Sunday, October 20, 2024
Homeشخصیاتسلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کی دعوت و تبلیغ کا اثر

سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کی دعوت و تبلیغ کا اثر

از:(مولانا)محمد شمیم احمد نوری مصباحی سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کی دعوت و تبلیغ کا اثر

سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کی دعوت و تبلیغ کا اثر

بلاشبہ مسلمانوں کے نزدیک اللّٰہ کے اولیا، ابدال اور اقطاب بہت ہی محترم و معزز ہوتے ہیں اور ان کی بہت ہی اہمیت ہوتی ہے ـاور ان بزرگ ترین ہستیوں کے کشف و کرامات نے نہ صرف اسلام کی صداقت کو زمانے کے دل پر نقش کیا بلکہ دین کی تبلیغ اور ترویج و اشاعت میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں

بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں ان پاکباز ہستیوں کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ انسان کے دامنِ حیات کو پاکیزہ انسانیت کی خوشبو سے معطر کر دیں تو زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کے ان پاکیزہ صفات بندوں کی سیرت و کردار اور ان کے اعمال و افعال میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ مخلوق خدا ان کی طرف کھنچی چلی آتی ہے اور ان کی بافیض اور پراثر صحبت کی برکت سے بہرہ ور ہو کر اپنے دلوں کی ویران دنیا آباد کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہی و ضلالت کے گدھوں میں گرنے سے محفوظ و مامون ہو جاتی ہےـ

خواجۂ ،سلطان الہند،عطائے رسول خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بلاشبہ ایسے ہی نفوسِ قدسیہ کے قافلہ سالار ہیں- آپ کا شمار برصغیر ہندو پاک کے ان نابغۂ روزگار اولیاء اللّٰہ میں ہوتا ہے

جنہوں نے برصغیر ہند و پاک میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کی ایسی شمع روشن کی جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ لوگوں کو منور کر رہی ہے- آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عثمان ہارونی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور سلوک کی منازل طئے کرنے کے بعد خرقۂ خلافت سے سرفراز ہوئے

آپ کو بارگاہ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وسلم سے ہندوستان کی ولایت ملی اور حضرت سیدنا علی بن عثمان الہجویری رحمة اللّٰه تعالیٰ علیه کی جانب سے “سلطان الہند” کا خطاب ملا-

آپ کی ہندوستان تشریف آوری سے اسلام کو بہت ہی فروغ ملا، آپ نے اسلام کی شمع خوب خوب روشن کی اور لوگوں کے دلوں میں سے کفر کی تاریکیاں دور کرکے انہیں توحیدو رسالت کے نور سے منور کیا، آپ کی باکمال شخصیت ہر زاویۂ نگاہ خصوصاً دعوت و تبلیغ کے لحاظ سے ایک منفرد اور نمایاں حیثیت کی حامل ہے، اہل طریقت کے نزدیک آپ روحانی تربیت اور معرفت کے امام کا درجہ رکھتے ہیں۔

آپ کی تقویٰ و طہارت نیز آپ کی کرامتوں نے بہت سے جادوگروں اور ہندو جوگیوں کو مات دیا، اور آپ کے اعمال صالحہ نے لوگوں کے دلوں میں وہ اثر کیا کہ جوق در جوق کفار ہند حلقہ بگوش اسلام ہو گئے

آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں میں دعوت الی اللّٰہ کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا اور بالآخر اجمیر شریف کو [جو اس وقت کفرزارِہند میں سب سے زیادہ گمراہی و ضلالت کا مرکز تھا] اپنا مستقل مسکن و مرکز بنایا
پھر آپ کی دعوت و تبلیغ کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ لاکھوں افراد نے دل و جان سے اسلام قبول کیا

سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سب سے بڑا کارنامہ یا کرامت یہ ہے کہ آپ کی تشریف آوری سےہندوستان میں باقاعدہ اسلام کی روشنی پھیل گئی، جہاں صبح و شام سوائے ناقوسوں کی صداؤں کے کوئی باضابطہ خدا کا نام پکارنے والا نہ تھا وہاں آہستہ آہستہ خدا کے نام لیوا پیدا ہو گئے

رفتہ رفتہ وہ وقت آگیا کہ اللہ اکبر کی صداؤں میں ناقوس کی آواز دب سی گئی- جہاں کوئی شخص خدا کی عبادت کرنے والا نہ تھا وہاں لاکھوں کروڑوں خدا کے پرستار ہو گئے

اور یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے کہ ماضی کی باکمال روحانی ہستیوں میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمة اللّٰه علیه سب سے نمایاں ہیں جنہوں نے کفر و شرک کے تاریک ماحول میں ہندوستان کے اندر حق و صداقت اور ایمان و یقین کا اجالا پھیلایا، کفر و شرک کی آہنی دیواروں کو توڑ کر خدا پرستی اور روحانیت کی داغ بیل ڈالی

سخت نامساعد حالات میں بھی دعوت حق کی تحریک کو آگے بڑھایا اور سرزمینِ ہند کو اسلام کا تعلیمی و روحانی مرکز بنا دیا، جس کے نتیجے میں دلوں سے کفر و شرک کے زنگ دور ہوئے، ظلمت کدۂ ہند میں اسلام و توحید کی سحر طلوع ہوئی اور اسلام کی صداقت و حقانیت کا چراغ روشن ہوتا چلا گیا

دور حاضر میں اسلامیانِ ہند کو روحانیت اور صداقت کی طرف مائل و منعطف کرنے کے لئے حضرت خواجہ غریب نواز رحمة اللّٰه تعالیٰ علیہ کی سیرت و سوانح، آپ کے اقوال و ارشادات اور آپ کے روحانی و تبلیغی کارناموں سے روشناس کرانا بہت ہی مفید ثابت ہوگا- کیونکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت اور سچائی ہے کہ بزرگان دین کے حیرت انگیز دینی و روحانی کارناموں اور ان کے داعیانہ و مصلحانہ اقوال وفرمودات کے اندر ملت بیضاء کے عروج و اقبال کا فلسفہ موجود ہے

ہمارے وہ نوجوان جنہوں نے مغربی تعلیم و فلسفہ کی آغوش میں تربیت پائی ہے اور جن لوگوں نے مادی ترقی کو ہی زندگی کا ماحصل قرار دے دیا ہے، اور خدا پرستی و روحانیت کو ترک کرکے اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہیں ایسے لوگ باطنی پاکیزہ حضرات اور صاحبِ حال بزرگوں کے واقعات و حالات کے مطالعہ سے ایمان کامل اور اخلاص عمل کی دولت پا سکتے ہیں

اور انہیں للّٰہیت،عشق خدا،ذوقِ اتباعِ سنت،حبِّ رسول، دل سوزی، بلند ہمتی، تازگئِ فکر، نور بصیرت اور فراستِ ایمانی، حقیقت پسندی، اعتقادِ صحیح اور عملِ صالح، وسعتِ قلب و نظر، سوزدروں، اخلاص وایثار کی متاعِ گراں بہا، خداشناس بزرگوں اور مرشدینِ طریقت کے حالات و واقعات کے اندر مل سکتی ہیں۔

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللّٰه تعالیٰ علیه نے جہاں بہ نفس نفیس دعوت و تبلیغ کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا وہیں آپ نے اپنے مریدین و معتقدین کو بھی اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا تاکہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پاشیوں سے روشن و تاباں ہو جائے۔

اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی بارگاہِ پُر فیض کے فیض یافتہ مشائخِ چشت نے بھی اپنے اپنے عہد میں دعوت و تبلیغ کی عظیم الشان خدمات انجام دیں اور اپنے روحانی جذب و کشش، عظیم کردار اور اچھے اخلاق سے لاکھوں غیر مسلموں کو دولتِ اسلام سے مالامال کیا جن میں یہ حضرات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری، حضرت صوفی حمیدالدین ناگوری، حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر، حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز وغیرہم رضو ان اللّٰه تعالیٰ علیہم اجمعین

کفر و شرک سے بھرے ہوئے ہندوستان کے شہر شہر قریہ قریہ میں ان بزرگان دین اور صوفیائے کرام نے اپنے اخلاص و للّٰہیت،سیرت وکردار،انسانی مروّت و ہمدردی اور خدمت خلق کے ذریعہ توحید کا درس دیا، اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات پیش کیں، پاکیزہ عملی زندگی کے اعلیٰ نمونہ پیش کیے تب کہیں جا کر ہندوستان کے طول و عرض میں پرچمِ اسلام لہرایا اور نغمۂ توحید و رسالت گونجا، مسجدیں تعمیر ہو کر آباد ہوئیں۔

اسلامی مراکز قائم ہوئے، علوم و فنون کے چراغ روشن ہوئے، دلوں کی دنیا آباد ہوئی، گمراہیوں کا پردہ چاک ہوا، تاریکیاں دور ہوئیں اور ہر طرف نورِ اسلام کا اجالا پھیل گیا ان کا سایہ ایک تجلی ان کا نقشِ پا چراغ یہ جدھر گزرے ادھر ہی روشنی ہوتی گئی

بلاشبہ یہ انہیں بزرگان دین اور صوفیائے کرام بالخصوص حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے فیضان کرم کا اثر ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نعمتِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور آج برصغیر ہند میں مسلمانوں کی تعداد عالم اسلام میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے بڑھ کر ہے، اور انہیں کی چشمِ عنایت ونگاہِ التفات ہے کہ ہمارے دیدہ ودل، بصارت وبصیرت کی دولت زوال سے مالامال ہوئے۔

اس لیے ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے کہ ہم انہیں یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں، ان کے ارشادات و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی کا سامان کریں، اور ان کے طریقۂ دعوت و تبلیغ کو اپنانے کی ہر ممکن کوشش کریں، نیز ان کی روحانی برکات سے حال و مستقبل کی زندگی کو سدھاریں

اللہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو ان بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین!۔

از:(مولانا)محمد شمیم احمد نوری مصباحی

استاذ: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

 اس کو بھی پڑھیں:  اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن