تحریر: غلام مصطفی نعیمی ایڈیٹر سواد اعظم دہلی ایک فقیر دنیا جسے کہتی ہے سلطان
ایک فقیر دنیا جسے کہتی ہے سلطان
سرزمین ہند اپنی گوناگوں خصوصیات وصفات کی بنا پر پورے بر صغیر میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے اس سرزمین کی خاک سے کتنے ایسے اعاظم رجال پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی استعداد و صلاحیت کی بنا پر ایسی شہرت حاصل کی جس کی بدولت مادر وطن کا چرچا حدود و قیود کو توڑتا ہوا چہار دانگ عالم پھیل گیا ۔
ذرات ہند نے کچھ ایسے افراد پیدا کئے جنہوں نے اپنے علم و ہنر ،اخلاق و مروت ،ہمت و جوانمردی ،شجاعت و بہادری ،ایثارو قربانی اور محبت و وفا کی اعلیٰ روش اپنا کر سرزمین ہند کو وقار بخشا اور مادر وطن کا نام اونچا کیا ۔
لیکن سرزمین ہند کو شہرت کے بام عروج پر پہنچانے والی ایک ذات جس نے ہندوستان کو غیر معمولی شہرت و اہمیت دلائی،جس کی بدولت ہند کے متعلق لوگوں کو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑی ،جس نے ہند کی عظمت و شہرت کو ثریا سے بھی اوپر پہنچا دیا اور سرزمین ہند کو محترم و مکرم زمین بنا دیا یہ وہ ذات تھی جس نے ہندوستان میں جنم نہیں لیا تھا
جو یہاں سے ہزاروں میل دور سے آیا تھا ۔جس کا ہند کے رہن سہن ،زبان ،لباس ،تہذیب رسوم و رواج سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ وہ آیا تو یہاں کے ذرے ذرے کے لئے اجنبی تھا مگر اس جنبی کے مبارک قدموں سے ہندوستان کی زمین کو وہ برکت حاصل ہوئی کہ سرزمین ہند اقوام غیر کیلئے قابل رشک ہو گئی ۔
اس اجنبی فقیر کے قدموں سے لگ کر ہندوستان کو وہ عظمت و رفعت حاصل ہوئی کہ لوگ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے اس اجنبی نے سرزمین ہند کو جو اس وقت جہالت و نادانی ،توہم و اصنام پرستی اور فرسودہ رسم و رواج میں دنیا کی دیگر قوموں سے میلوں آگے تھی ایسا وقار بخشا کہ ہر چہار جانب ہند کی خوبیوں کا چرچا ہو گیا۔
اور لوگ جوق در جوق اس سرزمین میں آباد ہونے لگے۔سرزمین ہند کوعزت و قار بخشنے والی اس اجنبی کی ذات کو آج سارا ہندوستان سلطان الہند ،عطائے رسول ،جگر گوشہ بتول ،خواجہ خواجگاں ،خواجہ ہندوستاں خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی کے نام سے جانتا پہچانتا اور مانتا ہے ۔
ولادت با سعادت
عطائے رسول حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ملک سجستان کے زرخیز علاقے سنجر میں ہوئی جس کی بنا ہر آپ سنجری کہلاتے ہیں۔ والد گرامی حضرت خواجہ غیاث الدین سنجری اپنے وقت کے نامور عالم دین نہایت متقی پرہیزگار اور مقبول عام شخصیت تھے ۔
والدہ محترمہ حضرت مخدومہ بی بی ماہ نورہیں۔ جن کے بطن سے آپ کی صورت میں ولایت کا آفتاب طلوع ہوا جس نے اپنی تابناک کرنوں سے کفرو شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو مٹا کر رکھ دیا اور دیار اصنام میں لا الہ الا اللہ کی صدائیں زبان زد خاص و عام کر دیں ۔آپ کے والدین حسنی و حسینی سادات میں سے ہیں اس طرح آپ کا سلسلہ نسب دونوں طرف سے امام الا ولیا ء باب مدینتہ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔
ہندوستان میں آمد
سرزمین ہند اس وقت جغرافیائی اعتبار سیکڑوں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی ۔لیکن مذہبی اعتبار سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سے زیادہ طبقات میں بٹی ہوئی تھی ۔قدم قدم پر بت پرستی فرسودہ رسم و رواج، کہیں چاند درجہ معبودیت پر فائز ،تو کہیں سورج منصب الوہیت پر متمکن ،تو کہیں ستارے ،جانور ،درندے ،درخت ،دریا ،اور آگ جیسے خود ساختہ معبود خدائی کے منصب پر براجمان تھے ایسے سخت کفریہ ماحول میں ایک اجنبی فقیر اپنے چند مریدوں کو لے کر ۱۱۹۳ء مطابق ۵۵۸ھ میں دہلی ہوتے ہوئے اجمیر کی دھرتی کو اپنے قدوم میمنت سے سرفراز فرماتا ہے ۔
اعلان حق
سرزمین ہند میں چونکہ ہر طرف کفرو شرک کے پرستار اور ہزاروں معبودان باطلہ کے آگے سجدہ ریز ہونے والے افراد تھے ایسے میں آپ کا اعلان حق اور کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا برملا اظہار سب کو آپ کامخالف بنا گیا۔
اجمیر میں اس وقت پرتھوی راج چوہان نامی راجہ کی حکومت تھی اس نے آپ کو ہر ممکن طریقے سے ہراساں کرنے کی کوشش کی آپ کے خادموں کو ڈرایا دھمکایا کہ وہ تبلیغ اسلام بند کر دیں اور علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں مگر
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
جتنی مخالفت بڑھتی گئی اسلام کی اشاعت بھی اتنی ہی بڑھتی گئی یہاں تک کہ اسلام کے ماننے والوں کی ایک کثیر جماعت ہو گئی۔ جو بھی حضرت خواجہ غریب نواز کی سیرت آپ کی غرباء پروری ،انسانیت نوازی ،اور اخلاص و محبت بھرے کردار کو دیکھتا دائرہ اسلام میں آکر مشرف بایمان ہو جاتا ۔
تصوف اور خواجہ
عام طور پر اولیاے کرام نے ہمیشہ محبت و بھائی چارگی کے جذبات کو بڑھا کر ،اخوت و انسانیت کو پروان چڑھا کر اسلام کی اشاعت فرمائی ہے انہیں خوبیوں کی بدولت عوام نے انہیں صوفی کے عظیم لقب سے پکارا حضرت خواجہ غریب نواز بھی صوفیاء کرام کی جماعت میں نمایاں اہمیت کے حامل رہے ہیں اور بلا شبہ آپ نے تصوف کی آبیاری بھی فرمائی ہے ۔
آج کے اس پر فتن دور میں جب کہ ہر طرف سے اسلام و مسلم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،اسلام کی مقتدر ہستیوں کو اپنی فکری آوارگی کا تختہ مشق بنانے کی ہوڑ سی لگی ہوئی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے اسلام کی چودہ سو سال کی مربوط تاریخ کو بے وقعت بنا دیا جائے ایسے پر آشوب دور میں بجائے اس کے کہ مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیا جائے کچھ کلمہ گو طبقات تصوف اور صوفیا کو سرے سے ہی خارج کرنے پر آمادہ ہیں۔
اور تصوف کو مسلمانوں کے لیے ’’زہر ہلاہل‘‘ سمجھنے سمجھانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں اور عام مسلمان کے ذہن کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ تصوف شریعت کا دشمن ہوتا ہے ،تصوف کا شریعت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور دین سے بیزار شخص ہی صوفی ہوتا ہے ۔ مگر یہ پروپیگنڈہ سراسر غلط بیانی اور کھلا ہوا جھوٹ ہے۔
تصوف کیا ہے؟
امام احمد رضا محدث بریلوی اپنی کتاب ’’مقال عرفا باعزاز شرع و علما‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ فرماتے ہیں التصوف انما ھو زبدۃ عمل العبد باحکام الشریعۃ تصوف کیا ہے ؟ بس احکام شریعت پر بندے کے عمل کا خلاصہ ہے (طبقات الشافعیۃ الکبری ص ۴)
سیدی ابو عبد اللہ محمد بن خفیف ضبی قدس سرہ فرماتے ہیں التصوف تصفیۃ القلوب و اتباع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الشریعۃ تصوف اس کا نام ہے کہ دل صاف کیا جائے اور شریعت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے (ایضاً ۲| ۱۸)
سطور گذشتہ میں منقولہ عبارات سے ثابت ہوا کہ تصوف شریعت دشمن نہیں بلکہ شریعت کے تابع ہوا کرتا ہے ،تصوف میں دین سے بیزاری نہیں بلکہ آقا علیہ السلام سے وفاداری ہوتی ہے اور اتباع رسول ہی مقصد اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی منشا ہے ۔جیسا کہ حکم ربی ہے ان کنتم تحبون اللہ فا تبعونی ۔اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری (یعنی رسول ہاشمی )کی اتباع و پیروی کرو (سورہ آل عمران۳۱)
احکام شریعت پر عمل کرنا ۔سیرت رسول کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں نافذ کر لینا یہی تصوف ہے اور حضرت خواجہ غریب نواز اس میں بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔دن کو روزہ رکھنا ،رات کو نوافل ادا کرنا دو تین دن میں کلام الٰہی مکمل کرنا ،اجمیر سے پیدل چل کر حج بیت اللہ ادا کرنا اسی طرح ساری زندگی حضرت خواجہ اتباع رسول کرتے رہے ۔
عبادات و ریاضات تقوی و پرہیزگاری ہی انسان کو مقبول خلائق بناتی ہے اس لئے ایک زمانہ آپ کا گرویدہ تھا ہر ایک آپ کے قدموں پر نثار ہونے کو سعادت خیال کرتاجو بھی آپ کے دامن سے وابستہ ہو گیا آپ نے اسے خدا کا عابد اور رسول خدا کا عاشق بنا دیا اور خود زبان حال و قال سے ارشاد فرمایا کرتے :ع
یکے خواں یکے داں یکے جو یکے گو سواللہ واللہ زور است و باطل
ایک ہی کے کلام کو پڑھ ایک ہی ذات کو جان ایک ہی دروازہ کو تلاش کر ایک ہی طرف توجہ رکھ رب تعالیٰ کی قسم اس کے سوا سب جھوٹے و باطل فانی سایہ ہیں ۔
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی المعروف حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں اقرب الطرق الی اللہ تعالیٰ لزوم قانون العبودیۃوالامساک بعروۃ الشریعۃ۔اللہ عزوجل کی طرف سب سے قریب راستہ قانون بندگی کو لازم پکڑنا اور شریعت کی گرہ کو تھامے رہنا ہے (بہجۃ الاسرار۵۰)
سیدنا غریب نواز کی زندگی امور شرعیہ پر عمل سے عبارت ہے فرائض و واجبات سنن و مستحبات اور نوافل پر سختی سے عمل پیرا تھے غریبوں کے ہمدرد ،بے سہاروں کو سہارا دینے والے ،حاجت مندوں کی حاجت پوری فرمانے والے اور زمانے بھر کے غریبوں کو نواز نے والے غریب نواز تھے۔
سلطان الہند کون ؟
یوں تو ہندوستان پر کم وبیش آٹھ سو نو سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اس دور حکومت میں بڑے بڑے فرماں روا یہاں تخت سلطنت پر متمکن ہوئے مگر کسی شہنشاہ کو یہ عظمت نہ ملی کہ اسے سلطان الہند کہا جاتا یہ لقب اس ذات کو حاصل ہوا جس کے پاس بظاہر دولت کے انبار نہیں تھے ،شاہانہ ٹھاٹ باٹ نہیں تھے
نوکر چاکر اور سواری کے لیے شاہی اونٹ و گھوڑے نہیں تھے لباس انتہائی سادہ جگہ جگہ سے پیوند لگے ہوئے ،ہاتھ میں لکڑی کا عصا، پیروں میں سادہ سی کھڑاـئوں خوراک بیحد معمولی مگر آنکھوں میں معرفت ربانی کا سمندر موجزن، پیشانی پر غلامی رسول کا تاج زریں تھا جس کے لباس فقیرانہ سے انداز شاہانہ کا پتا چلتا تھا ۔
آج کسی طرف سے بھی سلطان الہند کی آواز آئے تو بے اختیار ذہن آپ کی ہی طرف جاتا ہے اور یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ آپ ہی حقیقی سلطان الہند ہیں ۔سلطان الہند کی محبت ایمان و عقیدے کی درستگی کی ضمانت ہے ان کی نسبت غلامی سرمایہ افتخار ہے ۔کسی عاشق صادق نے بہت خوب کہا ہے : ع
سلامتی دل عشاق از محبت تست : و گر نہ ایں دل پر خوں چہ حیثیت دارد
اللہ ہم تمام وابستگان خواجہ کو ان کے فیوض سے مالامال فرمائے اور اس ملک میں امن و امان عطا فرمائے اور ہمارے وطن عزیز کو عدل وانصاف ،محبت و انسانیت کا گہوارہ بنائے کہ یہی حضرت غریب نواز کی تعلیمات ہے ۔
تحریر: غلام مصطفی نعیمی
ایڈیٹر سواد اعظم دہلی
ان مضامین کا بھی مطالعہ فرمائیں
اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیمات کی ایک جھلک
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں