تحریر: علامہ طارق انور مصباحی کیرلا اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہےقسط دہم گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے ملاحظہ فرمائیں
اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہےقسط دہم
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
متکلم پر ضلالت وگمرہی کا فتویٰ شرعی اصول وضوابط کے خلاف
فریق دوم نے متکلم کی گمر ہی وضلالت ثابت کرنے میں شرعی اصول و قوانین کا لحاظ نہیں کیا
بفرض محال اگر حضرت سیدہ طیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حق میں لفظ خطا کو استعمال کرنا سب وشتم شمار بھی کر لیا جائے ،پھر بھی متکلم پر ضلالت وگمرہی کا حکم ثابت نہیں ہوگا ۔
فریق دوم سے اصول کے استعمال میں خطاہوگئی۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا فی حدذاتہ ناجائز وحرام ہے۔یہ فی حد ذاتہ کفر یا ضلالت نہیں۔بلکہ یہ شعاررافضیت ہونے کے سبب ضلالت وگمرہی کی علامت ہے ،اسی وجہ سے مرتکب کو ضال وگمراہ کہا جاتا ہے۔
حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا فی نفسہ ناجائز وحرام ہے ،اور شعار ناصبیت ہونے کے سبب ضلالت وگمرہی کی علامت ہے ،اسی وجہ سے مرتکب کو ضال وگمراہ کہا جاتا ہے۔
اس کی تفصیل قسط پنجم وقسط ششم میں مرقوم ہے۔
شعار کا حکم یہ ہے کہ جس غیر سنی کلمہ گوجماعت کا ایسا شعار اپنایا جو کفر یا ضلالت نہیں تو اگر مرتکب اس جماعت کا فرد ہونے کا منکر ہے ،یا قرینہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس جماعت کا فرد ہونے کا منکر ہے تو اس پر اس شعارکو اپنا نے کے سبب ضلالت کا حکم نافذنہیں ہوگا۔ہاں،ممنوع امر کے ارتکاب کے سبب گناہ گار ہوگا ۔
مشابہت وفردیت کے مختلف احکام
کسی قوم کاشعار اپنانا الگ ہے اور اس قوم کا فرد ہونا الگ ہے کسی قوم کا ایک شعار اپنایا تو بھی اس قوم سے مشا بہت ثابت ہوگئی ۔اب مشابہت کا حکم عائد ہوگا ،یعنی کسی غیر مسلم جماعت کا کوئی مذہبی شعار اپنایا ،جیسے زنار باندھنا تو مرتکب پر حکم کفر عائدہوگا۔
اگر وہ کسی غیر مسلم جماعت کامذہبی شعار نہیں ،بلکہ محض قومی شعار ہے،اور وہ امرفی نفسہ جائز ہے تو اس کو اختیارکرناممنوع ہوگا ،جیسے مجوسیوں کا خاص لباس پہننا،جو سترپوشی کرے ،لیکن مجوسیوں کا قومی شعارہو۔
اگر کسی کلمہ گوغیرسنی جماعت کا شعار اپنایا ،خواہ وہ کلمہ گوفرقہ مرتد ہو،یامحض گمراہ ،اور وہ شعار فی نفسہ کفر یا ضلالت نہیں تو وہ مرتکب مشابہت کے سبب گمراہ قرار دیا جائے گا ،جیسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو سب وشتم کرنا شعاررافضیت ہے اور عہد حاضر کے روافض مرتد ہیں ،اور حضرات صحابہ کرام کوسب وشتم کرنا فی حدذاتہ کفر یا ضلالت نہیں،بلکہ ناجائزوحرام ہے تو بھی اس شعار کو اختیار کرنے والا گمراہ قرار پائے گا ۔
اگر کسی کلمہ گوغیرسنی جماعت کے شعار کو اپنانے والا اس جماعت کا فردہونے سے انکار کرے ،یاقرینہ انکار پر دلالت کرے تو اس شعار کو اختیار کرنے والا گمراہ شمار نہیں کیا جائے گا ۔کسی جماعت کا فرد ہونا متعدد امورسے ثابت ہوگا
۔(1)اس جماعت کے عقائد کو ماننا
۔(2)اس جماعت کا فرد ہونے کا اقرار کرنا
۔ (3) اس جماعت کے مذہبی شعار کو اپنانا،اور اس جماعت کا فردہونے سے انکار نہ کرنا ، یا انکار پر کوئی قرینہ نہ ہونا
۔ (4)کسی جماعت میں شمولیت کی بات کہنا۔
اس بحث میں جن امور کا اجمالی ذکر ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ چند قسطوں میں ان کی تفصیل مرقوم ہوگی ۔
شعار بدمذہبیت کو اپنانا اور بدمذہبیت کا انکار کرنا
شعار کفر اختیار کرنے والے کا حکم یہ ہے کہ وہ کافر ہے ،گر چہ وہ اسلام کے تمام احکام کا اقرار کرتا ہو،اور کفر کے تمام باطل اعتقادات کا انکار کرتا ہو۔
شعار بدمذہبیت کا یہ حکم نہیں ۔اگر کوئی شعاربدمذہبیت کو اپنایا ،لیکن اس نے شعاربدمذہبیت سمجھ کر نہیں اپنایا ،بلکہ اپنی تحقیق یا کسی کی تحریر وتقریرکے سبب اسے مغالطہ ہوگیا تو گر چہ یہ شعار بدمذہبیت کو اپنایا ہے ،لیکن چوں کہ اس بدمذہب جماعت سے کوئی تعلق نہیں ،اسے بدمذہب ہی سمجھتا ہے ،اور ان بدمذہبوں کا جوحکم ہے ،یعنی کفر یا ضلالت ،وہ ان بدمذہبوں کوحکم شرعی کے مطابق کافریاگمراہ سمجھتا ہے تو اس آدمی کو اس بدمذہب جماعت کا فرد نہیں سمجھا جائے گا ،نہ ہی اسے سنیت سے خارج مانا جائے گا
۔ (الف) شعار وہابیت کے ساتھ انکار وہابیت ہو تو حکم وہابیت نہیں
اگر کوئی دیوبندیت اور وہابیت کا انکار کر تا ہے ۔وہابیہ کو گمراہ اور دیوبندیوں کو مرتد جانتا ہے ،لیکن بعض شعار اہل سنت کو غلط کہتا ہے تو سنیت سے خارج نہیں ہوگا ،گرچہ شعارسنیت کا انکار شعاروہابیت ہے۔جب وہابیت سے صریح انکار ہوجائے تو انکار کے اعتبار سے حکم نافذ ہوگا ۔
فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال وجواب کا ضروری حصہ اورایک سوال وجواب مکمل مندرجہ ذیل ہیں۔
سوال :جو تعزیہ بنانے والے کو کافر اور اس کی اولاد کو حرامی اور قیام مولود کو بدعت سیئہ اور حاضری عرائس بزرگان کو فعل لغو سمجھتا ہے ،وہ شخص کیسا ہے ۔سنی حنفی ہے ،یا نہیں ؟۔
امام احمدرضا قادری نے جواب میں رقم فرمایا:’’قیام مجلس مبارک کو بدعت سیئہ اورحاضری اعراس طیبہ کو لغو سمجھنا شعار وہابیہ ہے ،اور وہابیہ سنی کیا، مسلمان بھی نہیں کہ اللہ ورسول کی علانیہ تو ہین کرتے ہیں اور اللہ عز وجل فرماتا ہے قل ا باللّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن::لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔
ان سے فرمادو کیا اللہ اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے تھے ۔بہانے نہ بناؤ ،تم کافر ہوچکے ،اپنے ایمان کے بعد۔
ہاں بالفرض اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ وہابیت و وہابیہ سے جدا ہو ۔وہابیہ کو گمراہ و بددین،دیوبندیہ کو کفار مرتدین جانتا مانتا ہو ،صرف قیام و عرس میں کلام رکھتا ہو تو محض اس وجہ پر اسے سنیت و حنفیت سے خارج نہ کہا جائے گا، مگر آج کل یہ فرض از قبیل فرض باطل ہے۔
آج وہ کون ہے کہ ان میں کلام کرے، اور ہو سنی:اللّٰھم ،مگر بہ تقیہ کہ وہابیہ میں روافض سے کچھ کم نہیں‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم :ص73-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح :قیام وعرس پر اعتراض کے سبب جوحکم ازروئے شرع عائد ہوتا ہے ،وہ حکم نافذہوگا ،لیکن اس کو وہابی نہیں سمجھا جائے گا ،کیوں کہ وہ وہابیت ووہابیہ سے جدا ہے۔وہابیوں کوگمراہ اور دیوبندیوں کوکافر مانتا ہے تو یہ اپنے دیوبندی اور وہابی ہونے کا انکار ہے۔انکار ہوجانے پر محض شعار کے سبب اس کو وہابی نہیں کہا جاسکتا ۔
مسئلہ : از قصبہ شیش گڑھ ڈاک خانہ خاص بریلی :مسؤلہ سید محمد سجاد حسین صاحب – 29 محرم الحرام1337ھ(۱)زید باوجود ادعائے صدیق الوارثی کے اسماعیل دہلوی کو حضرت مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتا ہے
۔(۲) بکر اپنے آپ کو چشتی حیدری بتاتا ہے اور مندرجہ ذیل امور پر اعتقاد رکھتا ہے، یعنی مسلمان جو حضرات پیرانِ پیر جناب شیخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گیارہویں شریف مقرر کرکے ان کی رُوح پر فتوح کو ثواب پہنچاتے ہیں ،اس کی بابت کہتا ہے کہ گیارہویں تاریخ مقرر کرنا مذموم ہے۔
ماہِ رجب کی بابت لکھتا ہے کہ اس ماہ کے نوافل،صلوٰۃ وصوم وعبادت کے متعلق بڑے بڑے ثوابوں کی بہت سی روایتیں ہیں، اُن میں صحیح کوئی بھی نہیں،اور یہ بات بالکل غلط اور بے سند ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم ماہِ رجب میں ہوا تھا۔
ماہِ شعبان میں حلوا پکانا یا تیرھویں کو عرفہ کرنا،عید کے دن کھانا تقسیم کرنا ممنوع ہے۔ماہِ محرم میں کھچڑا یا شربت خاص کرکے پکانا،پلانا اور اماموں کے نام کی نیاز دلانا اور سبیل لگانا بہت بری بدعتیں ہیں۔ماہِ صفر میں کسی خاص ثواب یا برکت کا خیال رکھنا جہل ہے۔
سید احمد رائے بریلوی کو نیک،بزرگ، بلکہ ولی جانتا ہے،پس کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسے اشخاص کے حق میں کہ ان کا اصلی مذہب کیا ہے؟ اور امور مذکورہ بالا کی اصلیت مفصل طور سے تحریر فرمائی جائے۔
الجواب 🙁۱) صورت مذکورہ میں زید گمراہ بددین نجدی اسمٰعیلی ہے اور بحکم فقہائے کرام اس پر حکمِ کفر لازم،جس کی تفصیل کتاب الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوھابیہ سے ظاہر:واللہ تعالیٰ اعلم
۔(۲) بکر ہو شیار وہابی معلوم ہوتا ہے۔گیارہویں شریف کو مذموم،شعبان کے حلوے،تیرہویں کے عرفے،عید کے کھانے کو مطلقًا بلا ممانعت شرعی ممنوع،محرم شریف کے کھچڑے،شربتِ ائمہ اطہار کی سبیل کو مطلقًا بدعتِ شنیعہ کہنا شعارِ وہابیہ ہے، اور وہابیہ گمراہ،بددین۔
احادیثِ اعمال رجب کو صحیح نہ کہنا بڑی چالاکی ہے۔اصطلاح محدثین کی صحت یہاں درکار نہیں۔ فضائلِ اعمال میں ضعاف بالاجماع مقبول ہیں۔رجب میں کشتی بنانے کا حکم نہ ہوا تھا، بلکہ رجب میں کشتی چلی اور اعداپر قہر اور محبوبوں پر ” وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوٰحٍ وَّ دُسُرٍ:: تَجْرِی بِاَعْیُنِنَا جَزَآئً لِّمَن کَانَ کُفِرَ ” کا فضل اسی مہینہ میں ظاہر ہوا۔
یہ عبداللہ بن عباس و غیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حدیثوں سے ثابت ہے۔
صفر و سرُمہ عاشورہ کی نسبت اس کا قول رَد نہ کیا جائے، اگرچہ ثانی میں اختلاف کثیر ہے۔
اگر صراط مستقیم کے کلماتِ باطلہ کو باطلہ، کفر یہ کو کفریہ،اسماعیل دہلوی کو گمراہ بددین جانتا ہے ،وہابیت سے جدا ہے تو سید احمد کو صرف بزرگ جاننے سے وہابی نہ ہوگا۔ورنہ وقدبینا الاٰیات لقوم یعقلون کما ھدا نا ربنا تبارک وتعالیٰ عما یصفون:واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاویٰ رضویہ جلدیازدہم:ص72-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
سوال : جب سید احمد رائے بریلوی بھی اسماعیل دہلوی کے عقیدہ پر تھا تووہ بھی گمراہ اور کافرفقہی ہوگا،پھر اس کو بزرگ ماننے والا وہابی کیوں نہیں ہوگا ؟۔
جواب : اس نے اسماعیل دہلوی کے غلط عقائدونظریات کو تسلیم نہیں کیا اورانہی عقائدونظریات کوماننا دراصل وہابیت ہے تو اس نے وہابیت سے انکار کردیا ۔اب اس پر حکم وہابیت عائدنہیں ہوگا ۔ہاں، کافر فقہی کو کافرفقہی نہ ماننے والا کافرفقہی ہوگا ،اور گمراہ کو گمراہ نہ ماننے والا گمراہ ہوگا ۔کوئی سنی کہلانے والا اسماعیل دہلوی کو گمراہ نہ مانے تو گمراہ ہوگا ،لیکن وہ وہابی نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ وہابیوں کے عقائد باطلہ کو نہیں مانتا ۔
وہابی پیشوایعنی اسماعیل دہلوی کو اپنا پیشوا نہیں مانتا ، گرچہ شعار وہابیت کو اختیار کیا۔ لیکن وہابیت کا انکار کرتاہے۔اپنے وہابی ہونے کا اقرارنہیں کرتا تووہ وہابی نہیں ،گر چہ رائے بریلوی کوبزرگ سمجھنے کے سبب گمراہ ہے
۔(ب) شعار رفض کے ساتھ انکار رافضیت پرقرینہ ہو تو حکم رافضیت نہیں
امام احمد رضاقادری نے رقم فرمایا:’’شہادت نامے نثریانظم جو آج کل عوام میں رائج ہیں ،اکثرروایات باطلہ وبے سروپا سے مملو ،اور اکاذیب موضوعہ پرمشتمل ہیں، ایسے بیان کاپڑھنا سننا وہ شہادت ہو خواہ کچھ،اور مجلس میلاد مبارک میں ہو خواہ کہیں اور،مطلقًا حرام وناجائزہے،خصوصًاً جب کہ وہ بیان ایسی خرافات کومتضمن ہو جن سے عوام کے عقائد میں زلل آئے کہ پھر تو اور بھی زیادہ زہرقاتل ہے۔ایسے ہی وجوہ پر نظرفرماکر امام حجۃ الاسلامی محمد محمد غزالی قدس سرہ وغیرہ ائمہ کرام نے حکم فرمایا کہ شہادت نامہ پڑھناحرام ہے۔
علامہ ابن حجرمکی قدس سرہ الملکی صواعق محرقہ میں فرماتے ہیں:(قال الغزالی وغیرہ یحرمہ علی الواعظ وغیرہ روایۃ مقتل الحسن والحسین وحکایاتہ)پھرفرمایا:(ما ذکر من حرمۃ روایۃ قتل الحسین وما بعدہ لاینافی ماذکرتہ فی ھذا الکتاب-لان ھذا البیان الحق الذی یجب اعتقادہ من جلالۃ الصحابۃ وبرائتھم من کل نقص بخلاف ما یفعلہ الوعاظ الجھلۃ فانھم یأتون بالاخبار الکاذبۃ والموضوعۃ ونحوھا ولا یبیّنون المحامل والحق الذی یجب اعتقادہ-الخ)۔
یوں ہی جب کہ اس سے مقصود غم پروری وتصنع حزن ہوتو یہ نیت بھی شرعًا نامحمود،شرع مطہر نے غم میں صبروتسلیم اورغم موجود کو حتی المقدور دل سے دورکرنے کاحکم دیا ہے، نہ کہ غم معدوم بتکلف وزور لانا ،نہ کہ بتصنع وزور بنانا،نہ کہ اسے باعث قربت و ثواب ٹھہرانا،یہ سب بدعات شنیعہ روافض ہیں جن سے سنی کو احتراز لازم‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد نہم :حصہ اول ص 62-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح : منقولہ بالاعبارت میں امام احمدرضا قادری نے متعدد امور کو بدعات روافض میں شمار فرمایا۔وہ بدعات روافض، شعاررافضیت ہیں ،لیکن ان شعار رفض کواختیار کرنے کے سبب امام موصوف نے ان سنیوں کو رافضی قرار نہیں دیا ،کیوں کہ جو سنی ان امور کوانجام دیتے ہیں ،وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار کرتے ہیں اورشیعہ ہونے کا انکار کرتے ہیں ۔
مشہور قانون ہے 🙁 الصریح یفوق الدلالۃ)۔ یہاں سنی ہونے کی صراحت موجود ہے اورشعار میں صراحت نہیں ، بلکہ دلالت ہوتی ہے کہ جس مذہب کے شعار کو اختیار کیا ہے ،گویا کہ اس مذہب کو اختیار کیا ہے۔
یہاں قرینہ بھی موجود ہے کہ ان سنی حضرات نے لاعلمی میں شعاررافضیت کواختیار کرلیا اور ان کا مقصود شعار رفض کو اختیار کرنا نہیں ،بلکہ حضرت امام حسین شہید کربلا وجملہ اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے اظہارمحبت مقصودہے،گرچہ شیعوں کودیکھ کر لاعلمی میں ان لوگوں نے غلط طریقہ اپنا لیا ہے ،لیکن زندگی بھر مذہب اہل سنت وجماعت پران کا قائم رہنا اور ساری عبادات ومعمولات اور عقائدومسائل میں اہل سنت وجماعت کی پیروی اورخاص اس امر میں بھی علم ومعرفت کے بعد مسئلہ کوماننا اور تسلیم کرنا قوی قرینہ ہے کہ یہ لوگ محض لاعلمی میں اس طریقے کو اختیارکرلیے ۔
ان کا مقصود شیعوں کی پیروی نہیں ،بلکہ حضرات اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے اظہار محبت مقصود ہے ،پس اہل سنت وجماعت سے وابستگی اوررافضیت سے انکار پرقرینہ ہونے کے سبب شعار کا حکم نافذ نہیں ہوگا،جیساکہ صریح انکار کی صورت میں شعار کا حکم نافذنہیں ہوتا ہے
۔(ج) بلا انکار وہابیت، شعاروہابیت اختیار کرنے پر حکم وہابیتامام احمد رضاقادری نے رقم فرمایا :’’فاتحہ کو بدعت کہنا ،زیارات مزارات طاہرہ کو قبرپرستی بتانا ،نیاز حضو ر پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نام کی پوجا کہنا ،تعظیم آثار شریفہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضور کی اطاعت نہ ماننا یہ سب شعاروہابیت ہیں ،اور وہابیہ گمراہ ،بددین ،بلکہ کفار ومرتدین ہیں ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 185-رضا اکیڈمی ممبئ )۔
امام احمد رضا قادری سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو یاغوث کہنا حرام کہتا ہے۔میلاد شریف کے قصائد خوانی کو ناجائز کہتا ہے۔ اولیاء اللہ کی فاتحہ خوانی جیسے گیارہویں شریف وغیرہ کوناجائز کہتا ہے ۔امام احمد رضا قادری نے جواب میں فرمایا :’’ایسے اقوال کا قائل نہیں ہوتا ،مگر وہابی ۔مسلمانوں کو اس کے وعظ میں جانا جائز نہیں ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 154-رضا اکیڈمی ممبئ )۔
امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:’’نیاز نذر کرنا جائز ہے، او ر اولیا سے طلب دعا مستحب ہے،اور یہاں ان مسائل میں کلام کرنے والے نہیں ،مگر وہابی ،اور وہابی مرتد ہیں اورمرتد کے پیچھے نماز باطل محض ،جیسے گنگا پرشاد کے پیچھے :واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 170-رضا اکیڈمی ممبئ )۔
توضیح :مذکورہ بالاعبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کسی مذہب کے شعار کو اختیار کرنے پر اسی میں شمار ہوگا ، جب کہ صریح انکار یا انکار پر قرینہ موجود نہ ہو۔
مسئلہ حاضرہ میں چوں کہ متکلم نے لفظ خطا کا استعمال روافض کے نظریہ باطل کے رد وابطال میں ہی کیا ہے تو ان کو شعاررافضیت اختیار کرنے والا کیسے کہا جائے گا ؟متکلم نے تو رافضیت کی تردیدکی اوراپنے سنی ہونے کا اقرارکیا ہے توصریح اقرارکے باوجود شعار کی دلالت کا لحاظ کیسے ہوگا ؟قانون ہے :الصریح یفوق الدلالۃ۔
اسی طرح ناصبیت کا الزام بھی عائدنہیں ہوگا کہ گرچہ حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پرسب وشتم ناصبیت کی علامت ہے ،لیکن جب متکلم سنیت کا اقراراور سنیت کے علاوہ ہر بدمذہبیت کا صریح انکار کرتا ہے تو اس پر شعار کی دلالت کی وجہ سے حکم کیسے نافذ ہوگا ؟ یہاں(الصریح یفوق الدلالۃ)کا حکم نافذ ہو گا۔
واضح رہے کہ یہ بحث علیٰ سبیل التنزل ہے کہ اگر بالفرض اہل فضل کے حق میں لفظ خطا کے استعمال کو سب وشتم تسلیم کرلیا جائے تو بھی یہاں شعاررافضیت وعلامت ناصبیت کا حکم نافذنہیں ہوگا ،اور متکلم پر ضلالت وگمرہی کا حکم عائدنہیں ہوگا ۔ایسا حکم نافذکرنا شرعی اصولوں کے خلاف ہوگا ۔
ہماری تحقیق تویہی ہے کہ اہل فضل کے حق میں لفظ خطا کا استعمال شرعی طورپر جائزہے،کیوں کہ اہل فضل کے حق میں محتمل لفظ کا استعمال واردہے،بلکہ خاص لفظ خطا کااستعمال بھی وارد ہے۔
ہاں،حضرات معصومین علیہم الصلوٰۃوالسلام کے حق میں محتمل لفظ کا استعمال نہیں ہوگا ۔وہاں درج ذیل قانون جاری ہوتا ہے:(مجرد ایہام المعنی المحال کاف فی المنع عن التلفظ بہذا الکلام-وان احتمل معنی صحیحا)(رد المحتار:جلد26ص499-مکتبہ شاملہ )۔
توضیح :چوں کہ لفظ خطا کا بعض معنی یعنی گناہ کرنا حضرات معصومین علیہم الصلوۃ والسلام کے لئے محال شرعی ہے تو اس وجہ سے اس لفظ کا استعمال حضرات معصومین علیہم السلام کے لئے نہیں ہو گا۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع