از ۔ محمد مکی القادری الازہری بلرام پور خواجہ غریب نواز اور اشاعت اسلام
خواجہ غریب نواز اور اشاعت اسلام
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللی علیہ کی آمد سے قبل ہندوستان شرک و کفر کا مسکن تھا، ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں کفر و بت پرستی کا رواج تھا اور ہندوستان کا ہر سرکش ۔اناربکم الاعلی،کا دعوی کرتا تھا۔ وہ لوگ اپنے آپ کو خدائے عزوجل کا شریک ٹھراتےتھے
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ١٤/رجب ٥٣٠ھ میں سجستان کے ایک قصبہ سنجر میں پیدا ہوئے۔سمر قند وبخارا جو اس وقت علوم و فنون کے مراکز تھے ،حضرت خواجہ غریب نواز نے ان مراکز میں علوم دینیہ کی تکمیل کی بعد ازاں تلاش مرشد میں نیشاپور کے نواح میں قصبہ ہارون کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپ نے حضرت خواجہ غریب نواز کو بیعت و اجازت سے نوازا اور آپ کی روحانی تربیت فرمائی۔ آپ اپنے مرشد کے ہمراہ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، بدخشاں اور بخارا وغیرہ گئے۔ ایک عرصہ تک بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے رہے
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ٦٠٢ہجری میں غزنی کے راستے لاہور تشریف لائے اور پنجاب کے عظیم داعی و مبلغ ،بکثرت غیر مسلموں کو دولت اسلام سے مالا مال کرنے والے چھٹی صدی ہجری کے بزرگ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پہ حاضر ہوکرفیوض و برکات کا حصول فرمایا
لاہور سے ہوتے ہوئے اجمیر میں قیام پذیر ہوئے اس وقت اجمیر راجپوت سامراج کا سیاسی مستقر اور ہندؤں کا مذہبی مرکز تھا۔ ایک بات قابل غور ہے کہ بلاد اسلامیہ کی سیاحت کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز نے کفرستان کو کیوں اپنی قیام گاہ بنایا؟۔
دراصل خاصان خدا دعوت حق کو مد نظر رکھتے ہیں اور ان علاقوں میں فروکش ہوتے ہیں جہاں ایمان و یقین کے اجالے نہ پہنچتے ہوں۔حضرت خواجہ غریب نواز نے انتہائی قلیل مدت میں اپنی تعلیمات اخلاق و اخلاص کے ذریعہ بکثرت مشرکین کو داخل اسلام فرمایا۔
ایک غیر مسلم دانشور ڈاکٹر نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق اور داعیانہ کردار کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ وہ(خواجہ ہند)خدائے بزرگ و برتر کی توحید کا علم لئے اپنے عظیم انسانیت نواز سفر پرروانہ ہوئے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے پرتھوی راج کے ظلم و تشدد کے باوجود اپنی قندیل سخاوت کی روشنی کبھی ماند نہ ہونے دی اور اخلاص و محبت سے ہندؤں کے دل جیت لیے۔صوفیاے کرام نے ہر دور میں تبلیغ اسلام کو اولیت دی۔ خانقاہیں تبلیغ کا محور و مرکز ہوتی تھیں
جہاں ایک طرف اخلاق سنوارے جاتے تھے تو دوسری طرف شرک سے مملو قلوب میں توحید کے دیئے جلاتے تھے۔ اسی طرح حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے جو خانقاہی نظام قائم فرمایا تھا اس کے ذریعے منظم طور پر دعوتی کام انجام پاتے رہے۔
بالخصوص حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خلفاء و مریدین کو ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیلا دیا ۔ خصوصا وسطی ہند اور جنوبی ہند میں آپ کے خلفاء نے خانقاہیں قائم کیں اور رشد و ہدایت کے ذریعے دوائے دل تقسیم کی۔ طبیب حاذق بن کر داعیانہ سرگرمیاں انجام دیں۔
تبلیغ کی راہیں صوفیاء اور بزرگوں نے مدون کیں، ان لوگوں نے خیرالقرن کے دعوتی نظام کو آگے بڑھایا۔ خیرالقرن: جو صحابہ و تابعین کا مقدس عہد تھا اس عہد کے سلسلۂ تبلیغ کی اقتدا کی اس لیے بزرگوں اور صوفیاے کرام کے طرز تبلیغ نے اسلام کا مثبت چہرہ پیش کیا جس میں ایسی کشش تھی کہ طبیعتیں خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوجاتی تھیں اس سلسلے کو اولیاے کرام مسلسل قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
خانقاہی نظام ہندوستان میں جب تک باقاعدہ قائم و مربوط رہا تبلیغ اسلام کے کام بہتر اثرات، دیرپا اور اطمینان بخش رہے ۔ مگر جب سے خانقاہیں تعطل کا شکار ہوئیں، مسند نشینان خانقاہ نے اکابرین کے نقوش چھوڑ کر مال و منال سے تعلق جوڑلیا۔
مادیت نے روحانیت سے مسلمانوں کو منحرف کرنا شروع کیا، دعوتی سلسلے کا تسلسل ٹوٹ کر رہ گیا، فرنگی عہد میں اسلامی تہذیب و تمدن کو نشانہ بنایا گیا اور سلف کی راہوں سے مسلمانوں کو دور کیا گیا۔ تب اشاعت اسلام کا کام روک گیا۔
ان نکات کو مد نظر رکھ کر ہم موجودہ طریقہ تبلیغ پر غور کریں تو اقوام مغرب کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں ۔ امت اجابت میں بعض حلقے تبلیغ کرکے انتشار فکر کا ساماں کر رہے ہیں، امت دعوت میں دعوتی کام تقریبا مفقود نظر آتا ہے ۔
امت دعوت میں امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے خلیفہ عالمی مبلغ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی قدس سرہ نے قابل تقلید کام انجام دیا۔ آپ نے یورپ و افریقہ اور دور افتادہ جزائر میں اسلام کی بے مثال تبلیغ کی۔ خلاصہ کلام یہ کہ صوفیائے کرام نے اپنے منفرد اسلوب دعوت کے ذریعہ اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دیا۔
اسی سبب سے حق تعالی نے انہیں عظمت و منزلت سے نوازا۔ ان عظیم بارگاہوں میں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کی بارگاہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ عالم اسلام کے عظیم رہنما امام احمد رضا محدث بریلوی نے اجابت دعا کے مقامات میں بارگاہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔
آج موجودہ دور میں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے نقوش حیات کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تبلیغی مساعی کے ذریعے دلوں کی تسخیر اور افکار کی تعمیر کی جاسکے ۔
خواجہ غریب نواز رحمۃاللہ علیہ کا اسلوب دعوت، اخلاق و کردار وتزکیہ نفس کا جو انداز تھا وہ لوگوں کے دلوں کو راغب کرتا تھا۔
وہ اتباع رسول اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند تھے اس لے ان کے پیغام کی طرف خلق خدا متوجہ ہوکر ہدایت پاتی تھی۔
اللہ پاک ہم سب کو حضرت خواجہ کے نقش قدم پر تبلیغ اسلام کی تو فیق دے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلى الله عليه وسلم
ازقلم ۔ محمد مکی القادری الحنفی الازہری
پرنسپل نورالاسلام بلرام پور یوپی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے تعلیمات کی ایک جھلک
اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں