از قلم : امام احمد رضا اور فقہ و فتاویٰ قسط دوم قسط اول پڑھنے کے کلک کریں
امام احمد رضا اور فقہ و فتاویٰ قسط دوم
نابالغ بچوں سے بھروائے ہوئے پانی سے وضو کا مسئلہ
مدارس و مکاتب میں عام طور پر معلمین کی عادت ہے کہ وہ نابالغ بچوں سے خدمت بھی لیتے ہیں اور وضو اور پینے کا پانی بھی منگواتے ہیں، حالانکہ نابالغ کا بھرا ہوا پانی اسی کی ملک ہے وہ دوسرے کو مالک نہیں بنا سکتا، اب نہ تو اس کا پینا جائز ہے اور نہ ہی اس سے وضو و غسل جائز ہوگا۔
اس تعلق سے امام احمد رضا قدس سرہٗ نے ابتداً فرمایا کہ پانی کی تین قسمیں ہیں: (۱) مباح غیر مملوک (۲) مملوک غیر مباح (۳) مباح مملوک۔
مباح غیر مملوک: جیسے دریائوں اور نہروں کے پانی، تالابوں، جھیلوں کے برساتی پانی، مملوک کنویں کا پانی کہ جب تک بھرا نہ جائے کسی کی ملک نہیں ہوتا، مساجد وغیرہا کے حوضوں کا پانی جو مال وقف سے بھرا گیا یہ سب پانی مباح ہیں اور کسی کی ملک نہیں۔
مملوک غیر مباح: جیسے برتنوں کا پانی کہ آدمی نے اپنے گھر کے استعمال کے لیے بھرا اور بھروا کر رکھا یہ پانی خاص اسی کی ملک ہے بے اس کی اجازت کے کسی کو اس میں تصرف جائز نہیں۔
مباح مملوک: جیسے سبیل یا سقایہ کا پانی کہ کسی نے خود بھرایا اپنے مال سے بھروایا تو یہ پانی بھروانے والے کی ملک ہوا اور اس نے لوگوں کے واسطے اس کا استعمال مباح کر دیا بعد اباحت بھی وہ پانی اسی کی ملک رہتا ہے یہ پانی مملوک بھی ہے اور مباح بھی۔
قسم اخیر کا پانی بالغ بھرے یا نابالغ احکام میں کچھ فرق نہ آئے گا کہ لینے والا مالک نہیں ہوتا۔ یوں ہی قسم دوم کا پانی جب کہ مالک نے اسے بطور اباحت دیا ہاں اگر مالک کر دیا تو اب احکام میں فرق آئے گا۔ قسم اول کا پانی ہی یہاں مقصود بالبحث ہے اور نابالغ سے معلمین عام طور پر یہی پانی بھرواتے ہیں۔
یہ مسئلہ تو بالکل واضح ہے کہ مباح چیز قبضہ و استیلاء سے ملک ہو جاتی ہے۔ پہلی بار جس کے قبضہ میں وہ چیز آئے گی اسی کی ملک ہو جائے گی۔ اب یہ قبضہ کبھی خود اسی کا ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور دوسرے کا قبضہ ٹھہرتا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں کل نو صورتیں ہیں۔
- ۔(۱) مال مباح پر قبضہ اپنے لیے کیا
- ۔(۲)دوسرے کے لیے قبضہ کیا مگر بطور خود یعنی دوسرے نے اسے قبضہ کے لیے نہ کہا
- ۔(۳)بلا معاوضہ دوسرے کے کہنے پر قبضہ کیا
- ۔ (۴) باجرت دوسرے کے کہنے پر قبضہ کیا اور یہ اس کا اجیر مطلق ہے
- ۔(۵) دوسرے کی طرف سے اجیر خاص بن کر قبضہ کیا اور اجارہ وقت معین پر ہوا
- ۔ (۶) اجیر خاص بن کر قبضہ کیا اور اجارہ وقت معین پر نہ کیا مگر شئے مباح متعین کر دی تھی
- ۔(۷) اجیر خاص بن کر قبضہ کیا اجارہ وقت معین کے لیے بھی ہوا مگر شئے مباح متعین نہیں کی گئی اور اجیر یہ قبول کرتا ہے کہ میں نے یہ شئے مستاجر کے لیے کی
- ۔ (۸) اجیر یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ شئے مستاجر کے لیے نہیں لی اور اس شئے کا احراز ظرف میں ہوتا ہوا اور وہ ظرف (برتن) مستاجر کا تھا
- ۔ (۹) وہ ظرف مستاجر کا نہیں تھا اور وہ کہتا ہے کہ میں نے یہ شئے مستاجر کے لیے نہیں کی۔
ان نو صورتوں میں سے پہلی تین صورتوں میں وہ شئے قبضہ کرنے والے کی ملک ہوگی اور چوتھی، پانچویں، چھٹویں، ساتویں اور آٹھویں صورتوں میں آقا اور مستاجر کی ملک قرار پائے گی اور نویں صورت میں اجیر کی ملک ہوگی نہ کی مستاجر کی۔
اخیر میں ان تمام صورتوں کا تفصیل حکم بیان کرتے ہوئے امام احمد رضا قدس سرہٗ رقمطراز ہیں ان میں صورت اولیٰ میں تو ظاہر ہے کہ وہ شئے اسی قبضہ کرنے والے کی ملک ہوگی دوسرے کو اس سے علاقہ ہی نہیں یوں ہی صورت دوم میں بھی کہ شرع مطہر نے سبب ملک استیلاء رکھاہے وہ اس کا ہے دوسرے کے لیے محض نیت اس ملک کو منتقل نہ کر دے گی
اسی طرح صورت سوم میں بھی کہ تحصیل مباح کے لیے دوسرے کو اپنا نائب و وکیل و خادم و معین بنانا باطل ہے، صورت چہارم میں وہ مباح آقا کی ملک ہوگا یعنی جب کہ اس کی نوکری کے وقت میں یہ کام لیا ورنہ صورت سوم میں داخل ہے اس صورت میں ملک آقا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نوکری کے وقت میں نوکر کے منافع اس کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں اور اس کا اس کے حکم سے قبضہ لعینہ اس کا قبضہ ہے
یوں ہی صورت پنجم میں اور اجیر اجر کا مستحق ہوگاکہ یہ اجارہ صحیح ہے اور صورت ششم میں بھی وہ شئے مباح ملک مستاجر ہوگئی مگر اجیر اجر مثل پائے گا جو مسمی سے زائد نہ ہو کہ یہ اجارہ فاسد ہے، صورت ہفتم خود ظاہر ہے کہ اس کے اقرار سے ملک مستاجر ہے یوں ہی صورت ہشتم میں کہ ظرف مستاجر میں احراز دلیل ہے کہ مستاجر کے لیے ہے رہی صورت نہم ظاہر ہے کہ اس میں ملک اجیر ہے الخ ملخصاً‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ، ج۱ ص۴۲۲؍۴۲۶)۔
معلمین چھوٹے بچوں سے اتنی خدمت باپ دادا کی اجازت سے لے سکتے ہیں جتنی معروف و مشہور ہے کہ لی جاتی ہے، اور بچے کا اس میں ضرر کا کوئی اندیشہ نہ ہو، تاہم ان سے پانی بھروا کر استعمال میں لانا یا پینا درست نہیں۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ اس بابت تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’یہاں سے استاد سبق لیں معلموں کی عادت ہے کہ بچے جو ان کے پاس پڑھنے یا کام سیکھنے آتے ہیں ان سے خدمت لیتے ہیں یہ بات باپ دادا یا ولی کی اجازت سے جائز ہے جہاں تک معروف ہے اور اس بچے کے ضرر کا اندیشہ نہیں مگر نہ ان سے پانی بھروا کر استعمال کر سکتے ہیں نہ ان کا بھرا ہوا پانی لے سکتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۱ ص ۴۳۳)۔
قواعد فقیہ کی رعایت:۔
فقہ و فتاویٰ میں قواعد فقہیہ کی بڑی اہمیت ہے اور فقیہہ کو جس قدر ان قواعد کا احاطہ ہوگا اسی قدر اس کی فقاہت مسلم ہوگی اور جزئی و فرعی مسائل کا حکم بیان کرنے میں اسی قدر آسانی ہوگی علامہ ابن نجیم مصری حنفی رقم طراز ہیں: ’’معرفۃ القواعد التی ترد الیہا وفرعوا الاحکام علیہا وہی اصول الفقہ فی الحقیقۃ وبہا یرتقی الفقیہ الی درجۃ الاجتہاد ولو فی الفتویٰ۔‘‘ (الاشباہ والنظائر مع الحموی، ص۴۹۷)۔
ان قواعد کی معرفت جن کی طرف جزئیات لوٹانے جاتے ہیں اور احکام انہی پر متفرع ہوتے ہیں یہ دراصل فقہ کے اصول ہیں اور انہی کے ذریعہ فقیہ درجۂ اجتہاد پر فائز ہوتا ہے اگرچہ فتویٰ میں ہو۔
امام احمد رضا قدس سرہٗ اپنے فتاویٰ میں عموماً پہلے قواعد اصول ذکر کرتے ہیں پھر اس کے تحت جزئیات کثیرہ پیش کرتے ہیں ان سب کے شواہد امام ممدوح کے فتاویٰ میں بکثرت ملیں گے۔ فتاویٰ رضویہ سے کچھ شواہد اس طرح ہیں:۔
۔(ا) لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اللہ:۔
اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کا باپ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے زنا، چوری، داڑھی منڈانا وغیرہ فسق میں مبتلا ہے۔ لڑکا اپنے باپ سے معصیت کے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے مگر وہ باز نہیں آتا ایسی صورت میں باپ کی اطاعت کی جائے گی یا نہیں؟ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’اطاعت والدین جائز باتوں میں فرض ہے اگرچہ وہ خود مرتکب کبیرہ ہوں ان کے کبیرہ کا وبال ان پر ہے اس کے سبب یہ امور جائزہ میں ان کی اطاعت سے باہر نہیں ہو سکتا ہاں اگر وہ کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں ’’لا طاعۃ لاحد فی معصیۃ اللہ تعالیٰ‘‘ ماں باپ اگر گناہ کرتے ہوں ان سے بہ نرمی و ادب گزارش کرے اگر مان لیں بہتر ورنہ سخی نہیں کر سکتا بلکہ غیبت میں ان کے لیے دعا کرے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد دہم نصف آخر، ص۹۵؍۹۶)۔
۔(۲) الاحکام تبنی علی الغالب ولا یعتبر النادر:۔
حکم شرعی کی بنا غالب احوال پر ہوتی ہے، نادر کا اعتبار نہیں ہوتا۔
ایک ایسا یتیم خانہ جس میں وہابی، دیوبندی، رافضی سب منتظم ہیں، سنی مسلمانوں کو اس یتیم خانہ میں شمولیت جائز ہے یا نہیں؟ اس یتیم خانہ میں زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں:۔
’’اس میں احتمالاً دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ یتیموں کی تعلیم و تربیت کا تمام انتظام صرف اہل سنت کے ہاتھوں میں رہے کسی بدمذہب کا اس میں دخل نہ ہو نہ ان کی صحبت بچوں کو رہے کہ وہ انہیں اغوا کر سکیں صرف بالائی باتوں میں ان کی شرکت ہو، دوسرے یہ کہ ان امور میں بھی انہیں مداخلت دی جائے یا کم از کم ان کی صحبت بد رہے جس سے بچوں کی گمرہی کا مظنہ ہو صورت ثانیہ تو مطلقاً قطعی حرام و بدخواہی اسلام ہے۔
اور اس میں چندہ دینا موجب عذاب و آثام اور صورت اولیٰ شاید محض ایک خیالی ہو واقع کبھی نہ ہو کہ جب وہ برابر کے شریک ہیں ہر کام میں برابر کی شرکت چاہیں گے کیا وجہ ہے کہ وہ نرے غلام بن کر رہنے پر راضی ہوں اور بفرض باطل اگر ایسا ہو بھی تو ان کی صحبت بد سے کیوں کر مفر اور علماء تصریح فرماتے ہیں: ’’ان الاحکام تنبی علی الغالب ولا یعتبر النادر فضلا عن الموہوم۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج دہم نصف آخر، ص۹۶؍۹۷)۔
۔(۳) درء المفاسد اہم من جلب المصالح:۔
مفاسد کو دور کرنا مصالح کی تحصیل سے اہم ہے۔
جب امام فاسق و فاجر ہو اور کوئی دوسرا امامت کے قابل نہیںتو فاسق کے پیچھے نماز پڑھے گا یا تنہا نماز پڑھے گا؟ اس سوال کے جواب میں امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں:۔
اگر اعلانیہ فسق و فجور کرتا ہے اور دوسرا کوئی امامت کے قابل نہ مل سکے تو تنہا نماز پڑھیں: ’’فان تقدیم الفاسق اثم والصلاۃ خلفہ مکروہۃ تحریما والجماعۃ واجبۃ فہما فی درجۃ واحدۃ ودرء المفاسد اہم من جلب المصالح۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳ ص۲۵۳)۔
ترجمہ: اس لیے کہ فاسق کی تقدیم گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی اور جماعت سے نماز پڑھنا واجب تو دونوں (مکروہ تحریمی اور واجب) ایک ہی درجے میں ہوکہ اور مصالح کی تحصیل سے کہیں اہم مفاسد کو دور کرنا ہے۔
۔(۴) ماحرم فعلہ حرم التفرح علیہ:۔
جس کام کا کرنا حرام ہے اس پر تماشائی بننا بھی حرام ہے۔
جو شخص مروجہ تعزیہ وغیرہ دیکھنا جائز سمجھتا ہے بچوں کو بھی تماشہ کے خیال سے دکھاتا ہے اور بغرض تفریح بچوں کے ساتھ جاتا ہے، ایسے شخص کا یہ فعل جائز ہے یا نہیں اور بچوں کو تماشائی بنانا درست ہے یا نہیں؟ امام احمد رضا قدس سرہٗ جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
۔’’تخت علم تعزئیے وغیرہ سب ناجائز ہیں اور ناجائز کام کو بطور تماشہ دیکھنا بھی حرام: ’’لان ماحرم فعلہ حرم التفرح علیہ‘‘ اور بچوں کو دکھانے کا گناہ بھی اس پر ہے کما فی الاشباہ وغیرہا۔ (فتاویٰ رضویہ، ج دہم نصف آخر، ص۳۵)۔
۔(۵) الضرورات تبیح المحظورات:۔
ضرورتیں ممنوع کو جائز کر دیتی ہیں۔
مسجد میں نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ تو جائز و مستحسن ہے مگر پائوں پڑنا اور پائوں کو بوسہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
’’پائوں پڑنا بایں معنی کہ پائوں پر سر رکھنا ممنوع ہے اور پائوں کو بوسہ دینا اگر کسی معظم دینی کی تعظیم دینے کے لیے ہو تو جائز بلکہ سنت ہے احادیث کثیرہ اس پر ناطق ہیں:۔
۔ ’’کما بینا فی فتاونا‘‘ اور اگر کسی مالدار کی دنیوی تعظیم کے لیے ہو تو مطلقاً ناجائز ہے ’’فی الملتقط والہندیہ والدر وغیرہا التواضع لغیر اللہ تعالی حرام‘‘ مگر جب کہ صحیح مجبوری شرعی ہو کہ اس کے ترک میں ضرر پہنچنے کا صحیح اندیشہ ہو تو اپنے بچائو کے لیے اجازت ہوگی ’’فان الضرورات تبیح المحظورات‘‘ مگر قلب میں اس کی کراہت رکھنا لازم ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج دہم نصف آخر، ص۶۹)
۔(۶) ماحرم اخذہ حرم اعطاؤہٗ:۔
جس چیز کا لینا حرام اس کا دینا بھی حرام ہے۔
تبرکات شریفہ کی زیارت کرانے والے اگر اس کے عوض میں کچھ اجرت مانگیں یا اجرت لینا دینا مشہور و معروف ہو تو زیارت پر اجرت یا نذر لینا جائز ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں فقیہ اعظم امام احمد رضا قدس سرہٗ راقم ہیں:۔
’’اگر کسی بندہ خدا کے پاس کچھ آثار شریفہ ہوں اور وہ انہیں بہ تعظیم اپنے مکان میں رکھے اور جو مسلمان اس کی درخواست کرے محض بوجہ اللہ اسے زیارت کرا دیا کرے کبھی کسی نذرانہ کی تمنا نہ رکھے پر اگر وہ آسودہ مال نہیں اور کوئی مسلمان بطور خود قلیل یا کثیر بنظر اعانت اسے کچھ دے تو اس کے لینے میں اس کو کچھ حرج نہیں۔
باقی گشتی صاحبوں کو عموماً اور مقامی صاحبوں میں خاص ان کو جو اس امر پر اخذ نذور کے ساتھ معروف و مشہور ہیں شرعاً جواز کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی مگر ایک وہ کہ خدائے تعالیٰ ان کو توفیق دے نیت اپنی درست کریں اور اس شرط عرفی کے رد کے لیے صراحۃً اعلان کے ساتھ ہر جلسے میں کہہ دیا کریں کہ مسلمانو یہ آثار شریفہ تمہارے نبی ﷺ یا فلاں ولی معزز و مکرم کے ہیں
محض خالصاً لوجہ اللہ تمہیں ان کی زیارت کرائی جاتی ہے، ہرگز ہرگز کوئی بدلہ یا معاوضہ مطلوب نہیں اس کے بعد اگر مسلمان کچھ نذر کریں تو اسے قبول کرنے میں کچھ حرج نہ ہوگا۔
فتاویٰ قاضی خاں وغیرہ میں ہے: ’’ان الصریح یتفوق الدلالۃ‘‘ اور اگر زیارت کرانے والوں کو اس کی توفیق نہ ہو تو زیارت کرنے والوں کو چاہیے خود ان سے صاف صراحۃً کہہ دے کہ نذر کچھ نہیں دی جائے گی خالصاً لوجہ اللہ اگر آپ زیارت کراتے ہیں کرائیے اس پر اگر وہ صاحب نہ مانیں ہرگز زیارت نہ کرے کہ زیارت ایک مستحب ہے اور یہ لین دین حرام، کسی مستحب شئے کے حاصل کرنے کے واسطے حرام کو اختیار نہیں کر سکتے اشباہ والنظائر وغیرہا میں ہے: ماحرم اخذہ حرم اعطاؤہ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد دہم نصف آخر، ص۳؍۴)
۔(۷) الامور بمقاصدہا:۔
امور شرع مقاصد ہی سے متعین ہوتے ہیں اگر مقصد صحیح ہے تو جائز ورنہ ناجائز۔
مساجد کی دیواروں میں کتابت قرآن کریم کا رواج کہیں کہیں ہے لیکن اگر قرآن کریم کی آیتیں اتنی نیچے ہوں کہ خطیب کے خطبہ دیتے وقت آیات قرآنیہ نیچے ہو جاتی ہیں تو بے ادبی سے بچنے کے لیے سیمنٹ وغیرہ سے چھپا دیں تو شرعاً کوئی حرج ہے یا نہیں؟ اس تعلق سے امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں:۔
۔’’دیواروں پر کتابت قرآن عظیم میں رجحان جانب ممانعت ہے اور اگر ممبر پر کھڑے ہونے میں اس طرف امام کی پیٹھ ہوتی ہے تو ضرور خلاف ادب ہے اور اگر پائوں یا مجلس سے بلا ساترنیچے ہیں تو اور زیادہ سوء ادب ہے ان حالتوں میں ان کا سیمنٹ یا چونے کسی پاک چیز سے بند کر دینا حرج نہیں رکھتا بلکہ بہ نیت ادب محمود ہے
اور اگر نہ نیچے ہیں نہ پیچھے جب بھی اگر اس قول راجح کے لحاظ سے یا اس لیے کہ محراب میں کوئی شئے شاغل نظر نہ ہونی چاہیے بند کرنے میں حرج معلوم نہیں ہوتا: ’’فان الامور بمقاصدہا وانما لکل امری مانوی ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد دہم نصف آخر، ص۷۳)
۔(۸) من ابتلی ببلیتین فاختار اہونہما
جو دو بلائوں میں مبتلا ہو تو ان میں سے ہلکی بلا کو اختیار کرے۔
امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہٗ سے سوال ہوا۔
تقریب طعام شادی کی چار صورتیں ہیں ہر ایک کی شرکت علیحدہ حکم بیان فرمائیں
۔(۱) بعض ایسا کرتے ہیں کہ پہلے لوگوں کو دعوت کھلا کر اسی روز یا دوسرے روز بارات نکالتے ہیں اگرچہ جلسۂ دعوت میں باجا وغیرہ نہیں ہوتا مگر دعوت کھانے والوں کو معلوم ہے کہ دو ایک روز میں جو بارات یہاں سے نکلے گی اس میں باجا وغیرہ سب ہوگا
۔(۲) بعض لوگ جب دلہن کو رخصت کرکے گھر لاتے ہیں تب کھانا کرتے ہیں اگرچہ جلسہ دعوت میں کچھ نہیں ہے مگر بارات میں سب کچھ تھا
۔(۳) دلہن کے گھر دعوت ہے اور اس کے یہاں کچھ باجہ وغیرہ نہیں ہے مگر اس کے یہاں جو بارات آئی ہے اس میں باجہ وغیرہ سب کچھ ہے۔
اور دلہن کے گھر والوں کی تین حالتیں ہیں ہر ایک کا علیحدہ حکم تحریر فرمائیں:۔
۔(۱) بعض تو دولہا والوں کو فرمائش دے کر باجہ وغیرہ منگاتے ہیں
۔(۲) بعض نہ فرمائش دیتے ہیں نہ منع کرتے ہیں بعض منع کرتے ہیں مگر دولہا نہیں مانتا اور باجے کے ساتھ آتا ہے ان تینوں میں کس کے یہاں شرکت جائز ہے ۔
اور کیا اس تیسرے پر شرعاً الزام ہو سکتا ہے کیوں نہ اس نے بارات واپس کر دی اور کیوں نکاح کر دیا، شرکت میں اگر عوام و خواص کا فرق ہو تحریر ہو۔
ان سوالوں کے جواب میں امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:۔ ’’پہلی دو صورتوں میں شرکت دعوت میں کوئی حرج نہیں خصوصاً دعوت ولیمہ کہ سنت ہے اور اس میں بلا عذر شرعی نہ جانا مکروہ ’’ومن لم یجب الدعوۃ عصی ابا القاسم ﷺ‘‘ اور تیسری صورت میں وہی دو صورتیں ہیں جو اوپر گزریں وہ منکرات مکان میں ہیں یا دوسرے مکان میں اور وہی احکام ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔
وہ کہ فرمائش کر کے ممنوعات شرعیہ منگاتے ہیں سخت گنہگار اور ان ممنوعات کے کرنے والوں سننے والوں سب کے گناہوں کے ذمہ دار ہیں ان سب پر گناہ ہوگا اور ان سب کی برابر ان پر ’’من دعی الی ضلالۃ فعلیہ وزرہا و وزرمن عمل بہا الی یوم القیامۃ لا ینقص من اوزارہم شیئا‘‘ اور وہ جو نہ منگائیں نہ منع کریں وہ بھی گنہگار ہیں کہ اپنے یہاں گناہ کرنے سے منع کرنا ہر شخص پر واجب ہے ۔
اور وہ کہ منع کریں اور ادھر والے نہ مانیں تو اس کا ان پر الزام نہیں ’’لا تزر وازرۃٌ وزر اخریٰ‘‘ اور بارات کا پھیر دینا یہ مصالح پر موقوف ہے اگر کوئی ضرر نہیں پھیر دے ورنہ اس ضرر اور مفسدہ میں موازنہ کیا جائے جو زیادہ مضر ہو اس سے بچیں ’’من ابتلی ببلیتین فاختار اہو نہما‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد دہم نصف آخر، ص۱۷۱)۔
غیر مقلدین کی اقتداء میں نماز کا مسئلہ :۔
غیر مقلدین کے پیچھے نماز مکروہ و ناجائز ہونے کی پانچ وجہیں ہیں:۔
۔(۱) یہ فرقہ بدعتی بلکہ بدترین اہل بدعت سے ہے اور بدعتی کی توہین شرعاً واجب ہے جب کہ امام بنانے میں اس کی تعظیم ہے لہٰذا اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔
۔(۲) بدمذہبی کے علاوہ غیر مقلدین فاسق معلن اور بے باک مجاہر بھی ہیں اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی۔
۔(۳)شافعی امام جب کہ نماز و طہارت میں ہمارے مذہب کی رعایت نہ کرے اور خروج عن الخلاف کی پرواہ نہ رکھے اس کے پیچھے حنفی کی نماز درست نہیں۔ اور یہ غیر مقلدین نماز و طہارت کے جو مسائل اپنی کتابوں میں بیان کیے وہ مذہب حنفی سے یکسر بے گا نہ اور جدا ہیں تو ان کے پیچھے جواز اقتداء کا سوال ہی نہیں ہوتا۔
۔(۴) جو متکلم ضروریات عقائد کی بحث میں (جن میں لغزش موجب کفر ہوتی ہے) یہ چاہے کہ کسی طرح اس کا مخالف خطا کر جائے وہ کافر ہے کہ اس نے اس کا کافر ہونا چاہا اور مسلمان کو مبتلاء کفر چاہنا کفر ہے اور رضا بالکفر خود ہی کفر ہے۔
علما فرماتے ہیں: ایسے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ جب اس متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں جس کے انداز سے کفر غیر پر رضا ظاہر ہوتی ہے تو یہ غیر مقلدین جن کا اصل مقصود تکفیر مسلمین ہے اور دن، رات اسی میں کوشاں تو ان کی خواہش یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مسلمان کافر ٹھہریں تو ان کی اقتداء میں نماز کیونکر جائز ہوگی۔
۔(۵) غیر مقلدین تقلید کو شرک اور حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مقلدین کو مشرک بتاتے ہیں اور جو کسی مسلمان کو کافر کہے کہنے والا فقہا کے نزدیک مذہب مفتی بہ پر کافر ہو جاتا ہے اور کافر کے پیچھے نماز باطل۔ ان کا کفر اگرچہ کفر فقہی ہے مگر اس کے پیچھے نماز باطل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ راقم ہیں:۔
’’خیر تاہم اس قدر میں کلام نہیں کہ یہ حضرات غیر مقلدین و سائر اخلاف طوائف نجدیہ مسلمانوں کو ناحق کافر و مشرک ٹھہرا کر ہزارہا اکابر ائمہ کے طور پر کافر ہوگئے اس قدر مصیبت ان پر کیا کم ہے۔ والعیاذ باللہ سبحانہ و تعالیٰ تو بحکم شرع ان پر توبہ فرض اور تجدید ایمان لازم اس کے بعد اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں اہل سنت کو چاہیے ان سے بہت پرہیز رکھیں ان کے معاملات میں شریک نہ ہوں اپنے معاملات میں انہیں شریک نہ کریں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳ ص۳۱۱)۔
اور ان غیر مقلدین کو امام نہ بنانے کے تعلق سے امام احمد رضا قدس سرہٗ نے فرمایا: ’’بالجملہ ہر طرح ان سے دوری مناسب خصوصاً ان کے پیچھے نماز سے تو احتراز واجب اور ان کی امامت پسند نہ کرے گا مگر دین میں مداہن یا عقل کے مجانب حضور ﷺ فرماتے ہیں اگر تمہیں اپنی نماز کا قبول ہونا خوش آتا ہو تو چاہیے جو تم میں اچھے ہوں وہ تمہارے امام ہوں کہ وہ تمہارے سفیر ہیں تم میں اور تمہارے رب میں الخ مخلصاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳ ص۳۱۱)۔
آیت سجدہ کی تلاوہ سے سجدہ سہو کب واجب ہوتا ہے
اصل مذہب اور ظاہر الروایہ کے مطابق پوری آیت سجدہ بتامہا قرأت کرنے سے تالی و سامع پر سجدہ واجب ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک حرف بھی باقی رہ جائے گا تو سجدہ واجب نہ ہوگا۔ مثلاً سورہ ’’حم‘‘ میں موضع سجدہ ’’تعبدون‘‘ نہیں بلکہ ’’لایسئمون‘‘ ہے تو اگر کسی نے ’’تعبدون‘‘ تک پڑھا تو اصل مذہب ظاہر الروایہ میں اس پر سجدہ واجب نہ ہوگا، بلکہ حرف آخر والا کلمہ یسئمون نہیں پڑھا جب بھی سجدہ واجب نہ ہوگا۔ امام احمد رضا قدس سرہٗ رقم طراز ہیں:۔
قابل غور یہ بات ہے کہ سجدۂ تلاوت کس قدر قرأت سے ہوتا ہے؟ اصل مذہب و ظاہر الروایہ میں ہے کہ ساری آیت بتامہا اس کا سبب ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایک حرف باقی رہ جائے گا، سجدہ نہ آئے گا اور یہی مذہب آثار صحابہ عظام و تابعین کرام سے مستفاد اور ایسا ہی امام مالک اور امام شافعی وغیرہما ائمہ کا ارشاد بلکہ ائمہ متقدمین سے اس بارے میں اصلاً خلاف معلوم نہیں کتب اصحاب متون کے نقل مذہب کے لیے موضوع ہیں قاطبۃً اسی طرف گئے اور دلائل و کلمات عامہ شروح کہ تحقیق و تنقیح کی متکفل ہیں اسی پر مبنی ہوئے اور اکابر اصحاب و فتاویٰ بھی ان کے ساتھ ہیں الخ ملخصاً۔ (فتاویٰ رضویہ، ج۳ ص۶۴۹، ۶۵۰)
جب اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے یہ سوال ہوا کہ اکثر کتب نظم و نثر میں آیات سجدہ لکھی ہوتی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ آیا سجدہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ جیسے کوئی کسی کا لکھا ہوا شعر پڑھے:۔
راہ حق میں کر دیا سجدہ میں قربان سر اپنا
ایسی واسجد واقترب کی کس نے کی تفسیر ہے
اس سوال کے جواب میں امام اہل سنت نے ابتدائً ظاہر الروایہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔ ’’اس مذہب جلیل الشان مشید الارکان پر شعر مذکور کے پڑھنے سننے سے سجدہ نہیں آسکتا کہ اس میں آیت سجدہ بتامہا نہیں اسی طرح ہر وہ نظم جس میں پوری آیت سجدہ نہ ہو اور یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ قرأت سماعت نظم مطلقاً موجب سجدہ نہیں کہ آیات چاردگانہ سے کوئی آیت وزن عروضی کی مساعدت نہیں فرماتی جسے نظم میں لانا چاہیں گے یاپوری نہ آئے گی یا ترتیب کلمات بدل جائیں گی، بہرحال آیت بحال باقی نہ رہے گی۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳، ص۶۵۱)
مگر بعض علمائے متاخرین کا مذہب یہ ہے کہ آیت سجدہ سے صرف دو کلمے پڑھنا موجب سجدہ ہے ایک لفظ تو وہ جس میں ذکر سجود ہے اور دوسرا اس کے قبل یا بعد کا۔ یہ مذہب اگرچہ ظاہر الروایہ کے خلاف ہے مگر بہت ساری کتابوں میں اس کی تصحیح منقول ہے۔ بایں ہمہ ظاہر الروایہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے لائق اعتماد نہیں ہے۔
امام احمد رضا قدس سرہٗ راقم ہیں: ’’ہاں بعض علمائے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ آیت سجدہ کے صرف دو کلمے پڑھنا موجب سجدہ ہے جن میں ایک وہ لفظ جس میں ذکر سجود ہے جیسے آیت ’’واسجد‘‘ اور دوسرا اس کے قبل یا اس کے بعد جیسے اس میں ’’واقترب‘‘یہ مذہب اگرچہ ظاہر الروایہ بلکہ روایات نوادر سے بھی جدا اور مسلک ائمہ سلف و تصریح و تلویح متون و شروح کے بالکل خلاف ہے
رہی تصحیحیں و تعدد کتب سے متکثر نہیں ہوتیں کہ جسے منصب اجتہاد فتویٰ نہیں اس کا ہوالصحیح کہنا نقل محض اور تقلید مجرد ہے پھر خادم فقہ جانتا ہے کہ اجماع متون کی شان عظیم ہے خصوصاً جب کہ جماہر شراح و کبریٔ فتاویٰ بھی ان کے ساتھ ہوں، یہاں تک کہ بعض صریح تصحیحوں کو اسی وجہ سے نہ مانا گیا کہ مخالف متون ہیں جبکہ وہ مذہب ائمہ مذہب سے منقول بھی نہیں صرف بعض مشائخ کا مسلک ہے اور حکم اس قبیل سے ہے جو اختلاف زمانہ سے بدل جائے ایسی حالت میں اس تصحیح پر یقین و اعتماد ضروری ہونا بغایت خیز منع و انکار میں ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳، ص۶۵۱،۶۵۲)
ان سب کے باوجود اگر شعر مذکور فی السوال کی قرأت و سماعت پر سجدہ کر لے تو کوئی ضرر نہیں کہ عدم وجوب سجدہ جواز سجدہ کی منافی نہیں تو بہتر ہے کہ سجدہ کرلے۔ امام احمد رضا اخیر میں فرماتے ہیں:۔
’’بالجملہ اصل مذہب معلوم ہے تاہم محل وہ ہے کہ سجود میں ضرر نہیں اور بر تقدیر وجوب ترک معیوب اور صریح تصحیح جازب قلوب لہٰذا انسب یہی ہے کہ اسی مذہب مصحح پر کاربند ہوکر شعر مذکور کی سماعت و قرأت پر سجدہ کرلیں، اسی طرح ہر نظم و نثر میں جہاں آیت سجدہ سے صرف سجدہ مع کلمہ مقار نہ پڑھا جائے سجدہ بجا لائیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۳ ص۶۵۲)
اسقاط وجوب زکوٰۃ کے لیے حیلہ کا عمل:۔
حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کی طرف یہ حکایت منسوب کی جاتی ہے کہ وہ عدم وجوب زکوٰۃ کے لیے حیلہ سے کام لیتے رہے یعنی وہ آخر سال میں اپنا پورا مال اپنی زوجہ کے نام ہبہ کر دیتے تھے اور زوجہ کا مال اپنے نام ہبہ کرا لیا کرتے تھے تاکہ وجوب زکوٰۃ نہ ہو۔ یہ بات کسی نے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ان کی فقہ کی جہت سے ہے اور درست فرمایا۔
اس حکایت کی نسبت جب امام احمد رضا قدس سرہٗ سے سوال ہوا تو انہوں نے جواب میں ایک رسالہ ہی لکھ دیا جس کا نام رکھا ’’رادع التعسف عن الامام ابی یوسف‘‘ اس رسالہ میں امام ممدوح نے اس حکایت کے تعلق سے ایسی نفیس توجیہیں بیان کیں کہ امام ثانی پر طعن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، ان توجیہات میں سے کچھ اس طرح ہیں:۔
۔(۱) ہمارے کتب مذاہب نے اس مسئلہ میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ کا اختلاف نقل کیا اور صاف لکھ دیا کہ فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے کہ ایسا فعل جائز نہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب بھی امام محمد کے مذہب کے موافق ہے کہ ایسا فعل ممنوع ہے۔
۔(۲) خزانۃ المفتین میں فتاویٰ کبریٰ سے ہے ’’والحیلۃ فی منع وجوب الزکوٰۃ تکرہ بالاجماع‘‘ یعنی منع وجوب زکوٰۃ کے لیے حیلہ اپنانا بالاجماع مکروہ ہے تو ثابت ہوا کہ ہمارے تمام ائمہ کا اس کے عدم جواز پر اجماع ہے۔ حضرت امام ابویوسف بھی مکروہ قرار دیتے ہیں، ممنوع و ناجائز جانتے ہیں کہ مطلق کراہت کراہت تحریمہ کے لیے ہے خصوصاً نقل اجماع کہ اس سے ہمارے سب ائمہ مذہب کا متحد ہونا سمجھ میں آرہا ہے۔
۔(۳) امام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب الخراج میں ہے:۔
ترجمہ: امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ کسی شخص کو جو اللہ و قیامت پر ایمان رکھتا ہو یہ حلال نہیں کہ زکوٰۃ نہ دے یا اپنی ملک سے دوسرے کی ملک میں دے دے جس سے ملک متفرق ہو جائے اور زکوٰۃ لازم نہ آئے کہ اب ہر ایک کے پاس نصاب سے کم ہے اور کسی طرح کسی صورت ابطال زکوٰۃ کا حیلہ نہ کرے۔
ہم کو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا زکوٰۃ نہ دینے والا مسلمان نہیں اور جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز مردود ہے۔‘‘ امام ابویوسف کے اس قول کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ امام ابویسف نے اپنے اس قول سے رجوع فرما لیا اور ان کا آخری قول یہی ٹھہرا جو امام اعظم اور امام محمد کا ہے۔ اور جب امام مجتہد اپنے کسی قول سے رجوع کر لے تو بعد رجوع وہ اس کا قول نہیں رہ جاتا نہ اس قول سے اس پر طعن جائز ہے۔
۔(۴) یہ حکایت کسی مستند سند سے ثابت نہیں اور بے سند ہونا طعن کے لیے کافی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مجتہد کے اجتہاد میں کسی فعل کا جائز ہونا اور بات ہے اور خود مجتہد کا اس فعل میں مرتکب ہونا اور بات ہے یہ حضرات بارہا عوام کے لیے رخصت بتاتے اور خود عزیمت پر عمل فرماتے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ یہ کہ حضرت امام ابویوسف نے یہ حیلہ بتایا نہ کہ خود اس پر عمل بھی کیا۔
۔(۵) بالفرض اگر یہ حکایت صحیح بھی ہو تو اس کا مفاد صرف اس قدر کہ یہ حضرت امام ابو یوسف کا اجتہاد ہے اور مجتہد کے اجتہاد پر انہیں ملامت نہیں کیا جاتا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عکرمہ کو جب انہوں نے حضرت امیر معاویہ کے بارے میں کہا انہوں نے وتر کی ایک رکعت پڑھی جواب دیا۔ دعہ فانہ فقیہ۔ انہیں کچھ نہ کہو کہ مجتہد ہیں۔
۔(۶) بعد وجوب زکوٰۃ منع زکوٰۃ کا حیلہ بالاجماع حرام ہے۔ یہاں کلام منع وجوب میں ہے یعنی وہ تدبیر اختیار کرنی کہ ابتداً زکوٰۃ واجب ہی نہ ہو یہی امام ابو یوسف علیہ الرحمہ نے تعلیم فرمایا اس میں حکم خدا کی نافرمانی کہاں ہوئی؟۔
ان وجوہات کو ذکر کرنے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں:۔
’’ہاں دربار تصوف و تصدیق یہ حکایت کتب میں منقول ہے کہ امام زین الملۃ والدین ابوبکر خواب میں زیارت اقدس حضور سید عالم ﷺ سے مشرف ہوئے کسی شافعی المذہب نے امام ابو یوسف کا قول حضور کے سامنے عرض کیا حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ابو یوسف کی تجویز حق ہے یا فرمایا راست ہے‘‘۔
یعنی امام ابو یوسف نے جو حیلہ بتایا وہ صحیح ہے اگر کوئی بوجہ ضرورت اس حیلہ پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں مگر امام اعظم اور امام محمد علیہما الرحمہ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ کہیں عوام اس سے برے مقاصد کا دروازہ نہ کھول لیں اس سے ممانعت فرما دی۔ خود امام اہل سنّت قدس سرہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
باب حیلہ اوسع ہے اگر کلام کو وسعت دی جائے تطویل لازم آئے اہل انصاف کو اسی قدر بس ہے پھر جب اللہ و رسول اجازتیں دیں تعلیمیں فرمائیں تو ابو یوسف پر کیا الزام آسکتا ہے۔ ہاں ہمارے امام اعظم و امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ خیال فرمایا کہ کہیں یہ تجویز عوام کے لیے مقصد شنیع کا دروازہ نہ کھولے۔
لہٰذا ممانعت فرما دی اور ائمہ فتویٰ نے اسی منع ہی پر فتویٰ دیا۔ وہ کون سا مجتہد ہے جس کے بعض اقوال دوسروں کو مرضی نہ ہوئے یہ رد و قبول تو زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بلانکیر رائج و معمول ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۴، ص۷۴۴)۔
افطار کی دعا پہلے یا بعد میں :۔
افطار کی دعا ’’اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرت‘‘ قبل افطار ہے یا بعد افطار؟ اس تعلق سے حضرت مولانا عبدالحمید پانی پتی ثم بنارسی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت سے سوال کیا کہ اس باب میں صحیح کیا ہے؟۔
اور فقہا کا یہ کہنا ’’ینبغی ان یقول عند الافطار‘‘ میں ’’عند‘‘ ظرف زمان ہے یا ظرف مکان؟ جب یہ سوال امام احمد رضا قدس سرہٗ کی خدمت میں آیا تو آپ نے ایک تحقیقی جواب رقم فرمایا اور مستقل رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام رکھا ’’العروس المعطار فی زمن دعوۃ الافطار‘‘ امام موصوف نے اپنے اس رسالہ میں تحقیق فرمائی کہ دعائے روزہ افطار کر کے پڑھے۔ اور اس پر یہ دلیلیں قائم فرمائیں:۔
۔(اولاً) دار قطنی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب افطار کرتے تو کہتے ’’اللہم لک صمنا و علی رزقک افطرنا‘‘ (اے اللہ ہم نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا۔) اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ افطار کے بعد یہ دعا پڑھتے۔
۔(ثانیاً) اس دعا میں افطرت، افطرنا، ذہب الظما، اتبلت العروق سب ماضی کے صیغے ہیں اور افطار باللفظ نہیں ہوتا کہ یہاں عقود کی طرح انشا مقصود ہو تو لاجرم اخبار متعین۔ اب اگر اس دعا کو افطار میں مقدم کریں تو ’’افطرنا‘‘ وغیرہ کا معنی حقیقی نہیں بلکہ مجازی مراد لینا ہوگا جو خلاف اصل ہے اور بلاوجہ حقیقت سے عدول قبیح ہے تو ثابت ہوا کہ یہ دعا بعد افطار ہے اور یہی ’’افطرنا‘‘ کا معنی حقیقی ہے۔
۔(ثالثاً) بیہقی کی روایت میں اس دعا سے پہلے لفظ ’’الحمدللہ‘‘ بھی ہے اور حمد الٰہی کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہے یہی معہود ہے جس طرح کھانے سے پہلے تسمیہ معہود ہے۔
۔(رابعاً) یہ دعائیں ان میں پڑھنے کی نہیں کہ ابھی وقت افطار بھی نہ آیا ہو اب اگر مکبر بعد غروب شمس یہ دعائیں پڑھ کر افطار کرے اور زید بعد غروب فوراً افطار کر کے پڑھے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ کس کا فعل اللہ عزوجل کو زیادہ محبوب ہے۔
حدیث شاہد عدل ہے کہ زید کا فعل اللہ عزوجل کو زیادہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔ مجھے اپنے بندوں میں زیادہ پیارا وہ جو ان میں سب سے زیادہ جلد افطار کرتا ہے۔ (رواہ امام احمد)۔
(خامساً) حضور اکرم ﷺ کے فعل سے بھی ثابت ہے کہ دعا بعد افطار ہے۔ اس لیے کہ عادت کریمہ تھی کہ قریب غروب کسی کو حکم فرماتے کہ بلندی پر جاکر آفتاب کو دیکھتا رہے وہ دیکھتا رہتا اور حضور اقدس ﷺ اس کی خبر کے منتظر ہوتے۔
ادھر دیکھنے والے نے عرض کی کہ سورج ڈوب گیا ادھر حضور ﷺ نے خرما وغیرہ تناول فرمایا جیسا کہ حاکم کی روایت میں ہے۔ یہ حدیث بھی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ پہلے افطار کرتے پھر دعا پڑھتے کہ اخبار غروب شمس اور افطار میں اصلاً کوئی فصل نہ تھا۔
ان سب توجیہات کو نقل کرنے کے بعد امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں:۔
لا جرم تصریح فرمائی کہ یہ دعا افطار کے بعد واقع ہوئی۔ مولانا علی قاری رحمہ الباری مرقات شرح مشکوٰۃ میں زیر حدیث مذکور ابی دائود فرماتے ہیں: ان النبی ﷺ کان اذا افطر قال ای دعا وقال ابن الملک ای قرأ بعد الافطار۔ (نبی اکرم ﷺ جب افطار کرتے کہتے یعنی دعا کرتے اور ابن ملک نے کہا یعنی افطار کے بعد دعا پڑھتے)۔
بالجملہ وقت الافطار و عند الافطار و بعد الافطار و ہنگام افطار و نزدیک افطار وپس افطار سب کا حاصل ایک ہی ہے۔ نزدیک ترجمہ ’’عند‘‘ ہے اور ’’عند‘‘ خواہ ظرف مکان ہو خواہ ظرف زمان امکان دونوں مگر شک نہیں کہ زمان و زمانی پر داخل ہو کر افادہ قرب زمانی ہی کرے گا۔
ہر ذی عقل جانتا ہے کہ عندالافطار کے معنی حین الافطار ہیں نہ فی مکان الافطار، لاجرم ماننا پڑے گا کہ یہاں عند سے اتحاد زمان ہی مفاد اور اتحاد سے وہی تعقیب متصل مراد۔ ان تقریرات سے بحمد اللہ تعالیٰ تمام سوالوں کا جواب ہوگیا اور روشن طور پر متجلی ہوا کہ مقتضائے سنت یہی ہے کہ بعد غروب جو خرمے یا پانی وغیرہ پر قبل از نماز افطار معجل کرتے ہیں اس میں اور علم بغروب شمس میں اصلاً فصل نہ چاہیے یہ دعائیں اس کے بعد ہوں، الخ ملخصاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۴ ص۶۵۵،۶۵۶)۔
سفر حج میں آسانی کے لیے سرزمین حجاز میں ریلوے کا قیام اور اس کی اعانت
امام احمد رضا قدس سرہٗ کے زمانے میں آپ کی خدمت میں ایک سوال یہ آیا کہ حجاز کی مقدس سر زمین میں وہاں کی حکومت ریلوے کا انتظام کرنا چاہتی ہے تاکہ سفر و زیارت کے لیے مسلمانوں کو آسانی ہو اور خصوصاً مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے رہنے والوں کو ہر شئے بآسانی میسر ہو۔
وہاں کی حکومت خاص مسلمانوں کے تعاون سے اس کام کو انجام دینا چاہتی ہے تو کیا ہندوستان کے مسلمانوں کو اس کی اعانت کرنی چاہیے اور چندہ دینے والوں کو ثواب ملے گا یا نہیں؟ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ریل کا بننا ایک بہانہ ہے اس بہانہ سے صرف چندہ حاصل کرنا ہے، بعض تردد کرتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں روپیہ وہاں تک پہنچتا ہی نہیں۔
سوال کرنے والے نے اعلیٰ حضرت سے یہ بھی پوچھا کہ پیلی بھیت والوں کو یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے چندہ دینے کو منع فرمایا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام احمد رضا قدس سرہٗ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حجاز ریلوے مسلمانوں کے نفع و اکرام کی چیز ہے، نیت صالحہ سے اس میں شرکت باعث اجر و برکت ہے۔
اور بعض حاجیوں کا یہ خیال کہ ریل بننا غلط ہے، روپیہ خائنون کے ہاتھ لگ جاتا ہے اس میں پہلا جملہ غلط اور سوئے ظن ہے وہ بھی صریح یقین کے مقابل اور پچھلا جملہ اگرچہ بعض مواضع پر صحیح ہونا ممکن۔ ایسے معاملات میں بہت سے کاذب و خائن کھڑے ہو جاتے ہیں مگر سب یکساں نہیں ہوتے، اگر ایسا ہو بھی تو جس مسلمان نے لوجہ اللہ دیا اپنی نیت پر اجر پائے گا۔ اس کے بعد امام احمد رضا قدس سرہٗ مزید فرماتے ہیں:۔
فقیر نے اس میں اعانت پر کبھی انکار نہ کیا البتہ بعض جاہلان علم ادعاء نے یہ کہہ دیا تھا کہ اس کی اعانت فرض ہے کہ بے امنی راہ کے باعث فرضیت حج میں خلل ہے ریل کا بننا اس خلل کا ازالہ کرے گا اور مقدمہ فرض، فرض ہوتا ہے اس کا میں نے رد کیا تھا کہ یہ محض جہالت ہے
اول بحمداللہ تعالیٰ ہرگز راہ میں بے امنی نہیں، جسے حق سبحانہ نے وہ سفر کریم بخشا اور اس کے ساتھ ایمان کی آنکھ اور عقل مستقیم عطا کی ہے اس نے موازنہ کیا اور معلوم کر لیا ہے کہ وہاں بآنکہ بارہ منزل کے اندر صرف دو ایک چوکیاں ہیں بحمدہٖ تعالیٰ وہ امن و امان رہتی ہے کہ یہاں قدم قدم پر چوکی پہرے کی حالت میں ہو۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۴ ص۶۷۲)۔
اور اگر مان بھی لیا جائے کہ ریل کے بغیر حجاز کی مقدس سرزمین میں امن و امان قائم نہیں رہ سکتا تو یہ ریل مقدمہ فرض نہیں بلکہ مقدمہ فرضیت ہوگی اور مقدمہ فرضیت فرض تو درکنار مستحب بھی نہیں۔ تو اس سے مقدمہ فرض قرار دے کر فرض قرار دینا خلاف شرع ہے خود امام ممدوح رقم طراز ہیں:۔
’’اور اگر معاذ اللہ بدامنی اس حد کی فرض کی جائے کہ مانع فرضیت حج ہو تو اب یہ ریل اگر مورث امن مان بھی لی جائے تو مقدمہ فرض نہ ہوگی کہ بسبب بے امنی حج فرض ہی نہیں۔ ہاں مقدمہ فرضیت ہوگی کہ یہ ہو جائے تو حج فرض ہو اور مقدمہ فرضیت فرض درکنار مستحب بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج۴ ص ۶۷۲)۔
الحاصل! امام احمد رضا قدس سرہٗ کے کتب فقہ و فتاویٰ میں ایسے بے شمار مسائل ملیں گے جن پر امام موصوف نے تحقیق کے سارے تقاضے بخوبی پورے کیے ہیں۔
اقوال مختلفہ کا احاطہ پھر قول راجح کی ترجیح اور وجوہ ترجیح کا بحسن وجوہ بیان اور کلام مشائخ سے اس کی تائید و تحسین یہ ایسے اعلیٰ تحقیقی کارنامے ہیں جن کے سامنے تحقیق سر بگریبان عقل انگشت بدنداں اور معروضیت ورطۂ حیرت میں غرق ہے۔
پروردگار عالم ہم اور ہماری طرح تمام اہل علم کو امام احمد رضا قدس سرہٗ کے علمی فیوض و برکات سے مستنیز و مستفید و مستفیض فرمائے آمین۔
از قلم : مفتی قاضی فضل احمد مصباحی
مفتی ضیاء العلوم بنارس و قاضی شرع ضلع کٹیہار
ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اغیار کی نظروں میں
امام احمد رضا اور اصلاح معاشرہ