Tuesday, November 19, 2024
Homeاحکام شریعتضروریات دین سوالات و جوابات قسط چہارم

ضروریات دین سوالات و جوابات قسط چہارم

تحریر: طارق انور مصباحی ضروریات دین سوالات وجوابات  قسط چہارم

ضروریات دین سوالات وجوابات  قسط چہارم

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

قسط سوم میں اجماع متصل کا تفصیلی بیان مرقوم ہوا۔ قسط چہارم میں اجماع مجرد کا تفصیلی بیان ہے۔

اجماع متصل واجماع مجردکا مفہوم

اجماع متصل کے بالمقابل اجماع مجرد ہے۔ اجماع متصل یہ ہے کہ کوئی امردینی حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تواتر کے ساتھ مروی ہو،اورعہد رسالت ہی سے تمام مومنین کا اس کے اعتقادپر اتفاق ہو۔

اسی اتفاق مع الاعتقاد کو اجماع متصل کہا جاتا ہے، جیسے فرائض اربعہ:نماز،روزہ،حج،زکات پر امت مسلمہ کا اجماع متصل ہے۔اجماع متصل میں اہل قبلہ کا اتفاق ہوتا ہے۔ جو اختلاف کرے،وہ اہل قبلہ سے خارج قرار پائے گا،گر چہ اسلام کاکلمہ خواں ہو، جیسے روافض ودیابنہ۔

اجماع مجر د،اجماع متصل کے بالمقابل ہے،یعنی اس امر پر اجماع ہو جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی نہ ہو۔ اجماع مجرد میں اجماع مجتہدین،اجماع اہل حل وعقد اوراجماع اہل سنت وجماعت داخل ہے۔

اجماع متصل اور اجماع مجرد کا اجتماع ممکن نہیں

۔(۱)جس دینی امورپر اجماع متصل ہو،ان پر اجماع مجرد کی کوئی صورت نہیں،کیوں کہ ان امور دینیہ پر تمام مومنین کا اجماع ہوتا ہے،خواہ مجتہد ہوں یاغیر مجتہد،پس ان امور پر اجماع مجرد تحصیل حاصل ہے اور یہ محال ہے۔

۔(۲)جن دینی امور پر اجماع متصل ہوتا ہے،وہ دینی امور حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہوتے ہیں،اور جن امور پر اجماع مجردہوتا ہے،وہ امور غیر متواتر ہوتے ہیں،پس اگر ایک ہی امر پر اجماع متصل اور اجماع مجرد ہوتواس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ امر دینی متواتر بھی ہو،اور غیر متواتر بھی ہو،اور یہ اجتماع ضدین ہے جو محال ہے۔

اجماع مجرد کی متعدد قسمیں ہیں اور سب کو اجماع کہا جاتا ہے،اسی طرح اجماع متصل کوبھی اجماع کہا جاتا ہے۔

ہرقسم کے اجماع سے ثابت شدہ امور کو اجماعی اور مجمع علیہ کہا جاتا ہے۔ یہ مشکل مرحلہ ہے اور قدم پھسلنے کی جگہ ہے۔

اجماع مجرد کی تفصیلی بحث

اجماع مجردسے ثابت شدہ امور کا انکار متکلمین کے یہاں کفر نہیں۔غیر متکلمین کا مذہب اور اجماع مجردکی تشریح درج ذیل ہے۔

قال القاضی:(فاما من انکر الاجماع المجرد الذی لیس طریقہ النقل المتواترعن الشارع(۱)فاکثر المتکلمین من الفقہاء والنظار فی ہذا الباب قالوا بتکفیر کل من خالف الاجماع الصحیح الجامع لِشُرُوطِ الاجماع المتفق علیہ عمومًا-وحجتہم قولہ تَعَالٰی(وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدٰی) الاٰیۃ- وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم(مَن خَالَفَ الجَمَاعَۃَ قِیدَ شِبرٍ فَقَد خَلَعَ رِبقَۃَ الاِسلَامِ مِن عُنُقِہٖ)وحکوا الاجماع علٰی تکفیر من خالف الاجماع

۔(۲)وَذَہَبَ اٰخرون الَی الوقوف عن القطع بتکفیر من خالف الاجماع الذی یختص بنقلہ العلماء

۔(۳)وَذَہَبَ اٰخرون الی التوقف فی تکفیرمن خالف الاجماع الکائن عَن نظر-کتکفیر النظام بانکار الاجماع-لانہ بقولہ ہذا مخالفُ اجماعِ السلف علٰی احتجاجہم بہ خارقٌ لِلاِجمَاع)۔
(الشفاء:جلددوم:ص291)

توضیح : اجماع مجرد یہ ہے کہ کوئی امر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی نہ ہو، پھر عہد رسالت کے بعد اس پر اجماع ہوجائے۔قاضی عیاض مالکی کی اس عبارت پر غور کریں:(فاما من انکر الاجماع المجرد الذی لیس طریقہ النقل المتواترعن الشارع)۔

یعنی اجماع مجرد یہ ہے کہ کوئی امر دینی حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی نہ ہو، پھر عہد رسالت کے بعد اس پر اجماع ہوجائے۔خواہ عہد صحابہ میں اجماع ہوجائے،یا عہد صحابہ کے بعد۔یہ اجماع مجرد ہے۔

منقولہ بالا عبارت میں متکلمین سے جماعت متکلمین مراد نہیں،بلکہ علماو فقہا مراد ہیں۔متکلمین کا مذہب ماقبل میں مرقوم ہوا کہ وہ صرف اجماع متصل سے ثابت شدہ امور کے انکار پر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔

قال الخفاجی:((فاکثر المتکلمین)المراد بہم ہہنا العلماء-ولذا بینہم بقولہ(من الفقہاء والنظار)جمع ناظر(فی ہذا الباب)ای فی ہذہ المسائل المتعلقۃ بالتکفیر)(نسیم الریاض جلد چہارم:ص521)

توضیح:قاضی عیاض مالکی کی منقولہ بالا عبارت میں متکلمین سے علما مراد ہیں،جماعت متکلمین مراد نہیں،اسی لیے قاضی عیاض مالکی نے اس کی تشریح فقہا ومناظرین سے فر مائی ہے۔

قال القاری:((والنظار)بضم النون وتشدید الظاء المعجمۃ جمع ناظر بمعنی المناظر اسم فاعل من المناظرۃ)(شرح الشفا للقاری مع نسیم الریاض جلد چہارم:ص521)

قال الخفاجی:((وَذَہَبَ) قَومٌ(اٰخَرُونَ)من العلماء(الی التوقف)ای عدم الجزم(فی تکفیرمن خالف الاجماع الکائن عن نظر)کالقیاس الحاصل باجتہاد-لَا بُدَّ لَہٗ مِن مُستَنَدٍ)(نسیم الریاض جلد چہارم:ص521)

اجماع مجرد کے انکار کے تین احکام

قاضی عیاض مالکی نے اجماع مجرد سے ثابت شدہ احکام کے انکار کا تین حکم بیان فرمایا۔

۔(۱) اکثر علماوفقہا اجماع مجرد سے ثابت ہونے والے مسائل کے انکارپر حکم کفر عائد کرتے ہیں۔

۔(۲)بہت سے علما حکم کفر عائد نہیں کرتے۔

۔(۳) بہت سے علما اس کو بھی کافر نہیں کہتے جو اصل اجماع ہی کا انکار کرے،کیوں کہ اجماع کی حجیت اور شرعی مسائل کے لیے اس کا دلیل ہونا قطعی بالمعنی الاعم اور ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔

جہاں اجماع اور قیاس کی حجیت کو ضروریات دین میں شمار کیا جائے،وہاں ضروریات دین کی قسم دوم یعنی ضروریات اہل سنت مراد ہے،جیسے خلافت صدیقی کو ضروریات دین میں شمار کیا جاتا ہے۔

نظام معتزلی اجماع مجرد کا ہی منکر ہے۔متکلمین اس کو کافر قرار نہیں دیتے۔اجماع وقیاس کی حجیت کی بحث اورنظام معتزلی کا تفصیلی حکم ”البرکات النبویہ“:رسالہ چہارم میں ہے۔

اجماع مجر د کے اقسام

اجماع مجرد کی متعدد قسمیں ہیں۔کوئی دینی امرحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی نہ ہو،یا بالکل مروی نہ ہو، بلکہ حضرات مجتہدین صحابہ یامجتہدین غیرصحابہ قیاس کے سبب کسی امرپراجماع کرلیں۔یہ اجماع مجتہدین ہے جس کو اجماع شرعی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ارباب حل وعقد کسی کی خلافت پر اجماع کرلیں تو یہ اجماع ساری امت مسلمہ کی طرف منسوب ہوگا اورجائز امور میں خلیفۃ المسلمین کی طاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہوگی۔مخالفت کرنے والا باغی قراردیا جائے گا۔

اگر کسی امر پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع منصوص (غیر سکوتی)ہوجائے تو اجماع صحابہ کے سبب وہ امرقطعی بالمعنی الاعم ہوجاتا ہے اورضروریات اہل سنت میں شمار ہوتا ہے،جیسے قیاس کے سبب خلافت صدیقی پر اجماع صحابہ کرام کا اجماع۔

ضروریات اہل سنت، شعار اہل سنت اور اہل سنت کے اجماعی عقائد،ان تینوں امور پر اہل سنت وجماعت کا اجماع ہوتاہے۔

عہد صحابہ میں اجماع شرعی واجماع اہل حل وعقد

حضوراقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ترکہ کی عدم تقسیم پر صحابہ کرام کااجماع،اجماع شرعی ہے،اورخلافت صدیقی پر صحابہ کرام کا اجماع،اجماع اہل حل وعقد ہے۔

قال القاری:(ان امر الخلافۃ لیس من ارکان الایمان،ثم ہو لا یتعلق الا ببعض من اہل الحل والعقد)
(شرح الشفاللقاری:جلددوم ص 521-دارالکتب العلمیہ بیروت)

عہد صحابہ کے بعد اجماع شرعی واجماع اہل حل وعقد

کسی شرعی مسئلہ پرمجتہدین غیر صحابہ کا اجماع بھی اجماع شرعی ہے، لیکن وہ اجماعی مسئلہ ظنی ہوتا ہے۔فقہائے کرام اپنی اصطلاح کے مطابق اس اجماعی مسئلہ کو قطعی کہتے ہیں۔یہ قطعی کی تیسری قسم ہے۔دراصل یہ اکبرظن ہے جو فقہا کے یہاں قطعی سے ملحق ہے۔

فقہا اس کو قطعی کہتے ہیں اور متکلمین اس کو ظنی کہتے ہیں۔اس طرح قطعی کی تین قسم ہوگئی:قطعی بالمعنی الاخص،قطعی بالمعنی الاعم اور قطعی ملحق۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی خلافت پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔عہد صحابہ کے بعد بھی کسی کی خلافت پر اس زمانے کے اہل حل وعقد کا اجماع ہوجائے تو اس خلیفہ کی مخالفت بھی ناجائز ہے۔متعدد احادیث طیبہ اس بارے میں واردہیں۔شریعت اسلامیہ میں خلیفہ برحق کی مخالفت کو بغاوت اور ایسے مجرم کو باغی کہا جاتا ہے۔

یزید کی خلافت پر اہل حل وعقد کا اجماع نہیں تھا،اس لیے نہ وہ خلافت منعقد ہوئی،نہ ہی یزید پلید اسلامی خلیفہ تھا۔

انتخاب خلیفہ اور اہل حل وعقد

خلیفہ کا انتخاب مومنین کی ذمہ داری ہے۔اس ذمہ داری کو اہل حل وعقد انجام دیتے ہیں۔ تمام مومنین کا ایک جگہ حاضر ہوکرکسی خلیفہ کا انتخاب اوراس کی بیعت مشکل امر ہے،اس لیے اہل حل وعقد کا انتخاب اور ان کی بیعت سارے اہل زمانہ کی طر ف منسوب ہوتی ہے۔

علامہ تفتازانی نے انتخاب خلیفہ سے متعلق رقم فرمایا:(والمذہب انہ یجب علی الخلق سمعا لقولہ علیہ السلام: من مات ولم یعرف اہل زمانہ فقدمات میتۃ جاہلیۃ -ولان الامۃ قد جعلوا اہم المہمات بعدوفاۃ النبی علیہ السلام نصب الامام،حتی قدموہ علی الدفن -وکذا بعد موت کل امام -ولان کثیرا من الواجبات الشرعیۃ یتوقف علیہ)(شرح العقائد النسفیہ:ص 149-مجلس برکات مبارکپور)

انتخاب خلیفہ کے جو اہل حل وعقد ہوں گے،ان کا مجتہد ہونا ضروری نہیں،کیوں کہ حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امت مسلمہ نے کسی کو مجتہد تسلیم نہیں کیا اور خلفائے عباسیہ کو خلیفہ تسلیم کیا گیا۔خلافت عباسیہ کا خاتمہ656 ہجری میں ہوا۔آخری زمانے میں اولیائے کرام حضرت امام مہدی کے دست اقدس پر بیعت کریں گے اور ان کو خلیفہ تسلیم کریں گے۔

اگر انتخاب خلیفہ کے لیے مجتہدین کے انتخاب کی شرط ہوتی تو بعد کے خلفائے عباسیہ کی خلافت تسلیم نہیں کی جاتی۔

علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:((والخلافۃ ثلاثون سنۃ-ثم بعدہا ملک وامارۃ)لقولہ علیہ السلام:الخلافۃ بعدی ثلاثون سنۃ ثم یصیر بعدہا ملکا عضوضا-وقد استشہد علی علی رأس ثلثین سنۃ من وفاۃ رسول اللہ علیہ السلام-فمعاویۃ ومن بعدہ لا یکونون خلفاء،بل ملوکا وامراء-وہذا مشکل،لان اہل الحل والعقد من الامۃ قد کانوا متفقین علی خلافۃ الخلفاء العباسیۃ وبعض المروانیۃ کعمر بن عبد العزیز مثلا۔

ولعل المراد ان الخلافۃ الکاملۃ التی لا یشوبہا شیء من المخالفۃ ومیل عن المتابعۃ تکون ثلاثین سنۃ وبعدہا قد تکون وقد لا تکون)(شرح العقائد النسفیہ:ص 149-مجلس برکات مبارکپور)

توضیح:خلفائے عباسیہ کی خلافت پر بھی امت کے اہل حل وعقد متفق تھے،حالاں کہ خلافت عباسیہ 656ہجری تک جاری رہی اور امت مسلمہ کے آخری متفق علیہ مجتہد امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 241ہجری میں ہوگئی تھی، نیز حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اپنے عہد کے خلفاکے انتخاب میں شریک نہیں تھے،بلکہ ماقبل کے خلیفہ یا خلیفہ کے معتمدین وارباب حکومت نے کسی خلیفہ کا انتخاب کیا تھا۔

اجماع قطعی کے احکام

اجماع قطعی سے اجماع صحابہ مراد ہوتا ہے۔اجماع صحابہ کی دوقسمیں ہیں۔اجماع منصوص (غیر سکوتی)اور اجماع سکوتی۔

اگر صحابہ کرام کے اجماع منصوص سے کوئی امرثابت ہوتو اس کا انکار کفرفقہی اور متکلمین کے یہاں اس کا انکار ضلالت وگمرہی ہے۔

قال الملا محب اللّٰہ البہاری:(انکار الاجماع القطعی کفر عند اکثر الحنفیۃ وطائفۃ خلافا لطائفۃ،ومن ہہنا لم تکفر الروافض-وضروریات الدین خارجۃ اتفاقا فالتثلیث کما فی المختصر تدلیس، قال فخر الاسلام: اجماع الصحابۃ کالمتواتر فیکفر جاحدہ،والحق ان السکوتی لیس کذلک لذلک، واجماع من بعدہم کالمشہور فیضلل جاحدہ الا ما فیہ خلاف کالمنقول اٰحادا،والکل مقدم علی الرای عند الاکثر) (مسلم الثبوت جلددوم:ص244)

قال بحرالعلوم الفرنجی محلی فی بحث الاجماع:((انکار حکم الاجماع القطعی)وہو المنقول متواترا من غیر استقرار خلاف سابق علیہ(کفر عند اکثر الحنفیۃ وطائفۃ)ممن عداہم،لانہ انکار لما ثبت قطعا انہ حکم اللّٰہ تعالی(خلافا لطائفۃ)قالوا:حجیتہ وان کان قطعیا لکنہا نظریۃ فدخل فی حیز الاشکال من حیز الظہور کالبسملۃ(ومن ہہنا)ای من اجل ان انکار حکمہ لیس کفرا(لم تکفر الروافض)مع کونہم منکرین لخلافۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم حقا،وقد انعقد علیہ الاجماع من غیر ارتیاب) (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ج۲ص۴۹۲-دارالکتب العلمیہ بیروت)

اجماع ظنی کے احکام

مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت ہونے والے مسائل دراصل ظنی ہیں،لیکن فقہا ئے کرام اپنی اصطلاح میں مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت شدہ مسائل کو بھی قطعی کہتے ہیں۔

مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع کی دوقسمیں ہیں۔اگر اس میں صحابہ کرام سے کوئی اختلاف منقول نہیں،اور مابعد کے زمانے میں اس پر اجماع منعقد ہوگیا تو یہ اجماع خبر مشہور کی طرح ہے۔ اس کے انکار پر فقہا گمرہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔اگر ماقبل میں اختلاف ہوچکا ہو،پھرکسی عہد میں مجتہدین کا اجماع ہواتو اس کی حیثیت خبر واحدکی طرح ہے۔اس کا انکار فسق وگناہ ہے۔

قال الملا احمد جیون فی بیان حکم الاجماع:}(ثم ہو علی مراتب)ای فی نفسہ مع قطع النظر عن نقلہ لہ مراتب فی القوۃ والضعف والیقین والظن(فالاقوی اجماع الصحابۃ نصا)مثل ان یقولوا جمیعا،اجمعنا علی کذا(فانہ مثل الاٰیۃ والخبرالمتواتر)حتی یکفر جاحدہ ومنہ الاجماع علی خلافۃ ابی بکر
(ثم الذی نص البعض وسکت الباقون)من الصحابۃ وہو المسمی بالاجماع السکوتی،ولا یکفر جاحدہ وان کان من الادلۃ القطعیۃ

(ثم اجماع من بعدہم)ای بعد الصحابۃ من اہل کل عصر(علی حکم لم یظہر فیہ خلاف من سبقہم) من الصحابۃ فہو بمنزلۃ الخبر المشہور یفید الطمانیۃ دون الیقین

(ثم اجماعہم علی قول سبق فیہ مخالف) یعنی اختلفوا اولا علی قولین،ثم اجمع من بعدہم علی قول واحد،فہذا دون الکل فہو بمنزلۃ خبر الواحد یوجب العمل دون العلم، ویکون مقدما علی القیاس کخبر الواحد{(نورالانوارص223-222:طبع ہندی)

توضیح: منقولہ بالا عبارتوں میں حضرات مجتہدین غیرصحابہ کے دونوں قسم کے اجماع کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ان احکام کا خلاصہ عبارت سے قبل مذکور ہے۔

جن اجماعی مسائل کا انکار کفر نہیں

مندرجہ ذیل عبارت میں فاضل حسام چلپی کے حوالے سے ان اجماعی مسائل کا یکجا ذکر ہے،جن کا انکار کفر نہیں،نیزیہ بھی مذکور ہے کہ بعض فقہا نے ہر اجماعی مسئلہ کی مخالفت اور انکار کوکفر قرار دیا ہے۔یہ مرجوح قول ہے۔

قال الشامی:(ہذا موافق لِمَا قَدَّمنَاہُ عنہ من انہ یَکفُرُ بانکار ما اُجمِعَ عَلَیہِ بَعدَ العِلمِ بِہٖ-ومثلہ ما فی نور العین عن شرح العمدۃ-اطلق بعضہم ان مخالف الاجماع یکفر-والحق ان المسائل الاجماعیۃ تارۃً یصحبہا التواترُ عن صاحب الشرع کوجوب الخمس-وقد لا یصحبہا- فالاول یکفر جاحدہ لمخالفتہ التواتر لا لمخالفۃ الاجماع-الخ۔

ثم نقل فی نور العین عن رسالۃ الفاضل الشہیر”حسام جلبی“من عظماء علماء السلطان سلیم بن با یزید خان-ما نصہ(اذا لم تکن الاٰیَۃُ اوالخبر المتواتر قطعی الدلالۃ-اولم یکن الخبر متواترًا-او کان قطعیًّا لکن فیہ شبہۃ -اَو لَم یَکُنِ الاجماع اجماعَ الجمیع-اوکان-ولم یکن اجماع الصحابۃ-او کان-ولم یکن اجماع جمیع الصحابۃ-اوکان اجماع جمیع الصحابۃ ولم یکن قطعیًّا بان لم یثبت بطریق التواتر-او کان قطعیًّا لکن کان اجماعًا سُکُوتِیًّا-ففی کل من ہذہ الصور لا یکون الجحود کفرًا-یظہر ذلک لمن نظر فی کتب الاصول-فاحفظ ہذا الاصل-فانہ ینفعک فی استخراج فروعہ-حَتّٰی تَعرِفَ مِنہُ صحۃ ما قیل-انہ یلزم الکفر فی موضع کذا-ولا یلزم فی موضع اٰخر-الخ)(رد المحتار جلدچہارم: ص407)

متکلمین کے یہاں اجماع مجردکا حکم

جن امورپر اجماع متصل قائم ہو، متکلمین ان کے انکار پر حکم کفرنافذفرماتے ہیں،اور ان کے علاوہ دیگر اجماعی امور کے انکار کو ضلالت وبدعت قرار دیتے ہیں۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع قطعی (غیرسکوتی)کے انکار کو فقہائے احناف کفرفقہی قراردیتے ہیں۔بعض فقہا اجماع مجتہدین غیر صحابہ کے انکار کو بھی کفر بتاتے ہیں، جس کا ذکر کتاب الشفا و رد المحتار کی عبارتوں میں گزر چکا۔

قال الجرجانی:((خرق الاجماع)مطلقًا(لیس بکفر)بل خرق الاجماع القطعی الذی صارمن ضروریات الدین) (شرح مواقف:ص727)

توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اجماع متصل کا ذکر ہے کہ جس امر دینی پر اجماع متصل قائم ہو، اس کا انکار متکلمین کے یہاں کفر ہے۔

ثم قال فی انتہاء الکتاب:((ولایکفراحد من اہل القبلۃ الابما فیہ نفی الصانع القادر العالم-او شرک -او انکار النبوۃ اوانکارما علم مجیۂ علیہ الصلٰوۃ والسلام ضرورۃً-او انکار المجمع علیہ کاستحلال المحرمات)التی اجمع علٰی حرمتہا-فان کان ذلک المجمع علیہ مما علم ضرورۃً من الدین فذاک ظاہر داخل فیما تقدم ذکرہ-والا فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا کفربمخالتفہ-وان کان قطعیًّا ففیہ خلافٌ

(واما ماعداہ فالقائل بہ مبتدع غیرکافر-وللفقہاء فی معاملتہم خلاف-ہوخارج عن فَنِّنَا))
(شرح مواقف: ص762-مطبع:نول کشورلکھنو)

توضیح : منقولہ بالا عبارت میں بتایا گیا کہ جس امر دینی پر اجماع متصل قائم ہے،اس کا انکار متکلمین کے یہاں کفر ہے۔

اجماع متصل سے ثابت شدہ امورکے علاوہ دیگراجماعی امورکا منکر متکلمین کے یہاں بدعتی ہے، اورایسے اجماعی امورسے متعلق فقہا کے معاملات،یعنی فقہا کی تکفیر کا معاملہ علم کلام سے خارج ہے۔

جن امور پر اجماع قطعی یعنی اجماع صحابہ قائم ہو، ان کے بارے میں فقہا کا بھی اختلاف ہے،اور جن امورپراجماع ظنی ہو،ان کا انکار جمہورفقہاکے یہاں کفر نہیں۔منقولہ بالا عبارت میں اجماع قطعی سے اجماع صحابہ اوراجماع ظنی سے اجماع غیر صحابہ سے مراد ہے۔مندرجہ ذیل عبارت میں بھی اجماع قطعی سے اجماع صحابہ اوراجماع ظنی سے اجماع غیر صحابہ مراد ہے۔

قال السیالکوتی:(واما کفرمنکرالاجماع القطعی،ففیہ خلاف-قال الشارح فی التلویح-”اما الحکم الشرعی المجمع علیہ فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا یکفرجاحدُہ اتفاقًا-وان کان قطعیًّا-فقیل یکفر-وقیل لایکفر)(حاشیۃ السیالکوتی علی الخیالی:ص225)

قسط پنجم کا موضوع

قسط پنجم میں اجماع مجر دسے متعلق بعض باقی ماندہ مباحث ہیں۔

تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر :ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر : افکار رضا

قسط اول کے لیے کلک کریں 

قسط دوم کے لیے کلک کریں 

قسط سوم کے لیے کلک کریں

ان مضامین کو بھی پڑھیں

غیر مقلد وہابیہ اور کفر کلامی

نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ

 تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت و جماعت

بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم

گمراہ کافرفقہی وکافر کلامی کی نمازجنازہ

ہندی مضامین کے لیے کلک کریں 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن