تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط سیزدہم گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے دیئے گیے ہیں ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط سیزدہم
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کفرکلامی پراجماع کا مفہوم
کسی کی تکفیر کلامی پر اجماع کے بعد اس کو مومن مانناکفر کلامی ہے ۔ اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔تکفیر پر اجماع اسی وقت ہو گا ،جب کفر کلامی ہو،کیوں کہ کفر فقہی میں متکلمین کالفظی اختلاف ہے۔متکلمین کفر فقہی کوضلالت وگمرہی کہتے ہیں ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی پر کفر کلامی کا صحیح حکم عائد ہوتو اس کو مومن ما ننا کفر ہے ۔
جب اس تکفیر کلامی پر علماے کرام کا ظاہری اتفاق بھی ہوجائے تو یہ حکم مزید مؤکد ہوجاتا ہے،جیسے پہلے اس کافر کلامی کو مومن ماننا کفر تھا، اسی طرح علما کے ظاہری اتفاق کے بعد بھی اس کافر کلامی کومومن ماننا کفر ہے۔
اگر علماے اسلام کااپنی زبان وقلم سے ظاہری اتفاق نہ بھی ہوتو بھی ہر عالم وعامی کو کفر کلامی کا صحیح فتویٰ ماننا اور ملزم کو کافر کلامی ماننا فرض ہے۔ اس کی تکفیرکلامی کے علم قطعی کے بعد جوبھی ملزم کو مومن کہے ،وہ کافرہے ،خواہ وہ عالم ہویاکوئی عام مسلما ن ہو۔
علماے کرام کے اتفاق سے حکم کے مؤکد ہوجانے کا ذکر درج ذیل ہے۔
قال القاضی:(وَقَدْ اَحْرَقَ علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ مَنْ اِدَّعٰی لَہُ الْاِلٰہِیَّۃَ-وقد قتل عبد الملک بن مروان الحارث المتنبی وَصَلَبَہ -وَفَعَلَ ذلکَ غیر واحدٍ من الخلفاء والملوک باشباہہم-وَاَجْمَعَ علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم-وَالمُخَالِفُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ کُفْرِہِمْ کَافِرٌ)۔
(کتاب الشفاء جلددوم :ص297)
قال الخفاجی:((واجمع علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم)ای تصویبہ اَوْ ہو من اضافۃ الصفۃ للموصوف-وذلک لکذبہم عَلَی اللّٰہ بِاَنَّہ نَبَّأہُمْ وتکذیب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی ا نہ خاتم الرسل وَاَنَّہ لَا نبی بعدہ(و)اَجْمَعُوْا اَیْضًا عَلٰی(اَنَّ الْمُخَالِفَ فِیْ ذٰ لِکَ)اَیْ تَکْفِیْرِہِمْ بِمَا إدَّعُوْہُ(مِنْ کُفْرِہِمْ)ہومفعول المخالفِ اَیْ مَنْ خَالَفَ مَذْہَبَہُمْ فی تکفیرہم فَقَالَ:لَا یُکَفَّرُوْنَ(کَافِرٌ)لانہ رضی بِکُفْرِہِمْ وَتَکْذِیْبِہِمْ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہ)۔
(نسیم الریاض جلدچہارم:ص536-دارالکتاب العربی بیروت)
قال الملا علی القاری:((والمخالف فی ذلک)الفعل(مِنْ کُفْرِہِم)اَیْ مِنْ جہتہ (کَافِرٌ) لِجَحْدِہ کُفْرَہُمْ)۔
(شرح الشفاء للقاری جلدچہارم: ص536-دارالکتاب العربی بیروت)
قال المحشی علی محمد البجاوی المصری:(من خالف مکفرہم فی تکفیرہم، فقال:لا یکفرون،ہذا المخالف کافر،لانہ رضی بکفرہم وتکذیبہم للّٰہ ورسولہ)۔
(حاشیۃ الشفا: ص1091-دارالکتاب العربی بیروت)
سوال :قاضی عیاض مالکی اورعلامہ خفاجی حنفی نے فرمایا کہ کسی کی تکفیرکلامی پر اجماع ہوجانے کے بعد اس ملزم کو مومن ماننے والا کافر ہے ۔ یہاں کون سی بات پر اجماع مراد ہے؟اس کی تکفیر پر اجماع مراد ہے ،یا اس ملزم سے صادر ہونے والے قول وفعل کے کفریہ ہونے پر اجماع مراد ہے ؟
جواب :منقولہ بالا عبارتوں میں کسی ملزم کی تکفیر پر اجماع کا ذکر ہے۔سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہاںکسی کافر کی تکفیراوراس کی تصویب یعنی اس تکفیرکے صحیح ہونے پر علماے وقت کے اجماع کاذکرہے ۔ یہاں کسی قول وفعل کے کفریہ ہونے پر اجماع کا ذکر نہیں
یہاں دوامر ہیں
۔(1) کسی قول وفعل کا بالاجماع کفر ہونا
۔(2) کسی قائل یا فاعل کے کفر پراجماع ہونا۔
مذکورہ بالاعبارت میں امرثانی کا بیان ہے۔ کفر کلامی کا فتویٰ جاری کرنے کا حق علماے متکلمین کو ہے ۔ خالص فقہاجو علم کلام کے اصول وضوابط اور دقائق وحقائق سے کماحقہ واقف نہ ہوں،انہیں یہ حق نہیں ۔
علمائے متکلمین کے علاوہ دیگر مومنین کا منصب سائل کا ہو گا ۔
ارشاد الٰہی ہے:} فسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون{(سورہ انبیا:آیت ۷)
یہ بھی ممکن ہے کہ بعض مومنین کو فتویٰ کی باریکیاں نہ سمجھ میں آئیں توعدم فہم کی صورت میں بھی کفر کلامی کا صحیح فتویٰ ماننا لازم ہوگا ،جیسے کسی کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل نہ بھی سمجھ میں آئے توبھی اللہ تعالی کو ایک ماننا لازم ہے۔
یہ ممکن ہے کہ بدیہی بات بھی کسی سبب سے کسی کو سمجھ میں نہ آئے ۔دقیق مسائل ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آسکتے ، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے تقدیرکے مسائل میں زیادہ غور وفکر سے منع فرمایا ہے۔
کفر اجماعی کا مفہوم
قاضی عیاض مالکی (476ھ-544ھ)کی مذکورہ بالاتحریراورعلامہ شہاب الدین خفاجی حنفی (977ھ – 1069ھ ) وملاعلی قاری حنفی (930ھ – 1014ھ)کی تشریح سے واضح ہوگیا کہ اگر کسی عہد میں کسی کے کفر پر اجماع ہوجائے توبعد والوں کو اختلاف کا حق حاصل نہیں۔
کفر فقہی کو کفر اختلافی کہا جاتا ہے ،کیوں کہ علماےمتکلمین اس کوکفر کا نام دینے پر متفق نہیں ہوتے،بلکہ اسے ضلالت وگمرہی کا نام دیتے ہیں ۔
کفر کلامی کوکفر اجماعی ا کہا جاتا ہے ۔ اس امر (قول یا فعل) کے کفر ہونے پراجماع امت ہوتا ہے،،لہٰذا اتفاق کفر کلامی ہی پر ہوسکتا ہے۔
کفرکلامی میں جہات محتملہ( کلام ، متکلم و تکلم ) قطعی بالمعنی الاخص ہوتی ہیں ،اس لیے اس میں اختلاف نہیں ہوتا،کیوں کہ قطعی بالمعنی الاخص میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔
تکفیرکلامی کی شرط ہے کہ(1) کلام کا کفریہ ہونا قطعی بالمعنی الاخص ہو(2)قائل کی جانب کلام کی نسبت قطعی بالمعنی الاخص ہو (3) متکلم سے کلام کے معانی کی فہم کے ساتھ قصداً بلا جبر و اکراہ بحالت ہوش وحواس اس تکلم کاصادرہونا قطعی بالمعنی الاخص ہو۔
اجماع شرعی کا مفہوم
اجماع شرعی(اجماع فقہی)کاانعقاداسی وقت ہوگا،جب کسی امرپراس عہدکے تمام مجتہدین صالحین کا اتفاق ہوجائے، کیوں کہ مجتہدین کی تعداد ہمیشہ انتہائی قلیل رہی ،حتی کہ قریباً ایک لاکھ چو بیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت عظمیٰ میں صرف بیس صحابہ کرام مجتہدشمار ہوتے ہیں ۔
مذہب اسلام میں امام احمد بن حنبل (164ھ-241ھ)کے بعد کسی کے مجتہد ہونے پر علمائے اسلام کا اتفاق نہیں ہوسکا ۔
قلت تعدادکے سبب ایک عہدکے فقہائے مجتہدین کاایک جگہ جمع ہونا ،یا ان تمام کی رائے معلو م کرنا مشکل نہیں ۔ اس کے باوجود دوصدی بعد اس اجماع کا ادراک بھی مشکل ہوگیا۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:’’اجماع شرعی جس میں اتفاق ائمہ مجتہد ین پر نظر تھی ،علما نے تصریح فرمائی کہ بوجہ شیوع وانتشار علما فی البلاد دوصدی بعد اس کے ادراک کی کوئی راہ نہ رہی ‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ ج19ص594:جامعہ نظامیہ لاہور)
اجماع اہل حل وعقد کا مفہوم
حضرات خلفاے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت کو اجماعی تسلیم کیا گیا ہے،اور ارباب حل و عقد کا اجماع کافی سمجھا گیا ،یعنی مدینہ منورہ میں موجودحضرات صحابہ انصار ومہاجرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اتفاق تمام امت مسلمہ کااتفاق تسلیم کیا گیا ، کیوں کہ تمام مسلمانان عالم کا مدینہ طیبہ حاضر ہونا مشکل امرتھا ، اسی طرح ہرایک کی رائے معلوم کرنابھی مشکل امرتھا ۔کتب عقائد میں حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت کے اجماعی ہونے کے دلائل مرقوم ہیں۔
اگر کسی مانع کے سبب بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ابتدائی مرحلہ میں بیعت نہ کی توبعد میں بیعت کی،اوراگر بعد میں بھی بیعت نہ کی تو بھی اس خلافت کو تسلیم کیا ،جیسے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی عذر کے سبب ایک مدت بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی ، اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت نہ کی,لیکن خلافت مرتضوی کو تسلیم فرمایا۔
ارباب حل وعقد کا اتفاق تمام مومنین کا اتفاق تسلیم کیا گیا۔اسی اتفاق کے سبب حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت مرتضوی کوتسلیم کیا،ان کا اختلاف قصاص عثمانی سے متعلق تھا ۔خلافت مرتضوی سے متعلق کوئی اختلاف نہ تھا ۔
اگر خلافت مرتضوی سے متعلق اختلاف ہوتا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصاص کا مطالبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں فرماتے ۔
جب کسی کو آپ خلیفہ مان لیں گے ،تب آپ کو ان سے کسی مطالبہ کاحق حاصل ہوگا،لہٰذا قصاص کا مطالہ ہی ثابت کرتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت مرتضوی کوتسلیم کرلیا تھا ۔
کافرکلامی کی تکفیرپراجماع
خلافت پر اجماع کی طرح کفر کلامی میں بھی ارباب حل وعقد علمائے متکلمین کا اتفاق کافی ہوگا،کیوں کہ علماے متکلمین کی تعداد فقہائے مجتہدین کی طرح بہت کم نہیں۔ ان تمام کا یکجا ہونا بھی مشکل ،اوران تمام کی رائے معلوم کرنابھی ایک مشکل امر ہے، نیز کفر کلامی کا ایک ہی قانون ہے کہ جہات محتملہ یعنی کلام ، متکلم اورتکلم قطعی بالمعنی الاخص ہوجائے ،یعنی کسی جہت میں نہ احتمال بالدلیل باقی ہو،نہ ہی احتمال بلا دلیل
اب ہر جہت قطعی بالمعنی الاخص ہوگئی تواس تکفیرمیں کسی کے اختلاف کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔
کفرکلامی میں اپنی زبان وقلم سے ظاہری اتفاق کا مفہوم صرف یہ ہوگا کہ اختلاف کا وہم بھی دور ہو جائے ، یامفتی کی خطا کا وہم بھی دور ہوجائے،کیوں کہ امکان عقلی موجود ہے کہ مفتی نے کسی جہت کو قطعی بالمعنی الاخص یقین کرلیا اوروہ جہت نفس الامرمیں قطعی بالمعنی الاخص نہ تھی۔
فقہاے مجتہدین کے مسائل اجتہادیہ میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہرمجتہدکے اصول اجتہاد اورقواعد استنباط جداگانہ ہوتے ہیں ، اور ہر مجتہد کے قواعد وضوابط دلائل شرعیہ سے ماخوذ و مستنبط ہوتے ہیں۔
اصول اجتہاد کے اختلاف کے سبب مسائل اجتہادیہ میں اختلاف واقع ہوتا ہے۔
تکفیر کلامی میں قانون ایک ہی ہے ،اس لیے قانونی طورپر اختلاف کی گنجا ئش نہیں ۔
کفرکلامی کے صحیح فتویٰ میں اختلاف کی گنجائش نہیں،پھر جب اس عہد کے اکابر علمائے متکلمین نے اس کی تفتیش وتحقیق کے بعد تائید وتصدیق بھی کردی ہوتو اب مفتی کی خطا کا وہم بھی زائل ہوگیا ،اب اس فتویٰ کفر سے اختلاف کی اجازت نہیں ہوگی۔یہ مسئلہ اجتہادی نہیں کہ کوئی مجتہد اپنے اصول اجتہادکے سبب اختلاف کر سکے۔
تکفیر کلامی کا ایک متعین قانون اور متعین شرائط ہیں ۔جب شرائط متحقق ہوگئے تو ملزم پرحکم کفر عائد ہوگا ۔
علماے حرمین طیبین کی خاص حیثیت
حرمین طیبین میں سلطنت عثمانیہ کی جانب سے مذاہب اربعہ کے مفتیان کرام مقررہوتے ۔ ان کے علاوہ بھی مذاہب اربعہ کے علما وفقہا وہاں قیام پذیر رہتے ۔وہ فقہ وافتا میں ارباب حل وعقد کی منزل میں شمار کیے جاتے۔سلطنت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول تھا ، لیکن حرمین طیبین میں مفتیان مذاہب اربعہ کو مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حج وزیارت وعمرہ وغیرہ کے لیے مسلمانان عالم کی آمد ورفت حرمین طیبین میں جاری رہتی ۔ملک ہند کے متعدد اہم فتاویٰ علماے حرمین طیبین کی خدمت میں تصدیق وتحقیق کے لیے پیش کیے گئے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں
۔(1)اسماعیل دہلوی سے متعلق علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیزکا فتویٰ کفر
۔(2)علامہ غلام دستگیر قصوری کا رسالہ ’’تصدیق الوکیل عن توہین الرشید والخلیل”۔
۔(3)رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ متعلقہ خلف وعید(اس کاذکر تصدیق الوکیل میں ہے)۔
۔(4)فتاویٰ متعلقہ ندوۃ العلما(فتاوی الحرمین برجف ندو ۃ المین)۔
۔(5)استفتا متعلقہ اشخاص خمسہ (حسام الحرمین علیٰ منحر الکفر والمین)۔
۔(6)المہند علی المفند( خلیل انبیٹھوی کا رسالہ)۔
ان حقائق سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سنی ودیوبندی ہر دوطبقہ کے یہاں علمائے حرمین طیبین باب فقہ وافتا میں ارباب حل وعقدکی منزل میں تھے۔علماے حرمین طیبین نے امام اہل سنت قدس سرہ القوی کے استفتا کا جواب تحقیق وتدقیق کے بعد دیا ہے۔
ملک العلماحضرت علامہ سیدظفرالدین محدث بہاری (1880-1962)نے تصدیقات علمائے حرمین طیبین کا مفصل ذکر امام اہل سنت کی زبانی تحریر فرمایاہے۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا :’’ مکہ معظمہ کی طرح زیادہ اہم حسام الحرمین کی تصدیقات تھیں،جو بحمد اللہ تعالیٰ بہت خیر وخوبی کے ساتھ ہوئیں۔زیادہ زمانہ قیام انہیں میں گزر گیا کہ ہر صاحب پوری کتاب مع تقریظات مکہ معظمہ دیکھتے ،اور کئی کئی روز میں تقریظ لکھ کر دیتے‘‘۔
(حیات اعلیٰ حضرت جلد اول: ص451)
امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے حج کے بعدماہ ذی الحجہ1323مطابق ماہ فروری 1906 میں علمائے مکہ معظمہ سے تصدیقات حاصل کرنی شروع کیں ، پھر وہاں سے24 :صفرالمظفر1324مطابق ماہ اپریل 1906 کو مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔
وہاں 21: دن قیام پذیر رہے ۔ اخیرربیع الاول 1324 مطابق مئی 1906 میں اپنے وطن کے لیے روانہ ہوئے۔
مکہ معظمہ کے 20 : اکابر علماے کرام اور مدینہ منورہ کے 13 : اعاظم علماے کرام نے تصدیق کی ۔ان میں حرمین طیبین کے مذاہب اربعہ کے مفتیان کرام اور دیگر علما وفقہا بھی شامل ہیں۔
امام اہل سنت نے فتاویٰ رضویہ اور دیگر کتب ورسائل میں جابجا تحریر فرمایاہے کہ علماے حرمین طیبین نے ان لوگوں پر کفر کا فتویٰ دیا ، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اس فتویٰ پر ارباب حل وعقدکے اتفاق کی جانب اشارہ فرمارہے ہیں۔
الوہیت مرتضوی کے دعویداروں کو حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلادیاتھا۔آج ان مدعیان الوہیت کو جو مومن سمجھے ،وہ یقیناکافرہے۔ ’’من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ‘ ‘ کامفہوم یہی ہے۔
بعض لوگ قادیانی کوکافر مانتے ہیں ،لیکن اشخاص اربعہ کو کافر نہیں مانتے،جب کہ پانچوں کافر کلامی ہیں ۔ پانچوں افراد سے متعلق فتویٰ کفرایک ہی جگہ حسام الحرمین میں جاری ہوا۔
قادیانی کے بارے میں دیابنہ بھی کہتے ہیں کہ جواس کے کفر میں شک کرے ،وہ کافر ہے۔حالاں کہ دفع کفر کے لیے جس طرح دیابنہ تاویلات کرتے ہیں ،اسی طرح قادیانی فرقہ بھی تاویل کرتا ہے۔اگر قادیانی کی تاویل دیوبندیوں کے یہاں ناقابل قبول ہے تواسی طرح خود دیوبندیوں کی تاویل کیوں ناقابل قبول نہیں ہوگی ؟
اشخاص اربعہ اور قادیانی کی تکفیر کلامی پر اجماع
تکفیراشخاص اربعہ کے مسئلہ میں اگر عالمی سطح پر ارباب حل وعقد کا اجماع درکار ہے تو’’ حسام الحرمین‘‘ میں حرمین طیبین کے علماو فقہا کی تصدیقات موجودہیں۔علمائے حرمین طیبین کا اتفاق، ارباب حل وعقدکے اجماع کی منزل میں ہے
اور تمام علما کے اجماع کے قائم مقام ہے،جیسے مدینہ منورہ میں موجود حضرات صحابہ انصارومہاجرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا خلفائے راشد ین کی خلافت پر اجماع، تمام امت مسلمہ کے اجماع کے قائم مقام ہے ، وہی صورت حال خلافت عثمانیہ ترکیہ کے عہد میں حرمین طیبین کے مفتیان مذاہب اربعہ وفقہا ئے حرمین طیبین کی تھی،یعنی علمائے حرمین شریفین کا اجماع ،تمام علماکا اجماع تسلیم کیا جائے گا ۔
اگراشخاص اربعہ کی تکفیرکلامی پر ملکی پیمانے پر ارباب حل وعقد کے اجماع کی ضرورت ہے تو ’’الصوارم الہندیہ‘‘موجودہے۔اس میں برصغیر کے علمائے کرام کی تصدیقات منقول ومرقوم ہیں۔یہ علماے کرام برصغیر کے ارباب حل وعقد اور اکابر علمائے اسلام تھے۔
مرقومہ بالاتشریح کے تناظرمیں اشخاص اربعہ کے مسئلہ تکفیر پر بحث ومباحثہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے،کیوں کہ اجماع کے بعد قیل و قال کی اجازت نہیں ہوتی ۔اجماع فقہی کا بھی یہی حکم ہے ۔
دیابنہ اگر حق کی طرف آنا چاہیں تو اپنے اکابرین سے قطع تعلق کرکے تمام احکام اسلا می کو قبول کرلیں۔ اب یقینا اشخاص اربعہ کے رجوع کا معاملہ لا ینحل ہو چکا ہے،کیوں کہ بعد موت توبہ کی گنجائش نہیں۔
اسماعیل دہلوی پر علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیز نے کفر فقہی کا فتویٰ دیا تھا۔
امام احمدرضا قادری اس کے کفرفقہی کوتسلیم کرتے ہیں ، اور بحکم فقہا اسے کافر مانتے ہیں ۔ مذہب متکلمین کے اعتبار سے وہ کافر نہیں ،اسی لیے امام احمد رضا،دہلوی کو کافر کلامی نہیں کہتے ۔ علامہ خیرآبادی نے بھی کفر کلامی کا فتویٰ نہیں دیا تھا ۔اس کی تفصیلی بحث ’’البرکات النبویۃ فی الاحکام الشرعیہ ‘‘رسالہ دہم میں ہے۔
اب ایسی صورت میں علامہ فضل حق خیرآبادی اور امام احمدرضاقادری کے مابین کسی قسم کا اختلاف ہی نہیں ، یہاں دونوں عالموں کے مابین اختلاف بتانا صحیح نہیں۔
متکلمین ایسے کافر فقہی کوگمراہ کہتے ہیں،پس یہاں فقہا ومتکلمین کا محض لفظی اختلاف ہوتا ہے ،حقیقی اختلاف نہیں۔
کافر فقہی کومتکلمین گمراہ کہتے ہیں۔وہ صرف کافر کلامی کو کافر کہتے ہیں اور فقہا کافرفقہی اور کافر کلامی دونوں کوکافر کہتے ہیں ،لیکن دونوں کا حکم الگ بیان کرتے ہیں اور اس جدا گانہ حکم پر فقہا ومتکلمین کا اتفاق ہے
مثلاً کافر فقہی کے نکاح میں نقص آجائے گا اور اسے تجدید نکاح کرنا ہوگا اور کافر کلامی کا نکاح بالکل ٹوٹ جائے گا ۔عورت چاہے تو دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس حکم کو فقہا ومتکلمین دونوں تسلیم کرتے ہیں ،صرف کافر فقہی کو کافر کہنے میں اختلاف ہے۔ فقہا اسے کافر فقہی کہتے ہیں اور متکلمین اسے گمراہ کہتے ہیں ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان مسئلہ تکفیر میں مذہب متکلمین پرتھے ،اس لیے آپ نے اسماعیل دہلوی کوگمراہ کہا ۔اسماعیل دہلوی کے بارے میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیزنے فرمایا کہ جو دہلوی کی گمرہی میں شک کرے ، وہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔
’’اگر اس کی ضلالت وگمرہی پر آگاہی ہوکر اسے اہل حق جانتا ہوتو خود اسی کی مثل گمراہ وبددین ہے‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ جلدسوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)
توضیح : علامہ فضل حق خیرآبادی نے اسماعیل دہلوی کے بارے میں فرمایا :من شک فی کفرہ فقد کفر ۔
اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو اسماعیل دہلوی کو کافر فقہی نہ مانے ،وہ اسی کی طرح کافر فقہی ہے۔
اسی مفہوم کو متکلمین اس طرح بیان کریں گے کہ جو دہلوی کو گمراہ نہ مانے ،وہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔
یہ لفظی اختلاف ہے اورمحض تعبیر کا فرق ہے۔اس مقام پر کفر فقہی اور ضلالت دونوں ایک ہی امر ہے۔محض تعبیر میں فرق ہے البرکات :رسالہ دہم میں تفصیل مرقوم ہے۔
جب کفر کلامی کے وقت کہا جائے :’’من شک فی کفرہ فقد کفر‘‘۔تب اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو اس کے کفر کلامی میں شک کرے ،وہ اسی کی طرح کافر کلامی ہے۔
کفر کلامی میں ’’من شک :الخ‘‘کا استعمال عام طورپر ہوتا ہے۔
کفرفقہی قطعی یعنی جب کسی ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاعم انکار ہو،تب اس کا استعمال کبھی کبھی ہوتا ہے ،جیسا کہ علامہ خیرآبادی نے اسی قسم کے کفر فقہی قطعی میں ’’من شک: الخ‘‘کا استعمال فرمایا ۔
کفرفقہی ظنی میں اس کا استعمال وارد نہیں ۔
ضلالت وگمرہی میں ایسی اصطلاح رائج نہیں کہ :من شک فی ضلالتہ فقد ضل ‘‘۔لیکن حکم یہی ہے کہ جو گمراہ کی گمرہی میں شک کرے ،وہ بھی گمراہ ہے، جیسا کہ یہی حکم امام احمدرضا قادری نے دہلوی سے متعلق بیان فرمایا۔
یہاں گمرہی سے وہ گمرہی مراد ہے جو فریقین یعنی فقہا و متکلمین دونوں کے یہاں گمرہی ہو,ورنہ بعض فقہا بعض ایسے امور کو بھی ضلالت کہتے ہیں جو متکلمین کے یہاں حرام و ناجائز ہیںجیسے مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع کا انکار۔بعض فقہا اس کو ضلالت و گمرہی قرار دیتے ہیں اور دیگر فقہا و متکلمین کے یہاں یہ حرام ہے۔
تحریر:طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
www.afkareraza.com
مسئلہ تکفیر کس کےلیے تحقیقی ہے ؟۔ تمام قسطوں کو پڑھیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع