تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط دوازدہم
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے قسط دوازدہم
متکلم پر ضلالت وگمرہی کا فتویٰ شرعی اصول وضوابط کے خلاف
فریق دوم نے ’’ متفقہ اعلامیہ ‘‘کی ایک عبارت کے سبب اصحاب اعلامیہ اور متکلم کے واسطے توبہ کا حکم ثابت کیاہے،حالاں کہ یہاں توبہ کا حکم ثابت نہیں ہوتا ۔متفقہ اعلامیہ کی وہ عبارت مندرجہ ذیل ہے۔
ہم اہل سنت وجماعت کے نزدیک انبیاے کرام علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃوالسلام معصوم ہیں ،جب کہ ان سے معصومیت کے باوجود خطائے اجتہادی کا صرف امکان ہی نہیں ،بلکہ وقوع بھی مانا گیا ہے ،کیوں کہ خطائے اجتہادی نہ معصیت ہے ،نہ عیب ہے‘‘۔
فریق دوم کے اعتراض کاخلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا عبارت سے جس طرح ہر ایک نبی علیہ السلام کے لیے معصومیت کا ثبوت ہوا،اورہر ایک نبی علیہ السلام کے واسطے خطائے اجتہادی کا امکان ثابت ہوا،اسی طرح ہرایک نبی علیہ السلام کے لیے خطاے اجتہادی کا وقوع ثابت ہو گیا ،اورجب ہمیں تمام انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کی تعداد کا صحیح علم نہیں تو ان نفوس زکیہ کے تعلق سے خطاے اجتہادی کے وقوع کا علم کسی کوکیسے ہوسکتا ہے ،پس ان تمام نفوس طیبہ کے لیے خطاے اجتہادی کے وقوع کا قول کذب ہوا، اور یہ ان حضرات قدسیہ کی شان میں ایک قسم کی بے ادبی ہوئی ، گرچہ اس بے ادبی کے سبب سے حکم کفر نہیں ہوگا،لیکن توبہ کا حکم ہوگا ۔
جواب :منقولہ بالا عبارت میں لفظ”بلکہ”کا استعمال ہے۔اور اسی سے متصل جملے پر اعتراض ہے۔واضح رہے کہ لفظ ’’بلکہ ‘‘کی جگہ عربی زبان میں لفظ ’’بل ‘‘کا استعمال ہوتا ہے۔
ایسے محل استعمال میں عربی زبان کا لفظ ’’بل‘‘ اضراب انتقالی کے واسطے ہوتا ہے۔ یہاں ’’بل ‘‘سے قبل بھی ایک جملہ ہوگا اور لفظ ’’بل ‘‘کے بعد بھی ایک جملہ ہوگا ،اور ’’بل ‘‘عطف کے لیے نہیں ،بلکہ حرف ابتداہوجائے گا اوراس کے بعد مستقل جملہ ہوگا ۔
اب اگرایک جملے میں کسی لفظ عام سے اس کے تمام افراد مراد ہوں تو اسی سے متصل دیگر جملوں میں بھی اس لفظ عام یا اس کی ضمیرسے اس لفظ عام کے تمام افراد مراد ہونا لازم نہیں ۔ سیاق وسباق ،قرائن وحالات پر نظر کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح بیان متکلم سے بھی مرادکی یقینی وضاحت ہوتی ہے۔
ایسا استعمال قرآن وحدیث میں وارد ہے کہ لفظ عام سے کسی جملہ میں اس کے تمام افرادمرادہیں ،اور اس سے متصل جملے میں تمام افرادمراد نہیں۔
جہاں لفظی قرینہ نہ ہو،وہاں عقل وعرف وغیرہ کے سبب عام کے بعض افراد حکم سے مستثنی ہوجاتے ہیں۔صرف اصطلاح میں اس کانام تخصیص نہیں،ورنہ حکم سے افراد کا استثنا ہوجاتاہے۔
قال الملا احمد جیون: (والتخصیص فی الاصطلاح:ہو قصر العام علی بعض مسمیاتہ بکلام مستقل موصول-فان لم یکن کلامًا بان کان عقلًا او حسا اوعادۃ اونحوہ، لم یکن تخصیصا اصطلاحا)(نورالانوارجلداول : ص169-دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
مسئلہ حاضرہ کی وضاحت کے لیے قرآن مجید کی چند آیتیں منقوشہ ذیل ہیں
۔(۱)(لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم::ثم رددناہ اسفل سافلین::الا الذین آمنوا وعملوا الصلحٰت فلہم اجر غیر ممنون)(سورہ والتین :آیت 4 تا 6)۔
ترجمہ:بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا ،پھراسے ہرنیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیر دیا ،مگر جوایمان لائے ،اوراچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے۔(کنزالایمان )۔
توضیح :منقوشہ بالا آیات مقدسہ میں سے پہلی آیت میں انسان سے تمام افرادانسانی مرادہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہر فرد کو عمدہ صورت عطا فرمائی ۔
دوسری آیت میں’’رددناہ ‘‘کی ضمیرمنصوب متصل (ہ) انسان کی طرف راجع ہے ،لیکن اس سے تمام انسان مرادنہیں ۔تیسری آیت میں استثنا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت پیش فرمادی کہ جو انسان ایمان اور عمل صالح کو اختیار کرلیں ،وہ اس حکم سے الگ اور جدا ہیں ،یعنی مرجع (انسان)سے تمام افرادانسانی مرادہیں اور ضمیر سے تمام افراد انسانی مراد نہیں ۔
سوال : منقوشہ بالا آیات طیبہ میں استثنا موجودہے ،اس لیے تمام افرادانسانی مراد نہیں ہوں گے ،لیکن جہاں استثنا اورلفظی تخصیص موجو د نہ ہوتو تمام افرادمراد ہوں گے یا نہیں ؟۔
جواب : جہاں لفظی استثنا یا لفظی تخصیص نہ ہو، وہاں قرینہ کے اعتبارسے حکم ہوگا ۔مثال درج ذیل ہے
۔(۲) (ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البر والبحر ورزقناہم من الطیبٰت وفضلناہم علٰی کثیر ممن خلقنا تفضیلا)(سورہ بنی اسرائیل :آیت 70)۔
ترجمہ : بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ،اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا ،اوران کوستھری چیزیں روزی دیں ،اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا ۔(کنزالایمان )۔
توضیح :بنی آدم سے تمام بنی آدم مرادہیں ،بلکہ خودحضرت آدم علیٰ رسولنا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام بھی اس حکم میں شامل ہیں۔
یہاں بنی آدم کی عزت سے قرب خداوندی اور عزت اخروی مرادنہیں ہے ،بلکہ عقل وتدبیر، ، زمینی مخلوقات کی تسخیر،تہذیب واخلاق ودیگر امور کے اعتبار سے دیگر زمینی مخلوقات پر عظمت وفضیلت مراد ہے۔
اس میں تمام انسان شریک ہیں ،گر چہ اخروی اعتبار سے کفاربنی آدم حیوانوں سے بدتر ہیں ۔یہاں زمینی مخلوقات کے اعتبارسے انسانوں کی افضلیت مرادہے،جن کومخلوقات سفلی کہا جاتا ہے ۔
حضرات ملائکہ علیہم السلام مخلوقات سفلی میں شامل نہیں،نہ ہی ان نفوس طاہرہ سے انسانوں کی افضلیت مرادہے ۔
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ کفاربنی آدم کا حضرات ملائکہ علیہم السلام سے کوئی تقابل ہی نہیں
ہرفرشتہ مومن ہے اور کوئی کافر مومن سے افضل کیوں کر ہوسکتا ہے۔’’لقدکرمنا بنی آدم‘‘کے بعد ’’حملناہم ‘‘ہے۔
۔’’حملناہم ‘‘کی ضمیر منصوب متصل کا مرجع بنی آدم ہے ،لیکن یہاں تمام بنی آدم مراد نہیں ہوسکتے ،کیوں کہ تمام بنی آدم کے لیے سمندری سفر ثابت نہیں ۔نہ جانے کتنے لوگ سمندر دیکھے نہ ہوں گے اور بے شمار لوگ سمندرکا سفر نہ کیے ہوں گے تو یہاں تمام ا فراد انسانی مراد نہیں ہوسکتے۔
۔’’حملناہم‘‘ کے بعد ’’رزقناہم ‘‘کی ضمیر منصوب متصل سے اکثر بنی آدم مراد ہوں گے ،کیوں کہ زندہ رہنے والے ہرایک انسان کو رزق ملا ۔کوئی انسان خوردونوش کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ، اس سے صرف وہ نومولود بچے خارج ہوں گے جو زندہ پیدا ہوئے اور بلاخوردو نوش ان کی موت ہوگئی ،یا مردہ ہی پیدا ہوئے
۔’’رزقناہم ‘‘کے بعد ’’فضلناہم‘‘ کی ضمیر منصوب متصل میں بھی تمام بنی آدم مراد ہیں ۔اس سے بھی قرب خداوندی یا اخروی فضیلت مراد نہیں ۔محض زمینی مخلوق پرتمام انسانوںکی فضیلت مراد ہے۔
جب اس قسم کا استعمال شائع وذائع ہے اور حکم میں غیر شامل افراد کا استثنا عقلی طور پر یا کسی اور سبب سے ہو جاتا ہے تو پھراصحاب اعلامیہ پرتوبہ کا حکم کیوں کر ہوگا ؟
اردو زبان میں بھی ایسا استعمال ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے:’’فلاں شہر کے لوگ صرف مجوسی ہی نہیں ،بلکہ چور بھی ہیں ‘‘۔
اس جملے سے ہر آدمی یہی سمجھتا ہے کہ اس شہر کے باشندے مجوسی ہیں اوران میں بہت سے لوگ چور بھی ہیں ۔
لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس شہر کا ہرایک ایک باشندہ چور ہے،کیوں کہ یہ بات ممکن ضرورہے ،لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کہ کسی شہر کے تمام لوگ چور ہوں ۔
ہاں،تمام لوگ یہودی ،عیسائی ،مشرک ،مجوسی یا مسلمان ہوسکتے ہیں اور بے شمار ایسے شہر ہیں جہاں ایک ہی مذہب کے لوگ ہیں ،لیکن عام طورپرایسا نہیں ہوتاکہ سب لوگ ایک ہی فطرت کے ہوں ،مثلاً سب چور ہوں ،یا سب غنڈے ہوں ،یا سب ایک پیشہ کے ہوں ،اور بالفرض اگر کہیں سب لوگ ایک ہی فطرت وجبلت یا ایک ہی پیشے کے ہوں تو اس کا خصوصی ذکر ہوتاہے ،نہ کہ عام پیرایہ میں ۔
ایسے موقع پر مثلاً کہا جائے گا کہ تعجب ہے کہ اس گاؤں یا شہر کا ہرایک آدمی غنڈہ ہے۔ہرایک آدمی چور ہے۔
الحاصل مسئلہ حاضرہ میں طرز کلام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اصحاب اعلامیہ نے ہرایک نبی علیہ السلام کے حق میں خطائے اجتہادی کا وقوع تسلیم کیا ہے۔
اگر فریق دوم کے بقول یہاں اس مفہوم کا احتمال ہے تو محتمل کلام میں بیان حکم سے قبل قائل کی مراددریافت کی جاتی ہے ،تب حکم شرعی بیان کیا جاتا ہے۔یہی فتویٰ کا اصول ہے۔
قال الہیتمی:(ومنہا مَا صَرَّحَ بِہٖ اَئِمَّتُنَا کالرافعی فی’’العزیز‘‘والنووی فی’’الروضۃ والمجموع‘‘وغیرہما-مِنْ اَنَّ الْمُفْتِیَ اذا سُئِلَ عَنْ لَفْظٍ یَحْتَمِلُ الْکُفْرَ وَغَیْرَہٗ-لَا یَقُول ہو مہدر الدم او مباحہ او یقتل او نحو ذلک-بل یقول:یُسْئَلُ عَنْ مُرَادِہٖ-فَاِنْ فَسَّرَہٗ بِشَیْئٍ،عُمِلَ بِہٖ)(الفتاوی الحدیثیہ ص 38-دارالفکربیروت) ۔
توضیح:اب اصحاب اعلامیہ سے دریافت کرلیا جائے کہ ان کی مرادکیا ہے ؟۔
دراصل فریق دوم کو حکم جاری کرنے سے قبل ہی اس کی تحقیق کرنی تھی۔اب بھی تلافی مافات ہو سکتی ہے۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے : اس کے دیگر قسطوں کے لنک حاضر ہے مطالعہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع