تحریر: طارق مسعود رسول پوری قرآن اور مسلمان ایک تنقیدی جائزہ
قرآن اور مسلمان ایک تنقیدی جائزہ
قرآن محض مردے بخشوانے کے لیے نہیں بلکہ زندہ لوگوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نازل ہوا تھا۔
لیکن بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں اس عظیم کتاب کو صرف ایصال ثواب تک محدود رکھا جاتا ہے اور اس کو محض ایک ایصال ثواب اور جھاڑ پھونک کی کتاب تصور کیا جاتا ہے.
چناں چہ تیجہ، دسواں، چہلم اور عرس جیسے مواقع پر بطور ایصال ثواب قرآن مجید کی بقدرِ تلاوت کر لینا یا جھاڑ پھونک کے نام پر مریضوں پر دم کر دینا, یہی قرآن کریم کے نزول کا مقصد حقیقی سمجھا جاتا ہے۔
جو اُمّت مسلمہ کے زوال کا بُنیادی سبب ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قرآن مجید کو دینی و عصری علوم کا مبدا سمجھ کر اس پر تحقیق کی جاتی اور قرآنی انکشافات کو اقوامِ عالم کے سامنے پیش کیا جاتا۔
جس سے دُنیا مذہب اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی لیکن آج ہماری صفوں میں ایسے افراد گیہوں میں گھن کے برابر ہیں جو قرآن پر تحقیق کرتے ہیں؟
آج ہمارا علمی معیار اس قدر زوال پزیر ہو چکا ہے کہ درسِ قرآن پڑھانے والے اساتذہ تک ترجمہ قرآن کا مطالعہ کرتے نظر آتے ہیں چہ جاے کہ طلبہ اگر تحقیق کے نام پر بعض حضرات کام کرنے کی پہل بھی کرتے ہیں تو اُن کی کوشش محض یہ ہوتی ہے کہ سائنسی انکشافات کو قرآن و حدیث سے ثابت کریں کہ سائنس کی فلاں بات قرآن سے ثابت ہے اور فلاں بات فلاں حدیث سے ثابت ہے۔
اور وہ اپنی ساری توانائ سائنسی انکشافات کو قرآن و سنت میں تلاش کرنے پر صرف کر دیتے ہیں میرے خیال میں جتنا زور ہم سائنسی انکشافات کو قرآن و سنت میں تلاش کرنے پر دیتے ہیں۔
اگر اتنا ہی زور قرآن کی تحقیق پر دیں تو ہم سائنسی انکشافات کو قرآن و حدیث میں تلاش کرنے کے بجاے قرآنی انکشافات کو سائنس کی دنیا میں پیش کرکے اقوام عالم کو اس بات کا قائل کرنے میں کام یاب ہو سکتے ہیں کہ سائنس اسلام کی محتاج ہے اسلام سائنس کا محتاج نہیں جو مغرب کا ایک عظیم مغالطہ ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے اگر آج سائنسداں کوئ چیز دریافت کرلیں یا کسی چیز کا انکشاف کریں تو ہم اسکو قرآن و حدیث میں تلاش کرنے لگتیں ہیں اور جب ہمیں اس پر واقفیت ھو جاتی ہے تو اقوام عالم کو یہ فخریہ بتاتے نظر آتے ہیں۔
کہ یہ بات تو قرآن و حدیث میں پہلے سے ہی موجود تھی افسوس صد افسوس ہمیں اس وقت احساس ندامت نہیں ہوتا کہ جب یہ بات 1400 سال سے قرآن و حدیث میں موجود ہے تو اس کو شب و روز ممبر و محراب پر حدثنا و اخبرنا کی صدائیں دینے والے دریافت کیوں نہ کر سکے اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنے والے انگریز نے کیسے دریافت کر لیا !۔
جدید سائنس کے جتنے بھی انکشافات ہیں چاہیں وہ فلکیات سے متعلق ہوں یا ارضیات سے یا دیگر شعبجات سے ، اگر آپ ان تمام انکشافات و ایجادات کو گوگل یا یوٹیوب پر سرچ کریں تو آپ کو ہزاروں افراد ان انکشافات کو قرآن و حدیث سے ثابت کرتے نظر آئیں گے کہ اسکا ذکر فلاں آیت میں موجود ہے اس کا ذکر فلاں حدیث میں موجود ہے لیکن جب ان سے کوئی غیر مسلم یہ سوال کرتا ہے کہ جب
یہ تمام باتیں پہلے سے ہی قرآن و حدیث میں موجود تھیں تو انکو مسلمانوں نے دریافت کیوں نہیں کیا؟
کیا کفار و مشرکین قرآن و حدیث کو مسلمانوں سے زیادہ سمجھتے ہیں ؟
جب اُن سے یہ سوالات ہوتے ہیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ قرآن کے حافظ تو ہم ہیں، قرآن کے عالم تو ہم ہیں، قرآن کے مفسر ہم ہیں، تو قرآن کے ان انکشافات کو جو سائنسی شکل میں کفار ہمیں پیش کرتے ہیں ہم دریافت کیوں نہیں کر سکتے؟
کیا ہمارے پاس ذہانت و فطانت کی کمی ہے ؟
نہیں ہرگز نہی, ہم تو دنیا کی ذہین ترین قوم ہیں
کیا ہمارے پاس علماء کی کمی ہے ؟
بلکل نہیں, بلکہ ہمارے پاس تو ایسے ایسے شیخ الحدیث,شیخ التفسیر, شیخ الاسلام, مفکر اسلام, علامہ و فہامہ موجود ہیں کہ جنکے القابات سے جلسوں کے اشہارات بھی لرزنے لگتے ہیں اور ان کا بار سنبھالنے کی وسعت نہی رکھتے اگر قیادت کی بات کریں تو ہمارے پاس قائدین کی بھی قلت نہی ہماری قوم میں قائد ملت, رہبر ملت, قائد اعظم, قائد اہل سنت جیسی شخصیات موجود ہیں
پھر وجہ کیا ہے,ہم کہاں پیچھے ہیں,ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر سنجیدہ مسلمان کے ذہن و دماغ میں گردش کر رہے ہیں مگر ہمارے قائدین ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں آج ہم علمی میدان میں زیر کیوں نظر آتے ہیں ہم تو وہ قوم ہیں جنہوں نے یونانیوں سے فلسفہ لیکر انکو فلسفے میں ہی شکست دی تھی
آج ہم ہر جگہ انگریزوں کے محتاج کیوں ہیں ؟
کیا اللہ کی مدد آپکے مقابل میں انکے ساتھ ہے؟
نہیں ہرگز نہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے “لا تحزن ان اللہ معنا”
کہیں ایسا تو نہی کہ ہم اُمّت کا ایک بڑا سرمایہ پس پشت ڈال آئے؟
آخر آج ہماری جماعت سے کیوں کوئی غزالی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کوئی ابنِ خلدون پیدا نہیں ہوتا، کیوں کوئی جابر ابنِ حیان پیدا نہیں ہوتا، کیوں کوئی احمد رضا بریلوی پیدا نہیں ہوتا؟
آج ہم سائنس میں غیروں کے محتاج,تجارت میں غیروں کے محتاج,سیاست میں غیروں کے محتاج معیشت میں غیروں کے محتاج,صحافت میں غیروں کےمحتاج,ثقافت میں غیروں کے محتاج
آخر کیوں؟
یہ غلامی کی بیڑیاں ہمارے پیرو سے کب نکلیں گیں ؟
جب علوم دینیہ و عصریہ کا ماخذ و مبدا قرآن و حدیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے تو ہم کفار کے محتاج کیوں ہیں ؟
ہمارے یہاں زندگی بھر (کتاب البیوع) کا درس دینے والا خود ہی تجارت سے محروم کیوں رہتا ہے؟
موجودہ وقت میں جو وبائی مرض کوڈ ۱۹ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس کی ویکسین کے لیے ہم مغربی سائنسدانوں پر کیوں نظریں جمائے بیٹھے ہیں
یہ امت کیوں تلاش نہیں کرتی اُن مسلم طبیبوں کو جنکی کتابیں آج بھی امریکہ و یوروپ کی یونیرسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں؟
کیا ہم نے علمِ طب سے بھی ہاتھ صاف کر لئے جسکے ہم موجد کہلاتے تھے؟
آج مجھے شکوہ ہے اُن قائدین سے بھی جو اُمّت کی خستہ حالی کی اصلاح کے لئے کچھ کئے بغیر یہ اِلزام تراشی کرتے ہیں کہ یہ امریکہ کی سازش ہے یہ یوروپ کی سازش ہے یہ فلاں کی سازش ہے اگر یہ کفار کی سازش ہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہماری تیاری کیا ہے ؟
قرآن تو ہمیں کفار کے خلاف تیاری کا حکم دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۰﴾۔
ترجمہ۔ اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے ( ف۱۱٤ ) اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن ہیں ( ف۱۱۵ ) اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے ( ف۱۱٦ ) اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا ( ف۱۱۷ ) اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے ،
مذکورہ آیت میں قوہ اور رباط خیل سے مُراد طاقت اور ہر قسم کے ہتھیار ھیں جن سے آج اُمّت مسلمہ محروم ہے اور مغرب سے خریدنے پر مجبور ہے
تاریخ شاہد ہے جب تک مسلمان اس آیت پر عمل پیراں رہے دنیا کے مختلف شعبجات میں فتوحات انکے قدم چومتی رہیں آج ہم ذلیل و خوار ہیں۔
تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنی فرامین کو بالائے طاق رکھ کر اسکو صرف ایک ایصال ثواب اور جھاڑ پھونک کی کتاب بنا ڈالا اس لئے آج ضروری ہے کہ اُمّت کو اُسی منہج پر لایا جائے جہاں وہ دنیا کے فاتح کہلاتے تھے ۔
اور اقوامِ عالم اُن کے دروں پر خیرات لینے آتیں تھیں کل ہمارے ہیرو خالد بن ولید, صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اورنگزیب عالمگیر ہوا کرتے تھے آج ہمارے ہیرو یہ اسٹیج پر ناچنے والے شعراء و مقررین اور اُمّت کا بیڑا غرق کرنے والے جاہل پیر بنتے ہیں
اس لیے مسلمانوں اپنے اسلاف کی طرف پلٹو اور تاریخ کے اوراق میں اپنی منزل تلاش کرو تاریخ آج بھی تمہیں آواز دے رہی ہے کہ
جلا ڈالیں تھی تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر
مسلماں پھر تیرا تاریخ دہرانے کا وقت آیا
چلے تھے تین سو تیرہ جہاں سے تم مسلمانوں
اُنہیں ماضی کی راہوں پے پلٹ جانے کا وقت آیا
زوال اُمت کا علاج
اسلامی تاریخ کے ماضی و حال کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دور عروج میں ہمارے تعلیمی ادارے مشترک تھے جہاں دینی و عصری علوم کے نام پر کسی قسم کا ڈویژن نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اُن مدارس سے فارغ التحصیل طالب علم بیک وقت ایک جید عالم ،ماہر طبیب، عظیم سائنسداں، بے مثال فلسفی، ریاضی داں اور عظیم محقق ہوتا تھا لیکن جب سے ہمنے اپنے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم و دنیوی تعلیم کے نام پر یہ ڈویژن کیا ہے ہمارے معاشرے میں تنگ نظری اور جہالت پروان چڑھنے لگی
نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلمانوں میں دین کی تعلیم حاصل کرنے والے صرف %4 ہیں اور %96 مسلمان دین سے دور ہیں جو عصری علوم کے نام پر ارتداد و الحاد کا شکار اور دین سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔
کاش آج بھی وہی نظام تعلیم ہو جہاں مذہب کے جاننے والے %4 نہیں %96 ہوں اور ہر مسلمان مفتی نہ صحیح اپنے وقت کا مبلغ ضرور ہو، حلال و حرام سے واقف ہو جس سے ہمارا معاشرہ پھر سے پاکیزہ بنے ۔
اس لیے آج ضروت ہے کہ ہم اپنے مدارس, یونیورسٹیز اور کالجوں کو اسی منہج پر لائیں جہاں سے ہم نے دنیا کو ابو حنیفہ, شافعی, امام احمد بن حنبل, امام محمد , ابو یوسف,زفر, بخاری و مسلم جیسے جید علماء دئے تھے وہیں اشعری, ما تریدی,غزالی, ابن خلدون, خوارضمی, جابر بن حیان اور علامہ رضی جیسے مفکرین اور سائنسداں بھی قوم کو دئے
اللہ تعالیٰ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو پھر سے وہی دور عروج عطا فرمائے
تحریر: طارق مسعود رسول پوری
ان مضامین کو بھی پڑھیں