تحریر: عبداللہ رضوانی مرکزی حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی درویشانہ زندگی
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی درویشانہ زندگی
سرزمین ہندمیں ایمان و ایقان کی خوشنمابہاروں کو پھیلانے میں جن عظیم درویشان خدا نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں،اوراپنی بے لوث خدمات کے ذریعے دین اسلام کو تقویت عطاکی ہے۔
ان ہی میںسے عطائے رسول،خواجہ خواجگاں،سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ذات بابرکات ہے۔آپ کے قدم ناز کی برکتوں سے بے شمار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے،اور ہندوستان کی پوری فضا اسلام کی خوشبوئوں سے معطرہوگئی۔
خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہکی ولادت ۵۳۷ھ بمطابق1142ء کوسجستان یاسیستان کے علاقے سنجر میں ایک پاکیزہ گھرانے میں ہوئی۔
والد محترم کانام خواجہ غیاث الدین اور والدہ کانام ام الورع المعروف بہ بی بی ماہ نور تھا۔آپ کا دل ایام طفولیت ہی سے دنیائے ناپائیدار کی زیب وزینت سے بیزار اور راہ حق میں گم گشتہ تھی۔
اسی دوران ایک روز آپ اپنے باغ کو سیراب کررہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔آپ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انھیں بیٹھایا اور خوشئہ انگور سے ان کی تواضع فرمائی ۔
آپ کے حسن اخلاق کو دیکھ کر اس مجذوب خدا کا دل بہت خوش ہوگیااور انہوں نے اپنی جیب سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالااور چباکر آپ کودے دیا۔اسے کھاتے ہی آپ کے دل کی دنیا بدل گئی ۔کیف و سرور کا بادل چھاگیا۔دل میں محبت خداجوش مارنے لگی اورراہ سلوک و معرفت کے مسافر بن گئے ۔
اوراسی سرور و سرمستی کے عالم میں آپ نے اپنی تمام املاک فروخت کرکے ساری قیمت فقراء ومساکین میں تقسیم کردی اور رخت سفر باندھ لیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنے مقصود تک رسائی کے لیے سب سے پہلے جملہ علوم ظاہری سے خود کو آراستہ فرمایا پھر چشمہ معرفت سے سیرابی کے لیے حضرت شیخ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہوئے۔
اسرار سلوک سے خوشہ چینی اور جام بادئہ توحید پینے کے بعدآپ کمالات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوگئے ۔مرشد برحق کی خدمت اور ان کی نگاہ ناز نے فقر و غنا کے اعلیٰ منازل طے کرادیے۔پیر و مرشد کے پاس سے رخصت ہونے کے بعد بھی کئی سالوں تک اولیا اللہ کے مزارات پر چلہ کشی فرمائی۔
اور اس وقت کے عظیم بزرگان دین کی صحبت میں رہ کر روحانی فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو مالامال فرمایا۔آپ کے مجاہدات وریاضات کی کیفیت یہ تھی کہ کئی کئی دنوں تک بھوکے رہتے اورذکر خدا ورسول میں مصروف رہتے جب بھوک کی شدت کا احساس ہوتاتوصرف پانچ مثقال برابر روٹی پانی میں بھگوکر کھالیتے ۔
اکثر قبرستان میں رہائش رکھتے اور روزانہ قرآن پاک ختم فرماتے ۔ آپ کی شان درویشی ایسی تھی کہ شہرت پسندی او ر ناموری سے کوسوںدور رہاکرتے بلکہ جس جگہ آپ کی شہرت ہوجاتی وہاں سے چلے جاتے تھے۔مراۃ الاسرار میں ہے
۔’’جس جگہ آپ کی شہرت ہوجاتی آپ وہاں سے چلے جا تے تھے۔چنانچہ آپ تبریز سے مہنہ کی طرف تشریف لے گئے اور شیخ ابوسعید ابوالخیر علیہ الرحمہ کے مزار کی زیا رت سے فیضیاب ہوئے۔خرقان گئے تو حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ کے مزار اقدس سے فیض حاصل کیا۔
دوسال اس علاقے میں رہنے کے بعد آپ استرآباد تشریف لے گئے اور شیخ ناصرالدین استرآبادی علیہ الرحمہ کا فیض صحبت حاصل کیا۔استرآباد سے خواجہ بزرگ علیہ الرحمہ ہرات تشریف لے گئے اور کافی عرصہ اس علاقے میں رہ کر وہاں کے مشائخ کی زیارت کرتے رہے۔
آپ رات دن شیخ عبداللہ انصاری قدس سرہ کے مزار مبارک پر رہتے تھے اور اکثر عشاکی نماز کے وضو کے ساتھ نماز فجر اداکرتے تھے۔جب ہرات میں آپ کی شہرت زیادہ ہوگئی اور خلقت کا ہجوم ہونے لگاتو وہاں سے رخصت ہوکر سبزوار تشریف لے گئے۔‘‘(مراۃ الاسرار،ص:۵۹۶،۵۹۵ملخصا) ۔
یوں ہی جب آپ سرزمین ہند تشریف لائے اور دہلی میں خاص وعام آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تو وہاں سے اجمیر کی راہ اختیا ر کرلی بالآخر اجمیر شریف کوہی مرکزدعوت بنایا۔
حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ نہایت ہی منکسر المزاج ،حلیم الطبع ،متواضع ،خندہ رو اور عفو ودرگزر کرنے والے تھے،دشمن کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتے اور اسے بخش دیاکرتے تھے۔ایک بار ایک شخص کسی کا آلئہ کار بن کر آپ کے قتل کے ارادے سے آیا
خنجر اس کی آستین میں تھا،آپ کو اس کے ارادے کا پتاچل گیا ،پھر جب وہ آیا تو آپ نے اسے بہت پیا ر سے بیٹھایا اور نہایت نرمی سے کہا کہ جو ارادہ کرکے آئے ہو اسے پوراکرو،وہ کانپ اٹھا اورچھری سامنے رکھ کر معافی کاطلبگار ہوااور کہا میں حاضر ہوں آپ مجھے میری نیت بد کی سزا دیجئے ۔
خواجہ غریب نواز نے فرمایا فقیروں کا شیوہ بدلہ لینا نہیں ہے بلکہ ہم لوگوں سے کوئی بدی بھی کرتاہے تو ہم اس سے نیکی سے پیش آتے ہیں۔
حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ کی ظاہری زندگی بہت ہی سادہ تھی۔ کم کھانا کم بولناآپ کا شیوہ تھا۔اکثر روزہ سے رہاکرتے ۔ زیب وآرائش سے دور ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ۔لباس میںسادگی اس طورپرتھی کہ آپ کا لباس صرف دوچادروں پر مشتمل تھااور اس میں بھی کئی پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے۔
تواضع و انکساری حد درجہ غالب تھی ہرطرح کے لوگوں سے خندہ روئی کے ساتھ ملتے اور ان کی امداد فرمایا کرتے اورلوگوںکی ہر پریشانیوں میں برابر کے شریک رہتے۔
زہد و قناعت اور ایثار کاجذبہ اس قدرتھاکہ آپ کے پاس امرا جو بھی نذر پیش کرتے آپ اسی وقت فقراء میں تقسیم کردیاکرتے۔آپ کالنگر عام تھااس قدر کھاناپکاکرتاکہ شہر کے تمام غرباومساکین دونوں وقت شکم سیر ہوکر کھاتے۔آپ کے در پر جوکوئی سوالی آتا پھر وہ خالی ہاتھ نہیں جاتا۔
حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمہ کی ذات میں عجز وانکساری اور فقیرانہ شان اس قدرغالب تھی کہ جب آپ اشاعت اسلام کے خاطر سرزمین ہند تشریف لائے اور اجمیر مقدس میں قیام فرمایاتو وہاں کے راجہ نے آپ کے ظاہری اوصاف کو دیکھ کر ایک معمولی انسان تصور کیااور آپ کو وہاں سے دور کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور ناکامی کی صورت میں تکلیف دینا بھی چاہا پر آپ کے تصرفات باطنی نے تمام بدخواہوں کے ارادوں کا قلع قمع کردیا۔
آپ کے اخلاق حمیدہ اور اسلام کی صداقت نے لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیا۔لوگ جوق درجوق مسلمان ہونے لگے ،کوئی ایسادن نہ ہوتاکہ غیرمسلموں کی ایک جماعت آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول نہ کرتی۔
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ عظمت وبلندی،عروج وارتقااورقطبیت ومحبوبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجو د رضائے الٰہی کے خاطراپنی پوری زندگی سادگی ،انکساری،درویشی اور فقیرانہ نہج پرگزاری۔
لیکن خدائے قدوس نے وہ شان وشوکت سے نوازاکہ بڑے بڑے تاجور بھی آپ کے دربار میں گدابن کر آئے اور بعد وصال آج بھی وہی جلووہ باری نظر آتی ہے، اپنے تو اپنے غیر بھی سرخم کرکے حاضر بارگاہ ہوتے ہیںاور من کی مرادیں پاتے ہیں۔
اسی لیے تو ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی
اردات ہوتو دیکھ ان کو ید بیضا لیے بیٹھے ہیں
اپنی آستینوں میں آپ کی سیرت طیبہ آج ہر مسلمان بالخصوص اہل فکر ونظرکے لیے دعوت عمل ہے کہ وہ مال وزر کی ہوس میں اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد نہ کریں بلکہ سادگی وانکساری کے ساتھ رضائے مولیٰ کے حصول کے لیے زندگی بسرکریں۔اللہ رب العزت ہمیں ان کی نقوش راہ کا مسافربنائے۔آمین
تحریر: عبداللہ رضوانی مرکزی
خانقاہ رضوانیہ،نانپور،سیتامڑھی،بہار
ان مضامین کو بھی پڑھیں : اسلام کی صدا بہار صداقت کا روشن چہرہ حضرت غریب نواز
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و ارشادات
ہندی میں مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں