تحریر: طارق انور مصباحی گمراہ کافر فقہی و کافر کلامی کی اقتدا میں نماز
گمراہ کافر فقہی و کافر کلامی کی اقتدا میں نماز
مبسملا وحامدا:ومصلیا ومسلما
امام احمد رضا قادری نے رسالہ:ازالۃ العار میں کافر کلامی،کافر فقہی اور گمراہ(جوکافر فقہی یا کافر کلامی نہ ہو) سے نکاح کا حکم یکجا بیان فر ماد یا ہے۔
نماز میں اقتدا کا حکم اور نماز جنازہ میں شرکت کا حکم متفرق طورپر بیان کیا گیا ہے۔ان کو جمع کرنے کی کوشش ہے۔ جہاں کفر فقہی یا کفرکلامی کا حکم ہوگا،وہاں توبہ،تجدید ایما ن اور تجدیدنکاح کا حکم ہوگا۔
کفر کلامی میں مرتکب ایمان سے بالکل خارج ہوجاتا ہے اور نکاح باطل ہوجاتا ہے۔ کفر فقہی میں ایمان سے ضعیف سا تعلق باقی رہتا ہے اور نکا ح میں نقص آجاتا ہے،اس لیے یہاں بھی تجدیدایمان وتجدید نکاح کا حکم ہے۔ توبہ کا حکم ہر گناہ کے لیے ہے،گرچہ وہ کفرنہ ہو۔
ضلالت کا لفظ کبھی کفر کلامی وکفر فقہی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔یہاں ضلالت سے وہ ضلالت مراد ہے جو کفر فقہی وکفر کلامی نہ ہو۔ گمراہ فرقوں میں ایسا گمراہ فرقہ تفضیلیہ ہے،کہ وہ صرف گمراہ ہے،کفرفقہی اور کفر کلامی ان کے عقائد میں نہیں۔
افراد واشخاص میں مثلاً وہ دیوبندی وغیر مقلد وشیعہ ایسا ہوگا جو ان فرقوں کے فقہی کفریات وکلامی کفریات کا انکار کرتا ہو، لیکن وہ اپنے کو ان جماعتوں میں شمار کرتا ہو،اور ان کے شعار پر قائم ہو۔
ایسے فرد کا وجود مشکل ہے،لیکن ازالۃ العار بحجر الکرائم عن کلاب النارمیں نکاح کا حکم لکھا گیا توقارئین کے مسلسل سوال کے سبب نماز میں اقتدا اور نماز جنازہ کا حکم فتاویٰ رضویہ سے جمع کرنے کی کوشش ہے:واللہ الموفق وہو المستعان
گمراہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا حکم
مسئلہ :: محرم الحرام ۹۳۳۱ھ-اہل سنت وجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام افضل البشر ہیں۔زید وخالد دونوں اہل سادات ہیں۔زید کہتا ہے کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دیتا ہے، اُس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔
خالد کہتا ہے کہ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ حضرت ابا بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فضیلت ہے اور ہر سید تفضیلیہ ہے اور تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی،بلکہ جو تفضیلیہ کے پیچھے نماز مکروہ بتائے، خود اس کے پیچھے مکروہ ہوتی ہے۔
الجواب : تمام اہل سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبروفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں۔ ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو اُن پر فضیلت دے،مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔
فتاویٰ خلاصہ وفتح القدیرو بحرالرائق وفتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع۔اگر مولیٰ علی کوصدیق وفاروق پرفضیلت دیتے تو بدعتی ہے۔
غنیہ وردالمحتارمیں ہے:الصلٰوۃ خلف المبتدع تکرہ بکل حال۔بدمذہب کے پیچھے ہر حال میں نمازمکروہ ہے۔
ارکانِ اربعہ میں ہے:الصلوۃ خلفھم تکرہ کراھۃ شدیدۃ۔تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب:واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم: ص266-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح : منقولہ بالا عبارت سے فرقہ تفضیلیہ کا عقیدہ بھی معلوم ہوگیا،نیزیہ بھی معلوم ہوگیا کہ بد مذہب وگمراہ کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔
کافر فقہی کی اقتدا میں نمازپڑھنے کا حکم
صحیح قول کے مطابق کافر فقہی کی اقتدا میں نماز پڑھنا بھی باطل ہے،یعنی فرضیت ادا نہیں ہوگی۔دوسرا قول یہ ہے کہ نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔
امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”مبتدع کی بدعت اگر حد کفر کوپہنچی ہو،اگر چہ عند الفقہا یعنی منکر قطعیات ہو، گر چہ منکر ضروریات نہ ہو، توصحیح یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز باطل ہے:کما فی فتح القدیر ومفتاح السعادۃ والغیاثیۃ وغیرہا:کہ وہی احتیاط جو متکلمین کو اس کی تکفیر سے باز رکھے گی،اس کے پیچھے نماز کے فساد کا حکم دے گی:
فان الصلاۃ اذا صحت من وجوہ وفسدت من وجہ حکم بفسادہا:ورنہ مکروہ تحریمی“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم:ص273-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح : منقولہ بالا عبارت میں بتایا گیا کہ صحیح قول کے مطابق کافر فقہی کی اقتدا میں نماز بھی باطل ہے،جیسے کافر کلامی کی اقتدا میں نماز باطل ہے۔
اگر کوئی کافرفقہی کو اس کے کفریات پرمطلع ہوکربھی مومن کا مل الایمان سمجھتا ہے تو وہ خود کافر فقہی ہے۔اقتداکرے یا نہ کرے۔
اسی طرح کافر کلامی کے کفریہ عقائد پر مطلع ہوکر اس کومومن ماننے والا کافر ہے۔خواہ اقتدا کرے،یا نہ کرے۔
اسماعیل دہلوی کافر فقہی تھا۔اس کومومن ماننے والا بھی اسی طرح کافر فقہی ہوگا۔ایک قول کے مطابق کافر فقہی کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔وہی حکم دہلوی کو مومن ماننے والے کا بھی ہوگا کہ اس کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو شخص اسماعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان کو حق جانتا ہو، اس کے پیچھے نماز پڑھنا چاہئے،یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : اگر اس کے ضلالت وکفریات پر آگاہی ہوکر اسے اہل حق جانتا ہوتو خود اس کی مثل گمراہ بددین ہے،اور اس کے پیچھے نماز کی اجازت نہیں۔اگر نادانستہ پڑھ لی ہو تو جب اطلاع ہو، اعادہ واجب ہے:کما ہو الحکم فی سائر اعداء الدین من المبتدعین الفسقۃ المردۃ المفسدین۔
اور اگر آگاہ نہیں تو اسے اس کے اقوال ضالہ دکھائے جائیں،اس کی گمرہی بتائی جائے۔رسالہ الکوکبۃ الشہابیہ بطور نمونہ مطالعہ کرایا جائے۔اگر اب بعد اطلاع بھی اسے اہل حق کہے تو وہی حکم ہے، اور اگر توفیق پائے، حق کی طرف فا خوانکم فی الدین ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(فتاویٰ رضویہ جلد سوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح : منقولہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ گمراہ اور کافرفقہی دونوں کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہے۔
سوال : منقولہ بالا عبارت میں ہے کہ اس شخص کو الکوکبۃ الشہابیہ مطالعہ کرایا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اسماعیل دہلوی کو اہل حق جانتا ہے تووہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔
الکوکبۃ الشہابیہ ایک عالم دین کی کتاب ہے۔ جب ایک فرد کوئی خبر دے تووہ ظنی ہوگی۔قطعی ویقینی نہیں ہوگی،پھر اسماعیل دہلوی کے کفریات کی خبرظنی ہونے پر اس کو گمراہ یا کافر فقہی کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟گمراہ وکافر کی ضلالت وکفریات کا یقینی علم ہونا چاہئے۔
جواب : کسی کی تکفیرکلامی کے لیے اس کے کفریہ عقائد کا قطعی علم ہونا مفتی کے لیے ضروری ہے۔ جب مفتی نے تحقیق کامل کے بعد کفر کلامی کا صحیح حکم عائد کردیاتو اب وہ کافر کلامی ہے۔کافر کلامی کوکافر ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔ اس کی تکفیر کلامی کا ظنی علم بھی ہوگیا تو اسے کافر ماننا ہے،کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں ظنی امورپر بھی عمل کا حکم ہے۔
فقہ کے اجتہادی مسائل ظنی ہوتے ہیں۔ان پر عمل کا حکم ہے
اسی طرح احادیث غیر متواترہ بھی اخبار آحاد ہیں۔ان پر عمل کا حکم ہے۔
اسی طرح ظنی طورپر بھی کسی کی گمرہی کا علم ہوگیا تو اسے گمراہ ماننا ہے۔کفر وضلالت کا فتویٰ دینے کے شرائط الگ ہیں اور جس پر کفروضلالت کا حکم عائد ہوچکا ہو، اس کو کافروگمراہ ماننے کے شرائط الگ ہیں۔
حسام الحرمین اہل ہند کے پاس ایک عالم کے توسط سے پہنچی۔اس میں افراد خمسہ پر حکم کفر تھا۔ہم نے مان لیا۔علمائے حرمین طیبین کے وہ فتاوی تواتر کے ساتھ مروی ہو کر اہل ہند تک نہ پہنچے تھے۔
دیوبندیوں نے بھی یہ اعتراض کبھی نہ کیا کہ جو مجموعہ فتاوی ایک عالم کی روایت سے اہل ہند تک پہنچا۔اس کے بارے میں یقین کیسے کیا جا سکتا ہے۔وہ تو ظنی روایت یعنی خبر واحد کے ذریعہ اہل ہند کو موصول ہوا ہے۔اس ظنی روایت کی بنیاد پر کسی کو مرتد کیسے مانا جا سکتا ہے۔ممکن ہے کہ راوی نے تحریف کر دی ہو۔
کسی دیوبندی نے ایسا نہیں کہا۔ہاںیہ الزام لگایا کہ ہمارے اکابر کی عبارتوں کے غلط مطالب بتائے گئے۔ ان کا یہ الزام باطل ہےجس کا جواب بہت سی کتابوں میں رقم کیا جاچکا ہے۔
کافر کلامی کی اقتدا میں نمازپڑھنے کا حکم
اگرلاعلمی کے سبب کافر کلامی کو گمراہ سمجھ کر اس کے پیچھے نماز پڑھ لی تو یہ بھی مکروہ تحریمی اور سخت گناہ ہے۔ اگر اس کے کفر کلامی سے آگاہ ہوکراس کی اقتدا میں نماز ادا کی تو حکم کفر ہے۔
مسئلہ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کچھ آدمی حضورکے عقائد کوبہت اچھا او ر بہتر جانتے ہیں اور دیوبندی مولویوں کے عقائد کو بہت براجانتے ہیں اور بڑے پکے سنت جماعت ہیں، لیکن بہ سبب بے علمی اور نادانی کے ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔
حضو ر کی تحریروں سے اتنا شوق نہیں جو حق اور ناحق معلوم کریں۔آیا ان کے پیچھے بھی نماز پڑھی جائے،یا نہیں اوراس مرض میں بہت مخلوق مبتلا ہے۔
الجواب : جسے یہ معلوم ہوکہ دیوبندیوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کی ہے،پھر ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے،اسے مسلمان نہ کہا جائے گاکہ پیچھے نماز پڑھنا اس کی ظاہر دلیل ہے کہ ان کو مسلمان سمجھا، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کو مسلمان سمجھنا کفر ہے،اسی لیے علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق دیوبندیوں کوکافر مرتد لکھا اور صاف فرمایا کہ: من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔
جوان کے عقائد پر مطلع ہوکر انہیں مسلمان جاننا درکنار، ان کے کفر میں شک ہی کرے،وہ بھی کافر اور جن کو اس کی خبر نہیں، اجمالاً اتنا معلوم ہے کہ یہ برے لوگ بدعقیدہ بدمذہب ہیں،وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے سخت اشد گنہ گار ہوتے ہیں اور ان کی وہ نمازیں سب باطل وبیکار:واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص77-رضا اکیڈمی ممبئ)۔
توضیح : فرقہ تفضیلیہ محض گمراہ ہے تو ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اورواجب الاعادہ ہوتی ہے۔اگر مرتد کو لاعلمی کے سبب محض گمراہ سمجھ کر اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لیا تولاعلمی کے سبب کافر تو نہیں ہوگا،لیکن یہاں نماز مکروہ تحریمی نہیں،بلکہ باطل ہوگی۔
عدم علم کے سبب نماز کے بطلان کا حکم نہیں بدلا،گرچہ لا علمی میں اقتد ا کرنے پر حکم کفر وارد نہیں ہوا۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر: ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر: افکار رضا
ان مضامین کو بھی پڑھیں
اشخاص اربعہ کی تکفیر اور مذبذبین
مسئلہ تکفیر کس کے لیے تحقیقی ہے