از قلم طارق مسعود رسول پوری جاگ مسلماں کہ کارواں لٹا جاتا ہے تیرا
جاگ مسلماں کہ کارواں لٹا جاتا ہے تیرا
گر متحد ہو بدل ڈالو زمانے کا مزاج
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے امت مسلمہ کے تابناک ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ آج باطل قوتوں کے آگے لرزہ بر اندام مسلم قوم ماضی کے ادوار میں کیا حیثیت رکھتی تھی مئورخین رقم طراز ہیں کہ ان هذه امتكم امة واحدة کا نعرہ لے کر چلنے والی امت مسلمہ کا تبلیغی مشن 610 ء کو مکہ مکرمہ سے شروع ہوتا ہے۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے مجاہدین اسلام نے عراق، ایران، آزربائجان، آرمینیا، کرمان، ملک شام اور دمشق تک کے علاقے فتح کر لیے اور اس کے بعد سندھ ،افریقہ سپین یہاں تک کہ پوری دنیا میں اسلام کا نام بلند کر دیا۔
چناں چہ مغرب کے تاریخ داں بھی حیران ہیں کہ مسلمانوں نے اتنے قلیل عرصہ میں اتنا بڑا انقلاب کیسے برپا کر دیا مسلمانوں کا یہ غلبہ صرف سیاست میں ہی نہی تھا۔
بلکہ تعلیم و ثقافت اور تجارت میں بھی مسلمان کارہائے نمایاں انجام دے رہے تھے سائنس میں بھی مسلمانوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا اور بو علی سینا، (جن کی کتابیں عرصہ دراز تک یوروپ کی یونیورسٹیز میں شامل نصاب رہیں )۔
جابر ابن حیان عمر خیام، (عظیم ریاضی دان ) الخوارضمی، ( موجودہ دور کی بہترین ایجاد کمپیوٹر بھی انہی کے اصولوں پر کام کرتا ہے جسے کمپیوٹر کے ماہرین کے نام سے پکارتے ہیں ) ابو ریحان البیرونی اور رضی جیسے سائنسداں پیدا کئے اور مکہ، مدینہ کوفہ، بصرہ، بغداد، نیشاپور غرناطہ اور بخارا میں ایسی یونیورسٹیاں قائم کیں کہ پوری دنیا علمی میدان میں مسلمانوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو گئ جس طرح آج اعلی تعلیم کے لئے تمام ممالک امریکہ و یورپ کا رخ کرتے ہیں۔
اور اس کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں ماضی میں اقوام عالم اسلامی جامعات کا رخ کرتے تھے اور مسلمانوں کا طرز عمل انکے لئے مشعل راہ بن جاتا تھا تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی, محمد بن قاسم اور طارق ابن زیاد جیسے جنرل بھی امت مسلمہ کو دیے جن کے نام سے کفر لرز اٹھتا تھا۔
مسلمانوں کا یہ سفر عروج اسی طرح پروان چڑھتا رہا یہاں تک کہ 1600ء تک دنیا کی تین سب سے بڑی طاقتیں ( سلطنت عثمانیہ ترکی میں، سلطنت مغلیہ ھندوستان میں اور سلطنت صفویہ ایران میں) بھی مسلمانوں کے ہی زیر دست تھیں جنہوں نے اس عہد میں مسلمانوں کو دنیا کے سامنے ایک سپر پاور قوم کے طور پر متعارف کرایا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بارہویں صدی کے اواخر میں جب مسلمانوں کا سیاسی و عسکری زوال سامنے آیا اور مسلمان آپسی اختلافات میں پڑ کر فرقہ پرسی کی لپیٹ میں آنے لگے تو ان کا علمی زوال بھی شروع ہو گیا اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوتے ہی بیک وقت بیس ہزار جامعات کو مسمار کر دیا گیا۔
نتيجة تحقیق و تصنیف، اجتھاد و حرکت اور نئ دریافتوں اور ایجادات کی راہ چھوڑ کر امت مسلمہ جمود و تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی جس کے نتیجے میں مسلسل پسماندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور امت کا یہ تنزل ہر میدان میں ہوا سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت کاری، تہذیب و ثقافت، علوم و فنون اور ادب و آرٹ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ ایک ترقی یافتہ قوم کی حالت یہ ہو گئ کہ وہ ثریا سے تحت الثری تک پہنچ گئ۔
اس طرح ہر میدان میں امت مسلمہ بلواسطہ یا بلا واسطہ انگریزوں کی غلام بن کر رہ گئی یہ آپسی اختلافات اور علم سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمان مسلسل کمزور ہوتے جا رہے ہیں اقتدار سے محروم یہ قوم دن بہ دن پسماندگی کا شکار ہوتی جا رہی ہے
اور صورتحال یہ ہے کہ دیگر کمیونٹیز کے بالمقابل ہندوستانی مسلمان دلت سے بھی پچھڑ چکا ہے شعبہ تعلیم کی بات کریں تو مسلمانوں کا لٹریسی ریٹ 58 % ہے یعنی مسلمانوں میں جہالت 42 فیصد ہے جب کہ اسلام کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا یعنی مسلمانوں کو دیا جانے والا سب سے پہلا پیغام ہی تعلیم تھا
مگر بد قسمتی سے مسلمانوں نے اسے پس پشت ڈال دیا تعلیم کے علاوہ دیگر شعبجات کی بات کریں تو پولس میں مسلمانوں کی تعداد صرف 7 فیصد ہے,فوج میں بھی صرف 3 % ہیں اس کے علاوہ موجودہ سائنس میں بھی مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کے بر عکس جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 25 %ہے اس تمام تر صورت حال کے باوجود چہار جانب سے امت مسلمہ پر دشمنوں کی یلغار ہے۔
آتنک واد ، لو جہاد، ھبارت ماتا کی جے، وندے ماترم جیسے پروپیگنڈوں کے نام پر دشمن ہمیں کرہ ارض سی مٹانا چاہتا ہے اغیار مکمل تیاری کے ساتھ سازشیں رچ رہے ہیں اور وہ قوم جسے ” و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله ” کے ذریعے تیاری کا حکم دیا گیا تھا۔
وہ آج غفلت کی ایسی چادر اوڑھے سو رہی ہے کہ اسے محمد اخلاق کی آواز تک نہ پہنچتی, حافظ جنید کی لاش اسٹیشن پر تڑپتی رہی مگر مسلمان سوتا رہا فلسطین کی بہنوں کی پکار اس کو سنائ نہی دیتی شام کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بموں سے اڑا دیا جاتا ہے۔
مگر مسلمان تماشائ بنا دیکھتا رہتا ہے برما کی سڑکوں پر مسلم نوجوانوں کو زندہ جلا دیا گیا, مسلم بہنوں کی عزتوں کر تار تار کر دیا گیا مگر مسلمان غفلت کی نیند سوتا رہا برما کی بہن کا ایک خط میں نے دیکھا سن کر آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔
جس میں اس نے لکھا تھا کہ اے مسلمانوں آج ہیاں ہمارا قتل عام ہو رہا ہے ہماری عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے کیا آج امت مسلمہ میں کوئ خالد بن ولید نہ رہا کوئ صلاح الدین ایوبی نہ رہا ؟
آج کوئی محمد بن قاسم نہ رہا؟
کوئی اورنگزیب عالمگیر نہ رہا؟
لیکن مسلمان کہاں اس فریاد کو سنتا وہ تو آپسی اختلافات میں مصروف تھا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مشغول تھا
ہماری اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ عراق تباہ ہو گیا ملک شام تباہ ہو گیا افغانستان، ہمن گویا کہ پورا عالم اسلام اس بحران سے دو چار ہے ایک ایک کرکے مسلم ممالک اپنا وجود کھوتے جا رہے ہیں اور مسلمان کو احساس تک نہی ہو رہا ۔
اس لیے میری تمام مسلمانوں سی التماس ہے کہ آو ہم پھر سے اپنے ماضی کی طرف پلٹے اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کریں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کا کام کریں اور خواب غفلت میں پڑی مسلم قوم کے اندر انقلاب کا جزبہ پیدا کریں۔
آج کے دور میں یہ انقلاب صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے آ سکتا ہے اسی لئے ہم پھر سے اپنے جامعات میں اپنے مدارس میں وہی نظام تعلیم لائیں جس کی بنا پر ہم نے دنیا پر حکومت کی تھی آو ہم مل کر اس انقلاب کا آغاز کرتے ہیں اور امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بتاتے ہیں کہ
جلا ڈالیں تھیں تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر
مسلماں پھر تیرا تاریخ دہرانے کا وقت آیا
چلے تھے 313 جہاں سے تم مسلمانوں
انہیں ماضی کی راہوں پے پلٹ جانے کا وقت آیا
از قلم : طارق مسعود رسول پوری
ان مضامین کو بھی پڑھیں
علماے دیوبند کا اپنی عوام سے فریب
نماز و تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ
تکفیر دہلوی اور علماے اہل سنت و جماعت
بدعتی اور بد مذہب کی اقتدا میں نماز کا حکم
گمراہ کافرفقہی وکافر کلامی کی نمازجنازہ