تحریر: سید محمد اکرام الحق قادری مصباحی عفی عنہ خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں ( قسط اول) کیا تمام صحابہ عادل و مخلص نہ تھے کی دوسری سیریز( سیریز اول کے تمام مضامین کے لنک نیچے دئیے گیے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
خلفاے ثلثہ اہل تشیع کی نظر میں
گزشتہ صفحات میں عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی عدالت، ثقاہت اور شانِ اِخلاص و للہیت کو نا قابلِ اِنکار دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے واضح کیا گیا اور مخالفین کی معتبر و مستنَد کُتُب سے بھی ثابت کیا گیا کہ حضور جانِ عالَم ﷺ کے تربیت یافتہ تمام صحابۂ کرام دینِ متین کے بے لوث خادم تھے
اُنھوں نے اسلام کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اِعلاے کلمۃ الحق کے لیے جہاد کیا ؛ بلکہ ناموسِ توحید ورسالت اور عقائدِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے اپنی
عز ت و آبرو اورجان و مال سب کچھ راہِ خدا میں قربان کر دیا ۔نیز براہینِ قاطعہ سے بعض اہلِ تشیع کے اِس خبیث عقیدے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد دو چار صحابہ کو چھوڑ کر سبھی مسلمان مرتد ہو کرزمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹ گئے تھے کے بخیے بھی اُدھیڑے گیے ۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک ۔
یہ بھی واضح رہےکہ یہ عقیدہ تمام رافضیوں کا نہیں ہے ؛بلکہ بعض مخصوص قسم کے سڑے ہوئے انتہائی بد بو دار رافضی ایساعقیدۂ خبیثہ رکھتے ہیں ،جسے بعض نہایت جاہل اور غالی قسم کے رافضی مولویوں نے اپنی اپنی کتابوں میں خوب مرچ مسالہ لگا کر لکھا ہے ۔
چوں کہ یہ عقیدہ اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے والا اور بلا واسطہ حضور ﷺ کی ناموس اور آپ کی تعلیم و تربیت پر حملہ کرنے والا ہے؛ اس لیے اکثر روافض اِسے علی الاعلان بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ؛ بلکہ تقیہ کرکے اِس سے براءت کا اعلان و اظہار بھی کرتے ہیں ، مگر میری معلومات کی حد تک اب تک کسی رافضی میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ ایسی باتیں لکھنے والے اپنے مولویوں کی تردید کرے یا اُن کی کتابوں سے ایسی منگھڑت عبارتیں نکالنے کی کوشش کرے۔
اب اُن کا وہ عقیدہ بیان کیا جا رہا ہےجس کے تعفن [بدبو]سے شاید ہی کوئی رافضی محفوظ ہو ؛ بلکہ یہ اُن کے اُن عقائد میں سے ہے جن پر اُن ظالموں کے باطل و مردود مذہب کی بنیاد قائم ہے ۔
اہلِ رفض کا دوسرا عقیدہ
تقریباً سبھی رافضی اِس بات کے قائل ہیں کہ حضرتِ علی شیرِ خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کے خلیفۂ بلا فصل ہیں ۔ آپ سے پہلے کے تینوں خلفا ،[حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اعظم ، حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین] حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا حقِّ خلافت غصب کرنے کے سبب ظالم ہیں ،نہ ہی اُن کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اُن کے لیے کسی قسم کی کوئی فضیلت ثابت ہے ۔
اِسی لیے رافضی ذاکرین خلفاے ثلاثہ کی شان میں بد زبانی کرتے رہتے ہیں ، عوامی جلسوں میں تو صرف تبرا پر اکتفا کرتے ہیں ؛ مگر مخصوص محفلوں میں اور اپنی کتابوں میں اُنھیں منہ بھر بھر کر گالیاں دیتے ہیں، اُنھیں فاسق و فاجر اور کافر و بے دین اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں ۔
رافضیوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے اور اُن کے گُن گانے والےسجادہ نشینوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے،ذَیل میں اُن کی گستاخیوں کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں۔
اِن کا خبیث النفس مولوی ’’ملا باقر مجلسی ‘‘ اپنی بد نامِ زمانہ عقائد کی کتاب ’’حق الیقین‘‘ میں لکھتا ہے
۔[۱]’’و از حضرتِ امام جعفر علیہ السلام منقول است کہ جہنم را ہفت در است ۔ از یک در فرعون و ہامان و قارون کہ کنایہ از ابو بکر و عمر وعثمان است داخل می شوند و از یک در دیگر بنو امیہ داخل شوند کہ مخصوص ایشاں است ‘‘۔[حق الیقین ،ص۵۰۰:۔بحوالہ شرحِ مسلم ،ج۶:،ص۱۲۲۹:]۔
ترجمہ :حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ۔ ایک دروازے سے فرعون ، ہامان اور قارون داخل ہوں گے ۔اِن تینوں سے مراد ’’ابو بکر ، عمر اور عثمان‘‘ ہیں ۔اور دوسرے دروازے سے بنو امیہ داخل ہوں گے جو کہ انھی کے ساتھ مخصوص ہے ۔
۔[۲]’’و اعتقادِ ما در براءت آں است کہ بیزاری جو یند از بت ہاے چہار گانہ ،یعنی ابو بکر و عمر و عثمان و معاویہ و زنانِ چہار گانہ یعنی عایشہ ، حفصہ و ہند و ام الحکم و از جمیع اشیاع و اتباعِ ایشاں و آں کہ ایشاں بد ترین خلقِ خدا اند و آں کہ تمام نمی شود اقرار بخدا و رسول و ائمہ مگر بے زاری از دشمنانِ ایشاں ‘‘۔[حق الیقین ،ص۵۱۹:۔بحوالہ شرح مسلم ،ج۶:،ص۱۲۲۹:]۔
ترجمہ:براءت میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہم اِن چاروں بتوں سے بیزاری طلب کرتے ہیں ،یعنی ابو بکر ، عمر ، عثمان اور معاویہ سے ۔اور ہم چاروں عورتوں سے بھی بیزاری ظاہر کرتے ہیں ، یعنی عائشہ ، حفصہ ، ہند اور ام الحکم سے ۔نیز ہم اِن سے اعتقاد رکھنے والوں اور اِن کی پیروی کرنے والوں سے بھی اپنی براءت کا اعلان کرتے ہیں ۔
یہ لوگ اللہ کی مخلوق میں سب سے بد تر ہیں ۔اللہ و رسول اور ائمہ سے کیا ہوا عہد اُس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک کہ اِن کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان نہ کیا جائے ۔
یہی باقر مجلسی چند سطروں کے بعد لکھتا ہے
۔ [۳]’’در تقریب المعارف روایت کردہ کہ آزاد کردۂ حضرت علی بن حسین علیہ السلام از آں حضرت پرسید کہ مرا بر تو حقِّ خدمتی ہست ، مرا خبر دہ از حالِ ابو بکر و عمر ۔ حضرت فرمود ہر دو کافر بودند و ہر کہ ایشاں را دوست دارد کافر است ‘‘[حق الیقین ، ص ۵۲۲:۔بحوالہ شرح مسلم ، ج۶:،ص۱۲۲۹:]۔
ترجمہ :تقریب المعارف میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت علی بن حسین علیہ السلام سے اُن کے آزاد کردہ غلام نے پوچھا :میں نے آپ کی خدمت کی ہے ؛ لہذا میرا آپ پر یہ حق بنتا ہے کہ آپ مجھے ابو بکر و عمر کے بارے میں بتائیں !آپ نے جواب دیا کہ یہ دونوں کافر ہیں اور جو بھی اِنھیں دوست رکھے وہ بھی کافر ہے ۔
آپ یقین مانیے کہ دل پر پتھر رکھ کر انتہائی کرب کے عالم میں اِن تینوں عبارتوں کو نقل کیا گیا ہے ۔ صد ہزار بار افسوس ! کہ انسان بغض و حسد میں اِس قدر اندھا ہو جاتا ہے کہ اُسے دن کے واضح اُجالے میں بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا اور صاف لفظوں میں آفتابِ نصف النہار کا انکار کر بیٹھتا ہے ۔
جو نفوسِ قدسیہ سالہا سال تک آقاے دو جہاں ﷺ کی صحبتِ با فیض میں رہیں ، جن کی تربیت خود سرکارِ دو عالَم ﷺ نے فرمائی ، جن کی عظمت وشان میں قرآنِ مجید کی آیتیں نازل ہوئیں ، جن کے فضائل و مناقب بارہا خود حضور ﷺ نے بیان فرمائے
جن کے بے مثال کارناموں نے چار دانگِ عالَم میں دھوم مچا دی اور جن کی بے لوث قربانیوں سے خوش ہو کر حضور ﷺ نے ایک[ یعنی حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ] کے نکاح میں اپنی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں عطا فرمائیں اور دُو کی[یعنی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہما کی] بیٹیوں کو شرفِ زوجیت سے مشرف فرمایا ۔
غور فرمائیں ! کہ کتنے بد بخت ہیں وہ لوگ جو رِوایتیں گڑھ کر،ایسی پاک باز ہستیوں کو ’’دوزخی،کافراور خدا کی بد ترین مخلوق‘‘ کہہ رہے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ اُن کے نزدیک وہ لوگ بھی کافر ہیں جو اِن حضرات سے حسنِ اعتقاد رکھیں یا اِنھیں مسلمان جانیں ۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
اتنا سب کچھ بکنے کے بعد بھی’’حق الیقین‘‘ کے مؤلف کے کلیجے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی ؛ لہذا اپنی دریدہ
دہنی،شقاوتِ قلبی ، خبثِ باطنی اور حضراتِ شیخینِ کریمین رضی اللہ عنہما سے اپنی عداوت کا اظہار کرتے ہوئے مزید بکواس کرتا ہے
’’وہر دو را از قبر بیروں آوردند پس ہر دو را با بدنِ تازہ بدر آورد بہماں صورت کہ داشتہ اند، پس بفرماید کہ کفن ہا را ایشاں بدر آوردند و بکشایند و ایشاں را بحلق کشند [الی قولہ] وایشاں را بقدرتِ اِلہی زندہ گرداند و امر فرماید خلائق را کہ جمع شوند پس ہر ظلمے و کفرے کہ از اولِ عالم تا آخر شدہ گناہش را بر ایشاں لازم آورد [الیٰ قولہ] و ایشاں اعتراف کنند؛ زیرا کہ اگر در روزِ اول غصبِ حق ِ خلیفۂ بر حق نمی کردند اینہا نمی شد ۔پس ایشاں رابفرماید کہ از درخت بر کشند و آتشے بفرماید کہ از زمین بیروں آید و ایشاں را بسوزاند با درخت و بادے را امر فرماید کہ خاکستر آنہارا بدریا ہا پاشد‘‘ ۔[حق الیقین ، ص۳۶۱:۔۳۶۲۔بحوالہ شرحِ مسلم ، ج۶:،ص۱۲۳۰:]۔
ترجمہ :امام مہدی ہر دو [ابو بکر و عمر]کو قبر سے باہر نکالیں گے ۔ وہ اپنی اُسی صورت پر ترو تازہ بدن کے ساتھ باہر نکالے جائیں گے ، پھر فرمائیں گے کہ ان کا کفن اتارو ۔
ان کا کفن حلق سے اتارا جائے گا ۔ اُن کو اللہ کی قدرت سے زندہ کریں گے اور تمام مخلوق کو جمع کرنے کا حکم دیں گے ۔پھر ابتداے عالَم سے لے کر اخیر عالَم تک جتنے ظلم اور کفر ہوئے ہیں اُن سب کا گناہ ابو بکر و عمر پر لازم کریں گے اور وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ اگر وہ پہلے دن خلیفۂ بر حق کا حق غصب نہ کرتے تو یہ گناہ نہ ہوتے ۔
پھر اُن کو درخت پر چڑھانے کا حکم دیں گے اور آگ کو حکم دیں گے کہ زمین سے باہر آئے اور اُن کو درخت کے ساتھ جلا دے اور ہوا کو حکم دیں گے کہ اُن کی راکھ کو اڑا کر دریاؤں میں گرا دے ۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی
اِن کا دوسر مولوی ’’ملا باقر تقی عثمانی ‘‘ یہودیوں کی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے لکھتا ہے
’’اے عزیز ! آیا بعد ازیں حدیث کہ ہمہ عامہ روایت کردہ اند عاقل را مجال آں ہست کہ شک نماید در کفرعمرِ ملعون و کفرِکسے کہ عمرِلعین را مسلمان داند ‘‘[حیات القلوب ، ج۴:، ص۶۸۰:۔ بحوالہ شرح مسلم ، ج۶:، ص ۱۲۳۱:]
اللہ ربُّ العزت کی بے شمار لعنت ہو اُن بد بختوں پر جنھوں نے ایسی گستاخانہ عبارتیں گڑھیں اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیں اور اُن پر بھی لا تعداد پھٹ کار برسے، جنھوں نے ایسی من گھڑت روایتوں کو قبول کیا یا برضا و رغبت انھیں نشر کرنے میں کسی قسم کا تعاون کیا ۔
اب اگر اِن گستاخیوں کی جواب میں ہم ،اہلِ سنت کی کُتُب سے حوالے پیش کریں اور حضور ﷺ کےاِن تینوں خلفا کے فضائل و مناقب’’صحاحِ ستہ کی حدیثوں‘‘ کی روشنی میں بیان کریں تو اہلِ تشیع ہرگز ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔اور جن کے دلوں پر کفر کی مہر لگ چکی ہے ، ہم انھیں قبول کروا ،بھی نہیں سکتے
البتہ ہم چاہتے ہیں جو لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اُن کی آنکھیں کھلیں اور دلائل و شواہد کی روشنی میں کھلے دل سے وہ، حضراتِ صحابۂ کرام بالخصوص حضراتِ خلفاے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی عظمتوں کا اعتراف کریں ۔اس لیے اہلِ تشیع کی معتبر و مستند کتابوں سے حضراتِ شیخینِ کریمین اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے فضائل و مناقب بیان کرنا زیادہ مؤثر ثابت ہوگا ؛ کیوں کہ ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہٖ الْاَعْدَآءُ‘‘ حقیقی فضل و کمال تو وہ ہے کہ دشمن بھی جس کی گواہی دینے پر مجبور ہو جائیں ۔
لیکن شیعی کتابوں سے اِن حضرات کی فضیلت بیان کرنے سے پہلے ہم رافضی علما سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ
۔ [۱] اگر بقولِ شما خلفاے ثلاثہ حضرتِ علی کا حقِّ خلافت غصب کرکے کفر و ارتداد کا شکار ہوگئے تھے ،تو یہ بتائیے کہ علَّام الغیوب اللہ رب العزت کو پہلے سے اس کا علم تھا یا نہیں ۔دوسری شِق باطل ہے
کیوں کہ آپ اپنے خالق و مالک کو جاہل کہنے کی جسارت نہیں کر سکتے،ورنہ تمھاری قوم ہی تمھیں مار مار کے بھرتا بنا دے گی۔ اور اگر آپ کہیں کہ یقیناً اُسے علم تھا۔ تو ہم کہیں گے کہ پھر اُس نے اِن تینوں کی تعریف و توصیف میں آیتیں کیوں نازل کیں ، اِن کے ایمان کو معیار کیوں قراردیااور اِنھیں ’’رضی اللہ عنہم و رضو عنہ‘‘ کی بشارت سے کیوں سرفراز فرمایا؟ ۔
اُس نے اِن کی قلعی کیوں نہ کھولی اور صاف طور پر اِن کے کفر و ارتداد کا اعلان کیوں نہ کیا ؟ ہے کوئی جواب ؟ہو تو دیجیے !۔
۔ [۲] اچھا! یہ بتائیے کہ حضور ﷺ کواپنے تینوں خلفا کے کافر و مرتد ہوجانے کا علم تھا یا نہیں ۔ آپ دوسری شِق اختیار نہیں کر سکتے ؛ کیوں کہ ہماری طرح آپ بھی آقاے دو جہاں ﷺ کے علمِ غیب کے اقراری ہیں
لہذاآپ ، حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس کی جانب جہل منسوب کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے ۔آپ کو اعتراف کرنا ہوگا کہ حضور ﷺ جانتے تھے کہ یہ تینوں میرے علی کا حقِّ خلافت غصب کرکے کفر کرنے والے ہیں ۔
اب آپ ہمیں یہ بتائیے کہ حضور ﷺ نے سب کچھ جان کر تینوں حضرات کی تعریف و توصیف کیوں فرمائی ،ہر معاملے میں انھیں پیش پیش کیوں رکھا ،تمام اہم امور میں اُن سے مشورے کیوں لیے، مرضِ وفات میں حضرت علی کے ہوتے ہوئے صدیقِ اکبر کو اپنے مصلیٔ امامت پر کیوں کھڑا کیا ، وہ بھی ایک بار نہیں ؛ بلکہ باربار ۔؟۔
یا تو وہابیوں کی طرح یہ کہیے کہ حضور ﷺ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہ تھا۔یا یہ بکیے کہ حضور ﷺ نے ابو بکر کو امام بنا کر اور عمر و عثمان کی تعریف کرکے بہت برا کہا ۔کہیے ! کیوں نہیں کہتے !زبان خاموش کیوں ہے ؟۔
تم نے لکھا کہ ’’جو ابو بکر و عمر سے محبت کرے وہ کافر ہے ‘‘ ۔تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ خود آقاے دو عالَم ؛بلکہ خود مولا علی نے اُن سے محبت کی ہے ۔ہے جرأت کی تم انھیں بھی ۔۔۔۔۔ کہو ۔
کہہ بھی دو تو کیا تعجب ! پاگل کتا کسی کو بھی کاٹ سکتا ہے ۔
۔[۳] تمھیں تو پتہ چل گیا کہ مولا علی کا حقِّ خلافت غصب کرکے وہ تینوں کافر ہو گئے تھے ، وہ بھی ایسے کافر کہ جو انھیں کافر اور جہنمی نہ مانے اور جو اُن سے براءت کا اعلان نہ کرے وہ بھی کافر ہے ۔ اب ذرا یہ بتلائیے کہ خود حضرتِ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اُن کے کفر و ارتداد کے بارے میں کچھ معلوم تھا یا نہیں۔
آپ دوسری صورت اختیار کرکےمولا علی شیرِ خدا کو ’’جاہل‘‘ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتے؛کیوں کہ اگر تم نے ’’بابُ مدینۃ العلم‘‘ کی جانب جہل کو منسوب کیا تو خود تمھاری قوم تمھارے سروں پر اِتنے جوتے برسائے گی کہ تمھاری نسلیں گنجی پیدا ہوں گی ۔
لامحالہ تمھیں یہ کہنا پڑے گا کہ مولا علی سب کچھ جانتے تھے ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پچیس سالوں تک اپنا حقِّ خلافت غصب کرنے والے کافروں سے الفت و محبت کا معاملہ کرتے رہے ، اُن کی اقتدا میں نمازیں ادا کرتے رہے ، دینی و سیاسی معاملات میں اُنھیں اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازتے رہے ؟۔
کبھی بھی اُن کے خلاف زبان نہ کھولی ، کسی بھی موقع پر اُن کی تردید نہ کی؛بلکہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے اپنی لختِ جگر ’’حضرت سیدہ ام کلثوم‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح کیا اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کے لیےاپنے دونوں بیٹوں امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ان کے دروازہ پر کھڑا کیا ۔
بلکہ حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد جب آپ خلیفہ المسلمین بنے تب بھی آپ ،تینوں حضرات کی تعریف میں رطب اللسان رہےاور تا دمِ شہادت اُن کی تعریف کرتے اور انھیں یاد کرتے رہے ، جیسا کہ ابھی با حوالہ آئے گا۔ آپ یہ مت کہیے گا کہ مولا علی نے یہ سب کچھ بطورِ تقیہ کے کیا تھا ؛ کیوں کہ یہ وہی کہہ سکتا ہے جو مولا علی کو بزدل مانتا ہو ۔اگر ہمت ہے تو اُن کی بزدلی کا اعلان کرو ۔
انھیں سب سے بڑا بہادر بھی مانتے ہو اور سب سے بڑا تقیہ باز بھی کہتے ہو ۔ معاذ اللہ ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔
یہ وہ سوالات ہیں جن کے تسلی بخش جوابات تم قیامت تک نہیں دے سکتے ؛ لہذا یہ ساری بکواسیں چھوڑو ! سچے دل سے توبہ کرو اور حضرت علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرح ،حضرت صدیقِ اکبر ، حضرت عمر فاروقِ اعظم اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بھی عظمت و شان کا اعتراف کرو ؛ورنہ خود مولاے کائنات کی شفاعت سے محروم رہوگے اور تمھارا وہ حشر ہوگا جس کا تم نے تصوربھی نہیں کیا ہوگا
جاری
پیش کش : نور ایمان اسلامک آرگنائزیشن ۔ و تحریک فروغِ اسلام شاخ کرلا ویسٹ ممبئی ۔
کیا صحابہ کرام عادل و مخلص نہ تھے : گذشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحضہ فرمائیں
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع