقم فرمایا:”انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں،ان کا ذکر تلاوت قرآن وروایت حدیث کے سواحرام اورسخت حرام ہے“۔(بہارشریعت حصہ اول ص 88-مجلس المدینۃ العلمیہ: دعوت اسلامی)۔
توضیح :منقولہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ بعض امور کا ذکر بعض اوقات میں جائز ہے اور بعض اوقات میں ناجائز۔اب رہا یہ مسئلہ کہ غیر معصومین کے لیے لفظ خطاکے استعمال میں شرعی طورپریہ صورت موجود ہے یا نہیں؟ ۔
یہ ایک مستقل بحث ہے۔
قسط ہفتم وقسط ہشتم ودیگرقسطوں میں وضاحت پیش کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور حضرات انبیاے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوٰۃالسلام کے لیے محتمل لفظ کا استعمال نہیں ہوگا۔ مومن بہ کے علاوہ یعنی مومنین کے لیے محتمل لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
نیز اگر تمام اوقات میں لفظ خطا کا استعمال غیر معصومین کے لیے جائز ہواور کوئی اس کے استعمال سے پر ہیز کرے توکوئی حرج نہیں۔جائز لفظ کا استعمال واجب نہیں ہے کہ عدم استعمال پر گناہ ہو جائے
۔(۲) حضرت صدرالشریعہ قدس سرہ نے رقم فرمایا:”صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم انبیا نہ تھے،فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں،ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں،مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے خلاف ہے“۔(بہارشریعت:حصہ اول ص 254-مجلس المدینۃ العلمیہ:دعوت اسلامی)۔
توضیح :خاتون جنت حضرت سیدہ طیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ طلب میراث میں تسامح کا ذکر روافض کی جانب سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وارد شدہ طعن کے جواب کے واسطے کیا جاتا ہے،نہ کہ گرفت کے واسطے تو واقعہ فدک کے ذکر کو گرفت میں شمار نہیں کیا جاسکتا،اوریہ بھی ظاہر ہواکہ بلاضرورت ایسے امور کا ذکر نہ کیا جائے،کیوں کہ بلاحاجت ایسے امور کا ذکر گرفت میں شمار ہوگا۔
ممکن ہے کہ متکلم نے18: جون2020 کے خطاب میں اسی مفہوم کوبیان کیا ہوکہ صرف خلیفہ اول حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر رافضی طعن کی تردید کے واسطے دقیق حقائق پیش کیے جا سکتے ہیں،ورنہ ایسے امور کے عمومی ذکر سے شیطان کسی قاری کا ذہن غلط رخ پر ڈال سکتا ہے تو اس سے بچنا ہوگا۔
لفظ خطا اور لفظ باغی کافرق
فریق دوم نے لفظ خطا کو لفظ باغی کے مماثل قرار دیا،حالاں کہ قانونی طورپرمماثلت ثابت نہیں۔لفظ باغی منقولات شرعیہ میں سے ہے۔
اس کا معنی اول جدیدشرعی اصطلاح میں بد ل چکا ہے اور لفظ خطا آج بھی الفاظ محتملہ میں سے ہے۔ نہ لفظ خطا کے معانی بدلے ہیں،نہ ہی کسی ایک معنی میں اس کا استعمال خاص ہوا ہے۔
صحابی رسول حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ برحق شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخالفت کی،لیکن وہاں اجتہادی خطا کے سبب مخالفت تھی۔ وہاں گناہ کی کوئی صورت نہیں ہے۔
اس مخالفت کوپہلے بغاوت کہا جاتا تھا،لیکن بعدمیں علمائے اسلام نے اس مخالفت کوبغاوت سے تعبیر کرنا ناجائزقراردے دیا،کیوں کہ بعد میں بغاوت کا مفہوم بدل گیا،اسی لیے اب ان نفوس قدسیہ کو باغی نہیں کہا جائے گا۔ اب باغی کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنا ہوگا۔
صدر الشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃوالرضوان نے صحابی رسول حضرت طلحہ وحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ذکرکرتے ہوئے تحریر فرمایا:”عرف شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلہ امام برحق کوکہتے ہیں۔عناداً ہو،خواہ اجتہاداً۔
ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ گروہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حسب اصطلاح شرع اطلاق فۂ باغیہ آیا ہے،مگر اب کہ باغی بمعنی مفسد ومعاند وسرکش ہوگیا اور دشنام سمجھا جاتا ہے۔ اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں“۔(بہارشریعت:حصہ اول ص 260-مجلس المدینۃ العلمیہ:دعوت اسلامی)۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ باغی کی طرح ارباب فضل وکمال کے لیے لفظ خطا کابھی استعمال نہیں ہونا چاہئے،گرچہ لفظ خطا سے وہاں گناہ مراد نہ ہو،بلکہ بھول چوک،سہوونسیان وغیرہ مراد ہو۔دراصل ہندوپاک میں اردو زبان مروج ہے۔
اردو کے مشہور لغت فیروز اللغات میں لفظ خطا کے متعددمعانی مرقوم ہیں۔یہ مشترک لفظ ہے۔ اردوزبان میں غلطی، سہو،بھول، چوک کے معنی میں اس کا استعمال مشہور ہے۔
لفظ خطا کے معانی
۔(۱)قصور،گناہ، جرم، تقصیر ۔ ۔(۲) غلطی،سہو، بھول،چوک۔(فیروز اللغات:فصل خ ط)۔
لفظ باغی منقولات شرعیہ میں سے
بغاوت کا پہلامعنی
امام برحق کی مخالفت و مقابلہ،خواہ عناد کے سبب ہو،یا اجتہاد کے سبب۔
بغاوت کا دوسرا معنی
مفسدومعاندوسرکش۔یہ اہل شرع ہی کی اصلا ح جدید ہے۔
اب اصطلاح شرع میں اس کوباغی کہا جاتا ہے جو امام برحق کے خلاف ناحق خروج کرے۔اگر حق کے سبب خروج ہوتو بغاوت نہیں۔قال الحصکفی:(وشرعا(ہم الخارجون عن الامام الحق بغیر حق)فلو بحق فلیسوا ببغاۃ)(الدرالمختار ج4 ص448-دارالفکر بیروت)۔
قال الشامی:(قولہ:بغیر حق ای فی نفس الامر-والا فالشرط اعتقادہم انہم علی حق بتاویل-والا فہم لصوص)(رد المحتار ج16 ص375-مکتبہ شاملہ)۔
توضیح : علامہ شامی کی مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ یہ باغی لوگ حقیقت میں غلط راہ پر ہوتے ہیں،گرچہ وہ شبہہ فاسدہ کے سبب خود کو حق سمجھتے ہوں،بلکہ انہیں خود کو حق سمجھنا شرط ہے،ورنہ ان کا شمار چوروں اورڈاکوؤں میں ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگرحقیقت میں خلیفہ ہی غلط راہ پر ہوتو پھر وہ امام عدل نہیں اوریہ لوگ باغی نہیں۔
دراصل ظالم خلیفہ کے خلاف خروج بغاوت نہیں،پھریہ دفع ظلم کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔قال الشامی:(وفی الاختیار:اہل البغی کل فئۃ لہم منعۃ یتغلبون ویجتمعون ویقاتلون اہل العدل بتاویل -یقولون:الحق معنا-ویَدَّعُونَ الولایۃ)(رد المحتارج16ص377-مکتبہ شاملہ) ۔
توضیح :اہل بغاوت حکومت کے دعویدار ہوتے ہیں اور حاکم اسلام کواپنے شبہہ فاسدہ کے سبب نااہل سمجھتے ہیں۔قال الشامی:(قولہ:وتمامہ فی جامع الفصولین)حیث قال فی اول الفصل الاول-بیانہ ان المسلمین اذا اجتمعوا علٰی امام وصاروا آمنین بہ-فخرج علیہ طائفۃ من المؤمنین-فان فعلوا ذلک لظلم ظلمہم بہ فلیسوا من اہل البغی-وعلیہ ان یترک الظلم وینصفہم۔ولا ینبغی للناس ان یعینوا الامام علیہم-لان فیہ اعانۃ علی الظلم-ولا ان یعینوا تلک الطائفۃ علی الامام ایضًا-لان فیہ اعانۃ علی خروجہم علی الامام۔وان لم یکن ذلک لظلم ظلمہم-ولکن لدعوی الحق والولایۃ -فقالوا: الحق معنا-فہم اہل البغیی- فعلی کل من یقوی علی القتال،ان ینصروا امام المسلمین علی ہؤلاء الخارجین- لانہم ملعونون علی لسان صاحب الشرع-قال علیہ الصلٰوۃ والسلام:(الفتنۃ نائمۃ لعن اللّٰہ من ایقظہا)(رد المحتارج16ص376-مکتبہ شاملہ)۔
توضیح :مذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہوگیا کہ اب اگر کوئی اجتہاد کے سبب امام برحق کے خلاف خروج کر ے تو اس کا شمار باغیوں میں نہیں ہوگا،بلکہ باغی وہ ہوگا جو ناحق فاسد شبہہ کے سبب امام برحق کی مخالفت کرے۔
مذکورہ تعریف کے مطابق حکم شرع کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امام برحق کے مقابلے پر اترنا، اور کسی فاسد شبہہ کوپیش کرکے اپنے حق ہونے کا دعویٰ کرنا بغاوت ہے۔اگر حقیقت میں باغیوں کا کوئی شبہہ تھا تو امام برحق کے سامنے پیش کرنا تھا،تاکہ اس کا حل نکل سکے۔
باغی کی مذکورہ وضاحت کے مطابق اجتہادکے سبب خروج کرنے والا باغیوں میں شامل نہیں ہوگا،کیوں گہ جدید اصطلاح کے اعتبارسے ہر باغی فاسق ہے،جب کہ اجتہاد کرنے والا فاسق نہیں ہوتا،بلکہ اسے اپنے اجتہاد پر اجر ملتا ہے۔اگراجتہادصحیح ہے تو دواجر،ورنہ ایک اجر ملتا ہے۔جس کام پر اجر ملے،وہ فسق نہیں ہوسکتا۔الحاصل لفظ باغی کا مفہوم اہل شرع کے یہاں بدل چکا ہے،اسی لیے اس کا اطلاق ان حضرات پر نہیں ہوگا جو اجتہادکے سبب امام برحق کے مقابلے پر اترے،لیکن لفظ خطا کے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
لفظ خطا آج بھی متعدد معانی کا محتمل ہے تو لفظ باغی کا حکم لفظ خطا پر جاری نہیں ہوگا۔اہل فضل کے لیے لفظ خطا کا استعمال پہلے جائز تھا تو آج بھی جائز رہے گا،جب تک کہ ممانعت کی کوئی وجہ صحیح موجود نہ ہو۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ باغی کا استعمال اب ناجائز ہوگیا تو لفظ خطا کا استعمال بھی ناجائز ہوجائے گا۔
لفظ باغی کے اطلاق کی ممانعت کا سبب موجود ہے اورغیرمومن بہ کے لیے لفظ خطا کے اطلاق کی ممانعت کی دلیل موجود نہیں:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع