Wednesday, November 20, 2024
Homeشخصیاتخلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

از: فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری، خلیفہ اول حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ قسط اول

خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کفر و شرک اور فسق و فجور کا دور تھا، عرب کی اکثریت کفر و شرک میں گلے تک دھنسی ہوئی تھی۔ اس وقت ایک باپ اپنے بچے کو جس کی عمر چار سال تھی اپنے ساتھ بت خانہ لے گیا۔ اور وہاں پر نصب ایک بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے بچے کو حکم دیا کہ: ” یہ ہے تمہارا بلند و بالا خدا اس کو سجدہ کرو۔ “۔

ننھے بچے نے بت کو مخاطب بنا کر کہا ” میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ “۔

بھلا وہ پتھر کیا جواب دیتا بچے نے اس کو ایک پتھر اس زور سے مارا کہ وہ گر پڑا۔ والد یہ دیکھ کر غضب ناک ہو گیا۔ اور ننھے بچے کو رخسار پر تھپڑ مارا اور وہاں سے گھیسٹتے ہوئے اس کی ماں کے پاس لایا۔

ماں نے ننھے بچے کو گلے لگا لیا اور بچے کے والد سے کہا : ” اسے اس کے حال پر چھوڑ دوجب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے اس کے بارے میں غیب سے کئی اچھی باتیں بتائی گئی تھیں۔“۔

قارئین !! ہم بات کر رہے ہیں افضل البشر بعد الانبیا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی۔ آپ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔
مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حضور ﷺ کے نسب سے جاملتا ہے۔

آپ کی کنیت ابوبکر ہے۔
ابوبکر کنیت ہونے کی وجہ “مراة المناجيح” میں مفتی احمد يار خان صاحب نعيمی بیان فرماتے ہیں کہ؛

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

ایک اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔

جیسا کہ روایت میں ہے کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ” ۔
اور صدیق آپ کو اس لیے کہا جاتا ہے کہ روایت میں ہے کہ جب معراج میں آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے جبرائیل سے کہا کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبرائیل نے عرض کیا آپ کی تصدیق ابو بکر کریں گے کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔

اور خود مصطفی جان رحمت ﷺ نے آپ کو صدیق کہا جیسا کہ مروی ہے کہ آپ ﷺ جبل احد پر گئے اور آپ ﷺ کے ہمراہ ابو بکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ آپ ﷺ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی اور فرمایا اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں
اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جنہیں طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کفر وشرک، شراب نوشی، بت پرستی اور دیگر حرام اشیاء سے بچپن ہی سے دور رہے۔
ام امومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے دور جاہلیت سے ہی اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دیا تھا اور آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عرب میں ایک مال دار اور لوگوں پر مال خرچ کرنے والی شخصیت اور تعلیم یافتہ تھے در حالاں کہ عرب کے لوگوں کی اکثر و بیشتر تعداد ان پڑھ ہی تھی۔
جب آپ نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو جیسا کہ قریش کا دستور تھا کہ وہ سب تجارت کو پسند فرماتے اور اسی کو اپنے لیے ذریعہ معاش بھی بناتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی تجارت کو اپنایا اور کپڑے کی تجارت شروع کی۔ ایک شریف تجربہ کار ہونے کے سبب آپ کا بہت جلد ہی مکہ کے کامیاب تاجروں میں شمار ہونے لگا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی معیت میں کئی سفر تجارت کیے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام ابو بکر صدیق نے ہی قبول کیا،آپ کے ایمان لانے کے بارے میں بہت سی روایات منقول ہیں ۔

انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ابو بکر صدیق ایک مرتبہ بغرض تجارت ملک شام گئے، وہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ خواب میں دیکھا کہ ایک چاند مکہ پر نازل ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک گھر میں داخل ہوا پھر یہ ٹکڑے باہم مل گئے اور مکمل چاند آپ کی گود میں آگیا۔

اس کی تعبیر دریافت کرنے کے لیے وہاں کے ایک مشہور راہب بحیرا راہب کے پاس گئے۔ بحیرا نے خواب سن کر کہا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ آپ نے جواب دیا مکہ۔ بحیرا نے پوچھا کس خاندان سے ہو؟ آپ نے فرمایا قریش سے۔ بحیرا نے پوچھا کیا کام کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا تاجر ہوں۔ بحیرا نے کہا: “تو پھر سنو تمہارا خواب سچا ہے۔

تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث ہوں گے تم ان کی زندگی میں ان کے وزیر اور وفات کے بعد ان کے خلیفہ ہو گے۔”اس واقعہ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خواب کو پوشیدہ رکھتا تھا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے واقعی پیغمبر کو خلق کی خدمت کے لیے بھیجا۔اس وقت میں تجارت کی غرض سے سفر میں تھا بعدازاں مکہ میں واپس آگیا۔

جب میں اپنے گھر میں آیا تو عتبہ بن ابی مغیظ و شیبہ اور ابو النجتری اور چند اور قریشی آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی نئی چیز آپ کے ہاں پیدا ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا اس سے زیادہ کیا عجیب بات کیا ہو گی کہ ابو طالب کے یتیم نے اٹھ کر پیغمبری کا دعوی کر دیا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ تم باطل ہو اور تمھارے آبا و اجداد بھی باطل پر تھے اگر آپ کی امداد و اعانت اسے نہ ہوتی تو تو ہم اسے امن نہ دیتے۔ اب جب کہ آپ خود تشریف لے آئے ہیں خود ہی اس کام کو پائیہ تکمیل تک پہنچائے کیونکہ وہ آپ کا دوست ہے۔
جب میں نے ان سے یہ بات سنی تو ان کو معذرت کر کے واپس کر دیا۔ میں نے پوچھا محمد کہا ہیں؟ ؕ

انہوں نے بتایا خدیجہ بنت خویلد کے گھر میں ہیں۔ میں جا کر دروازہ پر بیٹھا رہا جب مصطفٰی ﷺ باہر نکلے تو میں نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کیا ہے جو آپ کی طرف سے باتیں بیان کی جاتی ہیں؟۔

پیغمبرﷺ نے فرمایا اے ابو بکر! میں خدا تعالی کا رسول ہوں آپ مجھ پر دوسرے لوگوں کے ساتھ ایمان لے آئیے تا کہ خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور دوزخ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائیں۔
آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی، میں نے عرض کہ ہر پیغمبر کی نبوت پر دلیل ہوتی تھی آپ کی کیا ہے؟ؕ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری نبوت کی دلیل وہ خواب ہے جو تم نے دیکھا تھا اور یہودی عالم نے کہا تھا اس کا کوئی اعتبار نہیں، بحیرا راہب نے اس کی اس طرح تعبیر کی تھی۔ میں نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے جبرائیل نے اطلاع دی ہے۔ میں نے کہا اس سے زیادہ میں آپ سے کوئی دلیل و برہان نہیں پوچھتا اور آپ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔

زکوٰۃ دینے کے فائدے

جس روز آپ ایمان لائے آپ گھر آئے اور سب کو اسلام کی دعوت دی۔ اور آپ کی دعوت پر لبیک کہتے گھر والوں نے اسلام قبول کیا۔ اور نہ صرف گھر والے بلکہ جب آپ اپنے پرانے دوستوں سے ملتے تو ان کو ہدایت کا راستہ اختار کرنے کی ترغیب دیتے۔ اور دلائل کے ساتھ پیغمبر کی نبوت کی صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتے، اکابر قریش اور عرب کے سرداروں کی ایک جماعت آپ ہی کی برکت سے گمراہی کی دلدل سے ہدایت پر پہنچی۔

عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنھم اجمین آپ کی راہنمائی اور ترغیب سے دولت اسلام سے سرفراز ہوئے۔اور یہ پانچوں عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔

اور آپ نے بہت سے غلام اور لونڈیوں کو بھی خرید کر راہ خدا میں آزاد کیا۔ خاص کر وہ غلام اور لونڈیاں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کے بے رحم آقاؤں نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔ انہیں میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں۔ جب اسلام کا ابتدائی دور تھا اس وقت آپ نے اظہار اسلام کے خاطر کفار مکہ کے ظلم وستم کا بھی سامنا کیا۔

جب قریش کے ظلم وستم کا بازار گرم ہوا تو صحابہ کرام نے سرکار کی بارگاہ میں شکایت کی آپﷺ خاموش رہے۔ پھر ایک مرتبہ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ حاطب بن عمیر بن عبد شمس پر ظلم و ستم کو دیکھتے تو ضرور مہربانی فرماتے۔ “۔

نبی کریم ﷺ نے ہجرت کی اجازت فرما دی، صدیق نے عرض کی: ” یا رسول اللہ! آپ کس طرف ہجرت کا حکم فرماتے ہیں؟ “۔ نبی کریمﷺ  نے حبشہ کی جانب راہنمائی فرمائی کیونکہ صحابہ کرام مسافت کم ہونے اور وہاں کی آب و ہوا مکہ کے مناسب ہونے کی وجہ سے اس طرف ہجرت کرنا مناسب سمجھتے تھے۔ جب مسلمانوں پر اہل مکہ کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو بعث نبوت کے پانچویں اور چھٹے سال بہت سے مسلمانوں نے حبش کی طرف ہجرت کی تا کہ وہاں آرام و سکون سے اپنے مذہب پر عمل کیا جا سکے۔

ابو بکر نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ مقام “برک الغماد” میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار مالک بن دغنہ راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں؟ اے ابو بکر! کہاں چلے؟ آپ نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا میں اب اپنے وطن مکہ کی زمین کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔ ابن دغنہ نے کہا کہ اے ابو بکر! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں، مہماناں حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں، خود کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں، حق کے کاموں میں سب کی مدد و اعانت کرتے ہیں۔ آپ میرے ساتھ مکہ واپس چ لیے میں آپ کی پناہ لیتا ہوں۔ ابن دغنہ آپ کو زبردستی مکہ واپس لائے اور تمام کفار سے کہہ دیا کہ میں نے ابو بکر کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔

لہذا خبردار! کوئی ان کو نہ ستائے۔ کفار نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابو بکر اپنے گھر میں چھپ کر قرآن پڑھیں تا کہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ ابن دغنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ ابو بکر صدیق نے چند دنوں تک اپنے گھر کے اندر قرآن پڑھتے رہے مگر آپ کے جذبہ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبودان باطل لات و عزی کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تعالی کی عبادت چھپ کر گھر کے اندر کی جائے۔

چناں چہ آپ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن پاک سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن دغنہ کو مکہ بلایا اور شکایت کی کہ ابو بکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں۔ جس کو سننے کے لیے ان کے گھر کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

لہذا تم ان سے کہے دو کہ یا تو وہ گھر میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے ابو بکر سے کہا کہ اے ابو بکر! آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤ گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔

یہ سن کر ابو بکر نے فرمایا کہ اے ابن دغنہ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہو جاؤ مجھے اللہ تعالی کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں۔(تواریخ حبیب الہ) آپ دلیر، بہادر اس قدر تھے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد حرام میں قدم رکھا تو مشرکین قریش نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کہنے لگے: ” تم ہی ہمارے بتوں کی عیب گیری کرتے ہو اور ہمارے مذہب کو برا کہتے ہو۔ “۔

آپ نے فرمایا: ہاں میں ہی کہتا ہوں۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ کی روائے مبارک کو گریبان کے پاس سے مٹھی میں لے لیا۔ یہ دیکھ کر ابو بکر صدیق روتے ہوئے آگے بڑھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو مشرکین کے مقابلہ کی ہمت نہ پڑی لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (مردانہ وار) آگے بڑھے، مشرکین کو مارتے پیٹتے گراتے اور ہٹاتے رسول اللہﷺ تک جا پہنچے اور آپ کو ان ظالموں کے نرغے سے نکال لیا،

پھر مشرکوں نے ابو بکر صدیق کو پکڑ لیا اور آپ کے سر اور داڑھی کے بہت سے بال نوچ ڈالے اور بری طرح مجروح کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق کی ذات ہے کہ جس نے سب سے پہلے واقعہ معراج کی تصدیق کی۔ آپ کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سرکار کی زوجیت میں آئیں۔

جب کفار نبی کریم ﷺ  کے قتل پر اتفاق کیا اور وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو جبرائیل رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب ﷺ ! آج رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جائے۔

چنا ں چہ عین دوپہر کے وقت حضور اقدس ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور ابو بکر صدیق سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ ابو بکر نے عرض کیا کہ یاررسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ اور اس کی بہن کے سوا کوئی نہیں ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو بکر! اللہ تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔ ابو بکر نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائے۔ آپ نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ ابو بکر صدیق نے چار ماہ سے دو اونٹنیوں کو ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں کہ ہجرت کے وقت یہ سواری کے کام آئیں گی۔

عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دو گا۔ ابو بکر نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت سے مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔

عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا تو اس وقت کم عمر تھیں لیکن آپ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر نے سامان سفر درست کیا اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے توشہ دان کو باندھا اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا۔ یہی وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر آپ کو “ذات العطاقین” (دوپٹکے والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق نے نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔ اور نبی ﷺ نے مولائے کائنات کو لوگوں کی امانتیں ادا کرنے کے لیے مکہ میں رہنے کا حکم فرمایا۔ جب آپ ﷺ ہجرت کی تو راستے میں غار ثور سے گزر ہوا ۔

آپ ﷺ نے غار ثور میں جلوہ گر ہونا چاہا تو صدیق اکبر نے تمام غار کو اچھی طرح صاف کر لیا تو سید عالم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اندر تشریف لے آئیں۔ چنانچہ آپ غار میں تشریف لے گئے۔

حق سبحانہ تعالی نے فی الفور غار کے منہ پر جھاڑیاں اگا دی، عنکبوت نے غار کے منہ پر پردہ کر دیا، جنگلی کبوتروں کے ایک جوڑے نے حکم خداوندی سے غار میں گھونسلا بنایا اور اسی رات انڈا دے دیا۔ یہ تمام پردہ داری کے انتظامات آن ﷺ کی خاطر تھے تا کہ آپ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہیں۔

جب نبی کریم ﷺ غار میں داخل ہوئے تو ابو بکر صدیق کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے۔ ابو بکر نے جس سوراخ پر ایڑی رکھی ہوئی تھی اس سوراخ میں سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا مگر صدیق نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رحمت عالم ﷺ کے خواب راحت میں خلل نہ پڑ جائے مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کی دھار کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر نثار ہو گیے۔

جس سے رحمت عالم بیدار ہو گئے اور اپنے یار غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابو بکر کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر حضور نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً سارا درد جاتا رہا۔

جب کفار مکہ پیچھا کرتے ہوئے غار ثور کے دہانے پر پہونچے۔مشرکین نے جب کبوتر کا انڈا اور تار عنکبوت (مکڑی) غار کے دھانے پر دیکھا تو کھوجی کو کہا تیری عقل جاتی رہی ہے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیدائش سے پہلے عنکبوت نے یہاں جالا تنا ہو گا۔ نقل ہے کہ مشرکین اس قدر نزدیک پہنچ گئے تھے کہ آن اور ان کے درمیان میں چالیس گز سے زیادہ نہیں تھا۔

ابو بکررضی اللہ عنہ  نے ان کی باتیں سنیں تو غمگین ہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپ نے پوچھا: ابو بکر! رونے کا کیا سبب ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ کی ذات اقدس کو تکلیف پہنچنے سے ڈرتا ہوں کہ دین اسلام نہ مٹ جائے۔

سید عالم  ﷺ نے فرمایا اے میرے پیارے دوست “اور مت گھبراؤ! خدا ہمارے ساتھ ہے۔” ابو بکررضی اللہ عنہ  نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ  اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔

آپ ﷺ نے فرمایا ابو بکر! ان دو شخصوں کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا خدا تعالی ہے۔ ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے آنسو پونچھ ڈالے اور اپنے آپ کو قدرت کردگار کے حوالے کر دیا۔

بالاخر آٹھ روز کے سفر کے بعد آپ ﷺ آٹھ ربیع الاول سنہ 14 نبوی کو دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچے۔ جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ قبا اور بنی عمرو بن عوف یعنی قبا والوں سے رخصت ہو کر شہر مدینہ میں قیام کے ارادے سے چلے۔

از قلم : فہیم جیلانی احسن مصباحی معصوم پوری

(ایڈیٹر: آفیشل ویب سائٹ ” ہماری فکر” مرادآباد)

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن