تحریر: مفتی اسرار احمد واحدی فیضی نقوش حیات خواجہ میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ
نقوش حیات خواجہ میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر میں جن کے نشاں کبھی
خواجہ سید میر عبد الواحد حُسینی زیدی بلگرامی قدس سرہ ا لسامی دسویں صدی ہجری کے ایک عظیم رہ نما،علمی روحانی صاحب کشف و کرامت، صوفی بزرگ گز رے ہیں۔
نیز آپ دسویں صدی ہجری کےمجدد ہیں۔آپ کا تعلق حُسینی زیدی سادات سے ہے، آپ کی سب سے زیادہ مشہور ومعروف تصنیف لطیف سبع سنابل شریف جو کہ فارسی زبان میں ہے۔
ولادت باسعادت
آپ کی ولادت با سعادت 912 ہجری/ یا 915 ہجری/ کو ہندوستان کے صوبہءِ اتر پردیش کے ضلع ہردوئی کے قصبہ سانڈی میں ہوئی۔اس وقت آپ کا خاندانِ مبارک آپ کے جد اعلی سے ہی قصبہ باڑی وسانڈی (بلگرام شریف سے15 کلو میٹر کی دُور پرآباد ہے) میں مقیم تھا
بیعت وخلافت
فارسی زبان میں شہرت یافتہ، نیز تصوف کی مشہورِ زمانہ کتاب سبع سنابل شریف میں آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ فقیر عبد الواحد بلگرامی شیخ صفی کا مرید ہے اور شیخ مخدوم سے خلافت یافتہ ہے مخدوم شیخ حسین کو اِس فقیر کے والد گرامی کے ساتھ کامل الفت ومحبت اور مودت تھی
اور دونوں حضرات کے مابین کامل خلوص تھا، فقیر کے والد بھی مخدوم شیخ صفی کے خلیفہ تھے اس وجہ سے فقیر نے شیخ حسین کی طرف رجوع کیا، (سبع سنابل بحو الہ مآ ثر ا لکرام مترجم ص 57)
عظمت ورفعت
خاندان خواجہ حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی کے مورخ تاج العلماء سید محمد میاں قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ آپ کے فضائل ومناقب یوں بیان فرماتے ہیں۔
علوم صوری ومعنوی میں فائق انام، مظہر اسرار الہی، منبع انوار نامتناہی، عالم فاضل، صاحب آیات ظاہرہ و کمالات باہرہ ، خداوند مجاہدہ صوری ومشاہدہ معنوی، مدارج عرفان ومحبت، ومراتب عشق ومودت، میں کامل العیار، اطوار مشیخت وبزرگی میں صاحب اعتبار، علوم ظاہر وباطن میں یگانہ ءِ روزگار(اصحح التواریخ جلد 1 ص 201)۔
مشہور ومعروف مورخ ملا عبدالقادر بدایونی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔میر طبع بلند دارد، (منتخب التواریخ ص300) نیز تذکرہ میر عبدالجلیل میں ملا عبدالقادر بدایونی علیہ الرحمہ یوں رقم طراز ہیں۔۔سید میر عبدالواحد بلگرامی جو فاضل عصر اور مادر زاد ولی تھے، خط نہایت شیریں لکھتے تھے بہت سے نسخے کلام اللہ المجید کے اور بے کاپیاں کتابیں اپنےقلم سے لکھ ڈالی تھیں۔(تذکرہ میر عبدالجلیل جلد1ص171)
آپ کی تصنیفات میں جن کتابوں کے نام ملتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں
۔(1)شرح الکافیہ فی التصوف
۔(2) سبع سنابل شریف ۔مقبول بارگاہ محبوب خدا)
۔ (3)دیوان
۔(4) ساقی نامہ
۔ (5) شرح گلشن راز
۔(6)شرح مصطلحات دیوان حافظ
۔ (7) حقائق ہندی
۔(8).شرح نزہۃ الارواح
۔(9) شرح الغوثیہ
۔ (10) مکاتیب ثلاثہ
۔(11) حل شبھات
۔(12) مناظرہ انبہ و خر پزہ
۔(13) شرح معمہ قصہ چار برادر
۔(14) تفسیر مفیض المحبت
۔(15) مجموعہءِ اوراد
تصوف و سلوک کے نیر تاباں آسمان علم و فضل کے بدر منیر حضرت خواجہ سید میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق تصنیف سبع سنابل شریف باب تصوف روحانیت میں بلند پایہ کتاب مانی جاتی ہے
پہلا سنبلہ عقائد کے متعلق ہے سنبلہ ء عقائد میں آپ نے تفضیلیت و رافضیت کا بہت ہی معقول و مدلل رد بلیغ فرمایا ہے بحث دسیوں صفحات میں باعث تسکین قاری ہے
اہل ذوق کتاب کی طرف رجوع کریں تاہم قارئین کے پیش نظر سبع سنابل شریف کے چند اقتباس پیش ہیں جو آپ ضرور مطالعہ فرمائیں ۔حضرت خواجہ سید میر عبدالواحد بلگرامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :اور شرفِ نفس جیسے فاطمی سید اور علماء کہ اگر یہ ایک نیکی کریں ، تو دوسروں کے مقابلے میں دوگنا ثواب حاصل کریں
اور اگر ایک گناہ کریں ، تو دوسروں سے بڑھ کر عذاب میں مبتلا ہوں ، یہیں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے ، کہ سیّد اگر عَالِم بھی ہو تو اس کو فرمانبرداری اور نافرمانی میں ثواب اور عذاب کا حصہ دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔
پتا چلا جس طرح سیّد اور عَالِم کو ایک عام مسلمان کہ نسبت نیکی کا دوگنا ثواب ملتا ہے یونہی گناہ پر ڈبل عذاب و گناہ بھی ملے گا ، اگر کوئی سُنی عَالِم یا سیّد زادہ کسی مسلمان کو گالی دے تو وہ خود حساب لگا لے ، کہ اس پر کتنا ثواب یا گناہ ملے گا۔
افضلیت امیر المؤمنین حضرت سیدناصدیق اکبر بزبان میر سید عبد الواحد حسینی زیدی بلگرامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔آپ فرماتے ہیں اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں کے بعد دوسری تمام مخلوق سےبہتر حضرت سیدناامیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں
اُن کے بعد حضرت سیدنا امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے بعد امیر المؤمنین سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ اور اُن کے بعد سیدنا امیر المؤمنین علی المرتضی رضی اللہ تعَالی عنہم ہیں ۔ (سبع سنابل، ص۷)۔
اور علم نحو کی مشہور کتاب “کافیہ” کی صوفیانہ شرح “النافعہ” جس کو تصوف کی مشہور و معروف کتاب “سبع سنابل شریف” کے مصنف – حضرت میر سید عبد الواحد حسینی زیدی بلگرامی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے
قوت حافظہ خواجہ میر سید عبد الواحد بلگرامی
آپ کا حافظہ بہت ہی قوی اور آپ کی یاد داشت زبردست اور پختہ تھی بہت سی لغات و ڈکشنری وغیرہ اور دیگر مستند و جامع کتابیں جو کسی وقت آپ کی نظر سے گزری تھیں آپ کی نوک زبان پر ازبر تھیں ، قرآن وتفاسیر، احادیث رسول مع ا سناد، ا سماء الرجال نیز اشعار و امثال چھ زبانوں میں عربی فارسی اردو ہندی اور سنسکرت کے دوہے وغیرہ
آپ کے خزانہُ دماغ میں اس طرح محفوظ تھے کہ سننے والوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا کرتے تھے آپ کے اقوال زریں حقائق و معرفت اور سلوک کے روشن چراغ ہوا کرتے تھے، اور آپ کو سیر وتواریخ ،فقہ ،ادب،جملہ علوم و فنون سے فطری محبت اور لگاؤ تھا
کرامت
چور کا آپ کی بارگاہ میں نا بینا ہو جانا
بادشاہ اکبر کا آپ کو 500/ بیگھہ زمین تحفہ میں دینا
آپ کی تصنیف لطیف سبع سنابل شریف کا بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں مقبول ہو جانا۔
آپ کے چچا حضرت سید شاہ میر طاہر علیہ الرحمہ کے بال کا آگ پر نا جلنا
آپ کے بیٹے حضرت سید شاہ میر طیب بلگرامی قدس سرہ السامی کا شکر کو نمک بنا دینا وغیرہ وغیرہ کرامات کا صدور آپ سے ہوا ہے
وہ سلاطین جن کا آپ نے زمانہ پا یاحضرت خواجہ سید شاہ میر عبد الواحد بلگرامی قد س سرہ السامی نے 100/سو سال سے زائد عمر شریف پائی، سکندر لودھی کے زمانے میں آپ پیدا ہوئے۔اور جہاں گیر کے زمانے میں وصال فرمایا۔
اس طرح آپ نے مندرجہ ذیل بادشاہوں کا زمانہ پایا۔
سکندر لودھی894ہجری/تا923/ابراہیم لودھی 923ہجری/تا944 ہجری/بابر932ہجری/تا937/ہمایوں937ہجری/تا963/اکبر963ہجری/تا1041/جہاں گیر1014ہجری/تا1037/ ۔شیر شاہ سوری نے947ہجری/ میں ہمایوں کو ہندوستان بدر کرکے خود بادشاہ بن بیٹھا پھر 15/پندرہ سال کے بعد 962ہجری/ میں ہمایوں نے دوبارہ تختِ دہلی حاصل کرلیا
اولاد و امجاد
آپ نے یکے بعد دیگرے دو عقد کئے اور دونوں بیویوں سے صاحب اولاد ہوئے
عقد اول
آپ کی زوجہء اول قاضی شیخ عبد السامی عثمانی بلگرامی محلہ قاضی پورہ کی صاحبزادی تھیں، ان سے دو اولادیں۔ایک بیٹا میر عبدالجلیل۔اورایک بیٹی مریم تھی
عقد ثانی
آپ کی دوسری بیوی قنوج کی تھیں، ان کے بطن سے تین صاحبزادے۔ میر سید فیروز۔ میر سید یحییٰ، میر سید طیب، اور ایک بیٹی بی بی شاہا پیدا ہوئیں۔
وصال پُر ملال
آپ کا وصال پُر ملال 3 رمضان المبارک/1017ہجری/ جمعہ کی شب میں ہوا۔
آپ کا مزار مبارک ہندوستان کے مشہور ومعروف صوبہ اتر پردیش کے ضلع ہردوئی کے قصبہ بلگرام شریف میں مرجع خلائق و منبع فیوض و برکات ہے، قصبہ بلگرام شریف جو کہ لکھنؤ سے تقریباً 150/ کلومیٹر جانبِ مغرب،اور بریلی شریف سےتقریباً 180/ کلو میٹر جانبِ مشرق واقع ہے
تحریر: مفتی اسرار احمد واحدی فیضی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
امام احمد رضا قاددری : مجدد اعظم