Friday, October 18, 2024
Homeاحکام شریعتقربانی کے مسائل

قربانی کے مسائل

ہم اس مضمون میں قربانی کے مسائل کو بیان کریں گے حنفی سنی بریلوی علماے کرام کی بڑی بڑی کتابوں سے خاص طور پر عالم بنانے والی کتاب صدر الشیعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی قادری رضوی علیہ الرحمہ کی کتاب بہار شریعت سے ،آپ قارئین سے درخواست ہے کہ اسے خود پڑھیں اور اپنے دوست و احباب کو شئیر کریں نیز ہماری ٹیم و ہمارے والدین کے لیے دعا کریں نیزغلطی ہونے پر اطلاع ضرور دیں

قربانی کے مسائل

قربانی کئی قسم کی ہے۔
١…غنی اور فقیر دونوں پر واجب ہو ٢…فقیر پر واجب ہو غنی پر واجب نہ ہو٣ … غنی پر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو ۔ غنی اور فقیر دونوں پر واجب ہو اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کی منت مانی یہ کہا کہ اللہ عزوجل کے لئے مجھ پر بکری یا گائے کی قربانی کرنا ہے فقیر پر واجب ہو غنی پر واجب نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ فقیر نے قربانی کے جانور خریدا اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہے اگر غنی خریدتا تو اس خریدنے سے غنی پر قربانی واجب نہ ہوتی۔

غنی پر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کا وجوب نہ خریدنے ہو نہ منت ماننے سے بلکہ خدا نے جو اسے زندہ رکھا ہے اس کے شکریہ میں.اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت کو قائم کرنے کے لئے قربانی واجب ہے وہ صرف غنی پر واجب ہے۔(عالمگیری، بہار شریعت ج سوم ح 15ص 331)۔

جس شخص پر قربانی واجب ہے قربانی کرلینے سے بری الذمہ ہوگیا اور اچھی نیت سے کی رِیا یعنی دکھوا وغیرہ نہیں بلکہ تقرب الی اللہ تو ﷲ عزوجل سے امید ہے کہ آخرت میں اس کا ثواب پائےگا۔

قربانی اور فرمان مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لیے کلک کریں

مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر قربانی کی تو یہ قربانی نفل ہے اور فقیر نے قربانی کی نہ منت مانی ہو نہ قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہو اس کی قربانی کرنا نفل ہے ۔

قربانی واجب ہونے کے لیے یہ شرطیں ہیں، 1.اسلام یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں، 2.اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر واجب نہیں، 3.تونگری یعنی مالک نصاب ہونا (مالک نصاب ہونے سے مراد اتنا مال ہونا جتنا ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے یعنی حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ایسی چیز کا مالک ہونا جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کی قیمت کے برابر ہو۔

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورتوں پر بھی واجب ہے (درمختار، بہار شریعت) ۔

کسی شخص پر دَین یعنی قرض ہے اور وہ شخص اپنے مال سے قرض کے برابر مال کاٹ لے اور اب نصاب کے برابر مال باقی نہیں رہتی تو اس پر قربانی واجب نہیں (عالمگیری، بہار شریعت) ۔

کسی دوسرے شخص کے پاس روپیے ہے اور وہ دوسرا شخص قربانی کے ایام یعنی دس، گیارہ، بارہ ذوالحجہ گزرنے کے بعد روپیے دے گا تو اس پر قربانی واجب نہیں (عالمگیری)۔

قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وقت آیا اور شرائط پاے گئے تو قربانی کرنا واجب ہوگئی۔

قربانی کی نیت سے دوسرے جانور مثلاً مرغ وغیرہ ذبح کرنا ناجائز ہے درمختار، بہار شریعت

مالک نصاب نے قربانی کے لئے بکری خریدی تھی وہ بکری گم ہوگئی اور وہ شخص کا مال نصاب سے کم ہوگیا اب قربانی کا دن آیا تو اس پر ضروری نہیں کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے، اور اگر وہ بکری قربانی کے دنوں میں ہی مل گئی اور یہ شخص اب مالک نصاب نہیں تو اس پر اس کی قربانی واجب نہیں (عالمگیری) ۔

عورت کا مَہر شوہر کے ذمہ باقی ہے اور شوہر مالدار ہے تو اس مَہر کی وجہ عورت کو مالکِ نصاب نہیں مانا جائےگا اگرچہ مَہر معجل ہو اور اگر عورت کے پاس اس کے سوا نصاب کے برابر مال نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی (عالمگیری) ۔

قربانی کے وقت قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً قربانی کے بجائے اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کردی یہ ناکافی ہے(عالمگیری) ۔

قربانی میں شرکت کا بیان

جب قربانی کی شرطیں پائ جائیں، تو ایک بکری، خصی، بھیڑ، دنبہ کا ذبح کرنا یا اونٹ، گائے، بیل، بھینس کا ساتواں حصہ واجب ہے ۔اس سے کم نہیں ہوسکتا۔

اگر اونٹ یا گائے، بیل بھینس کے شرکاء میں کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم پے تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی، جس کا ساتواں حصہ یا اس سے زیادہ ہے اس کی بھی قربانی نہیں ہوگی ۔

اونٹ ،بیل ،بھینس ،گائے میں ساتویں حصہ سے زیادہ کی قربانی ہو سکتی ہے جیسے گائے کو چھ یا پانچ یا چار شخصوں کی طرف سے کریں ہوسکتا ہے اور حصے کم و بیش ہو سکتا ہے لیکن جس کا حصہ کم ہے تو ساتویں حصہ سے کم نہ(درمختار، ردالمحتار، بہار شریعت) ۔

قربانی کے سب شریکوں کی نیت ثواب پانا ہونا چاہیے، خالی گوشت کھانا نہیں ۔ہاں قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنے والا بھی شریک ہوسکتا ہے کیونکہ عقیقہ بھی تقرب کی ایک صورت ہے (ردالمحتار، قانون شریعت حصہ اول) ۔

سات شخصوں نے قربانی کے لیے جانور خریدا تھا ان میں ایک کا انتقال ہوگیا اس کے ورثہ نے شرکاء سے یہ کہہ دیا کہ تم اس جانور کو کی اپنی طرف سے اور ان کی طرف سے (جو مرگئے) کردو تو سب قربانیاں جائز ہیں اور اگر بغیر اجازت ورثہ ان شرکا نے قربانی کی تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔ہدایہ بہار شریعت ۔

سات شرکاء میں سے چھ کی نیت تقرب یعنی ثواب پانا ہو اور ایک شخص کا مقصد قربانی نہیں بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی، (درمختار، ردالمحتار، بہار شریعت) ۔

سات شخصوں نے پانچ گایوں کی قربانی کی یہ جائز ہے۔اسی طرح دو شخصوں نے دو بکریوں میں شرکت کرکے قربانی کی تو بطور استحساناً دونوں شخصوں کی قربانی ہوجائے گی ۔

سات شرکاء میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی ہے اور باقیوں کی نیت گزشتہ سال کی قربانی ہے تو جس کی نیت اس سال کی ہے اس کی قربانی ہو جائے گی اور باقیوں کی نیت باطل ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی ان لوگوں کی یہ قربانی تطوّع یعنی نفل ہوئی، اور ان لوگوں پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کریں، بلکہ ان کا ساتھی(جس کی نیت اس سال کی ہے) وہ بھی گوشت صدقہ کردے۔

قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن، دو راتیں اور ان ہی دنوں کو ایام النحر کہتے ہیں اور گیارہ سے تیرہ تک تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں ۔

لھذا بیچ کے دو دن ایام نحر و ایام تشریق دونوں ہیں اور پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النحر ہے اور پچھلا دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ صرف یوم التشریق ہے (درمختار، بہار شریعت) ۔

دسویں کے بعد دونوں راتیں ایام النحر میں داخل ہیں ان میں بھی قربانی ہوسکتی ہے مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے (عالمگیری، بہار شریعت) ۔

دس تاریخ سب سے افضل ہے پھر گیارہویں، پھر بارہویں اور بارہویں سب سے کم درجہ ہے۔ اگر تاریخوں میں شک ہو تو قربانی کو بارہویں تک موخر نہ کرے یعنی بارہویں سے پہلے قربانی کرلیں۔ عالمگیری، بہار شریعت) ۔

نماز عید سے پہلے قربانی نہیں ہوسکتی اس لیے بہتر ہے کہ نماز عید الاضحی کےا خطبہ ہوجانے کے بعد قربانی کی جائے( عالمگیری،، بہار شریعت) ۔

اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہوجانے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عید گاہ میں نماز ہوجائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عید گاہ میں نہ ہوئ جب بھی قربانی ہوسکتی ہے ۔(درمختار، ردالمحتار ،بہار شریعت) ۔

دسویں ذی الحجہ کو عید کی نماز نہیں ہوئ تو قربانی کے لیے یہ ضرور وقت ہے کہ وقت نماز جاتا رہے یعنی زوال کا وقت آجائے اب قربانی ہوسکتی ہے اور دوسرے تیسرے دن نماز عید سے قبل قربانی ہوسکتی ہے (درمختار، بہار شریعت) ۔

قربانی کے جانور قربانی کے دیگر مسائل پڑھنے کے کلک کریں

امام نے نماز عید پڑھائی اس کے بعد قربانی ہوئ پھر معلوم ہوا کہ امام نے بغیر وضو نماز پڑھا دی تو نماز کا اعادہ کیا جائے قربانی کے اعادہ کی ضرورت نہیں (درمختار، بہار شریعت) ۔

اس کے دوسرے حصے کو ملاحظہ کرنے کے لیے ہمارے ویب سائٹ کو وزٹ کرتے رہیں

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن