تحریر: طارق انور مصباحی ضروریات دین سوالات وجوابات قسط پنجم
ضروریات دین سوالات وجوابات قسط پنجم
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
قسط چہارم میں اجماع مجرد کا تفصیلی بیان مرقوم ہوا۔ قسط پنجم میں اجماع مجرد سے متعلق ضروری مباحث مرقوم ہیں۔
اجماع مجرد قطعی بالمعنی الاعم ؟
اجماع مجردکا دلیل شرعی ہونا،یعنی اس کی حجیت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی نہیں،لہٰذا اس کی حجیت پر اجماع متصل قائم نہیں اور اس کا دلیل شرعی ہونا قطعی بالمعنی الاخص نہیں، اسی لیے نظام معتزلی نے اجماع کی حجیت کا انکار کیا تو متکلمین کے یہاں اس پر حکم کفر نہیں،بلکہ ضلالت وگمرہی کا حکم ہے۔
قال بحرالعلوم الفرنجی محلی فی بحث الاجماع:((انکار حکم الاجماع القطعی)وہو المنقول متواترا من غیر استقرار خلاف سابق علیہ(کفر عند اکثر الحنفیۃ وطائفۃ)ممن عداہم،لانہ انکار لما ثبت قطعا انہ حکم اللّٰہ تعالی(خلافا لطائفۃ)قالوا:حجیتہ وان کان قطعیا لکنہا نظریۃ فدخل فی حیز الاشکال من حیز الظہور کالبسملۃ(ومن ہہنا)ای من اجل ان انکار حکمہ لیس کفرا(لم تکفر الروافض)مع کونہم منکرین لخلافۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم حقا،وقد انعقد علیہ الاجماع من غیر ارتیاب)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص294-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح :علامہ بحر العلوم قدس سرہ کی عبارت (قالوا:حجیتہ وان کان قطعیا لکنہا نظریۃ فدخل فی حیز الاشکال من حیز الظہور کالبسملۃ)میں یہ بتایا گیا کہ اجماع مجرد کی حجیت گرچہ قطعی ہے،لیکن نظری ہے،یعنی دلائل شرعیہ سے اس کا اثبات ہوا ہے۔اجماع مجردکی حجیت بدیہی نہیں،یعنی حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس کی حجیت اور اس کا دلیل شرعی ہوناتواتر کے ساتھ مروی نہیں۔
اجماع مجردکا دلیل شرعی ہونا قطعی بالمعنی الاعم ہے۔اب جو مسئلہ اجماع مجرد سے ثابت ہو، وہ اصل کے اعتبارسےقطعی بالمعنی الاعم ہونا چاہئے،یعنی اس کا دینی امر ہونا ایسا قطعی ہونا چاہئے کہ جس میں صرف احتمال بعید ہو،اور جوامردینی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہو، اس کا امر دینی ہونا یعنی دین سے ہونا قطعی بالمعنی الاخص ہے۔اس میں احتمال بعید بھی نہ ہو۔
قال بحر العلوم الفرنجی محلی:((المصیب)من المجتہدین ای الباذلین جہدہم(فی العقلیات واحد-والا اجتمع النقیضان)لکون کل من القدم والحدوث مثلًا مطابقًا للواقع(وخلاف العنبری)المعتزلی فیہ (بظاہرہ غیر معقول)بل بتاویل کما سیجئ ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔
(وَالمُخطِئُ فِیہَا)ای فی العقلیات(اِن کَانَ نَافِیًا لِمِلَّۃِ الاسلام فکافرٌواٰثِمٌ علٰی اختلاف فی شرائطہ کَمَا مَرَّ)من بلوغ الدعوۃ عند الاشعریۃ ومختارالمصنف-وَمضیء مُدَّۃِ التَّأمُّل والتمییز عند اکثر الماتریدیۃ
(وَاِن لَم یکن)نافیًا لِمِلَّۃِ الاسلام(کخَلقِ القراٰن)ای القول بہ ونفی الرویۃ والمیزان وامثال ذلک (فَاٰثِمٌ لَاکَافِرٌ)
(وَالشَّرعیات القطعیات کذلک)ای مثل العقلیات(فمنکر الضروریات)الدینیۃ(مِنہَا کَالاَرکَانِ)الاربعۃ الَّتِی بُنِیَ الاسلامُ عَلَیہَا- الصَّلٰوۃِ والزَّکَاۃِ وَالصَّومِ وَالحَجِّ (وحجیۃ القراٰن ونَحوِہِماکافرٌ اٰثِمٌ-وَ مُنکِرُ النَّظریات)منہا(کحجیۃ الاجماع وخبرالواحد)وَعَدُّوا مِنہَا حجیۃَ القیاس اَیضًا(اٰثِمٌ فقط)غَیرُ کَافِرٍ-والمراد بالقطع المعنی الاخص-وہومَا لَا یَحتَمِلُ النَّقیض وَلَو اِحتَمَالًا بعیدًا-وَلَوغَیرَ نَاشٍ عن الدلیل)
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص377)
توضیح : قر آن عظیم کا حجت شرعی ہونا ضروریات دین سے ہے۔اسی طرح حدیث متواتر کا حجت شرعی ہونا ضروریات دین سے ہے۔
دراصل خبر صادق کی دوقسمیں ہیں:خبر رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام وخبر متواتر۔
قول رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام سماع سے ثابت ہوتو وہ قطعی بالمعنی الاخص ہے،اسی لیے جس صحابی نے جس امر دینی کوحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے سماعت کیا،وہ امردینی خاص ان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں ضروریات دین میں سے ہے۔
غائبین کووہ امردینی خبر متواتر سے موصول ہو۔تووہ ان کے حق میں ضروری دینی ہے۔
خبر متواتر سے موصول ہونے کی صورت یہ ہے کہ اس امر دینی کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کے سامنے بیان فرمایا ہو، پھر ان صحابہ کرام نے اس قول نبوی کی متواترروایت کی ہو۔
مکمل قرآن مجید بطورتواتر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہے۔قرآن مجید کووحی متلو کہا جاتا ہے اور قرآن مجید کے علاوہ اقول نبویہ کو وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جواقوال وافعال حضرات صحابہ کرام کو تواتر کے ساتھ موصول ہوئے،ان امور کو صحابہ کرام مانتے رہے اور عمل فرماتے رہے،وہ تمام ضروریات دین قرارپائے۔
عہد صحابہ کے بعدبھی قرآن مجیدکی متواتر روایت جاری رہی، یہاں تک کہ قرآن مجید کی سات متواتر قرأتوں کی بھی متواترروایت جاری رہی۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وہ اقوال وافعال جو صحابہ کرام کے درمیان متواتر تھے،پھروہ سب ضروریات دین قرار پائے تو ضروریات دین کی شکل میں ان کی متواتر جاری رہی،ان امور دینیہ پر اجماع متصل قائم رہا،لیکن حدیث کی صورت میں ان تمام اقوال وافعال کی متواتر روایت نہیں ہوسکی۔بعض کا ذکر خبر واحد میں ہے اور بعض کا ذکر نہیں،لیکن وہ ضروریات دین میں سے ہیں،کیوں کہ ان امور پر اجماع متصل قائم ہے کہ یہ امورحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہیں۔
ممکن ہے کہ ان امورمتواترہ کے اعتقاد اور ان پر عمل کے سبب حدیث کی صورت میں ان اقوال وافعال کی متواتر روایت نہ ہو سکی ہو۔اعتقادوعمل کے سبب روایت سے بے نیازی ہوگئی ہو،جیسے نمازپنج گانہ،تعداد رکعات وغیرہ کی متواتر روایتیں موجود نہیں۔
بحر العلوم قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا کہ اجماع مجرد کی حجیت نظریات میں سے ہے، یعنی اجماع مجرد کا حجت شرعی ہونا حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت نہیں،بلکہ اس کی حجیت پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔عبارت مندرجہ ذیل ہے۔
(وَ مُنکِرُ النَّظریات)منہا(کحجیۃ الاجماع وخبرالواحد)وَعَدُّوا مِنہَا حجیۃَ القیاس اَیضًا(اٰثِمٌ فقط)غَیرُ کَافِرٍ-والمراد بالقطع المعنی الاخص-وہومَا لَا یَحتَمِلُ النَّقیض وَلَو اِحتَمَالًا بعیدًا-وَلَوغَیرَ نَاشٍ عن الدلیل)(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت جلددوم:ص377)
ترجمہ : شرعیات میں سے نظریات کا منکرصرف آثم(بدعتی)ہے،کافر نہیں، مثلاً اجماع اور خبر واحد کی حجیت کا منکر اور اہل اسلام نے قیاس کی حجیت کوبھی نظریات میں شمار کیا ہے،اورضروریات میں قطع سے قطع بالمعنی الاخص مرادہے۔یہ وہ ہے جو نقیض کا احتمال نہ رکھے،گرچہ احتمال بعید کے طورپر ہو،اور گرچہ احتمال بلادلیل ہو۔
توضیح :شرعی نظریات میں بعض قطعی ہوتے ہیں،یعنی قطعی بالمعنی الاعم،جیسے اجماع کی حجیت صحابہ کرام کے اجماع منصوص سے ثابت ہے توقطعی بالمعنی الاعم ہے،لیکن قطعی بالمعنی الاخص نہیں۔
صرف وہی امر دینی قطعی بالمعنی الاخص ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہو۔
باعتباراصل ہر اجماعی مسئلہ قطعی بالمعنی الا عم ہونا چاہئے
قطعی بالمعنی الاخص دلیل سے جوثابت ہو،وہ بھی قطعی بالمعنی الاخص ہوگا اور قطعی بالمعنی الاعم دلیل سے جوثابت ہو، وہ بھی قطعی بالمعنی الاعم ہوگا۔جب اجماع دلیل قطعی بالمعنی الاعم ہے تو جو امردینی اجماع صحابہ سے ثابت ہو،وہ بھی قطعی بالمعنی الاعم ہونا چاہئے اور جو امردینی اجماع مجتہدین غیر صحابہ سے ثابت ہو،وہ بھی قطعی بالمعنی الا عم ہونا چاہئے،لیکن یہ محض اصل اورقانون کے اعتبارسے کلام ہے۔
بعض عرض عارض کے سبب صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے علاوہ دیگر اجماع سے ثابت شدہ مسائل قطعی بالمعنی الاعم نہیں۔
صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے علاوہ دیگراجماع سے ثابت شدہ مسائل کوبھی فقہا قطعی کہتے ہیں،لیکن وہاں قطعی سے قطعی بالمعنی الاعم مراد نہیں،بلکہ ظنی ملحق بالقطعی مراد ہے۔
اجماع غیر صحابہ کی تین قسموں کو فقہا بھی ظنی مانتے ہیں۔مابعدمیں تفصیل ہے۔
قال الملا احمد جیون فی بیان حکم الاجماع باعتبار الاصل: ((وحکمہ فی الاصل ان یثبت المراد بہ شرعا علی سبیل الیقین)یعنی ان الاجماع فی الامور الشرعیۃ فی الاصل یفید الیقین والقطعیۃ فیکفر جاحدہ-وان کان فی بعض المواضع بسبب العارض لا یفید القطع کالاجماع السکوتی) (نورالانوار: ص221)
توضیح:اصل وقانون کے اعتبارسے یہی ہونا چاہئے کہ ہر اجماع سے ثابت شدہ مسئلہ قطعی (قطعی بالمعنی الاعم)ہو،لیکن عرض عارض کے سبب ہراجماعی مسئلہ قطعی بالمعنی الاعم نہیں ہوتا،جیسے اجماع سکوتی میں عدم اتفاق کا احتمال ہے،اسی لیے اجماع سکوتی سے ثابت شدہ مسئلہ قطعی بالمعنی الاعم نہیں۔اس کا منکر فقہا کے یہاں بھی کافر نہیں۔
صرف اجماع منصوص قطعی بالمعنی الا عم:
اجماع مجردکی قسموں میں سے صرف صحابہ کرام کے اجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلہ قطعی بالمعنی الاعم ہوتا ہے۔اجماع کی دیگر قسموں سے ثابت شدہ مسئلہ کسی عرض عارض کے سبب قطعی بالمعنی الاعم نہیں۔
قال الملا احمد جیون فی بیان حکم الاجماع:((ثم ہو علی مراتب)ای فی نفسہ مع قطع النظر عن نقلہ لہ مراتب فی القوۃ والضعف والیقین والظن(فالاقوی اجماع الصحابۃ نصا)مثل ان یقولوا جمیعا،اجمعنا علی کذا(فانہ مثل الاٰیۃ والخبرالمتواتر)حتی یکفر جاحدہ ومنہ الاجماع علی خلافۃ ابی بکر(ثم الذی نص البعض وسکت الباقون)من الصحابۃ وہو المسمی بالاجماع السکوتی،ولا یکفر جاحدہ وان کان من الادلۃ القطعیۃ)(نورالانوارص223-222:طبع ہندی)
توضیح:صحابہ کرام کا اجماع سکوتی بھی دلیل قطعی ہے،لیکن عرض عارض کے سب وہ قطعیت کا افادہ نہیں کرتا۔ صرف حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع منصوص (غیرسکوتی) سے ثابت شدہ مسئلہ قطعی بالمعنی الاعم ہوتاہے۔اس اجماعی مسئلہ کا منکر فقہائے احناف کے یہاں کافر ہے،لیکن حضرات صحابہ کرام کے اجماع سکوتی سے ثابت شدہ مسئلہ قطعی بالمعنی الاعم نہیں،بلکہ ظنی ہوتاہے۔
فقہائے کرام نے حضرات صحابہ کرام کے اجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلہ کے بارے میں کہا کہ جس طرح آیت قرآنیہ اور خبر متواتر کا انکار کفر ہے،اسی طرح اجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلہ کا انکاربھی کفر ہے۔
اجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلے کے انکار اور آیت قرآنیہ وحدیث متواتر کے انکار میں فرق یہ ہے کہ آیت قرآنیہ وحدیث متواتر کا انکار کفر کلامی ہے،اوراجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلے کا انکار کفر فقہی ہے۔
صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے علاوہ ہر اجماع ظنی کیوں؟
صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے علاوہ اجماع کی دیگرقسموں سے ثابت شدہ مسئلہ بھی قطعی بالمعنی الاعم ہونا چاہئے،لیکن عرض عارض کے سبب وہ قطعی بالمعنی الاعم نہیں ہوتا ہے۔
علامہ بحر العلوم فر نگی محلی نے رقم فرمایا:(ان مقصودہ قدس سرہ ان الاجماع مطلقا فی القطعیۃ کالاٰیۃ والخبر المتواتر-واصلہ ان یکفر جاحدہ-لانہ انکار لحکم مقطوع-الا انہ لایکفر لعروض عارض-واشار الیہ بتقییدہ بقولہ:فی الاصل-ولذا لم یکفر الروافض والخوارج۔
ثم بین مراتب الاجماع-فالاعلٰی فی القطعیۃ اجماع الصحابۃ المقطوع اتفافقہم بتنصیص الکل بالحکم-او بدلالۃ توجب انہم اتفقوا قطعا-وہذا ظاہر۔
ثم اجماع من بعدہم-وجہ الفرق ان الصحابۃ کانوا معلومین باعیانہم فتعلم اقوالہم بالبحث والتفتیش-فاذا اخبر جماعۃ عدد التواتر حصل العلم باتفاقہم قطعا-واما من بعدہم فتکثروا ووقع فیہم نوع من الانتشار-فوقع شبہۃ فی اتفاقہم واحتمل ان یکون ہناک مجتہد لم یطلع علی قولہ الناقلون-لکن لما کان ہذا الاحتمال بعیدا لعدم وقوع الانتشار کذلک مع کون الناقلین جماعۃ تکفی للعلم صار بمنزلۃ الخبر المشہور الذی فیہ احتمال بعید-وصار ادون درجۃ من اجماع الصحابۃ۔
ثم الاجماع الذی وقع بعد تقرر الخلاف السابق،حجیتہ ظنیۃ لاحتمال حیاۃ القول السابق بالدلیل۔
وکذا الاجماع المنقول آحادا للاحتمال فی ثبوتہ۔
وکذا الاجماع الذی وقع عن سکوت-ولا قرینۃ تدل قطعا علی ان السکوت للرضا لاحتمال عدم الموافقۃ-فصارت ہذہ للاحتمالات الثلاثۃ حجۃ ظنیۃ-کخبر الواحد الصحیح)
(فواتح الرحموت جلددوم:ص 296-دار الکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:منقولہ بالاعبارت میں بتایا گیا کہ اجماع مجرد کی حجیت نظری ہے۔اس کی حجیت ضروریات دین میں سے نہیں،اسی لیے اس کے انکار کے سبب روافض وخوارج کی تکفیر نہیں کی گئی۔
منقولہ عبارت میں اجماع مجرد کی پانچ قسموں کا باہمی فرق بیان کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ اورتشریح مندرجہ ذیل ہے۔
۔(۱)اجماع متصل میں اور اجماع مجرد میں فرق یہ ہے کہ جس امر دینی پر اجماع متصل ہے،وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ مروی ہوتا ہے۔
اجماع مجرد سے ثابت شدہ مسئلہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے متواتر نہیں ہوتا ہے۔
اجماع مجردمیں قطعیت کے اعتبارسے سب سے بلند صحابہ کرام کا اجماع منصوص ہے۔
۔(۲)مجتہدین صحابہ کے اجماع اور مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع میں فرق یہ ہے کہ مجتہدین صحابہ کی تعداد محدود تھی اور تمام مجتہدین صحابہ متعارف ومشہور تھے۔
تلاش وجستجوکے بعد ان کے اقوال کو دریافت کیا جا سکتا ہے،پس جب بطور تواتر ان کے کسی مسئلہ پراتفاق کی خبرموصول ہوتو ان کے اجماع واتفاق کا قطعی علم حاصل ہوجائے گا۔
عہد صحابہ کے بعد مجتہدین کی کثرت ہو گئی اور وہ مختلف علاقوں میں منتشر ہوگئے تو ان کے اتفاق میں یہ احتمال پیدا ہوگیا کہ ممکن ہے کہ اس عہد میں کوئی مجتہد ہوں، اوران کے قول پر ناقلین مطلع نہ ہوسکے ہوں۔
چوں کہ یہ احتمال ضعیف تھا،اس لیے مجتہدین غیرصحابہ کا اجماع خبر مشہور کی طرح ہوگیا۔ یہ اجماع طمانیت کا افادہ کرتا ہے۔یقین کا افادہ نہیں کرتا۔
۔(۳)اس کے بعداس امرپر اجماع ہے جس میں پہلے اختلاف واقع ہوچکا ہو۔اس کی حجیت ظنی ہے،کیوں کہ قول سابق کا کوئی قائل اپنی دلیل پر قائم ہو۔
۔(۴)اس کے بعد وہ اجماع ہے جو خبرواحد کے طورپر منقول ہو،کیوں کہ اس کے ثبوت ہی میں احتمال ہے۔خبرواحد سے منقول ہونے کے سبب اس کا ثبوت یقینی نہیں ہوسکا۔
۔(۵)اسی طرح اجماع سکوتی بھی ظنی ہے،جب کوئی قرینہ قطعی طورپر دلالت نہ کرے کہ سکوت رضا کے سبب تھا،پس اخیر کے تینوں اجماع احتمال کے سبب ظنی ہیں۔
اجماع منصوص کی ظنی روایت کا حکم
صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے انکار پرفقہا کے یہاں حکم کفر اس وقت ہے جب وہ تواتر کے ساتھ مروی ہو،ورنہ حکم کفر نہیں۔
قال الملا احمد جیون الجونفوری:(ثم بین المصنف رحمہ اللّٰہ انہ لا بد لنقل الاجماع ایضًا من الاجماع فقال(واذا انتقل الینا اجماع السلف باجماع کل عصر علٰی نقلہ کان کنقل الحدیث المتواتر)فیکون موجبًا للعلم والعمل قطعًا کاجماعہم علٰی کون القرآن کتاب اللّٰہ تعالٰی وفرضیۃ الصلٰوۃ وغیرہا(واذا انتقل الینا بالافراد کان کنقل السنۃ بالاٰحاد) فانہ یوجب العمل دون العلم مثل خبر الاٰحاد)(نورالانوار ص222:طبع ہندی)
توضیح:حضرات صحابہ کرام کے اجماع منصوص سے ثابت شدہ مسئلہ اپنی اصلیت کے اعتبارسے قطعی بالمعنی الاعم ہے،لیکن اگر وہ ہم تک خبر واحد کے طورپر منقول ہوکر آئے تو وہ اب قطعی بالمعنی الاعم نہیں ہوگا۔
اگرخبر متواترکے طورپرنقل ہوکر ہم تک پہنچے تو قطعی بالمعنی الاعم ہے،اور ضروریات اہل سنت میں سے ہے،جیسے خلافت صدیقی پرصحابہ کرام کا اجماع منصوص اورپھر اس کی متواتر روایت،پس یہ امر ضروریات اہل سنت میں شمار ہوگا۔
قال المولٰی حسام الدین الاخسیکثی:(واذا انتقل الینا اجماعُ السلف باجماع علماء کل عصرٍعلٰی نقلہ،کان فی معنی نقل الحدیث المتواتر-واذا انتقل الینابالافراد-کان کنقل السنۃ بالاٰحاد-وہویقین باصلہ-لکنہ لما انتقل الینا بالاٰحاد-اوجب العمل دون العلم)
(مختصرالحسامی:ص96)
توضیح : اجماعی مسئلہ خبر واحدکے طورپر منقول ہوتو گرچہ وہ اپنی اصل کے اعتبارسے یقینی ہے،لیکن نقل آحادی کے سبب اس میں پایا جانے والا یقین معدوم ہوگیا اور خبرواحدسے نقل ہونے کے سبب وہ غیر یقینی ہوگیا۔
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ خبر واحد کے طورپر منقول ہوں تو نقل آحادی کے سبب وہاں بھی یقین مفقود ہوتا ہے،حالاں کہ حدیث نبوی سے ثابت ہونے والا امردینی اپنی اصل کے اعتبارسے قطعی بالمعنی الاخص ہے
یعنی جودینی امر حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے امت کو ملے،اس کا امر دینی ہونا قطعی بالمعنی بالمعنی الاخص ہے،لیکن نقل آحادی کے سبب یقین مفقود ہوجاتا ہے۔احتمال کے سبب اس میں قطعیت نہیں پائی جاتی۔
اجماع شرعی میں اختلاف کا حکم
قال الاخسیکثی:(ان اجماع علماء کل عصر من اہل العدالۃ والاجتہاد حُجَّۃٌ-ولا عبرۃ بقلۃ العلماء وکثرتہم-ولابالثبات علٰی ذٰلک حتّٰی یموتوا-ولا بمخالفۃ اہل الہوٰی فیما نُسِبُوا بہ الَی الہواء-ولا بمخالفۃ من لا رَایَ لَہٗ فی الباب)(مختصرالحسامی: ص95)
توضیح : اجماع شرعی کے انعقادمیں کسی اہل بدعت کا اختلاف معتبر نہیں ۔اسی طرح غیر مجتہد کے اختلاف کا بھی کوئی اعتبارنہیں۔اختلاف کے باوجوداجماع منعقد ہو جائے گا۔ اجماع منعقدہوجانے کے بعد اجماع میں شامل مجتہدین میں سے کسی نے اختلاف کیا تو یہ معتبر نہیں اور اس مجتہد کواختلاف کرناجائز نہیں،کیوں کہ اجماع منعقد ہوچکا۔
اہل بدعت اوراہل فسق کے انکار کاکوئی اعتبار نہیں
قال النسفی فی متن المنار:(اہل الاجماع من کان مجتہدًا صالحًا -لیس فیہ ہَوٰی وَلَا فِسق)(نورالانوار:ص219)
توضیح : اجماع شرعی میں کسی اہل بدعت یا اہل فسق کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔
اہل تعصب اور غیر محتاطین کے انکار کا اعتبارنہیں
قال صدرالشریعۃ:((واما الثانی ففی اہلیۃ من ینعقد بہ الاجماع-و ہی لکل مجتہد لیس فیہ فسق ولا بدعۃ-فان الفسق فیہ یورث التہمۃ ویسقط العدالۃ-وصاحب البدعۃ یدعوا الناس الیہا-ولیس ہومن الامۃ علی الاطلاق-وسقطت العدالۃ بالتعصب اوالسفہ-وکذا المجون)
اعلم ان البدعۃ لاتخلو من احد الامرین-اما تعصب واما سفہ-لانہ ان کان وافرالعقل عالمًا بقبح مایعتقدہ ومع ذلک یعاند الحق ویکابرہ فہو المتعصب- وان لم یکن وافرالعقل،کان سفیہًا-اذ السفہ خفۃ واضطراب یحملہ علٰی فِعلٍ مخالف للعقل لقلۃ التأمل-واما المجون فہو عدم المبالاۃ-فالمفتی الماجن ہو الذی یعلم الناس الحیل)
(التوضیح مع التلویح:جلددوم: ص46)
توضیح : اجماع شرعی میں اہل تعصب،غیر محتاطین،مفتی ماجن وغیرہ کا اعتبار نہیں۔اہل بدعت کا شمارامت اجابت میں نہیں ہوتا۔
اجماع میں اتفاق سے کیا مراد ہے؟
علامہ تفتازانی نے اجماع شرعی کی تعریف میں رقم فرمایا:(وفی الاصطلاح:اتفاق المجتہدین من امۃ محمد علیہ الصلوۃوالسلام فی عصر علی حکم شرعی:والمراد بالاتفاق الاشتراک فی الاعتقاد او القول او الفعل)
(التلویح مع التوضیح:جلد دوم ص:89-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح : اجماع میں اتفاق سے اعتقاد،قول یافعل میں اشتراک مرا د ہوتا ہے۔
اجماع مجر د کا وقوع کب ہوا ؟
عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اجماع مجردکا وجودنہیں ہوسکا،اورعہد رسالت کے بعد اجماع متصل نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہے کہ کسی صحابی کو عہد رسالت میں کسی امر دینی پر اجماع متصل کی خبر نہ ہو،لیکن وہ تمام امور دینیہ کی اجمالی تصدیق کے سبب اس اجماع میں شامل وداخل ہوں گے،پھر جب ان کو علم ہوجائے تو ان کو اس اجماعی امر دینی کو قبول کرنا ہوگا۔لاعلمی کے سبب معذور ہوں گے۔
عہد نیوی میں اجماع مجرد کی صورت نہیں۔عہد نبوی میں کسی خلیفۃ المسلمین کے انتخاب کے لیے ارباب حل وعقد کا اجماع نہیں ہوسکتا،کیوں کہ عہد مسعود میں مومنین کے انتظامی امور بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست اقدس میں تھے،پس عہد نبوی میں ارباب حل وعقد کا اجماع نہیں ہوسکتا۔
عہد نبوی میں اجماع مجتہدین کی بھی صورت نہیں۔عہد نبوی میں اجتہاد کی اجازت تھی،لیکن عہد نبوی میں اجماع مجتہدین کے وجودکی کوئی صورت نہیں۔
اجماع مجتہدین یہ ہے کہ ایک زمانے کے تمام مجتہدین کسی حکم شرعی پرمتفق ہوجائیں، اور کائنات عالم میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عظیم مجتہد کون سکتے ہیں اور جب اس اجماع میں خود شارع علیہ الصلوٰۃوالسلام شریک ہوں تووہ حکم شرعی قول نبوی سے ثابت ہوگا،نہ کہ اجماع سے ثابت ہوگا۔
اگر دیگر تمام مجتہدین نے ہی اجتہاد کیا ہو، اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی تصویب فرمادی ہوتویہ حکم بھی قول نبوی سے ثابت ہوا،نہ کہ اجماع سے۔ مجتہدین کا اجماع عہد نبوی کے بعد ہوتا ہے۔
صدر الشریعہ بخاری نے رقم فرمایا:(وعلم المسائل الاجماعیۃ یشترط الا فی زمن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لعدم الاجماع فی زمنہ)
(التوضیح مع التلویح:جلد اول:ص31-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح : مجتہد کے لیے باب عملیات کے اجماعی مسائل کوجاننا شرط ہے،لیکن عہد نبوی کے مجتہدین کے لیے یہ شرط نہیں،کیوں کہ عہد نبوی میں اجماع نہیں۔
حضوراقدس سروردوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعدکسی عہد میں کسی امرشرعی پرامت محمدیہ کے مجتہدین کے اتفاق کا نام اجماع ہے۔
قال الزرکشی فی حد الاجماع:(اما فی الاصطلاح فہو اتفاق مجتہدی امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد وفاتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حادثۃ علٰی امرمن الامور فی عصر من الاعصار)
(البحرالمحیط: جلدچہارم:ص436)
قال الزرکشی:(وقولنا:بعد وفاتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم-قَیدٌ لابد منہ علٰی رایہم،فان الاجماع لاینعقد فی زمانہ علیہ السلام)
(البحرالمحیط جلدچہارم:ص436)
توضیح : عہد نبوی میں اجماع مجرد کا انعقاد نہیں ہوتا ہے۔
بعض علما نے عہد نبوی میں اجماع شرعی یعنی اجماع مجتدین کے امکان عقلی کا قول کیا ہے۔
مجتہدین غیرصحابہ کے اجماعی مسائل کوقطعی کہنا
مجتہدین غیر صحابہ کے اجماعی مسائل کو بھی فقہا اپنی خاص اصطلاح کے اعتبارسے قطعی کہتے ہیں،لیکن اس کا حکم وہی ہے جو ماقبل میں تفصیل کے ساتھ مرقوم ہوا کہ ماقبل میں اختلاف نہ ہو تو اس کا منکر فقہا کے یہاں گمراہ ہے۔اگر ماقبل میں اختلاف ہو تو اس کامرتبہ خبر واحد کی طرح ہے۔اس کا منکر فاسق وگنہگارہے۔
قال التفتازانی:(فان السند اذا کان ظنیا فہو یفید اثبات الحکم بطر یق القطع-واذا کان قطعیا فہو یفید التاکید کما فی النصوص المتعاضدۃ علی حکم واحد،فلا یکون لغوا بین الادلۃ-وعلم انہ لا معنی للنزاع فی جواز کون السند قطعیا لانہ ان ارید انہ لایقع اتفاق مجتہدی عصر علی حکم ثابت بدلیل قطعی فظاہر البطلان-وکذا ان ارید انہ لا یسمی اجماعا،لان الحد صادق علیہ-وان ارید انہ لا یُثبِت الحکمَ فلا یتصور فیہ نزاع لان اثبات الثابت محال)(التلویح حاشیۃ التوضیح جلدسوم:ص64-المکتبۃ الشاملہ)
توضیح : مذکورہ بالا عبارت میں ہے کہ سند اجماع اگر ظنی بھی ہوتو اجماع کے سبب حکم قطعی ہوجاتا ہے۔اگر سند اجماع قطعی ہو تو اجماع سے اس کی قطعیت مؤکد ہوجاتی ہے۔
ہاں، یہ صحیح ہے کہ جب سند اجماع قطعی ہوتواس پر اجماع کے سبب کوئی نیا حکم ثابت نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ قطعی حکم پہلے ہی سے ثابت تھا، اورثابت کا اثبات محال ہے۔
اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہواکہ مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت ہونے والے مسئلہ کو بھی فقہا قطعی کہتے ہیں،لیکن جب عام طورپر اجماع قطعی کہا جائے تو اجماع صحابہ مراد ہوگا۔
قال التفتازانی:(وفائدۃ الاجماع بعد وجود السند سقوط البحث وحرمۃ المخالفۃ وصیرورۃ الحکم قطعیًّا-ثم اختلفوا فی السند-فذ ہب الجمہورالٰی اَنَّہٗ یجوزان یکون قیاسًا-وَاَنَّہٗ وَقَعَ کالاجماع عَلٰی خِلَافَۃِ اَبِی بکر قیاسًا عَلٰی اِمَامَتِہ فی الصلٰوۃ-حَتّٰی قِیلَ رَضِیَہٗ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لاَِمرِدِینِنَا-اَ فَلَا نَرضَاہُ لِاَمرِ دُنیَانَا)
(التلویح حاشیۃ التوضیح جلددوم: ص51)
توضیح : منقولہ بالا عبارت میں اجماع کے تین فوائد بیان کیے گئے۔(۱)بحث وتحقیق کا ساقط ہوجانا (۲)اس اجماعی مسئلہ کی مخالفت حرام ہوجانا (۳)اس اجماعی مسئلہ کا قطعی ہوجانا۔
اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہواکہ مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت ہونے والے مسئلہ کو بھی فقہا قطعی کہتے ہیں،لیکن صحابہ کرام کے اجماع منصوص ومتواتر کا جوحکم ہے،وہ حکم دیگر اجماع کا نہیں ہے،جیسا کہ ماقبل میں تفصیل مر قوم ہوئی۔
متکلمین صحابہ کرام کے اجماع منصوص کے علاوہ اجماع کی دیگرقسموں کوظنی کہتے ہیں۔
تحریر: طارق انور مصباحی
مدیر :ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
اعزازی مدیر :افکار رضا
ان مضامین کو بھی پڑھیں
نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ
تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت و جماعت
بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم