Friday, November 15, 2024
Homeاحکام شریعتنماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ قسط سوم

نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ قسط سوم

تحریر: طارق انور مصباحی نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ قسط سوم  قسط اول پڑھنے کے لیے کلک کریں  قسط دوم کے لیے کلک کریں 

نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ 

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

قسط دوم میں ان لوگوں کاذکر تھا جوخود کودیوبندی کہتے ہیں۔قسط سوم میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خودکوسنی کہتے ہیں اور دیوبندیوں سے بھی ربط وتعلق رکھتے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ مشکوک ومشتبہ ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کے احکام اس قسط میں مرقوم ہیں۔

خود کو سنی کہنے والے کا حکم

اگر کوئی خودکو سنی کہتا ہے،لیکن دیوبندیوں کی اقتدا کرتا ہے،ان کے ساتھ میل جول رکھتاہے تو اس کے حکم میں تفصیل ہے۔

دیوبندیوں کے کفریات کلامیہ سے آشنا ہوکر اس کی اقتدا کرتا ہے تو کافر ہے۔اگر صرف اتنا جانتا ہے کہ یہ لوگ بدمذہب ہیں۔ان کے کفریات کلامیہ سے آگاہ نہیں تو اقتدا کے سبب سخت گنہ گار ہے۔

کفریہ کلامیہ سے واقف ہونے کے بعدکافرکلامی کی اقتدا کے سبب حکم کفر اس لیے ہے کہ اس کی اقتدا سے یہ واضح ہے کہ اقتدا کرنے والا اس کومومن سمجھتا ہے،کیوں کہ کافر وغیر مسلم،کسی پنڈت وپادری کی اقتدا میں نمازنہیں ہوتی،پس اس نے اسے مومن سمجھا۔

اگرلاعلمی کے سبب کافرکلامی کو گمراہ سمجھ کر اس کے پیچھے نماز پڑھ لی تو یہ بھی مکروہ تحریمی اور سخت گناہ ہے۔ اگر اس کے کفر کلامی سے آگاہ ہوکراس کی اقتد ا میں نماز ادا کی تو حکم کفر ہے۔

مسئلہ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کچھ آدمی حضورکے عقائد کوبہت اچھا او ر بہتر جانتے ہیں اور دیوبندی مولویوں کے عقائد کو بہت براجانتے ہیں اور بڑے پکے سنت جماعت ہیں، لیکن بہ سبب بے علمی اور نادانی کے ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔

حضو ر کی تحریروں سے اتنا شوق نہیں جو حق اور ناحق معلوم کریں۔آیا ان کے پیچھے بھی نماز پڑھی جائے،یا نہیں اوراس مرض میں بہت مخلوق مبتلا ہے۔

الجواب : جسے یہ معلوم ہوکہ دیوبندیوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کی ہے،پھر ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے،اسے مسلمان نہ کہا جائے گاکہ پیچھے نماز پڑھنا اس کی ظاہر دلیل ہے کہ ان کو مسلمان سمجھا

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کو مسلمان سمجھنا کفر ہے،اسی لیے علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق دیوبندیوں کوکافر مرتد لکھا اور صاف فرمایا کہ: من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔

جوان کے عقائد پر مطلع ہوکر انہیں مسلمان جاننا درکنار، ان کے کفر میں شک ہی کرے،وہ بھی کافر اور جن کو اس کی خبر نہیں، اجمالاً اتنا معلوم ہے کہ یہ برے لوگ بدعقیدہ بد مذہب ہیں ، وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے سخت اشد گناہ گار ہوتے ہیں اور ان کی وہ نمازیں سب باطل وبے کار : واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص77-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح : فرقہ تفضیلیہ محض گمراہ ہے تو ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اورواجب الاعادہ ہوتی ہے۔اگر مرتد کو لاعلمی کے سبب محض گمراہ سمجھ کر اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لی تولاعلمی کے سبب کافر تو نہیں ہوگا،لیکن یہاں نماز مکروہ تحریمی نہیں،بلکہ باطل ہوگی۔

عدم علم کے سبب نماز کے بطلان کا حکم نہیں بد لا،گرچہ لا علمی میں اقتد ا کرنے پر حکم کفر وارد نہیں ہوا۔

کفریات پر مطلع ہوکر اقتدا کرنا
امام احمدرضاقادری سے سوال کیا گیا کہ ایک مولوی اور ایک حکیم نانوتوی، گنگوہی اور تھانوی کو اپنا پیشوا وسرتاج اہل سنت مانتے ہیں،ان دونوں کا حکم کیا ہے؟
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 103-رضا اکیڈمی ممبئ)

اسی طرح جولوگ اس مولوی اور حکیم کے باطل خیال سے مطلع ہوکر ان دونوں کوامام بنائے،ان کے پیچھے نماز پڑھے،اور کہے کہ یہ مولویوں کے جھگڑے ہیں،ہمیں ان سے کیا کام؟آخریہ دونوں بھی توعالم ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
(فتاویٰ رضویہ جلدششم ص104 -رضا اکیڈمی ممبئ)

امام اہل سنت نے جواب میں رقم فرمایا:”جوان کے خیالا ت وحالات پر مطلع ہوکر انہیں عالم جانے، یا قابل امامت مانے،ان کے پیچھے نماز پڑھے،وہ بھی انہیں کی طرح کافر ومرتد ہے  کہ :  من شک فی کفرہ فقد کفر۔

اس کے لیے حسام الحر مین کی وہ عبارتیں کہ سوال سوم میں مذکور ہوئیں، کافی ہیں ۔  یوں ہی جوان احکام ضروریات اسلام کو کہے :یہ مولوی کے جھگڑے ہیں،وہ بھی کافر ہے“ ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص109-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح :جو کفریات پر مطلع ہوکر ایسے آدمی کوعالم یاقابل امامت جانے،یا اس کے پیچھے نماز پڑھے،وہ بھی اسی طرح کافر ہے۔اسی طرح کافر کوکافرماننا ضروریات اسلام سے ہے۔ جو اس مسئلہ کو مولویوں کا جھگڑا کہے،وہ بھی کافر ہے،کیوں کہ ضروریات دین کی بے ادبی کفر ہے۔

ضروریات دین اعلیٰ درجہ کے فرائض یعنی فرائض قطعیہ ہیں۔ان کو مانے بغیر اسلام وایمان کا تصور نہیں۔

آج کل لوگ نفس پرستی کے سبب بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔

مرتدین وضالین سے میل جول رکھنے کا حکم

گمراہ لوگوں سے میل جول رکھنے والا اگران کے عقائد سے واقف ہو کر لوگوں کوگمراہ نہیں مانتا تو خود گمراہ ہے۔

اگر مرتد لوگوں سے میل جول رکھنے والاان کے کفریہ عقائد سے واقف ہو کر ان لوگوں کو مرتد نہیں مانتا ہے تو خود مرتد ہے۔

اگر گمراہ کوگمراہ اور مرتد کومرتد مانتا ہے،پھر بھی میل جول رکھتا ہے تو فاسق ہے۔

ضرورت وحاجت کی صورتیں مستثنی ہیں۔مختصر وضاحت درج ذیل فتویٰ میں ہے۔

مسئلہ : جوشخص وہابیہ سے میل جول اور باہمی شادی بیاہ رکھتا ہو، اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ وہابی ہے، اس کے یہاں شادی بیاہ کرسکتے ہیں جب کہ یہ معلوم ہے کہ وہابیہ سے اس کا میل جو ل ہے۔ بینوا توجروا

الجواب : وہابیہ سے میل جول رکھنے والا ضرور وہابی ہے کہ وہابیہ کو گمراہ بد دین نہیں جانتا تو خود گمراہ بد دین ہے ا ور اس کے ساتھ مناکحت ہو ہی نہیں سکتی،اور اگر ان کو گمراہ بد بدین جانتا اور کہتا ہے پھر بھی ان سے میل جول رکھتا ہے توسخت فاسق بے باک ہے اس کی مناکحت سے احتراز چاہئے: واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص172-نوری دارالاشاعت بریلی شریف)

توضیح : وہابیہ سے میل جول رکھنے والا وہابی تسلیم کیا جائے گا ۔ اب اگر وہ ان کے کسی غلط عقیدہ کو بالکل نہیں مانتا،نہ خود کووہابی کہتا ہے،بلکہ ان کوگمراہ وبددین جانتا ہے تووہ مومن او ر سنی ہے اور فاسق وفاجر ہے۔یہاں غیرمقلد وہابی کا ذکر ہے،جوصر ف کافر فقہی ہے۔

اگریہی سوال دیوبندی سے متعلق ہوتا تو اس طر ح جواب رقم فرماتے:”اگر ان کو کافر ومرتدجانتا اور کہتا ہے پھر بھی ان سے میل جول رکھتا ہے توسخت فاسق بے باک ہے“۔

بلاضرورت بدمذہبوں سے میل جول رکھنا ناجائز وحرام ہے اور ناجائز سمجھ کر بلا ضرورت ان سے میل جول رکھنا فسق عملی ہے اور ایسا آدمی فاسق وفاجر ہے،لیکن فسق عملی کے باوجودمومن وسنی ہے۔

کبھی ضرورت وحاجت کے سبب کسی بدمذہب سے بہ قدر ضرورت وحاجت میل جول کی اجازت ہوتی ہے۔عام حالات میں اجازت نہیں۔

مشکوک ومشتبہ لوگوں کا حکم کیاہے؟

مشکوک افراد سنیت کا دعویٰ کریں تو ان کے عقائدکی تفتیش وتحقیق کے بعد ہی ان کو سنی قراردیا جائے گا۔قسط اول میں مشتبہ لوگوں کی تفتیش وتحقیق کے طریقے بیان کیے گئے۔

مشکوک لوگوں کی تحقیق کی جائے گی اور جن پر شک وشبہہ کی گنجائش نہیں،ان پر بدگمانی کرنا حرام ہے۔مشتبہ لوگوں کا دعوی سنیت بلا تحقیق قبول نہیں کیا جا سکتا۔ان سے دیوبندیوں اوروہابیوں کے عقائدسے متعلق سوال کیا جائے۔اگر ان عقائد کوغلط بتائے اور ان کے لکھنے والوں کو بھی غلط مانے اور گمراہ کوگمراہ وکافرکوکافر مانے تو اسے سنی مانا جائے۔

امام احمدرضا نے رقم فرمایا:”اگر اس میں کوئی بات وہابیت کی نہ دیکھی،نہ کوئی قوی وجہ شبہہ کی ہے تو بلاوجہ شبہہ نہ کیا جائے، بدگمانی حرام ہے،اور اگر اس میں وہابیت پائی تو ثابت شدہ بات اس کی قسموں سے دفع نہ ہوجائے گی۔وہابی اکثر ایسی قسمیں کھایا کرتے ہیں۔

قال اللّٰہ تعالٰی: یَحْلِفُونَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُواکَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوا بَعْدَ اِسْلامِہِمْ -نہ ان کی قسموں کا اعتبار۔ قال اللّٰہ تعالٰی: اِنَّہُمْ لَا اَیمَانَ لَہُم ۔

اور اگر کسی وجہ سے شبہہ ہے تو صرف ان قسموں پر قناعت نہ کریں، بلکہ اس سے دریافت کریں کہ تو اسمٰعیل دہلوی ونذیر حسین دہلوی ورشید احمد گنگوہی وقاسم نانوتوی واشرف علی تھانوی اور ان کی کتابوں تقویۃ الایمان و معیار الحق وبراہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان وبہشتی زیور وغیرہا کو کیسا جانتا ہے؟اگر صاف کہے کہ یہ لوگ بے دین گمراہ ہیں اور یہ کتابیں کفر وضلالت سے بھری ہوئی ہیں،تو ظاہر یہ ہے کہ وہابی نہیں، ورنہ ضرور وہابی ہے۔

جھوٹوں کی قسم پر اعتبار نہ کرنا قرآن اور اللہ پر اعتبار نہ کرنا نہیں ۔

اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ انک لرسولہ واللّٰہ یشہد ان المنافقون لکذبون::اتخذوا ایمانہم جنۃ فصدوا عن سبیل اللّٰہ انہم ساء ما کانوا یعملون۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص 79-رضا اکیڈمی ممبئ)

منافقین خود کو مسلمان کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دعویٰ کو قبول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایاکہ وہ مومن نہیں:(وماہم بمؤمنین) (سورہ بقرہ:آیت8)

اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادہ ہے۔ بندوں کو مشکوک لوگوں کی تحقیق وتفتیش کے بعدہی حقائق اور سچائی علم ہوگا،اس لیے تفتیش کرنی ہوگی۔

آج کل دیوبندی مولوی بھی خود کوسنی اور اہل سنت کہتے اورلکھنے لگے۔ وہ لوگ خود کو اہل سنت (دیوبند)کہتے ہیں،اوراہل سنت وجماعت کو بدعتی اوربریلوی کہتے ہیں۔

خود کواہل سنت دیوبند کہنا اوردیوبندی کہنا دونوں کا حکم یکساں ہے۔ الفاظ کے بدل جانے سے یہاں شرعی حکم نہیں بدلے گا۔اس دیوبندی مذہب کی تعبیر جس لفظ سے بھی ہو ، حکم وہی رہے گا۔

سلفی لوگ بھی خود کو اہل سنت اور اہل سنت کوبدعتی قرار دیتے ہیں۔

سنی کون ہے؟

سنی صرف اس کومانا جائے گا جو ضروریات دین وضروریات اہل سنت کومانتا ہو۔ ساتھ ہی اہل سنت وجماعت کے اجماعی عقائد کومانتا اور شعاراہل سنت پر قائم ہو۔

اگر کوئی عورت کسی مفتی کو کہے کہ میں مرد ہوں، مجھے عورت سے نکاح کی اجازت دی جائے تو کیا مفتی اس جھوٹے اقرارکے سبب اسے کسی عورت سے نکاح کی اجازت دے سکتا ہے؟ ہر گزنہیں۔

جھوٹے اقرار کے سبب اسلام سے خروج

مسلم اورسنی ہونے کے لیے صرف سچا اقرار معتبر ہے، جب کہ اسلام وسنیت سے خروج کے لیے جھوٹا اقرار بھی کافی ہوگا، مثلاً لہوولعب کے طورپر کہا کہ میں مجوسی ہوں تو دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔اگر اس نے سچا اقرار کیا ہے تو وہ خود اسلام چھوڑ چکا۔

اگر لہو ولعب کے طورپر کہا تو یہ تلاعب بالدین ہے اور تلاعب بالدین کفر ہے۔جب کفر ثابت ہوگیا تو اسلام سے خروج ثابت ہوگیا،پس خروج میں جھوٹا اقرار بھی کافی ہے۔

تحریر : طارق انورمصباحی
مدیر ماہنامہ پیغام شریعت ،دہلی
اعزازی مدیر افکار رضا

قسط اول پڑھنے کلک کریں 

قسط دوم کے لیے کلک کریں 

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن