Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط شانزدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط شانزدہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط شانزدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط شانزدہم

مبسملا وحامد : ومصلیا ومسلما

اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی؟

اعتقادی مسائل کی تحقیق ہوتی ہے،یعنی دلائل سے اسلامی عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے۔اسی طرح اسلامی عقائد استدلالی بھی ہوتے ہیں،یعنی عقلی دلائل اور شرعی دلیلوں سے ان عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے۔

جولوگ اسلامی عقائدکو تحقیقی کہتے ہیں،ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہر کوئی اسلامی عقائد کی تحقیق یعنی دلیلوں کے ساتھ اس کا علم حاصل کرے،تب اس کا ایمان معتبر ہوگا۔

معتزلہ اسلامی عقائد کو استدلالی کہتے ہیں توان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہر کوئی عقلی دلیل کی روشنی میں ان کا علم حاصل کرے،تب اس کا ایمان معتبرہوگا۔

تصدیق سے کیا مراد ہے؟

باب اعتقادیات میں تصدیق سے مراد ہے،عقائد اسلامیہ کے حق ہونے کا یقین کرنااورحق ہونے کا اعتقاد رکھنا۔خواہ کسی طرح بھی یقین حاصل ہوجائے۔

خبر رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام اور خبر متواتر سے بھی یقین حاصل ہوجاتا ہے اور استدلال عقلی سے بھی یقین حاصل ہوجاتا ہے۔محسوسات کا علم یقینی حواس خمسہ ظاہرہ سے حاصل ہوتا ہے۔

خبررسول علیہ الصلوٰۃوالسلام اور خبر متواتر سے ہرایک کو یقین حاصل ہوجاتا ہے اور استدلال عقلی کی قوت ہرایک کے پاس نہیں،اس لیے نہ ہرکوئی استدلال کرسکتا ہے اور نہ ہر کسی کو یقین استدلالی حاصل ہو سکتا ہے۔

معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ ایمان کے لیے ہر ایک کو عقلی استدلال کے ذریعہ یقین حاصل کر نا فرض ہے، حالاں کہ عہد رسالت سے آج تک استدلال عقلی کے بغیرایمان قبول کیا جاتا ہے،اورہر اسلام قبول کرنے والے کو مومن تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو بھی صدق دل سے کلمہ اسلام پڑھ لیا،اسے مومن سمجھا جاتا ہے۔

آج تک کسی عالم ومفتی نے اسلام قبول کرنے والے غیرمسلم سے استدلال عقلی طلب نہیں کیا۔عام لوگ عقلی استدلال کے قابل بھی نہیں اور حکم الٰہی ہے: (لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا) (سورہ بقرہ)اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی امرکا حکم فرماتا ہے،جس کی قوت بندوں کے پاس ہے۔ جب جاہل کو عقلی استدلال معلوم ہی نہیں تو اسے عقلی استدلال کا مکلف کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ ایمان کی تعریف وتوضیح درج ذیل ہے۔

تصدیق کانام ایمان ہے،نہ کہ استدلال کا

تصدیق کا نام ایمان ہے،نہ کہ تحقیق یا عقلی استدلال کا۔ تصدیق سے مراد حق ہونے کا یقین واعتقاد کرنا ہے۔

قال نجم الدین عمربن محمد النسفی الحنفی:(الایمان ہو التصدیق بما جاء بہ من عند اللّٰہ تعالٰی)
(العقائد النسفیۃ مع شرح التفتازانی:ص119)

قال التفتازانی:(ای تصدیق النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالقلب فی جمیع ما عُلِمَ بالضرورۃ مَجِیءُہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہ من عند اللّٰہ تَعَالٰی اجمالًا-فانہ کافٍ فی الخروج عن عہدۃ الایمان-ولا تنحط درجتُہ عن الایمان التفصیلی)۔
(شرح العقائد النسفیہ:ص120)

تصدیق سے خاص قسم کی تصدیق مراد

ایمان کی تعریف میں تصدیق سے یقینی اعتقاد مراد ہے،یعنی یقین بھی ہو، اور اعتقاد بھی۔
شرح مقاصد(جلد پنجم:ص175تا ص192 -عالم الکتب بیروت) میں اس کی تفصیل مرقوم ہے۔

قال التفتازانی:(ان الایمان یزید وینقص -ومنعہ الجمہور لما انہ اسم للتصدیق البالغ حد الیقین -وہو لا یتفاوت)
(شرح المقاصد جلد پنجم:ص210-عالم الکتب بیروت)

قال العلامۃ الخیالی فی بیان مفہوم الایمان والتصدیق
(ان المعنی المعبر عنہ ”بگرویدن“امر قطعی-وقد نص علیہ فی شرح المقاصد- ولذا یکفی فی باب الایمان الذی ہوالتصدیق البالغ حد الجزم والاذعان-مع ان التصدیق المنطقی یعم الظنی بالاتفاق-فانہم یقسمون العلم بالمعنی الاعم تقسیمًا حاصرًا توسلًا بہ الٰی بیان الحاجۃ الی المنطق بجمیع اجزاۂ)
(حاشیۃ الخیالی علیٰ شرح العقائد:ص125)

قال المولٰی عصام:(والمعنی الذی یعبر عنہ فی الفارسیۃ ”بگر ویدن“ہو التصدیق المقابل للتصور،ولکن الایمان اخص من التصدیق المذکور فی اوائل کتب المیزان کالتصدیق فی کتب الکلام-لان التصدیق فی کتب الکلام قِسمٌ لِلعِلمِ المُفَسَّرِ بِمَا لَا یَحتَمِلُ الظَّنَّ وَالجَہلَ وَالتَّقلِیدَ بِخِلَافِ کُتُبِ المِیزَانِ)
(حاشیۃ ملاعصام علی شرح العقائد النسفیہ:ص125)

توضیح : ایمان کی تعریف میں تصدیق سے یقین مراد ہے۔ اس میں ظن،جہل اور تقلید کی گنجائش نہیں۔

ایمان اجمالی اور ایمان تفصیلی کا بیان

جب اجمالی ایمان کافی ہے تو مومن ہونے کے لیے تمام اسلامی عقائد کوجاننا بھی شرط نہیں،پھر تمام عقائد کی تحقیق یعنی دلیل سے جاننے کی شرط، یا تمام عقائدضروریہ کوعقلی دلیل سے جاننے کی شرط کیسے ہوگی۔

معتزلہ کا مذہب یہی ہے کہ تمام عقائد واجبہ کو عقلی دلیل کے ساتھ جاننا لازم ہے،اس طرح کہ منکرین کے شبہات کا جواب دے سکے۔

مندرجہ ذیل عبارتوں میں ایمان اجمالی کے کافی ہونے کی بحث ہے۔

قال الہیتمی عن تصدیق المُومَن بہ
(ان التصدیق بذلک لہ جہتان-اِجمَالِیٌّ وہو مندرج فی التصدیق بالوحدانیۃ ورسالۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم-وہذا یکفی ممن لم یخطر ببالہ شَیءٌ من التفاصیل المعلومۃ من الدین بالضرورۃ-وتفصیلی وہو شرطٌ فِیمَن لحظ شَیءًا من تلک التفاصیل-فَلَا یَکون مومنًا حَتّٰی یُصَدِّقَ بِمَا لحظہ اَو عَرَفَہ مِنہَا)

(الفتاوی الحدیثیہ ص141-دارالفکربیروت)

قال السید السند الشریف الجرجانی:((التصدیق للرسول فیما علم مجیۂ بہ ضرورۃً تفصیلًا)فِیمَا عُلِمَ تَفصِیلًا(وَاِجمَالًا)فِیمَا عُلِمَ اِجمَالًا-فَہُوَ فِی الشَّرعِ تَصدِیقٌ خَاصّ)
(شرح مواقف ص718-مطبع نول کشور لکھنو)

قال التفتازانی فی حد الایمان:(التصدیق بجمیع ما جاء بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اجمالًا کافٍ فی صحۃ الایمان-وانما یحتاج الٰی بیان الحق فی التفاصیل عند ملاحظتہا-وَاِن کَانَت عَمَّا لَاخِلَافَ فِی تَکفِیرِ المُخَالِف فیہا-کحدوث العالم-فَکَم مِن مؤمن لَم یعرف معنی الحادث والقدیم اصلًا ولم یخطرببالہ حدیث حشر الاجساد قطعًا -لکن اذا لاحظ ذلک-فلو لم یصدق،کان کافرًا)
(شرح المقاصد جلددوم:ص270)

قال الہیتمی:(اَنَّ الشَّرط فی ابتداء الایمان،اِنَّمَا ہوالتصدیق بجمیع المعلوم بالضرورۃ اجمالًا-فَیَکفِی ذلک-ولا یشترط التصدیق بالامور التفصیلیۃ الضروریۃ-اِلَّا لِمَن عَلِمَہَا تفصیلًا-فَیُکَلَّفُ بِالتَّصدیق والاذعان بہا-فَاِن صَدَّقَ وَاَذعَنَ،اِستَمَرَّ عَلٰی اِیمَانِہ-وَاِلَّا کَفَرَ مِن حِینَءِذٍ)
(الفتاوی الحدیثیہ ص140-دارالفکر بیروت)

قال الہیتمی:(ومِنہَا قول المحقق الکمال بن ابی شریف فی شرحہ مسایرۃ شیخہ المحقق الکمال بن الہمام:(جمہور الاشاعرۃ وبہ قال الماتریدی-ان الایمان ہو التصدیق بالقلب فقط ای قبولہ واذعانہ لِمَا عُلِمَ بالضرورۃ من دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیث تَعلَمُہُ العَامَّۃُ من غیر نظرواستدلال-کالوحدانیۃ والنبوۃ والبعث والجزاء ووجوب الصلاۃ والزکاۃ والحج وحرمۃ الخمر ونحوہا۔

ویکفی الاجمال فِیمَا یُلَاحِظُ اِجمَالًا کَالاِیمَان بالملائکۃ والکتب والرسل-و یشترط التفصیل فِیمَا یُلَاحِظُ تَفصِیلًا کَجبرئیل ومیکائیل وموسٰی وعیسٰی عَلَیہُمُ السَّلَام والتوراۃ والانجیل-حَتّٰی مَن لَم یُصَدِّق بواحدٍ مِنہَا کَفَرَ)اِنتَہٰی-فافہم ہذا-اِنَّ ما علم من الدین بالضرورۃ-اِن شعر بہ من جَہِلَہ-اِشتَرَطَ تَصدِیقُہ بِہ اِجمَالًا،اِن شَعُرَ بِہ اِجمَالًا- کالملائکۃ والکتب والرسل-وتَفصِیلًا اِن شَعُرَ بِہ تَفصِیلًا کجبرئیل وموسٰی والتوراۃ- وَاَنَّہ لا یشترط فی صحۃ الایمان-اَن یُصَدِّقَ بالاشیاء المُفَصَّلَۃِ اِلَّا اِذَا شَعُرَ بِہَا مُفَصَّلَۃً)

(الفتاوی الحدیثیہ ص140-دار الفکر بیروت)

توضیح:اسلام میں داخل ہونے کے لیے ایمان اجمالی کافی ہے۔ہاں،جن امور کا تفصیلی علم ہے،اس کی تفصیلی تصدیق لازم ہے،اورجس کی تفصیل معلوم ہوجائے، اس کی تفصیلی تصدیق لازم ہے۔

اگرعلم ہوجانے کے بعد تفاصیل کا انکار کرے گا توحکم شرع منکر پر عائد ہوگا۔اگر ضروریات دین کا انکار کرے گاتو کافر قرار پائے گا۔اگرضروریات اہل سنت کا انکار کرے گاتومتکلمین کے یہاں گمراہ قرارپائے گا۔

حصول یقین کے اسباب وذرائع

حصول یقین کے تین ذرائع ہیں۔خبر صادق۔عقل سلیم۔حواس خمسہ ظاہرہ۔

قال النسفی:(اسباب العلم للخلق ثلاثۃ:الحواس السلیمۃ والخبرالصادق والعقل)
(شرح عقائد نسفیہ: ص31-مجلس برکات مبارک پور)

توضیح:خبرصادق کی دوقسمیں ہیں۔خبررسول علیہ الصلوٰۃوالسلام اورخبر متواتر۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جو اسلامی عقائد واحکام سماعت فرمائے،وہ ان کے حق میں یقینی ہیں۔دیگر صحابہ کرام یا مومنین کوخبر متواتر سے کوئی اسلامی عقیدہ یا حکم اسلامی معلوم ہوا تو ان کے حق میں وہ یقینی ہے۔ جب اس کا یقین عقلی استدلال کے بغیر حاصل ہوچکاہے تو استدلال عقلی سے یقین حاصل نہیں ہوسکتا،ورنہ تحصیل حاصل لازم آئے گا۔

عقلی استدلال کے بغیر ایمان کو صحیح قرار دینا

قال المحدث علی القاری الحنفی:(والصحیح ما علیہ عامۃ اہل العلم-فان الایمان ہوالتصدیق مطلقًا فمن اخبر بخبر فصدقہ صح ان یقال:آمن بہ وآمن لہ-ولان الصحابۃ کانوا یقبلون ایمان عوام الامصار التی فتحوہا من العجم)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص406-دار السلامہ بیروت)

توضیح :حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عجمی شہروں کو فتح فرمایا اوران علاقوں کے عجمی لوگوں نے ایمان قبول کیا تو صحابہ کرام نے ان سب کو مومن قرار دیا۔کسی سے استدلال عقلی طلب نہیں فرمایا۔

حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی کبھی عقلی استدلال طلب نہیں فرمایا،پھرایمان کے لیے عقلی استدلال کی شرط لگانایقینا غلط ہے۔ ایمان کے صحیح ہونے کے واسطے محض یقین ضروری ہے،خواہ کسی طرح سے یقین حاصل ہوجائے۔اگر خبرواحد سے کسی کو یقین حاصل ہوگیا تو وہ کلمہ گومومن ہے،اور خبر متواتر سے بھی کسی کو یقین حاصل نہ ہوسکے تو ایسا کلمہ گو مومن نہیں۔ایمان کے لیے حصول یقین ضروری ہے،نہ کہ عقلی استدلال۔

قال القاری:(وتحقیقہ ان الرسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلم عد من آمن بہ وصدقہ فیما جاء بہ من عند اللّٰہ تعالٰی مومنًا-ولم یشتغل بتعلیمہ الدلائل العقلیۃ فی المسائل الاعتقادیۃ-وکذا الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم حیث قبلوا ایمان الزط والانباط مع قلۃ اذہانہم وبلادۃ افہامہم۔

ولولم یکن ذلک ایمانًا لفقد شرطہ وہو الاستدلال العقلی لاشتغلوا باحد الامرین:اما بالاعراض عن قبول اسلامہم او بنصب متکلم حاذق بصیر بالادلۃ عالم بکیفیۃ المحاجۃ لتعلیمہم صناعۃ الکلام والمناظرۃ،ثم بعد ذلک یحکمون بایمانہم۔

وعند امتناع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وامتناع کل من قام مقامہم الٰی یومنا ہذا من ذلک،ظہر ان ما ذہبوا الیہ باطل،لانہ خلاف صنع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلم واصحابہ العظام رضی اللّٰہ عنہم وغیرہم من الائمۃ الکرام)

(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص406-دار السلامہ بیروت)

توضیح :علامہ علی قاری حنفی کے قول (ان ما ذہبوا الیہ باطل)سے مراد یہ ہے کہ جس جانب معتزلہ گئے،وہ باطل ہے۔جب حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور آج تک علمائے اسلام استدلال عقلی کے بغیر ایمان کو قبول کرتے ہیں اور جو عقلی استدلال سے واقف نہ ہو،اس کو بھی مومن قرار دیتے ہیں تو پھر ایمان کے لیے عقلی استدلال کی شرط کہاں سے آگئی؟

حصول یقین کی مختلف صورتیں

ماقبل میں بیان کیا گیا کہ حصول یقین کی تین صورتیں ہیں۔وہ تین معتاد طریقے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس پر قادرہے کہ خبر واحدکے ذریعہ بھی کسی کے دل میں یقین پیدا فرمادے،اور خبر واحدکے بغیر بھی کسی کے دل میں یقین پیدا فرمادے۔ معتاد طریقے ہی سے حصول یقین لازم نہیں۔

قال القاری:(علٰی ان من اصحابنا من قال:ان المقلد لا یخلو عن نوع علم فانہ ما لم یقع عندہ ان المخبر صادق لا یصدقہ فیما اخبر بہ-وخبر الواحد وان کان محتملا للصدق والکذب فی ذاتہ-لکن متی ما وقع عندہ انہ صادق ولم یخطر ببالہ احتمال الکذب-وکان فی الحقیقۃ صادقًا نُزِّلَ منزلۃ العالم-لانہ بنی اعتقادہ علٰی ما یصلح دلیلا فی الجملۃ)
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص 406-دار السلامہ بیروت)

توضیح :کسی کو ایک ہی آدمی نے اسلام کی خبردی اور اسے اسلام کی حقانیت کا یقین کامل ہوگیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا تو مومن کامل ہے۔ حضرات اولیائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان مختلف علاقوں میں تبلیغ دین کے لیے انفرادی طورپر گئے۔ان کے حسن اخلاق یا کرامتوں کودیکھ کر لوگوں کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہو گیا تو لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ایسے بے شمارواقعات ہیں۔ان لوگوں کو مومن تسلیم کیا گیا

حالاں کہ اسلامی عقائد واحکام خبرواحدکے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچے۔وہاں کوئی ایک ہی ولی یا ایک ہی مبلغ اسلام پہنچ سکے تھے۔ہاں، اس ایک ہی بندۂ خدا کی باتوں پر یقین حاصل ہوگیاتو حصول یقین کے سبب ایمان صحیح ہوگیا۔

قال الامام احمد رضا القادری:(ان الایمان انما ہو لمعان نُورٍ-وکشف سترہ و شرح صَدرٍ یقذفہ اللّٰہ فی قلب من یشاء من عبادہ-سواء کان ذلک بنظر او مجرد سماع -ولا یسوغ لعاقل ان یقول:لا یحصل الایمان اِلَّا بِالنَّظرِ وَالاِستِدلَالِ-کَلَّا وَاللّٰہ-بَل رُبَّمَا یَکُونُ اِیمَان بعض من لا یعرف الاستدلالَ اَتَمُّ وَاَحکَمُ مِن ایمان بعض من بلغ الغایۃ فی المراء والجدال-فَمَن یُشرَحُ صَدرُہٗ لِلاِسلام وَیَجِدُ قَلبَہٗ مُطمَءِنًّا بِالاِیمَانِ فَہُوَ مُومِنٌ قَطعًا -وَاِن لَم یَعرِف-مِن اَینَ اَتَتہُ ہٰذِہِ النِّعمَۃُ الکُبرٰی-وہذا مَعنٰی قَولِ الاَءِمَّۃِ الاَربَعَۃِ وَغَیرِہِم مِنَ المُحَقِّقِینَ رضی اللّٰہُ تَعَالٰی عنہم اجمعین-اَنَّ اِیمَانَ المُقَلِّدِ صَحِیحٌ)
(المعتمد المستند: ص200)

قال الامام احمد رضا-ان عدم صحۃ ایمان المقلد ہومذہب ضعیف-ثم قال
(المعتبر فی الایمان شَرعًا،الجَزمُ القَاطِعُ-سَوَاءٌ حَصَلَ عَن اِستِدلَالٍ اَو تَقلِیدٍ)
(المعتمد المستند: ص197)

توضیح :ایمان صحیح ہونے کے لیے یقینی اعتقاد کی ضرورت ہے۔ خواہ یہ یقینی اعتقاد کسی طرح بھی حاصل ہو۔ عقلی استدلا ل سے حاصل ہو، تقلید سے حاصل ہو،یا کسی اور طریقہ سے حاصل ہو۔ایمان ایک نور ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے،وہ نور عطا فرماتا ہے۔ارشاد الٰہی ہے

(أ فمن شرح اللّٰہ صدرہ للاسلام فہو علٰی نور من ربہ) (سورہ زمر:آیت 22)


تحریر :طارق انور مصباحی
مدیر :ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر :افکار رضا انٹرنیشنل اردو ویب سائٹ
www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کے لیے  تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں

قسط اول 1

قسط دوم

قسط سوم 3

قسط چہارم 4

قسط پنجم 5

قسط ششم 6

قسط ہفتم 7

قسط ہشتم 8

قسط نہم 9

قسط دہم 10

قسط یازدہم 11

قسط دازدہم 12

قسط سیزدہم 13

قسط چہاردہم 14

قسط پانزدہم 15

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن