تحریر: طارق انور مصباحی نمازوتبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ قسط دوم
نمازوتبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ
مبسملاوحامدا : : ومصلیا ومسلما
قسط اول ( قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں ) میں وہابیوں اوردیوبندیوں کی فریب کاری کا ذکر ہوا۔قسط حاضرمیں دیوبندیوں کے کفریات کلامیہ سے واقف دیوبندی اور کفریات سے ناواقف دیوبندی کا حکم بیان کیا گیاہے،نیز بدمذہبوں سے میل جول اورشعاربدمذہبیت اختیار کرنے کے حکم کابیان ہے۔
اقرار کے سبب حکم میں تبدیلی
نمازوتبلیغ کے نام پر جو لوگ دیوبندیوں کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔وہ اگر دیوبندیوں کے کفریات کلامیہ سے ناواقف ہیں اورخود کو دیوبندی کہتے ہیں تو ان پر کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔
چوں کہ فرقہ دیوبندیہ ایک مرتد فرقہ ہے، اس لیے ان پر کفر کلامی کا حکم عائد ہونا چاہئے، لیکن بعض احتمال کے سبب کفرکلامی کا حکم عائد نہیں ہوتا ہے۔جو اسلام کے علاوہ جس فرقہ میں جانے کا قول کیا،یا عزم کیا تووہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ عزم کفر،کفر ہے۔
۔ (۱) مسئلہ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید معاذاللہ یہ کہے کہ میں عیسائی یا وہابی یا کافر ہوجاؤں گا،نام ایک فرقہ کا لیا۔آیا وہ انہیں میں سے ہوگا یا نہیں؟
یا یہ کہے کہ جی چاہتا ہے کہ غیر مقلد ہوجاؤں،یا یہ کہے کہ غیر مقلد ہونے کا جی چاہتا ہے۔یہ قول کیسا ہے؟اگر چہ کسی کوچھیڑنے یامذاق کی غرض سے کہے:بینوا توجروا
الجواب : جس نے جس فرقہ کا نام لیا،اس فرقہ کاہوگیا۔مذاق سے کہے یا کسی دوسری وجہ سے:واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص102-رضا اکیڈمی ممبئ)
۔(۲) ایک عورت چمار قوم سے تھی،پھر وہ مسلمان ہوگئی۔ اس کے بعد اپنے لوگوں کے بہکاوے کے سبب دوبارہ ہندوہونا چاہتی تھی۔چوں کہ عزم کفر ہی کفر ہے،خواہ کفرکرے،یا نہ کرے۔امام موصوف نے فرمایاکہ کافرہونا چاہتی ہے تووہ کافر ہوگئی۔
۔ ”جب وہ کافروں میں جاملنا اور کافر ہونا چاہتی ہے تو کافر ہوگئی۔جبراً روک رکھنے سے مسلمان نہیں ہوسکتی۔ہاں، اگر یہ سمجھا جائے کہ اس روکنے سے وہ خواہش کفر اس کے دل سے نکل جائے گی،اور پھر صدق دل سے مسلمان ہوجائے گی تو روکا جائے،ورنہ دورکیا جائے: واللہ تعالیٰ اعلم“۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص 76-رضااکیڈمی ممبئ)
اقرار کی تین صورتیں ہیں:
۔(1) اپنے لیے کافر جماعت میں ہونے کا اقرارکرنے پر کفر کا حکم عائد ہوتاہے۔
۔(2) اپنے لیے گمراہ جماعت میں ہونے کا اقرار کرنے پر گمرہی کاحکم عائدہوتاہے۔
۔(3) اپنے لیے مرتد جماعت میں ہونے کا اقرار کرنے پرکفرکا حکم ہونا چاہئے،لیکن محض اس اقرار کے سبب اس پر حکم کفر عائد نہیں کیا جاتاہے۔
صورت اول میں کفرکا حکم عائدہوتا ہے۔صورت دوم میں ضلالت کاحکم عائد ہوتا ہے اور صورت سوم میں احتمال کے سبب حکم کفرعائد نہیں ہوتا ہے،بلکہ اس کوگمراہ قراردیا جاتا ہے، اورکفر وعدم کفر کا فیصلہ اس کے اعتقادات کی تفتیش کے بعد ہی کیا جاتاہے۔
صورت اول
چوں کہ کافر جماعتیں اسلام سے بالکل الگ ہیں۔ہر عالم وجاہل کو معلوم ہے کہ ان جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،پس جس نے مجوسی ہونے کا اقرار کیا،اس نے اسلام سے جداہونے اور ترک اسلام کااقرار کیا۔ترک اسلام کا عزم ہی کفر ہے۔اقرار اس سے سخت ترہے۔اگرچہ لہوولعب کے طورپر اقرار کرے۔
صورت دوم وسوم
گمراہ جماعت میں ہونے کا اقرار کیا تو گمراہ ہے اور مرتدجماعت میں ہونے کا اقرار کیا تو بھی گمراہ قراردیا جائے گا۔یہاں شبہہ ہے کہ وہ مرتد جماعت کے کفری عقائدسے آشنا نہ ہو،اور چوں کہ مرتد جماعتیں بھی خود کو مسلم جماعت کہتی ہیں تو ممکن ہے کہ عام مسلمان ایک مسلم جماعت سمجھ کر اس مرتدجماعت میں شریک ہوجائے۔اسی قسم کے شبہات اور احتمال کے سبب مرتکب پرکفر کا حکم عائدنہیں ہوتا۔
ہاں، جو اس مرتد جماعت کے عقائدکفریہ سے واقف ہوکر اس جماعت میں ہونے کااقرارکیا تو اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔احتمال کے سبب ناواقف سے حکم کفر مسلوب ہوگا۔
شعارکفارومرتدین وضالین کا حکم
اسی طرح شعار کفر،شعاراہل ضلالت وشعارمرتدین کا حکم ہے کہ شعار کفر اختیارکرنا کفر ہے اور شعاراہل ضلالت اختیار کرنا ضلالت ہے،اسی طرح شعار اہل ارتداد اختیارکرنا بھی ضلالت ہے۔شعارمرتدین اختیار کرنے پر ارتداد کا حکم نہیں۔
امام احمدرضا قادری نے رقم فرمایا:”اس قوم کومحبوب ومرضی جان کر اُن سے مشابہت پسند کرے۔یہ بات اگرمبتدع کے ساتھ ہو، بدعت اور کفّار کے ساتھ معاذاللہ کفر۔
حدیث : من تشبہ بقوم فہو منھم۔ حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد نہم، جزاول،ص 90-رضااکیڈمی ممبئ)
توضیح : مذکورہ بالاعبارت میں مبتدع سے گمراہ ومرتد دونوں مرادہیں۔
۔ (1) خود کودیوبندی کہنے والے کا حکم
اگر کوئی خود کو دیوبندی کہتا ہے تو عالم ہویا جاہل۔اس کا شمار دیوبندیوں میں ہوگا۔
اب اگر وہ دیوبندیوں کے کفریات کلامیہ سے واقف ہے تو دیوبندیت کا اقرار کرنے کے سبب کافر کلامی ہوگا۔دیوبندیت کے اقرار کے سبب ان کفر یہ کلامیہ کوماننا ثابت ہو گیا۔
ناواقف دیوبندی کا حکم
دراصل ناواقف دیوبندی پرکفرکلامی کا حکم عائد ہونا چاہئے،اوریہ خارج اسلام ہونا چاہئے،لیکن احتمال کے سبب اس پرکفرکلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا۔اس احتمال کا ذکر ماقبل میں ہو گیاکہ مرتدفرقہ کواس نے اسلام کا ایک طبقہ سمجھا ہو،لہٰذااس ناواقف پر کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔
جو دیوبندی فرقہ دیوبندیہ کے کفریات کلامیہ سے ناواقف ہو،اس پر کفر فقہی کا حکم درج ذیل طریقوں سے عائد ہوگا۔کفر کلامی کا لزوم بھی ثابت ہوگا،لیکن کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا۔ کفر کلامی کا حکم التزام کفر کے وقت عائد ہوتا ہے،لزوم کفر کے وقت نہیں۔
۔ (1) جوبھی دیوبندی ہوگا،وہ اپنے بزرگوں کی کتابوں کو صحیح مانتا ہوگا۔ان کتابوں میں کفر فقہی وکفر کلامی موجودہے۔ایسی صورت میں وہ لزومی طورپر کفر یات فقہیہ وکفریات کلا میہ کا بھی معتقد ہوگا۔ اس لزوم کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا، کیوں کہ لزوم کفر کے وقت کفر فقہی کا حکم عائد ہوتا ہے۔
امام اہل سنت نے الکوکبۃ الشہابیہ میں رقم فرمایا:”یہ نمونہ کفریات امام الطائفہ تھا۔اتباع واذناب کہ اس کے عقائد کوصحیح وحق جانتے،اور اسے امام وپیشوا مانتے ہیں،لزوم کفر سے کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں“۔(الکوکبۃ الشہابیہ:کفر 69:ص229-فتاویٰ رضویہ:جلد پانزدہم)
۔ (2) جوبھی دیوبندی ہوگا،وہ اپنے مذہب کے بزرگوں کومومن مانتا ہوگا۔ان میں بہت سے کافر کلامی ہوں گے،بلکہ سب ہی اسی طرح ہوں گے۔ایسی صورت میں وہ لزومی طور پر کافرکلامی کومومن اعتقاد کرنے والا ثابت ہوا۔ اس لزوم کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن لزوم کے سبب کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔
۔(3) دیابنہ اور وہابیہ اپنی تقریر وتحریر میں اعلانیہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر قادر ہے،ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بندوں کی قدرت سے کم ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ کوجھوٹ یا کسی بھی عیب پر قاد ر ماننا کفر فقہی ہے۔(سبحان السبوح میں تفصیلی حکم مذکور ہے۔)
۔(4)دیابنہ اوروہابیہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ نبی کو علم غیب نہیں ہوتا۔ نبی کو پیٹھ پیچھے کا علم نہیں۔ اس سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے علم غیب کا انکار ہوجاتا ہے اور یہ کفر فقہی ہے۔ اگر من کل الوجوہ علم غیب کا انکار کردیں تو تکذیب قرآن کریم اور ضروری دینی کا انکار اورکفرکلامی ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:ص 36-رضا اکیڈمی ممبئ)
۔(5) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے بڑے بھائی کی طرح مانتے ہیں۔یہ یہ بھی کفر فقہی ہے۔اپنے جیسا بشر کہتے ہیں۔یہ کفار کا طریقہ ہے۔یہ رتبہ گھٹانا ہے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رسالہ:الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد میں وہابیہ اور دیابنہ کے دوسوتیس کفریات کو شمار کرایا ہے،جن میں چند کے علاوہ سب کفر فقہی ہیں۔اسی میں بڑے بھائی کہنے کو کفر فقہی بتایا گیا ہے۔(ص 17-اعلیٰ حضرت نیٹ ورک)
۔ (6) جومومن کو مشرک کہے،وہ کافر فقہی ہے۔وہابیہ اور دیابنہ معمولات اہل سنت وجماعت کو شرک کہتے ہیں تو اس اعتبارسے مومن کومشرک کہنا لازم آیا۔یہ بھی کفر فقہی ہے۔
یارسول اللہ کہنا شرک،میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منانا شرک،روضہ نبوی کی زیارت شرک،روضہ نبوی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا شرک،انبیاواولیاسے مددطلب کرنا شرک، مصیبت کے وقت ان کو پکارنا شرک،چادر چڑھانا شرک،فاتحہ ونیاز شرک،قبروں کی زیارت شرک۔وہابیہ اور دیابنہ کے یہاں شرک کی لمبی فہرست ہے۔
الکوکبۃ الشہابیہ میں کفرنمبر:70میں مومن کومشرک کہنے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔
معمولات اہل سنت کو شرک کہنے کے سبب وہابیہ پرکفرفقہی کا حکم عائد ہوتا ہے،کیوں کہ ان معمولات اہل سنت کو شرک کہنے سے اہل سنت کا مشرک ہونا لازم آتا ہے اور مومن کوتاویل فاسد کے سبب مشرک یا کافر کہنا کفرفقہی ہے۔خوارج اسی سبب سے کافر فقہی قرار پائے۔
واقف ومنکر کا حکم
اگر کوئی کفریات سے واقف وآشنادیوبندی فرقہ دیوبندیہ کے کفریات کلامیہ کونہ مانے،اوراس کی صراحت کر دے۔اسی طرح اشخاص اربعہ کوکافرکلامی مان لے۔ وہ تمام دیوبندی جو اشخاص اربعہ کومومن ماننے کے سبب کافرہیں،ان تمام کو کافرکلامی مان لے تو اس کے لیے وہی حکم ہے جورسالہ: ازالۃ العار میں بیان کردہ قسم ثالث کا حکم ہے کہ وہ کافر فقہی ہے۔
اس واقف دیوبندی اورمذکورہ ناواقف دیوبندی میں فرق یہ ہے کہ ُاس ناواقف پر کفر کلامی کا لزوم ثابت ہے اور ِاس واقف دیوبندی پر کفرکلامی کا لزوم ثابت نہیں،کیوں کہ یہاں کفر کلامی کے انکار کی صراحت ہے،اور یہ کافرکلامی کوبھی کافرکلامی مانتا ہے۔
الحاصل کفر کلامی کے لزوم کے سبب ناواقف دیوبندی کا کفر کچھ شدید ہوگا،گر چہ مذکورہ ناواقف دیوبندی اور مذکورہ واقف دیوبندی دونوں کافر فقہی ہیں۔
قسم ثالث میں وہ واقف دیوبندی شامل ہوگا،جو کفریات کلامیہ کونہ ماننے کی صراحت کردے۔اسی طرح ہر کافرکلامی کونام بہ نام کافرماننے کی صراحت کردے۔
نام بہ نام سے مراد یہ ہے کہ شخصی طورپران لوگوں کوکافرمانے،ورنہ دیوبندی لوگ اعلان کرتے ہیں کہ ہرگستاخ رسول کافرہے،لیکن اپنے درمیان کے گستاخوں کوکہتے ہیں کہ وہ تو عاشق رسول تھے،حالاں کہ ان لوگوں پر کفر کلامی کا صحیح فتویٰ عائدہوچکا ہے۔
سوال : دیوبندیوں کے کفریات سے ناواقف شخص جو خود کودیوبندی کہتا ہے،وہ کافر فقہی ہے اور متکلمین کافرفقہی کو گمراہ کہتے ہیں تو پھر ان لوگوں کومحض گمراہ کہا جائے،کافرفقہی کہنے کی ضرورت کیا ہے؟
جب کہ امام احمدرضا بھی باب تکفیر میں مذہب متکلمین پر تھے؟
جواب :گمراہ کی دو قسمیں ہیں۔ایک وہ گمراہ جو کافر فقہی نہ ہو۔دوسرا وہ گمراہ جو کافرفقہی ہو۔دونوں کے احکام میں کچھ فرق ہے،اس لیے وضاحت ضروری ہے کہ یہ کون سا گمراہ ہے۔ گمراہ کا لفظ کبھی کافر کلامی پر بھی بولا جاتا ہے۔
جب شرعی احکام بتانا ہو تو وضاحت کردینا مناسب ہے،تاکہ اس سے متعلق شرعی احکام پر عمل کیا جائے۔
رسالہ:ازالۃ العارمیں بیان کردہ اقسام اربعہ
اس رسالہ میں بیان کردہ ہر طبقے سے متعلق کسی امرکے ماننے یا نہ ماننے کا ذکر ہے۔ کسی بھی امر کے اقرار وانکار کا علم خاص اس شخص کے قول یا تحریر سے ہوگا۔ایسا نہیں کہ مفتی اپنے ذہن میں ایک مفروضہ قائم کرلے کہ وہ فلاں امر کو مانتا ہے،یا نہیں مانتا ہے اورپھر اپنے مفروضہ کے اعتبارسے شرعی حکم بیان فرمادے
جیسا کہ عہد حاضر میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ دیوبندی عوام کو کچھ بھی معلوم نہیں اور اسی مفروضہ کی بنیاد پر حکم شرعی بھی بیان کرنے لگے۔
ہرطبقے سے متعلق جن امور کوماننے یا نہ ماننے کا ذکر ہے،اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے،تاکہ مفتی حکم شرعی بیان کرنے سے قبل اس امرپر غور فر مالے۔
قسم اول
۔”وہابی ہو یا رافضی جو بد مذہب عقائد کفریہ رکھتا ہے جیسے ختم نبوت حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار یا قرآن عظیم میں نقص ودخل بشری کا اقرار تو ایسوں سے نکاح با جماع مسلمین بالقطع والیقین باطل محض وزنائے صرف ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:377-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:قسم اول میں اس شخص کا ذکرہے جو کفریات کلامیہ کومانتا ہوتویہ شخص کافرکلامی ہو گا۔ کفریا ت کلامیہ کو ماننے کا ثبوت اس شخص کے قول یا تحریر سے ہوگا۔ لوگوں کے مفروضہ سے نہیں۔
قسم دوم
۔”اور اگر ایسے عقائد خود نہیں رکھتا،مگر کبرائے وہابیہ یامجتہدین روافض خذلہم اللہ تعالیٰ کہ وہ عقائد رکھتے ہیں، انھیں امام وپیشوا یامسلمان ہی مانتا ہے تو بھی یقینا اجماعا خود کافر ہے کہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے یونہی ان کے منکر کو کافر نہ جاننا بھی کفر ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:378-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح:قسم دوم کے بیان میں صراحت ہے کہ یہ ایسافردہے جو خود کفریات کلامیہ سے خالی ہو، لیکن ان کفریات کے قائلین کومومن مانتا ہوتو قائلین کفریات کومومن ماننے کے سبب وہ کافر ہوگا۔کفریات کلامیہ کے قائلین کومومن ماننے کا ثبوت اس شخص کے قول و تحریر ودیگرقرائن سے ہوگا،مثلاً اس کی اقتدا میں نمازاداکرنا۔ لوگوں کے مفروضہ سے نہیں۔
قسم سوم
۔ ”اور اگرا س سے بھی خالی ہے۔ ایسے عقائد والوں کو اگرچہ اس کے پیشوایانِ طائفہ ہوں، صاف صاف کافر مانتا ہے(اگرچہ بد مذہبوں سے اس کی توقع بہت ہی ضعیف اور تجربہ اس کے خلاف پر شاہد قوی ہے)تو اب تیسرا درجہ کفریات لزومیہ کا آئے گا“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص378-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح : قسم سوم کے بیان میں صراحت ہے کہ یہ ایسافردہے جو خود بھی کفریات کلامیہ سے خالی ہو، اوران کفریات کے قائلین کوکافر مانتا ہوتو کفریات کلامیہ سے خالی ہونے او ر قائلین کفریات کوکافر ماننے کا ثبوت اس شخص کے قول یا تحریر سے ہوگا۔ لوگوں کے مفروضہ سے نہیں۔
قسم چہارم
۔ ”اور اگراس سے تجاوز کرکے کوئی وہابی ایسا فرض کیجئے جوخود بھی ان تمام کفریات سے خالی ہو،اور ان کے قائلین جملہ وہابیہ سابقین ولاحقین سب کو گمراہ وبدمذہب مانتا، بلکہ بالفرض قائلان کفریات مانتا اور لازم الکفر ہی جانتا ہو“۔(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص383-382-جامعہ نظامیہ لاہور)
توضیح : قسم چہارم کے بیان میں صراحت ہے کہ یہ ایسافردہے جو خود بھی تمام کفریات سے خالی ہو، اوران کفریات کے قائلین کو گمراہ وبدمذہب،بلکہ قائلین کفرولازم الکفر مانتا ہوتو ان کفریات سے خالی ہونے او ر قائلین کفریات کو گمراہ ولازم الکفر ماننے کا ثبوت اس شخص کے قول یا تحریر سے ہوگا۔ لوگوں کے مفروضہ سے نہیں۔
غیر مقلدوہابیہ کے بنیادی عقائدمیں کفر یات کلامیہ نہیں،اس کے باجود امام احمدرضا قادری نے فرمایا کہ کوئی ایسا غیرمقلدوہابی نہیں ہوگا جوکافر فقہی نہ ہو۔(الا ماشاء اللہ تعالیٰ)
دیوبندی فرقہ کے بنیادی عقائدمیں کفریات کلامیہ ہیں،پھر بھی لوگ دوستی یا رشتہ داری کے سبب نرم گوشہ رکھتے ہیں اور دیوبندیوں کومحض گمراہ یعنی غیرکافر فقہی بتاتے ہیں۔
امام احمدرضا قادری نے غیرمقلدوہابیہ سے متعلق رقم فرمایا:”دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسانہ ہوگا جس پر فقہائے کرام کے ارشادات سے کفرلازم نہ ہو۔(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص382-381-جامعہ نظامیہ لاہور)
۔ (2) نہ سنی،نہ دیوبندی
اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم نہ سنی ہیں،نہ دیوبندی تو اس کا حکم یہ ہے کہ سنیت کے انکار کے سبب وہ سنی نہیں ہے۔اس انکارسے ضروریات اہل سنت کا بھی انکار ہوگیا۔جس طرح خود کو غیرمسلم کہنے سے ضروریات دین کا انکار ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کو غیر مسلم سمجھا جاتا ہے۔
فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین کے یہاں ضروریات اہل سنت کا منکر بھی کافر ہے،لہٰذا یہ کافر فقہی ہوگا،بشرطے کہ اس کے عقائدمیں کوئی کفر کلامی نہ ہو۔اگر اس کے عقائد میں کفر کلامی ہوتو وہ کافر کلامی ہے۔
مذکورہ شخص کو اگر کوئی فقیہ کافرومرتدقراردے تو اس کامفہوم یہ ہے کہ وہ کافر فقہی ہے۔فقہاکافر فقہی کوبھی مرتد کہتے ہیں،لیکن کافر کلامی سے ایک درجہ نیچے رکھتے ہیں۔
تحریر : طارق انورمصباحی
مدیر : ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر : افکار رضا