Friday, November 22, 2024
Homeاحکام شریعتمسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہیزدہم

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہیزدہم

تحریر: طارق انور مصباحی کیرلا مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہیزدہم گزشتہ تمام قسطوں کے لنک نیچے دئیے گیے ہیں ملاحظہ فرمائیں

مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے قسط ہیزدہم

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما

اعتقادی مسائل تصدیقی ہیں یاتحقیقی ؟

باب ایمانیات میں استدلال عقلی سے متعلق جومعتزلہ کا مذہب تھا،وہ سترہویں قسط میں بیان کر دیا گیا ۔

جب مقلد کو اسلامی عقائد کا یقین واعتقادحاصل ہوتو وہ مومن ہے۔یہ اہل سنت وجماعت کا مذہب ہے ۔باب ایمانیات میں استدلال سے متعلق اہل حق کے تین مذاہب بیان کیے جاتے ہیں

مذہب اول :استدلال ضروری نہیں ۔ائمہ متقدمین اور بہت سے متاخرین کا یہی مسلک ہے۔

مذہب دوم :استدلال ضروری ہے ،لیکن خاص دلیل عقلی سے استدلال ضروری نہیں اورترک استدلال کے سبب گنہ گار ہوگا,لیکن مومن رہے گا۔

بعض کاقول ہے کہ استدلال اس کے لیے ضروری ہے ،جو نظر واستدلال کی اہلیت رکھتا ہے ۔

بعض کا قول ہے کہ استدلال کمال ایمان کے لیے ضروری ہے۔

مذہب سوم:عقلی استدلال ضروری ہے ،لیکن معتزلہ کے قول کی طرح عقلی استدلال نہیں کہ ہرایک مسئلہ کو دلیل عقلی سے اس طرح جانے کہ مخالفین کا جواب دے سکے ،بلکہ یہاں محض اس قدر عقلی استدلال ضروری ہے کہ اسے یقین حاصل ہوجائے ۔یہ مذہب امام اشعری کی طرف منسوب ہے اورنسبت غلط ہے۔

مذہب دوم کا بیان

مذکورہ بالامذاہب ثلاثہ میں سے مذہب دوم کابیان درج ذیل ہے۔وہ اسی عبارت سے ماخوذ ہے۔

امام احمدرضاقادری نے ایمان مقلد کی صحت کوبیان کرنے کے بعد رقم فرمایا: (ثم اختلف القائلون بایمانہ-فقیل بعصیانہ بترک النظر-والیہ یمیل کلمات کثیرین-وقیل:لا-الا اذا کان اہلا للنظر-و قیل:بل،لا یجب اصلا-وانما ہو من شروط الکمال فقط)۔
(المعتمد المستند :ص199-المجمع الاسلامی مبارکپور)

فریق اول کے دلا ئل
فریق اول کی دلیل یہ ہے کہ عہد رسالت سے تا امروز کسی ایمان قبول کرنے والے سے عقائد اسلامیہ پر استدلال طلب نہیں کیا جاتا ،بلکہ صرف تصدیق طلب کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی عقائد کومانتا ہے یانہیں ؟اس موضوع پر ملاعلی قاری حنفی کی عبارت سولہویں قسط میں نقل کی گئی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ امام احمدرضاقادری کی عبارت انیسویں قسط میں نقل کی جائے گی۔اہل علم المعتمد المستند (ص200-199)دیکھیں۔

فریق دوم کی وضاحتیں

اہل سنت وجماعت کا وہ طبقہ جوباب عقائد میں استدلال کا قائل ہے ۔وہ استدلال عقلی کولازم قرار نہیں دیتا ،نہ ہی اہل مناظرہ کے استدلال کی مثل استدلال کولازم قرار دیتا ہے ،بلکہ وہ محض استدلال کاقائل ہے ،خواہ کسی قسم کا استدلال ہو،جو حصول یقین کا سبب ہو۔

مومن استدلال عقلی سے بالکل خالی نہیں ہوتا

عام طورپر جاہل مسلمان بھی باب عقائد میں استدلال سے خالی نہیں ہوتا ،لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ جس طرح اہل علم استدلال کرتے ہیں ،کوئی جاہل اس طرح استدلال نہیں کرسکتا ۔

قال القاری:(من نشأ فیما بین المسلمین من اہل القری والامصار من ذوی النُّہی والابصار-فلا یخلو ایمانہم عن الاستدلال والاستبصار-وان کان لا یہتدی الی العبارۃ عن دلیل بطریق النظار-فانہ محل الخلاف بیننا وبین المعتزلۃ)۔

(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر :ص 406-دارالسلامہ بیروت )

تقلید میں استدلال کی صورت

عام طورپرمومن باب عقائد میں استدلال سے خالی نہیں ہوتا ،نیز یہ بھی ایک قسم کا استدلال ہے کہ اس نے بے شمار اہل فضل وکمال اورنوع انسانی کی ایک بہت بڑی تعدادکو اسلام پر قائم دیکھا تو اس نے اسلام اور اسلامی عقائد کی حقانیت کے لیے اس بات کو دلیل بنالیا کہ جس مذہب کو ایسے اہل فضل وکمال نے اورانسانوں کی بہت بڑی تعداد نے اپنایاہوتووہ ضرورحق ہے تو اس مقلد نے بھی ایک قسم کے استدلال کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کا یقین حاصل کیا ۔یہاں تقلید محض نہیں۔

ایسا مقلدنہ ترک استدلال کا مرتکب ہے ،نہ ہی گنہ گار ہے۔

درحقیقت اس نے اجماع مسلمین کو اسلام کی حقانیت کی دلیل بنایا،پس استدلال پالیا گیا اوراس کوخالص تقلید قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

قال الکمال ابن ابی الشریف(822ھ-906ھ):(وقد اشار المصنف الٰی تحریر محل النزاع بقولہ (وقَلَّ ان یری مقلد فی الایمان باللّٰہ تعالی اذ کلام العوام فی الاسواق محشو بالاستدلال بالحوادث)ای بحدوثہا(علیہ)ای علٰی وجود ہ تعالی(وعلٰی صفاتہ) من العلم والارادۃ والقدرۃ وغیرہا۔

(والتقلید مثلًا ہو ان یسمع الناس یقولون ان للخلق ربًّا خلقہم وخلق کل شئ و یستحق العبادۃ علیہم-وحدہ لا شریک لہ فیجزم بذلک بصحۃ ادراک ہؤلاء تحسینًا لظنہ بہم وتکبیرًا)بالموحدۃ ای تعظیمًا(لشأنہم عن الخطأ)لکثرتہم وتوافقہم علٰی ذلک مع رصانۃ عقولہم(فاذا حصل عن ذلک جزم لا یجوز معہ کون الواقع النقیض)ای نقیض ما اخبروا بہ(فقد قام)المکلف الذی حصل لہ ذلک الجزم(بالواجب من الایمان)من بیانیۃ ای الذی ہو الایمان۔
(اذ لم یبق)بعد حصول الجزم المذکور(سوی الاستدلال،ومقصود الاستدلال ہو حصول ذلک الجزم فاذا حصل)المکلف(ما ہو المقصود منہ)ای من الاستدلال فقد(تم قیامہ بالواجب۔ومقتضی ہذا التعلیل ان لا یکون عاصیًا بعدم الاستد لال)ای بترکہ(لان وجوبہ) ای الاستدلال(انما کان لیحصل ذلک)الجزم(فاذا حصل سقط ہو)ای وجوب الاستدلال الذی ہو وسیلۃ-اذ لا معنی لاستحصال المقصود بالوسیلۃ بعد حصولہ دونہا)

(المسامرۃ شرح المسایرۃ لابن الہمام جلددوم:ص193-192-مطبعۃ السعادۃ:مصر)

دلیل کی روشنی میں اعتقاد ضروری

فریق دوم کے یہاں دلیل کی روشنی میں اعتقاد ضروری ہے ۔خواہ وہ عقلی دلیل ہو،یا نقلی ۔

باب عقائد کے چار دلائل ہیں ۔ قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیت مقدسہ،حدیث متواتر قطعی الدلالت،اجماع متواتر وعقل سلیم۔جب ان میں سے کسی بھی دلیل کی روشنی میں کسی عقیدہ کواختیار کیا تو دلیل کی روشنی میں اختیار کیا ۔

قال زین الدین قاسم بن قطلوبغا(802ھ-879ھ)تلمیذ ابن الہمام الحنفی (قال ابوالحسن الرستغفنی:شرط صحۃ الایمان ان یبنی اعتقادہ علٰی ما یصلح ان یکون دلیلا فی الجملۃ حتی لوبنی اعتقادہ علٰی قول الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ان عرف بحکم المعجزۃ انہ رسول صح ایمانہ-فاما بدونہ فلا-وہذا لان التصدیق لا بد وان یکون من علم ومعرفۃ ولا علم مع ہذا المقلد لان العلم الحادث اما ان یکون ضروریا او استدلالیا-والعلم باللّٰہ تعالی لیس بضروری-ولا استدلال مع ہذا المقلد فلا یثبت لہ العلم-وبدون العلم لا یتحقق لہ التصدیق)۔

(حاشیۃ المسایرۃ مع المسامرۃ جلددوم:ص191- مطبعۃ السعادۃ: مصر )

بلااستدلال تصدیق ایمانی ہوتو ایمان صحیح،لیکن گنہ گار
استدلال سے معتزلہ کی مراد یہ ہے کہ عقلی استدلال کے ذریعہ ہرایک عقیدئہ واجبہ کا یقین حاصل ہو۔اگر عقلی استدلال نہیں ہے ،لیکن اس کواسلامی عقائد کا یقین واعتقاد حاصل ہے تووہ مومن نہیں ۔

فریق دوم کا مذہب یہ ہے کہ اگر کسی کو اسلامی عقائد کا یقین واعتقاد حاصل ہے تووہ مومن ہے۔اب اگر اسے استدلال کی قوت تھی ،لیکن استد لال نہ کیا اوریقین استدلالی حاصل نہ کیا تووہ گنہ گار ہے ،لیکن یہاں عقلی استدلال مراد نہیں ،بلکہ ہر اس دلیل صحیح سے استدلال مراد ہے جو اس عقیدہ کے لیے عند الشرع دلیل بن سکے ۔

قال علی القاری الحنفی(930ھ-1014ھ):(ومنہا:ان ایمان المقلد الذی لا دلیل معہ صحیح- قال ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ وسفیان الثوری ومالک والاوزاعی والشافعی واحمد وعامۃ الفقہاء واہل الحدیث رحمہم اللّٰہ تعالٰی:صح ایمانہ ولکنہ عاص بترک الاستدلال،بل نقل بعضہم الاجماع علی ذلک۔

وعند الاشعری لا بد ان یعرف ذلک بدلالۃ العقل-وعند المعتزلۃ ما لم یعرف کل مسألۃ بدلالۃ العقل علی وجہ یمکنہ دفع الشبہۃ،لا یکون مومنا)۔
(منح الروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص 403-دار السلامہ بیروت)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں (صح ایمانہ ولکنہ عاص بترک الاستدلال)سے وہم ہوتا ہے کہ حضرات ائمہ اربعہ اور اسلاف متقدمین علیہم الرحمۃوالرضوان کے یہاں بھی استدلال ضروری ہے ،حالاں کہ ایسا نہیں ۔جب معتزلہ نے ایمان کے لیے استدلال عقلی کی شرط لگائی ،تب علمائے اہل سنت وجماعت نے اس موضوع پر غوروفکر کیا اور بہت سے علما نے استدلال کی شرط لگائی ۔معتزلہ کے وجود سے قبل ایمان کے لیے استدلال کا موضوع زیر بحث نہیں تھا ۔

استدلال اجمالی کا حکم :گمرہی کا خوف ہوتو استدلال ممنوع

فریق دوم کے یہاں باب عقائدمیں استدلال لازم ہے تواس سے استدلال اجمالی مراد ہے۔ استدلال تفصیلی فرض کفایہ ہے ۔سب پر فرض نہیں ،بلکہ نماز جنازہ کی طرح فرض کفایہ کہ چند ادائیگی کافی ہے۔

قال الملا علی القاری:(وقیل:معرفۃ مسائل الاعتقاد کحدوث العالم ووجود الباری وما یجب لہ وما یمتنع علیہ من ادلتہا فرض عین علٰی کل مکلف فیجب النظر-و لا یجوز التقلید-وہذا ہو الذی رجحہ الامام الرازی والآمدی۔
والمراد النظر بدلیل اجمالی-واما النظر بدلیل تفصیلی یتمکن معہ من ازالۃ الشبہ والزام المنکرین وارشاد المسترشدین ففرض کفایۃ۔

واما من یخشی علیہ من الخوض فیہ الوقوع فی الشبہۃ فالاوجہ ان المنع متوجہ فی حقہ-فقد قال البیہقی:انما نہی الشافعی رحمہ اللّٰہ وغیرہ عن علم الکلام لاشفاقہم علی الضعفۃ ان لا یبلغوا ما یریدون منہ فیضلوا عنہ)

(منح الاروض الازہر فی شرح الفقہ الاکبر ص407-دار السلامہ بیروت)

توضیح :منقولہ بالا اقتباس میں تین امور کا بیان ہے۔(۱)ہر مکلف پر استدلال اجمالی فرض عین ہے ۔(۲)استدلال تفصیلی فرض کفایہ ہے۔(۳)غور وفکر سے جس کے گمرہی میں مبتلا ہونے کا خوف ہو،اس کے لیے غور وفکر منع ہے۔

فرقہ بجنوریہ اور مذبذبین جب اشخاص اربعہ کی تکفیر کلامی پر غور وخوض کرتے ہیں تو ان کا قدم صراط مستقیم سے پھسل جاتا ہے،اس لیے اس مسئلہ میں فرقہ بجنوریہ کے لیے غور وفکر اور تحقیق واستدلال ممنوع ہوگا ۔یہ بھی خیال رہے کہ باب عقائد میں استدلال کا حکم نہ ضروریات دین میں سے ہے ،نہ ضروریات اہل سنت میں سے ،ورنہ تمام اہل سنت وجماعت کے یہاں استدلال کے وجوب کا حکم متفق علیہ ہوتا ۔جن علما نے استدلال کے وجوب کا قول کیا،وہ متفق علیہ نہیں ۔اس کا وجوب فرض عملی کیفرضیت کی طرح مختلف فیہ ہے۔

تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت، دہلی
اعزازی مدیر: افکا ر رضا

www.afkareraza.com

مسئلہ تکفیر کس کے لیے  تحقیقی ہے ؟۔ گزشتہ تمام قسطوں کے لنک ملاحظہ فرمائیں

قسط اول 1

قسط دوم 2 

قسط سوم 3

قسط چہارم 4

قسط پنجم 5

قسط ششم 6

قسط ہفتم 7

قسط ہشتم 8

قسط نہم 9

قسط دہم 10

قسط یازدہم 11

قسط دازدہم 12

قسط سیزدہم 13

قسط چہاردہم 14

قسط پانزدہم 15

قسط شانزدہم 16 

قسط ہفدہم  17

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن