تحریر: محمد احمد حسن سعدی امجدی محافط ناموس رسالت حضرت خادم حسین رضوی حیات و خدمات کے آئینے میں
محافط ناموس رسالت حضرت خادم حسین رضوی حیات و خدمات کے آئینے میں
دنیاے سنیت میں ایسے بے شمار علما، فقہا،صلحا، اصفیا اور سچے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم گزرے ہیں کہ جن کی گراں قدر دینی اور ملی خدمات کا ایک عالم معترف رہا ہے
جنہوں نے اپنی خدمات کے پیش نظر وہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل کی کہ تاریخ کے اوراق میں اس کی نظیر نہیں ملتی پھر ان کے وصال کو سالوں گزر جانے کے بعد بھی ان کے مبارک اسماء، ان کی کارگزاریاں اور ان کی خدمات عوام و خواص سب کے قلوب و اذہان میں موجزن رہتی ہے اور ان شاءاللہ صبح قیامت تک رہیں گی۔
پندرہویں صدی ہجری میں ایسی ہی ایک عظیم المرتبت مایہ ناز اور عبقری شخصیت ہمیں اور عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئی، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ محبت خدا اور رسول کے قالب میں ڈھال کر گزارا
جن کی زندگی کی ہر سانس سے سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع فروزاں ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ،جنھوں نے اپنی پوری زندگی تحفظ ناموس رسالتﷺ پر قربان کر دی
یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا خاص طور پر ہندو پاک کے عوام و خواص اس یکتائے زمانہ ہستی کو محافظ ناموس رسالت امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔
استاد الاساتذہ امیرالمجاہدین علامہ خادم حسین رضوی الرحمہ ناموس رسالت پر پہرہ دینے والی پاکستان کی وہ بے باک اور واحد شخصیت تھی جن کی آنکھوں میں ناموس رسالت پر مرمٹنے کا جوش و خروش تھا
اور یقینا جب بھی ختم نبوت کا مسئلہ آیا ، یا کسی گستاخ نے حضور کی شان میں گستاخی کی نازیبا حرکت کی تو پورے پاکستان میں اس کے خلاف سب سے پہلے اٹھنے والی آواز علامہ خادم حسین رضوی کی ہوا کرتی تھی
حتی کہ بعض دفعہ آپ کی ببانگ دہل آواز اور آپ کے پر اثر احتجاجات کے سامنے حکومت بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ، ساتھ ہی علم و فضل کے میدان میں بھی آپ ید طولی کے حامل تھے
آپ کی روح پرور،کیف آور ایمان افروز تقریروں کو سننے کے بعد عوام کے قلوب و اذہان میں از خود محبت خدا اور رسول کی شمع لم یزل فروزاں ہو جایا کرتی اور امت مسلمہ نبی ﷺ کے ناموس پر مرمٹنے کے لیے تیار ہوجاتی تھی ۔
اس مختصر سے مضمون میں آپ علیہ الرحمہ کی حیات میمونہ کے بعض گوشوں پر روشنی ڈال کر اھل سنت کے اس بطل جلیل اور بابرکت ہستی کے روحانی فیوض و برکات کا متمنی اور مرتجی ہوں ۔
ولادت باسعادت
امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی اسلام کی جانی مانی شخصیت تھیں آپ کی ولادت ملک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیب کے ایک گاؤں نکہ توت میں 22 جون 1966 میں ہوئی
آپ کے والد محترم حاجی خان صاحب جو اپنی شرافت کے باعث کافی شہرت یافتہ تھے۔
تحصیل علم و ادب
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد حفظ قرآن کی تڑپ نے آپ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا
چناں چہ آپ نے جہلم اور دینہ کے مدارس اسلامیہ میں حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں درس نظامی کی تعلیم کے لیے جامعہ نظامیہ لاہور کے لیے رخت سفر باندھا اور وہیں متعدد علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے مؤقر ترین اساتذہ کرام کی عالی بارگاہوں میں زانوئے ادب طے کیا
اور چند سالوں میں درس نظامی کی تکمیل فرماکر جملہ علوم مروجہ و فنون متداولہ میں مہارت تامہ حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں مشہور ترین ماہر علوم عقلیہ و نقلیہ حضرت علامہ مولانا عبدالستار سعیدی صاحب نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
دینی و ملی خدمات
آپ عالم باعمل، حافظ قرآن، شیخ الحدیث والتفسیر، خطیب دورہ اور بیشتر کتابوں کے مصنف بھی تھے ، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے فراغت کے بعد آپ مکی مسجد لاہور میں امامت کے منصب پر فائز ہوۓ
اور ایک زمانے تک فرائض سرانجام دیتے رہے ،پھر آپ نے اپنے مادر علمی جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور اور جامعہ نعمانیہ لاہور میں ایک زمانے تک تدریسی خدمات انجام دی
اس درمیان بے شمار تلامذہ نے آپ کے موجیں مارتے ہوئے علم کے بحر زخار سے خوب خوب اکتساب علم کیا
طلبہ آپ کی خوش اسلوبی ،متانت و سنجیدگی سے لبریز کلام اور آپ کے مادہ تفہیم سے بے حد متاثر رہتے تھے
درس و تدریس کے دوران آپ نے اپنے تلامذہ میں عشق مصطفی اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کی ایسی روح پھونک دی کہ جہاں کہیں بھی ناموس رسالتﷺ کے حوالے سے کوئی فتنہ اٹھنا چاہتا یا ختم نبوت کے مسئلہ پر کوئی عیاش مکار انگلی اٹھانا چاہتا تو سب سے پہلے آپ کے تلامذہ اس کے خلاف برسرپیکار ہو کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے تھے۔
تقریر و خطابت
اللہ رب العزت نے آپ کو عربی، فارسی، اردو، پنجابی جیسی متعدد زبانوں میں عبور عطافرمایا تھا، میدان خطابت میں آپ اپنی مثال آپ تھے
آپ کی تقریر قرآن و احادیث، اقوالِ علما اور صوفیا کی روشنی میں ہوا کرتی تھی ، تا ہم آپ کے خطبات میں جابجا فکر رضا اور کلام اقبال اس کی خوب صورتی اور مؤثر كن ہونے میں بڑا کردار ادا کرتے تھے
ساتھ ہی آپ کی زبان سے نکلنے والے فصاحت و بلاغت سے پر کلمات آپ کے علمی قدو قامت اور اعلیٰ بصیرت کی گواہی دیتے
آپ کی تقریر میں وہ سحر انگیزی تھی کہ آپ کی تقریر سننے کے بعد عوام و خواص عشق مصطفی ﷺ میں جھوم اٹھتے تھے اور لبیک یا رسول اللہ کی صدائے بازگشت سے پوری فضا گونج اٹھتی تھی
ان تمام عظیم خدمات کے ساتھ ہی آپ نے مختلف موضوعات پر گراں قدر مقالات و مضامین بھی لکھا ،اسی طرح طلبہ کے لیے آپ نے چند کتابیں بھی تصنیف فرمائی ، جن میں تعلیقات خادمیہ اور تیسیر ابواب الصرف کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
معذوری
۔ 2009ء میں پیش آنے والے ایک اندوہناک حادثہ میں امیرالمجاہدین اپنے دونوں پیروں سے معذور ہو گئے
یہ واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ آپ کے بڑے بھائی امیر حسین صدیقی گاؤں میں مسجد تعمیر کروا رہے تھے تو آپ اس سلسلے میں اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئے، دوران سفر سوئے اتفاق کے ڈرائیور کو نیند آ گئی اور ایک موڈ سے گاڑی نیچے جاگری
ویسے اس حادثے میں اللہ کے فضل سے آپ کی جان تو بچ گئی لیکن سر اور مغز پر شدید چوٹیں آئیں، جس کے باعث جسم کا نچلا حصہ معذور ہوگیا
اس کے بعد کی زندگی آپ نے ویل چیئر پر گزاری، ویسے اس المناک حادثہ نے آپ کے ظاہری اعضا کو تکلیف ضرور پہنچائی
لیکن آپ کے باطن میں پروان چڑھ رہی ایمانی طاقت وقوت نے آپ کو بے انتہا تقویت بخشی ، اور آپ نے ویل چیئر پر ہونے کے باوجود عزیمت و استحکام کی ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ تا قیامت آپ کا نام ،آپ کی خدمات عوام و خواص کے قلوب و اذہان میں زندہ رہےگی ۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ کی بنیاد اور ناقابل تسخیر احتجاجات۔
حضور امیر المجاہدین شروع ہی سے عام گفتگو اور معاملات میں متانت و سنجیدگی اور انکساری کے سیل رواں تھے
لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس اور ختم نبوت کی بات آجاتی تو آپ شاتمان رسول کے لیے سیف مسلول بن جاتے
۔2015 میں گستاخ رسول سلمان تاثیر کے قتل کے معاملے میں جب عاشق رسول غازی ممتاز قادری کو حکومت پاکستان کی جانب سے سزائے موت دی گئی تو یہ سانحہ آپ پر انتہائی شاق گزرا اور آپ نے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے لیے نیشنل پیمانے پر ایک تحریک بنام لبیک یا رسول اللہ کی بنیاد ڈالی
اس کے تحت ملک بھر میں بے شمار جلسے کی یہاں تک لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اور عوام و خواص میں اسے اس قدر پزیرائی حاصل ہوئی کہ اب الحمد لله اس تحریک میں لاکھوں کی تعداد میں عاشقان رسولﷺ شامل ہوچکے ہیں
۔ 2016 میں توہین مذہب قانون کے حوالے سے آپ نے ایک زبردست ریلی نکالی، حکومت کی طرف سے ریلی پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا تاہم آپ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا
۔ 2017 میں ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدل دیے گئے اس کے بعد امیر المجاہدین الرحمہ نے اس کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا
اور نومبر 2017 میں فیض آباد میں ایک زبردست دھرنا دیا، جس پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے بے جَا تشدد کیے گئے، گولیاں چلائی گئیں
لیکن آپ اپنے ایمانی جوش و جذبہ اور دل میں محبت رسول ﷺ لیے ہوے ختم نبوت کے مسئلہ پر ایک ناقابل تسخیر حصن حصین کی طرح کھڑے رہے اور پھر اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے کہ وزیر قانون زاہد حامد کو فوری طور پر استعفیٰ دینا پڑا
۔2018 میں جب ہالینڈ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خاکوں کی نمائش کی تو آپ نے اس کے رد میں لاہور تا اسلام آباد ایک زبردست مارچ کیا اور دھرنا دیا۔
حالات کے پیش نظر آپ نے 2018ء کو ہونے عام انتخابات میں حصہ لیا ، جس میں آپ نے ملک بھر سے 80 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے
اسی طرح سال رواں 2020ء کو جب فرانسیسی صدر میکرون میں آقا علیہ السلام کی گستاخانہ کارٹون کو شائع کرنے کو
freedom of experresion
یعنی آزادی رائے سے تعبیر کیا اور اسے سرکاری عمارتوں پر آویزاں کرنے کی جسارت کی تو امیر المجاہدین علیہ الرحمہ نے فرانسیسی صدر کے خلاف 15 نومبر 2020ء کو راولپنڈی کے مقام پر ایک زبردست احتجاج کرتے ہوئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں اس قسم کی گستاخیوں کے سدباب کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا اور حکومت سے فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے تاہم فرانسیسی پروڈکٹ پر مکمل پابندی کی مانگ کی
جس پر عمران حکومت سخت بوکھلا ہٹ کا شکار ہوئی اور اس کی روک تھام کے لیے بے شمار چلی، سڑکیں بلاک کی یہاں تک کہ موبائل سسٹم کو بھی جام کردیا
لیکن اے امیرالمجاہدین تیری شجاعت و بہادری کو سلام کہ ضعیف العمری کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں ذرا برابر بھی لغزش نہیں آئی اور عمر کے اخیر وقت میں بھی آپ ناموس رسالت پر پہرہ دیتے رہے اور پوری دنیا میں حضور ﷺ سے محبت کا دم بھرنے والے عاشقوں کے لیے مشعل راہ اور ایک آئڈیل بن گئے۔
وفات
بالآخر مذہب اسلام کا یہ بطل جلیل،علم و فضل کا یہ بدن منیر،ناموس رسالت کا سچا محافظ،تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی عالم اسلام کو روتا بلکتا چھوڑ 3 ربیع الآخر 1442 ء مطابق 19 نومبر 2020 کو سخت بخار اور سانس پھولنے کے باعث داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔
إنا لله وإنا إليه رٰجعون
ابرِ رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
اللہ ہمیں حضور امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کے روحانی فیوض و برکات سے مالا مال فرماۓ اور امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
تحریر۔ محمد احمد حسن سعدی امجدی
ترجمان, تنظیم جماعت رضاے مصطفی گورکھ پور
ریسرچ اسکالر، جامعة البركات علي گڑھ۔
مسکن لکھن پوروا، رودھولی بازار، ضلع بستی یوپی الہند۔
8840061391
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع