Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوازدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوازدہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوازدہم (گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے ملاحظہ فرمائیں

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط دوازدہم

مبسملا وحامدا:: ومصلیا ومسلما

کفرکلامی پراجماع کا مفہوم
کفر کلامی کے صحیح فتویٰ پر اہل حق کا اجماع واتفاق ہی ہوتا ہے۔خواہ زبان وقلم سے ہرایک مفتی اتفاق کا اظہا ر کرے ،یا نہ کرے ۔ہرایک کے لیے کافر کلامی کو کافر اعتقادکرنا اور کافر ماننا ضروری ہے۔

عہدحاضرمیں مذبذبین یہ کہتے پھر تے ہیں کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی نے جو اشخاص اربعہ پرکفر کلامی کا فتویٰ دیا ،وہ ہمیں تسلیم ہے ، لیکن ہم ان اشخاص اربعہ کو کافر نہیں ،بلکہ صرف گمراہ کہتے ہیں ۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے تحقیق فرمالی تھی ،ان کے لیے تمام جہات محتملہ یقینی ہوگئی تھیں ۔ ہمارے لیے یہ سب یقینی نہیں ہو سکی ہیں ،اس لیے ہم صرف گمراہ کہتے ہیں۔
مذبذبین سے سوال یہ ہے کہ کفرکلامی کے انکار کی وجہ کیا ہے ؟

کیا وہ یقینی جہات مذبذبین کو سمجھ میں نہ آسکی ہیں ،اسی لیے اپنے لیے ان جہات کو غیر یقینی سمجھتے ہیں ؟

حالاں کہ محتمل جہات آج بھی یقینی ہیں ۔جب تمام جہات یقینی ہیں تو حکم میں تبدیلی کیسے ہوگی ؟

نیزکفر کلامی کا صحیح حکم کبھی بدلتا نہیں ہے۔اس میں تبدیلی کی ایک ہی صورت ہے کہ قائل توبہ ورجوع کرلے توحکم کفراس سے ختم ہو جائے گا ۔

مسیلمہ کذاب دعوی نبوت کے سبب کافرکلامی ہے۔ اب آج اگر کسی کو اس کے دعوی نبوت میں کچھ شک ہوا تو حکم میں تخفیف نہیں ہوگی ،بلکہ اس پر لازم ہوگا کہ وہ مسیلمہ کذاب کو کافرکلامی اعتقاد کرے ،اور اسی اعتقاد کے ساتھ تحقیق وتفتیش کے ذریعہ اپنا شک دورکرنے کی کوشش کرے۔

مسیلمہ کذاب کے کفر سے انکار یا اس میں توقف کی اجازت نہیں۔اگر خود تحقیق کا اہل ہے توخود تحقیق کرے ،ورنہ اہل علم سے سوال کرے ۔

حکم الٰہی ہے (فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون

کفر کلامی کا صحیح فتویٰ صادرہوجائے توکسی کواختلاف کا حق حاصل نہیں ۔کافرکلامی کوکافرکلامی اعتقاد کرنا ضروری ہے ،اورکافر کلامی کومومن ماننا کفرکلامی ہے۔

اس عہد کے علمائے کرام کواورمابعد کے علما کو تحقیق کی اجازت ہوگی ،لیکن اگریہ فتویٰ صحیح تھاتواختلاف کی اجازت نہیں ہوگی۔

علما ے کرام کے اتفاق واجماع کے سبب اس فتویٰ کی تقویت وتائید ہوتی ہے۔اگر اجماع صوری نہ بھی تو بھی کفرکلامی کے صحیح فتویٰ کا انکار کرکے کافر کلامی کومومن کہنا کفرکلامی ہے۔

اب یہ سوال کہ علمائے ماقبل سے خطا ہوسکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی خطا پر امت کا اجماع نہیں ہوتا ،نیز جب کفر کلامی میں ہر جہت یقینی وقطعی بالمعنی الاخص ہونے کے بعدفتویٰ دیا جاتا ہے تو اب خطا کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے؟

قطعی بالمعنی الاخص کی تشریح پر غور کیا جائے۔قطعی بالمعنی الاخص میں جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہیں ہوتا۔جب کفرکلامی کافتویٰ جاری کر تے وقت جانب مخالف کا احتمال بلادلیل بھی نہیں ہوتا ہے توچند سالوں بعد یاچندصدیوں بعد احتمال کیسے پیدا ہوجائے گا ؟

دفع شبہات کے لیے کیا کرے ؟

کفرکلامی میں کسی عالم کو شبہہ ہوتووہ ان علماسے دریافت کریں ،جن کے یہاں یہ امر قطعی بالمعنی الاخص کے درجہ تک پہنچ گیا ، جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکات کے خلاف حکم جہاد جاری فرمایا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا شبہہ پیش فرمایا، حضرت صدیق اکبر کے جواب سے وہ مطمئن ہوگئے ،اورشبہہ دورہونے کے بعد فرمائے
(فَوَ اللّٰہِ مَا ہُوَ اِلَّا اَنْ رَأَیْتُ اللّٰہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ اَبِیْ بَکْرٍ لِلْقِتَالِ-فَعَرَفْتُ اَنَّہُ الْحَقُّ)

(صحیح مسلم جلداول ص37-صحیح البخاری،سنن النسائی،سنن الترمذی)
(سنن ابی داؤد،مسنداحمدبن حنبل،شعب الایمان للبیہقی )

کفر کلامی کا صحیح فتوی جاری ہونے کے بعد اختلاف کی جائز صورت نہیں۔کسی مفتی کو کلام,متکلم,تکلم یا کسی جہت میں کوئی احتمال نظر آئے تو مفتی اول سے دریافت کرے,جس نے کفر کا فتوی جاری کیا ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی عالم تحقیق ہی نہ کرے،تاکہ اس کے یہاں کوئی ایک ،یا دویا تینوں جہت قطعی کے درجہ تک نہ پہنچ سکے ،اوروہ دیگر علمائے متکلمین سے اختلاف کرتا پھرے۔

کلام میں احتمال اسی وقت ہوگا ،جب وہ مفسر یعنی متعین فی الکفر نہ ہو۔اگر کلام متعین فی الکفر ہے تو اختلاف کرنا ہٹ دھر می ہے۔

کفر کلامی پر ارباب حل وعقدکے اجماع کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں۔ابتدائی عہدمیں اشخاص اربعہ پرنام زد کرکے صریح فتویٰ کفر جاری کرنے میں علما نے احتیاط فرمائی ،اورقول کا کفریہ ہوناظاہر فرمادیا ، اورایسے قائل کوکافر بتایا،تاکہ قائل توبہ کر لے ۔

اگر جہات محتملہ کے تیقن کے بعد قول کو کفریہ کہا جائے تویہ بطرزبلیغ قائل کو کافرقرار دیناہے اورکنایہ صریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔(الکنایۃ ابلغ من التصریح)علم بلاغت کا مشہورقاعدہ ہے۔

جب قائلین توبہ کی جانب بالکل مائل نہ ہوئے تو کفر کلامی کا صریح فتویٰ جاری کیاگیا۔

ابتدائی عہدمیں بعض علماکواشخاص اربعہ کی عبارتوں کا علم نہ تھا ،جب علم ہواتو تکفیرکی ،جیسے علامہ معین الدین اجمیری۔ان کا واقعہ ’’الصوارم الہند یہ‘‘( ص 17-مطبوعہ:اجمیرمعلی)میں مرقوم ہے۔

تکفیرکلامی پرعلمائے اسلام کا اجماع

جب کسی عہد میں کسی کے کفر پر علماے اسلام کااجماع واتفاق ہوجائے ،تو مابعد والوں کواس کی مخالفت کرناکفرہے۔

کسی کے کفر پر علما کا اجماع اسی وقت ہوگا ،جب وہ کفر کلامی ہو،کیوں کہ کفرفقہی میں متکلمین کا اختلاف ہوتا ہے ۔کفر فقہی کو متکلمین ضلالت وگمرہی کہتے ہیں۔یہ فقہا ومتکلمین کے مابین لفظی اختلاف ہے۔

سوال : اگر کسی کے کفرکلامی پر علما ئے اسلام کا اجماع نہ ہو،بلکہ صرف ایک مفتی نے اس کے کفر کلامی کا فتویٰ دیا ہوتو اس کفرکلامی کا انکار کر نااور اس کافرکلامی کومومن اعتقادکرنا کیسا ہے؟

جواب : اگر کفرکلامی کاوہ فتویٰ صحیح ہے تو انکار کرنے والا کافر ہے۔جوکافر کلامی کومومن کہے ،وہ بھی کافر ہے ۔اس کفر کلامی پر علمائے اسلام کے اجماع کے سبب اس فتویٰ کی تقویت وتائید ہوجاتی ہے۔

سوال : علماے اسلام کے اجماع کا انکار کفر کلامی ہے ،یا نہیں ؟
جواب : کسی بھی اجماع کاانکار کفرکلامی نہیں۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع سب سے قوی اجماع ہے۔

اجماع صحابہ کرام کواجماع قطعی کہاجاتاہے۔اجماع صحابہ کاانکار بھی کفرفقہی ہے ،کفر کلامی نہیں ۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بعد ائمہ مجتہدین کا اجماع کسی ایسے امرپر ہو ،جس میں ماقبل میں اختلاف نہ تھا تو ایسے اجماع کا انکار حدیث مشہور کے انکار کی طرح ضلالت وگمرہی ہے،کفر نہیں ۔

اشخاص اربعہ کی تکفیر پراتفاق واجماع کیسے؟

سوال : اشخاص اربعہ کی تکفیر پر تمام علمائے عرب وعجم کا کہاں اتفاق ہوا؟ حرمین طیبین کے علمائے کرام نے کفری فتویٰ پر تصدیق فرمائی ،پھر برصغیر کے کچھ علمائے کرام نے ،پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ عرب وعجم کے تمام علمانے اس کو تسلیم کرلیا ہے؟

جواب :ارباب حل وعقد کا اتفاق تمام ماتحت افراد کی جانب منسوب ہوتا ہے۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت راشدہ پر ہرایک مومن نے ساری دنیا سے آکر اتفاق نہ کیا تھا اور نہ ہی جہاں بھرکے ہرایک مومن نے بیعت کی تھی۔

محض ارباب حل وعقد کا اتفاق ہواتھا،جس کوساری دنیا کے مسلمانوں نے تسلیم کیا اور کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ارباب حل وعقد کے اجماع کوسارے مومنین کا اجماع تسلیم کیا گیا اور خلفائے راشدین کی خلافت کواجماعی کہا گیا ۔

سلطنت عثمانیہ ترکیہ کی جانب سے حرمین طیبین میں چاروں مذاہب فقہیہ کے مفتی مقرر کیے جاتے ، اور چاروں مذاہب کے فقہا ومفتیان کرام حرمین طیبین میں موجود ہوتے ۔کسی مسئلہ پر ان چاروں مذاہب کے مفتیان وفقہا کا اتفاق عالم اسلام کا اتحاد واتفاق تسلیم کیا جاتا ۔

اب جب کہ ارباب حل وعقد علمائے حرمین طیبین نے اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں میں غوروفکر کے فیصلہ فرمادیا کہ ان عبارتوں میں تاویل بعید کی بھی گنجائش نہیں ہے،لہٰذایہ کفر کلامی ہے تو ان حضرات کا اتفاق تمام مسلمانان اہل سنت وجماعت کا اتفاق تسلیم کیا جائے گا،کیوں کہ یہ اتفاق اصول شرع کے موافق ہے۔قائلین کی جانب سے کوئی قابل قبول تاویل پیش نہ کی جاسکی،نہ تاویل کی کوئی گنجائش ہے۔

ایسے مشکل مسائل میں علمائے اسلام میں سے ہرایک تحقیق نہیں کرتے ،بلکہ جن کے پاس وسائل تحقیق مہیا ہوتے ہیں ،ان کی تحقیق اور فیصلے کے منتظر ہوتے ہیں اور عہد انتظار میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو عند اللہ حق ہے,وہی ہمارا عقیدہ ہے۔

سوال : کسی کی وفات عہد انتظار میں ہوجائے تو اس صورت میں ان پر کوئی حکم کیسے جاری ہوسکتا ہے؟

جواب : ان کا مسلک وہی تسلیم کیا جائے گا ،جوتمام عالم اسلام کا ہوگا،کیوں کہ وہ مذہب اسلام کے تمام احکام مانتے تھے۔

ہاں،صحیح فتوی آنے کے بعد جب کسی کا انکار سامنے آ جائے تو اس انکار پر بحث ہوگی ۔

اگر کوئی عالم وفقیہ صحیح حکم شرعی کوتسلیم نہ کرے تو گویا دین خداوندی میں اپنی مرضی کودخل دینا ہوا ، اب اس کا انکار حکم شرعی کو ساقط نہیں کرسکے گا ، بلکہ خود اس منکر پر حکم شرعی نافذہوگا ،خواہ وہ کوئی بھی ہو،کہیں کا بھی ہو:الاسلام یعلوولایعلی(صحیح البخاری)۔

اب بات رہی شبہہ اورتاویل کی تو اشخاص اربعہ کے کلام میں تاویل قریب یاتاویل بعید کا احتمال نہیں اورتاویل باطل عند الشرع قابل قبول نہیں۔

قائلین کی جانب ان کلمات کی نسبت تواترکے ساتھ ثابت ہے ۔قائلین نے خود بھی ان کتابوں کواپنی تصنیف قرار دیا۔صرف ان عبارتوں میں تاویل کی ہے اوروہ تاویل باطل ہونے کے سبب ناقابل قبول قرار پائی ۔تاویل کے بھی حدودوشرائط ہیں،ورنہ تاویل باطل ہرکلام میں پیش کی جا سکتی ہے۔

اگرہر قسم کی تاویل قبول کرلی جائے تو ایمان وکفر کا فرق ختم ہوجائے گا ۔ہرکافر مومن ہوجائے گا ۔

قائلین نے ان کلمات خبیثہ کو کسی کے جبر واکراہ کے سبب یا حالت غشی وجنون میں نہیں کہا ہے ،بلکہ ہوش وحواس کے ساتھ بالقصدلکھا ہے۔

حکم شرع ہے کہ اللہ ورسول (عزو جل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کی توہین وبے ادبی کفر ہے۔اب ان کے کفر سے انکار کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس تکفیرکامنکر،حکم شرعی کوتسلیم نہیں کرتا ہے ۔

یہ حکم شرعی ہے کہ ضروریات دین کا منکر اورخداورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کی تنقیص وبے ادبی کرنے والا کافرہے۔ جوآدمی اس شرعی حکم کو تسلیم نہیں کرتا ہے ،وہ مومن نہیں ۔

اگر تاویل بعید کی بھی گنجائش ہو تو متکلمین کفر کا حکم عائد نہیں کرتے ،لیکن جب متکلمین حکم کفر عائد کردیں اور کسی امر کوکفرکلامی اورقائل کوکافر کلامی قرار دیدیں تواس کا مفہوم یہی ہے کہ یہاں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ۔

تکفیرکلامی پر اتفاق واجماع سے حکم کی تائید وتقویت

سوال :کیا کفر کلامی کے فتویٰ پرعہد تحقیق کے علما کا اتفاق حکم تکفیر کوقوت پہنچاتا ہے؟
جواب : کفر کلامی کے فتویٰ پر عہد تحقیق کے علما کا اتفاق حکم کومؤکد کر دیتا ہے۔

کفرکلامی پرعہد تحقیق کے علما کا اتفاق کسی کے کفر کلامی پر ہوگیا تو اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ مفتی نے حکم کفر جاری کرنے میں کسی قسم کی خطا نہیں کی ہے۔کفر کلامی آغاز امرسے یقینی ہی ہوتا ہے ، علماکے اتفاق سے مزید تاکید ہوجاتی ہے۔

تحقیق کے نام پراختلاف کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کافر کومومن ثابت کرنا چاہتا ہے۔

تکفیر کے لیے تحقیق کا حکم ہے ،لیکن یہ حکم کہیں نہیں کہ ہر ایک کوتحقیق کرنی ہے۔کیا مفتیان کرام جن ضروریات دین کوتسلیم کرتے ہیں ، ان تمام کی ازخود تحقیق کرچکے ہیں؟کافر کلامی کو کافرماننا بھی ضروریات دین سے ہے ۔

اگر دیگر ضروریات دین میں دیگر ارباب تحقیق پر اعتماد کرتے ہیںتو امر تکفیر میں دیگرعلما کی تحقیق پر اعتما د کیوں نہیں؟ کسی امر کا محقق اورثابت شدہ ہونا ضروری ہے ،خواہ کسی کی تحقیق سے بھی ہو۔

علما کے اتفاق سے محض حکم کی تاکید ہوتی ہے۔اگر ایک ہی مفتی نے کفر کلامی کا فتویٰ جاری کیا اور وہ فتویٰ صحیح ہے ۔اب کوئی اس کا انکار کرتا ہے تویقیناوہ ’’من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر‘‘کے دائرہ میں آتا ہے۔

اگر فتویٰ تکفیر جاری ہونے کے بعد قائل وفاعل توبہ کرچکا ہو تو پھر اس قائل وفاعل سے حکم کفر یقینا ساقط ہو جائے گا ۔ اگر فتویٰ تکفیر جاری کرنے والے مفتی کوتوبہ کا علم ہواتووہ بھی اسے مومن اعتقاد کرے گا ،یا جس کسی کو توبہ کا علم ہوا ،اس پر لازم ہے کہ اسے مومن اعتقاد کرے ۔

علامہ عبد الباری فرنگی محلی (1296ھ1344ھ1877ء1926ء) نے حجۃ الاسلام علامہ رضاخاں بریلوی کے سامنے لکھنو میں غیر مشروط طورپر اپنے تمام قابل اعتراض امورسے توبہ کرلی تھی ۔اب علم ویقین کے بعد جو ان پر الزام عائدکرے ،وہ یقینا غلط ہے اور حکم شرع اس پرعائد ہوگا ۔

امام اہل سنت نے اشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی پر علمائے حرمین طیبین کے اتفاق واجماع کا ذکر کرتے ہوئے علامہ عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمہ کو تحریر فرما یا

۔(الف)’’کفر وہابیہ دیوبندیہ پر علمائے کرام حرمین شریفین (جن کی تحقیق آپ کے یہاں کی تحقیق سے عام مسلمین کے نزدیک ارجح واعلیٰ ہے)اجماع فرماچکے، اورمیرے یہاں کے کتب ورسائل مثل تمہید ایمان وحسام الحرمین ووقعات السنان وادخال السنان والموت الاحمر وکشف ضلال دیوبند شرح الاستمداد وغیرہا نے بحمدہ تعالیٰ کوئی دقیقہ اظہار حق کا اٹھا نہ رکھا ۔

مرتدین کو کچھ بناتے نہ بنی ، خود اپنے کفروں کی تاویل میں جو حرکت مذبوحی کی ،انہیں کے منہ پر پڑی ،اورآج تک جواب نہ دے سکے

اس کے بعد بھی آفتاب کو چراغ دکھانے کی کچھ حاجت رہی ؟ بفرض باطل اگر آپ ان کے کلام میں کوئی تاویل تراش سکیں تو ان مرتدین کوکیا نفع اور ان کا کفر کیوںکر دفع ،کہ ان کی یہ مراد ہوتی تو برسوں پہلے اگل نہ دیتے ۔ضرور ان کی مراد معنی کفرہی تھے، اوروہ کافر ۔درمختار میں ہے:(ثم لونیتہ ذلک فمسلم والا لم ینفعہ حمل المفتی علٰی خلافہ)۔

(الطاری الداری ص 83-حسنی پریس بریلی )

۔(ب)’’تقویۃ الایمان وصراط مستقیم ویک روزی کا مصنف اسماعیل دہلوی ہے۔اس پر صدہا وجوہ سے لزوم کفر ہے۔دیکھوسبحان السبوح وکوکبہ شہابیہ ومتن وشرح الاستمداد ،اور تحذیر الناس ،نانوتوی وبراہین قاطعہ، گنگوہی ، وخفض الایمان، تھانوی میں قطعی یقینی اللہ ورسول کو گالیاں ہیں،اور ان کے مصنفین مرتدین

ان کی نسبت علماے کرام حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا ہے ۔’’من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ‘‘ ۔جوان کے کفر میں شک کرے ،وہ بھی کافر ہے۔دیکھو کتاب مستطاب حسام الحرمین :واللہ اعلم‘‘۔

(فتاویٰ رضویہ جلدنہم :حصہ دوم:ص314-رضا اکیڈمی ممبئ )

توضیح :منقولہ بالا دونوں عبارتوں میں فرقہ دیوبندیہ کے عناصر اربعہ کے کفر پرعلمائے حرمین طیبین کے اتفاق کا ذکر ہے۔اب رہا یہ سوال کہ علمائے حر مین طیبین کا کفر پر اتفاق تمام علمائے اسلام کا اتفاق تسلیم کیا جائے گا ،یا نہیں ؟ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی تفصیلی بحث مابعدکی قسطوں میں آئے گی ۔

تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر : ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر : افکار رضا
www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کےلیے تحقیقی ہے ؟۔ تمام قسطوں کو پڑھیں

قسط اول

قسط دوم

قسط سوم

قسط چہارم

قسط پنجم

قسط ششم

قسط ہفتم

قسط ہشتم

قسط نہم 

قسط دہم

قسط یازدہم

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن