تحریر: مفتی محمد فہیم جیلانی مصباحی معصوم پوری رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
تصویر کا پہلا رخ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء بَیْنَہُمْ : محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور دوسرے مقام پر اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے: اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ وہ کافروں پر بہت بھاری ہوں گے
اور کیوں نہ ہوں اس لیے کہ جب پیغمبر اسلام کو دلائل اور مواعظہ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم ہوا اور مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر کا حکم ہوا تو کافروں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔
اور خود رسول اعظم کو بھی بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑاآپ فرماتے ہیں کہ اے عائشہ رضی اللہ عنہا!! وہ دن میرے لئے جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا ( میدان احد میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آقا علیہ السلام کے دندان مبارک اور ہونٹ مقدس زخمی ہوگئے۔ اور آپ کے چچا حضرت ہمزہ رضی اللہ عنہ اور بہت سے جانثار صحابہ بھی شہید ہوئے) جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار عبد یا لیل کو اسلام کی دعوت دی۔
اس نے دعوت اسلامی کو حقارت کے ساتھ ٹکرا دیا اور اہل طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا یہاں تک کہ میں لہولہان ہوگیااور پیغمبر اعظم کے قتل کے منصوبے بنایے جانے لگے یہاں تک کہ کاشانئہ نبوت کا محاصرہ کرلیا مگر مسلمانوں نے کبھی انتقام کے لیے ہتھیار نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ کفار کی ایذاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے
لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی ان مٹھی بھر مسلمان کے جانی دشمن ہو گئے اور ان مسلمانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا عزم کر لیا۔ تو خداوند قدوس نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا کریں ان سےتم بھی لڑ سکتے ہو۔
یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ) ترجمہ؛ جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیوںکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر یقین قادر ہے۔
پھر تو یہ ہوا کہ نو سال میں حضور ﷺ کو چھوٹی بڑی چھیاسٹھ لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔( جس میں غزوات و سرایا سبھی شامل ہیں) صحابہ کرام پوری جانثاری کے ساتھ لڑے اور اسلام کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔یہی وجہ تھی کہی تین سو تیرہ گیارہ سو پر بھی بھاری پڑے۔
تو کبھی باب خیبر(جس کو چالیس لوگ مل کر نہ اکھاڑ سکے) اس کو علی مشکل کشا نے تن تنہا اکھاڑ پھینکا تو کبھی نعرہ تکبیر ورسالت کی صدا بلند کر کافروں کی بنیادوں کو ہلا ڈالا پھر تو یہ ہوا کہ فتح مسلمانوں کا مقدر بن گیا اور خود بھی شہید ہوئے تو بہت سے کافروں اور گستاخ رسول ﷺ کو واصل نار بھی کیا۔ ان مٹھی بھرمسلمانوں نے بڑی سے بڑی سلطنتوں کو دھول چٹائی۔
اور صحابہ کرام اپنے اس عہد و پیمان پر کھرے اترے جو حضور ﷺ سے کیا جب سرکار نے فرمایا تھا کہ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ)) ’’جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
تو صحابہ کرام کہنے لگے۔’’کہ ہم نے اللہ کے رسول سے بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے‘ خواہ آسانی ہو یا مشکل‘ خواہ ہماری طبیعت آمادہ ہو یا ہمیں اس پر جبر کرنا پڑے‘ اور خواہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دے دی جائے۔ ہم اصحابِ اختیار سے جھگڑیں گے نہیں‘ لیکن سچ بولیں گے جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے‘ اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے خوف رہیں گے۔
ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم !!!۔
تصویر کا دوسرا رخ
ہاں یہ بات بھی قرآن کریم ہی سے ثابت ہے مومنین آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا رُحَمَآء بَیْنَہُمْ اور اس رحم دلی کو اللہ رب العزت نے دوسری جگہ اس انداز میں بیان کیا”وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے” (اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ)۔
احادیثِ نبوی اور تواریخ اسلام بھی اس بات پر شاہد ہے کہ یقینا اہل ایمان ایک دوسرے پر نہایت ہی نرم دل اور شفقت کرنے والے ہیں ۔
اور تاریخ میں ایک باب ” انصار اور مہاجرین میں رشتئہ اخوت کا بھی ہے۔
جب اہل اسلام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے اس لیے پردیس میں مفلسی کے ساتھ وحشت اور بیگانگی اور اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے۔ حالانکہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔
لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کے انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت قائم کرکے ان کو بھائی بھائی بنا دیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اس وقت تک مہاجرین کی تعداد 45 سے50 تھی ۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو شخص کو فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہیںحضور علیہ السلام کے ارشاد فرماتے ہیں یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جاکر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی۔
اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لیے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے حد تو تب ہو گئی کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری جو حضرت عبدالرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میری ایک بیوی جیسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں۔ اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔
الله اکبر!!! اس میں شک نہیں کہ انصار کا یہ ایثار ایک ایسا بے مثال شاہکار ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی ہےسے ملے گی۔ مگر مہاجرین نے جو طرز عمل اختیار کیا یہ بھی ایک قابل تقلید تاریخی کارنامہ ہے۔
اور بھی بہت سی مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں آخر میں یہی کہوں گا کہ اہل اسلام اگر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نرم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی گستاخ آزادی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے آقا ﷺ کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی کرے ۔ ورنہ تو ہمارے پاس أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ کا پہلو بھی موجود ہے جس کا انجام ابو جہل اور دوسرے کفارہ مکہ ہی جانتے ہیں
ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
تحریر: مفتی محمد فہیم جیلانی مصباحی
معصوم پوری مرادآباد، یوپی، انڈیا
نوٹ: ان مضامین کا بھی مطالعہ کریں
گستاخ رسول ﷺ کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں
محبت رسول ﷺ اور نام رسول کا احترام
ONLINE SHOPPING
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع