Saturday, September 14, 2024
Homeمخزن معلوماتفکر قرآن عام کریں اور آدمیوں کو انسان کریں

فکر قرآن عام کریں اور آدمیوں کو انسان کریں

ازقلم : فیاض احمدبرکاتی مصباحی فکر قرآن عام کریں اور آدمیوں کو انسان کریں

فکر قرآن عام کریں اور آدمیوں کو انسان کریں

پرانے زمانے میں کچے مکان ہوتے تھے، جو بڑی محنتوں سے بنائے جاتے تھے، اس کچے مکان میں باپ کا خلوص ماں کی ممتا لپٹی ہوتی تھی جسے ہرسال آندھیوں کا موسم آنے سے پہلے نئے بانس بلی جوڑ کر مضبوط کیا جاتا تھا، جن کا گھر مضبوط ہوتا وہ مطمئن ہوتے کہ چاہے کتنا سخت طوفان آئے ہمارے گھر اپنی جگہ رہیں گے ۔

کچھ بے فکرے بھی ہوتے تھے جو گھر کی مرمت اور تجدید سے بے نیاز رہتے اور ہوا کا کوئی تیز جھونکا ہی ان کی چھپر لے اڑتا تھا۔گھر کا اڑنا یا گرجانا کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی۔اصل پریشانی اس وقت ہوتی جب برسات میں سر سے سائبان چھن جاتا۔

جن علاقوں میں اکثر طوفان کا سامنا رہتا ہے وہاں کے ہوشیار باشندے کچھ کریں یا نہ کریں اپنے گھر ضرور اس لائق بناتے ہیں کہ شدید طوفان جھیل سکیں۔ اس میں غور کرکے مذہب اور مذہبی ذمہ داریوں کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں

اس وقت ہمارے ملک کے مسلمانوں کی حالت بالکل اس بے فکرے مکان مالک جیسی ہے جسے اپنے گھر کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ چھپر اڑ جائے، بانس بلی ٹوٹ جائے، بادل گرجے، بجلی چمکے یا اولے پڑیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ دوسرے مزے لیں اپنا کیا جاتا ہے۔جس حال میں ہیں مست ہیں۔

نہ بچے کی فکر، نہ اپنی عزت کی پرواہ نہ متاع زندگی لٹنے کا خوف۔ بس جیے جانا ہے وہ بھی بھیڑ کا حصہ بن کر۔ نہ ہماری فکر کی چھپر مضبوط ہے نہ اعتقاد کی دیواریں، نہ قوت عمل کی بانس بلی کا کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ اجتماعیت کی متاع زندگی کی کوئی پرواہ۔ زمینی سطح پر پورا معاشرہ افرا تفری اور ٹوٹ پھوٹ کا اس بری طرح شکار ہے کہ ان کے مسلماں تو چھوڑیے انسان بھی نہ ہونے کا گماں گزرتا ہے۔

معاشرے میں نوے فیصد مسلمان بے عملی اور پچاس فیصد مسلمان بد عملی کا شکار ہیں۔ دین کے نام پر صرف راہ ورسم رہ گئی ہے اس میں ہندوستانی کلچر نے اعتقاد کی حدتک اپنی جڑیں مضبوط کررکھی ہیں۔

ہندوستانی تاریخ میں برہمن قوم یا آریہ قوم ویدک دور کے بعد جس یاس وقنوطیت اور جمود و تعطل کے دورسے گزری ہے بالکل وہی دور اس قوم پر مسلط ہے۔ بے چرواہے کی بکریوں کا جو حال ہوتا ہے یا آپس میں لڑنے والے چرواہے کی بکریوں کے ریوڑ کا جو حال ہوتا ہے وہی حال اس وقت ملکی سطح پر ہماری قوم کا ہے۔

قرآن پڑھنے کی عادت بالکل ختم ہوچکی ہے قرآن فہمی تو جیسے زمانہ ہوا لوگ گزرگئے۔ نہ کوئی قرآن سمجھانے والا ہے اور نہ کسی کو سمجھنے کی للک ہے۔ مساجدیں، مدارس اور دینی ادارے اپنے محدود دائرے میں شخصی فکر کی مایا جال میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ کچھ ہو یا نہ ہو فرقہ پرستی کی تازہ ترین ہوائیں آئے دن مسلم معاشرے کے چھپر لے اڑتی ہے۔

جہالت کی کالی گھٹا نے چاروں اور سے اس بے فکری قوم کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ مذہبی تعلیم ئی معدودے چند افراد کے لیے بچ گئی ہے وہ بھی کام چلائو۔ اگر اللہ نے اس دین کی اور اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو ہماری قوم نے مذہب کے نام پر مذہب مٹانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا۔

ہمارے مذہب کے خلاف باتیں کرنا اور نت نئے فتنے پیدا کرنا اس مذہب کے مخالفین کی پرانی تاریخ رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو واقعی غیظ وغضب کا شکار ہوکر اپنی قسمت پر شقاوت کی مہر لگائی لیکن کچھ لوگوں نے دنیاوی جاہ ومنصب کی لالچ میں ذلت کو گلے لگایا۔

کچھ لوگ سن سناکر اسے درست سمجھ بیٹھے اور اپنی آخری عمر تک اسی میں گرفتار ہوکر آخری زندگی کی طرف روانہ ہوئے تو کچھ کو اللہ نے توفیق بخشی اور انہوں نے اپنی سنی سنائی عداوت پر توبہ کیا اور قرآن فہمی کے لیے آگے آئے جس کی وجہ سے ان کے اعتقاد کا طلسم ٹوٹا۔

اس وقت قرآن کے خلاف جو فتنہ اٹھا ہے اس کی مخالفت یقینا ضروری ہے لیکن اسے زیادہ ضروری ہے ان مقاصد کو دفن کرنا جسے حاصل کرنے کے لیے یہ فتنہ اٹھوایاگیا ہے۔ ایک ایسا شخص جسے عربی تو چھوڑیئے اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتی ہے وہ قرآنی آیات کے خلاف کورٹ پہونچ جاتا ہے۔یہ شخص فتین ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

اس طرح کی شرارتیں یہ بار بار کیوں کررہا ہے؟؟ کون سی طاقتیں ہیں جو اس کا استعمال کررہی ہیں؟ یا یہ خود کن لوگوں کے زیر اثر اس طرح کے حرکات کررہا ہے۔ہمارے ذمہ داران کو سامنے آکر سب سے پہلے ایک بیان مسلمانوں کے لیے جاری کرنا چاہیے کہ مسلمان مضطرب نہ ہوں ایسے دریدہ دہن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

دوسرا بیان برسر اقتدار افراد کے لیے جاری کرنا تھا جس میں یہ پیغام دیا جاتا کہ اگر کورٹ واقعی قرآن کی آیتوں کے خلاف سنوائی کرنے پر آمادہ ہے تو ہم پہلے سرکار سے ذرائع فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں سے انسانیت کے نام قرآن کا عمومی پیغام ہم پیش کریں گے اور قرآن کی ان آیات کی واقعاتی تشریح پیش کریں گے۔ ساتھ ہی ایسے مواقع کے لیے دوسری مذہبی کتابوں میں جو حکم ہے اسے بھی پیش کریں گے۔

اللہ بھلا کرے ہمارے قائدین کا لگتا ہے ایسے موقعوں پر ان کے بولنے، قیادت کرنے، فکر پیش کرنے اودور ٹوک انداز میں اپنا موقف رکھنے کی صلاحیت سلب کرلی جاتی ہے۔

لکھنو کا نفسیاتی اور ذہنی مریض اس وقت بے روزگار ہے، عیاشی کی عادت پڑی ہوئی ہے جیب خرچ اور زندگی گزارنے کے لیے ذلت کے پیسے سے ٹھاٹ باٹ چاہیے ہی چاہیے۔ دوسری طرف ایک مخصوص ذہنیت کو ملک میں اقتدار چاہیے۔ کسان آندولن سے حالیہ الیکشن میں چانسیز کم ہوگئے ہیں۔ اکثریتی سماج کو متوجہ کرنے کے لیے یہ ایک بہت اچھا ایشو ہے۔

کیوں کہ کورٹ میں جوں ہی شنوائی شروع ہوگی مرچ مسالہ لگاکر وہاٹس ایپ،ٹیلی گرام اور انسٹاگرام کے ذریعہ ہر بندے تک پہونچا کر اسے کلیوگ کے اوتار کا چمتکار ثابت کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو نتائج آئیں گے اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔ برسر اقتدار پارٹی بدنامی سے بھی بچ جائے گی اور کسان نے جو کرکری کر رکھی ہے اس سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔

تیسری طرف زمینی سطح پر پھیلے انٹیلی جینس بیورو کے افراد سے مسلم سماج میں ہونے والی ہلچل کی صحیح خبر بھی ہوجایے گی اور یہ اندازہ بھی ہوجایے گا کہ ابھی اس مذہب کے ماننے والوں میں کتنی جان باقی ہے۔

مسلمانوں کی ذہنی حالت تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان چکروں میں پھنسے۔ چند مولوی یا مولوی نما لوگ ہیں جو شور شرابہ کرکے خاموش ہو جائیں گے۔ ان مردہ ہوچکے جسم میں دوسری روح کیسے داخل کی جائے گی؟۔

ان کی نسل پر اعتقادی باڑھ کیسے مارنی ہے؟ وہ اسی رپورٹ سے لائحہ عمل تیار کریں گے؟۔ کون سا علاقہ حساس تھا اور کس علاقے میں مکمل خاموشی تھی اسی بنیاد پر تربیت یافتہ افراد ارتداد کا شدید طوفان کھڑا کریں گے۔ لڑکوں سے کیسے ایمانی غیرت چھینی جائے گی؟ لڑکیوں پر کیسے ڈورے ڈالے جائیں گے؟۔

کس علاقے کے مسلمانوں میں اسلامی رمق باقی ہے اور کس علاقے کی بچیوں سے ایمانی اور پاک دامنی کی غیرت ختم ہوچکی ہے؟ اسی طرح کے معاملات سے صحیح اندازہ لگایا جاتا ہے اور پھر پری پلان افراد کام پر لگائے جاتے ہیں۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

پچھلے سوسال میں ہماری قوم، ہمارے رہنما اور ہمارے دانش ور طبقے نے جو کچھ کیا ہے وہ ہر ذی شعور پر روشن ہے۔ اسے ہم دوہرانا بھی نہیں چاہتے۔ ہم اپنے گھر کو کتنا مضبوط کرپاتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والا طوفان کرے گا۔ ہمیں تفہیم قرآن عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پورے ملک میں ” قرآن فہمی” ورکشاپ کیے جائیں، جس میں مسلم غیر مسلم اسکالرز، طلبہ اور طالبات کو مدعو کیا جائے۔ مسلم عوام کو قرآن سمجھنے کی دعوت دی جائے اور ہر مسجد میں اسے کورس کی شکل میں لاگو کیا جائے۔

مسلم بچیوں کے لیے تجربہ کار معلمات سے ہر علاقے میں تفسیر قرآن، تفہیم قرآن کا کورس شروع کرایا جائے۔ مدارس اسلامیہ کا اسکولنگ سسٹم ہو اور اس میں یک سالہ یا دوسالہ تفسیر قرآن کورس ہو۔
غیر مسلم بھائیوں کے لیے دعوتی اسلوب میں قرآن کو مخصوص انداز میں پیش کیا جائے۔

مثلا قرآن کا انسانی تخاطب، قرآن کا ایمانی تخاطب، قرآن کا تشریکی تخاطب ۔ قرآن کا کافر اور ویدوں کا ادھرمی ۔مناظر فطرت کی تعبدی حیثیت۔

ان موضوعات پر لکھنے کے لیے ماہرین متعین کیے جائیں اور اس طرح کے لٹریچر عام ہندوستانی بھائیوں تک پہونچانے کی کوشش کی جائے ۔ واضح رہے کہ مکی دور محنتوں اور اپنی بات پہونچانے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور کے بعد تبلیغی کوششوں کے نتائج برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

فکر قرآن عام کریں اور آدمیوں کو انسان کریں


قرآن کے تعلق سے سنی سنائی غلط فہمی قرآن کے مطالعے سے ہی دور ہوتی ہے اس حوالے سے سوامی لکشمی شنکر اچاریہ کی مثال سامنے رکھتے ہوئے کام کی شروعات کرنی چاہیے۔

قرآن کو سیاق وسباق سے سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غلط فہمی کا شکار اپنے قدیم نظریات کو غلط ٹھہراتا ہے اور قرآن کی حمایت میں بول اٹھتا ہے۔سوامی شنکر اچاریہ لکھتے ہیں ” حق واضح ہونے کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، میں لاعلمی کے سبب غلط فہمی کا شکار تھا اور اسی وجہ سے میں نے اپنی پہلی کتاب ‘ اسلامی دہشت گردی کی تاریخ ‘ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا ہے۔

جس کا مجھے بے حد افسوس اور قلق ہے۔ میں اللہ سے، پیغمبر حضرت محمد سے اور سبھی مسلمان بھائیوں سے اجتماعی طور پر معافی مانگتا ہوں اور لاعلمی میں بولے ہوئے، لکھے ہوئے الفاظ کو واپس لیتا ہوں۔ عوام سے میری اپیل ہے کہ ‘ اسلامی دہشت گردی کی تاریخ’ نامی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسے صفر سمجھیں

۔ ” اگر قرآن کی تعلیم کو عام کیا جائے اور قرآن کو اس کے دعوتی اسلوب میں سمجھاکر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو بہت بڑا طبقہ قرآن کی حمایت میں کھڑا ہوگا۔

لکھنئو کے مطعون شخص کی تازہ ویڈیو نے کئی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے ہمیں سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔ قرآن اور اسلام کے مخالف چاہتے ہی یہی ہیں کہ انہیں گالی دی جائے مارنے کی دھمکی دی جائے جس کے سہارے وہ اپنے ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

ساتھ ہی اس نے شیعی عقائد پر جس طرح گفتگو کی ہے اس سے دومقصد سمجھ میں آتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ شیعہ سنی اختلافات میں شدت آئے جس کے سہارے وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلے۔ دوسرا یہ کہ شیعہ علماء اس کے الزام سے تنگ آکر اس سے صلح سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جائیں اور اسے اپنا کھویا ہوا مقام مل جائے۔

بات چاہے جو بھی ہو اہل تشیع علماء کو اب اپنی نجی محفلوں میں بھی قرآن کے حوالے ایسی گفتگو کرنے سے پرہیز کرنی چاہیے جس سے دریدہ ذہنوں کو نفسیاتی خوراک ملے۔ اہل تشیع علما نے اس موقعے پر جس سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے امت ایک بڑے فتنے سے محفوظ ہوگئی ہے۔

لیکن آئندہ کسی بھی خطرے سے نپٹنے کے لیے مزید سوجھ بوجھ اور اتحاد کی سخت ضرورت ہوگی اس لیے امت کے ذمہ داران کو ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے۔

از : فیاض احمدبرکاتی مصباحی

جنرل سکریٹری ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ

اترپردیش ،بلرام پور (یو،پی)

ان مضامین کو بھی پڑھیں 

اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی اہمیت

عروج چاہیے تو سماج میں قرآن کا عکس بن کے نکلے مسلمان

قرآن مجید  کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں

ہندی مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن