آپ جو اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں عنوان ہے بغیر ثبوت ملک مخالف اور غدار وطن بتانے کا رجحان انتہائی خطرناک جسے ترتیب دیا ہے الحاج حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپوری نے مرکز میں اس وقت بی جےپی کی حکومت ہے اور حکومت کے نشے میں اس قدر مست ہے کہ قوانین کی دھجیاں اڑانے میں کویٰ بھی پرواہ نہیں کرتی ہے اسی موجودہ صورت حال کا مکمل منظرنامہ ہے اس مضمون میں آپ خود پڑھیں اور دوسروں کو بتایٰں۔نیز مضمون نگار کے لئے دعائیں کرتے رہیں ۔
بغیرثبوت ملک مخالف اور غدار وطن بتانے کا رجحان انتہائی خطرناک
ہندوستان کو آزاد کرانے میں ہندو،مسلم،سکھ، عیسائی سب نے مل کر حصہ لیا اور ہر طرح کی قر بانیاں دیں،خاص کر مسلمانوں نے سب سے آگے بڑھ کر جنگ آزادی میں حصہ لیا اور انگریزوں سے ملک کوآزادکرایا(چھینا)،تاریخ میں ساری حقیقت موجود ہے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے ساتھی مفتی صد ر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے ساتھی علما نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔
جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔طویل جدو جہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے مسلمانوں نے زبردست قر بانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان ومال کی قر بانیاں دیں،تحریکیں چلائیں تختہ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت وحوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں اور حصول آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے،آخر غیر ملکی(انگریز) ملک سے جانے پر مجبور ہوئے وغیرہ وغیرہ۔
ہندوستانی قانون
آزادی کے بعد آئین ہند کو مجلس دستور ساز26نومبر1949ء کو تسلیم کیا اور26جنوری1950کو نافذ کیا۔آئین ہند بھارت کو آزاد،سماجی،سیکولراور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے تئیں انصاف، مساوات اور حریت کو یقینی بناتا ہے اور برا بر کے درجہ کو فروغ دینے پر ابھار تا ہے۔ بھارت کی تمام عوام،عاملہ مقننہ اور عدلیہ اپنا اظہار آئین سے حاصل کرتی ہیں اور آئین ہی کی پابند ہیں،حکومت بھارت کا پار لیمانی نظام آئین ہی کی مدد سے چلتا ہے اور عاملہ براہ راست مقننہ(قانون ساز اسمبلی) کو جوابدہ ہے۔
ملک کا قانون کیسے بنا
ملک کا قانون ساز ادارہ،قانون ساز اسمبلی
کسی بھی ملک کو چلانے اور ترقی کرنے کے لیے ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ حق و انصاف کے ساتھ انکی جان و مال،عزت وآبرو اور مذہبی آزادی بہت ضروری ہے۔ تبھی اس ملک میں قانون کی بالا دستی قائم رہ سکتی ہے،بد قسمتی کہیں یا نظام حکو مت چلانے والوں کی تنگ نظری وتعصب پرستی کہیں، ملک کی اقلیتوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کیا گیا،خاص کر مسلما نوں کے ساتھ”یہ ایک سچی حقیقت ہے اور حقیقت سے انحراف ناممکن ہے“۔
اس میں سب سے زیادہ حصہ اور کردار مسلمانوں کی ازلی دشمن بی جے پی کی سوتیلی ماں کانگریس نے نبھایا ہے(بی جے پی کی اصلی ماں آر ایس ایس ہے) ۔
کانگریس نے ہر میدان میں مسلمانوں کو حاشیہ پر لا دیا ایسے ایسے قوانین بنائے،مکو کا، ٹاڈا، میسا وغیرہ وغیرہ جو انتہائی سخت اور ظالمانہ ہیں اور ان کا استعمال بے دریغ مسلمانوں پر کیا اور لا کھوں مسلمانوں خاص کر نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں میں بند کر کے ان کی زندگی اور انکے بچوں کی زندگیوں کو بر باد کر دیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو ڈرا کر رکھا۔
مسلمانوں کے عائلی قوانین پر بھی ڈاکہ ڈالا،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ہو یا مسلمانوں کی ثقافت تہذیب ہو اور ہندوستانی زبان اردو پر قد غن لگایا، کانگریس کے دور حکومت میں بے شمار ہندو مسلم(مسلم کش) فسادات ہوئے۔
حکومت کی ڈھلائی نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی اور پھر بابری مسجد کی شہادت نے مسلمانوں کے دل وجگر چیر کر رکھ دیا وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کی بہت سی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کا دل کانگریس سے ہٹ گیا اور پھر خانہ خدا کی شہادت پر قدرت کی مار نے کانگریس کو حاشیہ پر لادیا،اور آج بھی کانگریس اپنی مسلم دشمنی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے،
۔30/07/2019 کو لوک سبھا تین طلاق بل کو پاس کرانے میں اہم کردار نبھایا جو کی انتہائی شرم ناک،افسوک ناک ہے۔ آر ایس ایس نے ایک زمانہ سے محنت کی کانگریس نے اسے پالا پوسا اس کی محنت رنگ لائی اور اس کی پروردہ بی جے پی نے اقتدار حاصل کر لیا،اور اب جو ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
مودی حکومت کی اہم ترقیاں ہمارے پرائم منسٹر کا نعرہ ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس،اجول یوجناسے سے لیکر بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ تک بہت سی یوجنائیں چل رہی ہیں،جھوٹے پرچار سے بتایا جارہاہے کہ سب کامیابی سے چل رہی ہیں۔ بیٹیوں کا کیا حال ہے کسی سے چھپا نہیں ہے لوگ دیکھ رہے ہیں بتانے لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس وکاس میں بی جے پی کی، مودی حکومت میں دو بہت اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔
۔*۔27ستمبر2018 کو 157 سالہ ہندوستانی قانون(دفعہ497) غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ جس کے بعد شوہر کا دوسری عورتوں کے ساتھ نا جائز تعلق اور بیوی کا دیگر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلق زنا(adultery)کسی عورت سے غیر شرعی یا غیر قانونی مباشرت نہیں رہا۔مزے اڑاؤ مستی کرو ہے نا سب کا ساتھ سب کا وکاس؟ عورت کا ساتھ بھی،مرد کا ساتھ بھی۔ یعنی اب بیوی جب چاہے شوہر کی مرضی کے بغیر کسی بھی مرد سے جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے،اور اسی طرح شوہر جس وقت چاہے کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔العیاذبا للہ!استغفراللہ۔
بے حیائی،بے شر می کے اس کھیل میں اتنی بڑی چھوٹ میں یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں نہ بیوی نہ ہی شوہر ایک دوسرے کے خلاف شکایت تک بھی نہیں درج کرا سکتے ہیں کیوں کہ حکومت اور کورٹ کی نظر میں یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ دے تالی،دے تالی ہے نا وکاس۔
دوسری جانب طاقت کے نشے میں چور ایم ایل اے وغیرہ کا کیا حال ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے،اناؤ زنا با لجبر Rape کیس کے بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگر کیا قیامت ڈھارہے ہیں اللہ کی پناہ اللہ ظالموں کی پکڑ فر مائے۔
مودی حکومت کا دوسرا سب سے بڑا وکاس۔
۔*: جولائی 30/2019 کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تین طلاق بل،کانگریس،ایس پی،بی ایس پی، این سی پی، آر جے ڈی، جے ڈی یو، ٹی آر ایس، وائی آر ایس،ٹی ڈی پی، ڈی ایم کے، اے آئی ڈی ایم کے، ان جھوٹے سیکولر پار ٹیوں کی مدد سے تین طلاق سے متعلق بل پاس کر دیا اور صدر جمہوریہ نے اس پر دستخط کر دیے ہیں اب یہ قانون بن گیا ہے۔
اب اگر کسی تھانہ میں جاکر کسی عورت نے یہ اطلاع دے دی کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاق دے دی ہے،(خواہ دی ہو یا نہ دی ہو) تو اس کے شوہر کو جرم کا مر تکب مان کر پولیس تین سال کے لیے جیل بھیج دے گی جس کی ضمانت بھی آسان نہیں ہے کیوں کہ طلاق کو سول معاملہ کے بجائے فوجداری معاملہ بنادیا گیا ہے۔
طلاق سے متعلق یہ قانون نہ تو قرآن وحدیث کے جاننے سمجھنے والے ماہرین علمائے کرام سے رجوع کر کے بنایا گیا ہے اورنہ ہی اس طرح کا قا نون کسی بھی مسلم ملک میں نافذ ہے،اور نہ ہی آج تک1400سالہ زندگی میں کسی مسلم حکو مت اس نو عیت کے قانون کو بنانے پر غور کیا۔
ہندوستان میں سینکڑوں سال مسلمانوں کی حکومت رہی اس طرح کا قانون نہیں بنا نہ ہی کسی حکمراں نے سوچا؟۔ قانون میں کتنا تضاد(اختلاف،Contradictory) ہے سپریم کورٹ کے مطابق تین طلاق دینے پر کوئی ایک طلاق بھی نہیں ہوگی ۔
سوال یہ ہے کی جب طلاق ہوئی ہی نہیں تو پھر شوہر کو تین سال کی سزا کیوں؟ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا ان دو نوں قوانین سے ہندوستان میں بڑے بڑے مسائل خاص کر عورتوں کے بڑھیں گے یا حل ہوں گے؟۔
دیش دروہی،دہشت گرد بتانا عام بیماری
مسلمانوں کو دیش دروہی،دہشت گرد بتانے کا وائرسvirus مسلمانوں کی ازلی دشمن کانگریس نے پھیلائے اس کی آڑ میں لا کھوں لاکھ مسلمانوں خاص کر نو جوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان کی زندگی برباد کر دیا،کئی کئی سالوں بعد کورٹ سے انھیں رہائی ملی جب تک ان کے اوپر بد نما داغ لگ چکا تھا جو دنیا کے کسی صابن یا شیمپوسے بھی نہیں صاف ہوتا اور زندگی بر باد جو ہوئی وہ الگ اس کا کون حساب دے گا۔
اور طرح طرح کے قانونوں وہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیا،اور اب مودی حکومت نے تو سارے ریکارڈ بریک کردیے،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔
ہدوستان کا قانون کب اور کیسے بنا پڑھیں ویکیپیڈیا میں
لیجئے جناب! *مودی حکومت کا ایک اور تحفہ*”دہشت گردی مخالف قانون“ جولائی29/2019 کو اپوزیشن کی سخت مخالفت اور واک آؤٹ کر نے کے بعد بھی لوک سبھا میں منظور کر لیا گیا۔ٹاڈا اور پوٹا سے بھی خطر ناک ہے یہ قانون!!!U A P A اب تک کا سب سے خطر ناک قانون ہے؟ لوک سبھا سے پاس ہونے کے پندرہ دنوں سے بھی کم دنوں میں یوپی اے یعنیunlawful activities (prevention act یا انسدرادِ غیر قانونی سر گرمی(تر میمی) بل راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوگیا،صدر جمہوریہ کے دستخط ہوتے ہی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔
مشہور آن لائن نیوز پورٹل کے بنیاد گزار سد ھارتھ ورد راجن نے اس بل کو اب تک کا سب سے خطر ناک قانون قرار دیا ہے، دراصل اس قانون سے حکومت کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔(اللہ خیر فر مائے)۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے بل پر بحث کے دوران یہ کہا کہ اس کے سیاسی استعمال کے خدشہ کو ختم کر دیا گیا ہے انھوں نے کہا کہ کسی مخصوص فرد کو غیر قانونی سر گر میوں (روک تھام) کو قانون کے دائرے میں لا ناضروری تھا وغیرہ وغیرہ۔ٓ
ازادی کے ستر سالوں کے بعد بھی آج تک کسی بھی حکومت نے دہشت گردی کی اصطلاح(وہ لفظ جس کے کوئی خاص معنی کسی جماعت نے مقر رکر لیے ہوں،phrase) نہ حکومتوں نے طے کی اور نہ ہی کسی تنظیم نے، وہی کام سخت گیر عناصر کریں تو دہشت گرد نہیں،دیش دروہی نہیں وہ قانون سے بالاتر والیکن وہی کام کمزور اقلیتیں، یا مسلمان کریں تو قابل مواخذہ۔
اور دوسرا مضمون پڑھنے کے لیے کلک کریں
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے*وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے*تیرے ستم میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی *مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے*خرد کانام جنوں پڑگیا جنوں کا خرد *جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے*۔(حضرت مولانا حسرت موہانی،آزادی کے رہنما)۔
حب الوطنی کے معنی اور دیش پریم کے معنی بدل گئے ہیں۔ جو کوئی حکمراں پارٹی کے خلاف بولتا ہے وہ غدار وطن کہلا تا ہے اور دیش دروہی کہلا تا ہے۔ آپ کریں تو ثواب ہم کریں تو گناہ؟ یہ طاقت کا زعم ہے، کانگریس کو بھی نا انصافی، اور طاقت کے زعم نے ڈبو دیا آگے اللہ کی قدرت کا تماشہ ہم نہیں تو آنے والی نسل دیکھے گی ان شا ء اللہ تعالیٰ۔
دہشت گر دی مخالف قانون 2019 میں انٹلی جینس اور سیکوریٹی ایجنسیوں کو لا محدود اختیارات تو دے دیے گئے ہیں، کیا گا رنٹی ہے کہ اس کا غلط استعمال نہیں ہوگا، ابھی جو اختیارات ہیں انھیں کاانتہائی غلط استعمال ہورہاہے کٹھوا گینگ ریپ آصفہ کا اور اس طرح کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اس طرح کے قانونوں سے سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں اور خاندانوں کی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں اللہ خیر فرما ئے۔
اس میں لکھنے والوں کو بھی بہت سی شقوں کے دائرے میں لایا گیا ہے اب مظلوم فر یاد کے لیے بھی کچھ نہیں لکھ سکتا کیا یہ نیت کا کھوٹ نہیں؟ ؎ ۔
*نہ یہ ظلم و ستم ہوتا نہ یہ بیچارگی ہوتی ٭ *حکومت کر نے والوں کی نیت نہ گر بری ہوتی*۔
ہمارا پیا راملک چاند پر کمند ڈال چکا ہے،چندر یان سیٹلائٹ چاند پر پہنچ گیا ہے بہت خوشی ہے۔
پرپہنچنا چاند پر انسان کا مسرور کن لیکن منور پہلے اپنے دل کی تاریکی تو کی ہوتی
ہم ارباب حکومت سے گزارش کرتے ہیں سب کے ساتھ انصاف کریں اور تمام مسلمانوں کو اپنے اعتماد میں لیں ”راج دھرم“ کا پالن کریں جس کی نصیحت بی جے پی کے لیڈر اور سابق پرائم منسٹر آنجہانی اٹل بہاری باجپئی نے مسٹر مودی کو گجرات میں دی تھی، اب کچھ لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتاہے خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی مصیبت آئے۔
اپنے قارئین سے گزارش پیش کرتے ہیں، مدد کی ضرورت پر اکیلا تنہا نہ چھوڑیں ضرور مدد کریں گے۔ تمام مسلمانوں سے گزارش کرتے ہیں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں ان کو حالات کی خرابی کا احساس دلاتے رہیں اور ملک کے قانون کی حفاظت اور اس کے دائرے میں رہنے کی تلقین کرتے رہیں اللہ ہم سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق دے آمین ثم آمین۔–: ,09431332338/09386379632,hhmhashim786@gmail.comحافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی وایا مانگو جمشیدپور جھاڑکھنڈ پن کوڈ 831020,