امام احمد رضا قدس سرہ مختصر تعارف
امام احمد رضا قدس سرہ مختصر تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
۔10؍شوال المکرم 1272ھ /14؍جون 1856ء، بروزِ شنبہ ،بوقتِ ظہر،ہندوستان کےمشہور ومعروف شہر ”بریلی“ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی قادری کی ولادت ہوئی ۔
آپ کا پیدائشی نام ”محمد“ اور تاریخی نام”المختار[1272ھ]“ہے۔
آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان بریلوی قدس سرہٗ (متوفیٰ :1282ھ/1866ء)نے آپ کو” احمد رضا“کے نام سے پکارا جو خاص وعام کی زبان پر جاری ہوگیا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم میزان ومنشعب تک مرزا غلام قادربیگ ،بریلوی(متوفیٰ:1336ھ/1917ء) سے حاصل کی اور اکثر علوم دینیہ ،عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان (متوفیٰ:1297ھ/1880ء) سے کی۔
مولانا عبدالعلی رام پوری (متوفیٰ:1303ھ) سے شرح چغمینی کے بعض اسباق پڑھے۔
مرشد گرامی سیدشاہ آل رسول احمدی مارہروی (متوفیٰ:1296ھ/1879ء)سے تصوف وطریقت کی تعلیم حاصل کی۔
سیدشاہ ابوالحسین نوری مارہروی(متوفیٰ:1324ھ/1906ء)سے اکتساب علم جفر وتکسیر کیا اور جب 1295ھ/1878ء میں زیارت حرمین شریفین کے لیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تومفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین بن دحلان مکی(متوفیٰ:1299ھ/1881ء) ، مفتی حنفیہ شیخ عبدالرحمٰن سراج مکی (متوفیٰ : 1301ھ/1883ء)اورامام کعبہ شیخ حسین بن صالح مکی (متوفیٰ : 1306ھ/1884ء) سے حدیث وفقہ وتفسیروغیرہ کی سند حاصل فرمائی۔
آپ کی خداداد ذہانت وذکاوت اوراعلیٰ فہم وبصیرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ بسم اللہ خوانی ہی کے دن الف ، ب ، ت ، ث پڑھتے ہوئے لا کے مرکب ہونے پر حیرت انگیز اشکال کااظہارکیا۔
چار سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ ختم کرلیا ۔
چھ سال کی عمر میں میلادِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناءکے موضوع پر مجمع عام میں بصیرت افروز خطاب فرمایا۔
آٹھ سال کے ہوئے توفن نحو کی مشہور کتاب”ہدایۃ النحو “ کی عربی زبان میں شرح لکھی۔
دس سال کی عمر میں اصول فقہ کی اہم کتاب” مسلم الثبوت “ کی شرح تصنیف فرمائی۔
تیرہ سال ،دس ماہ ، چاردن کی عمر میں مروجہ علوم عقلیہ ونقلیہ کی تکمیل کرکے دستارِفضیلت سے سرفراز ہوئے اور اسی دن رضاعت سے متعلق ایک فتویٰ لکھا جو بالکل درست تھا ،اسے دیکھ کر والد ماجد رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خانقدس سرہ اس قدر خوش ہوئے کہ اسی دن فتویٰ نویسی کی اجازت مرحمت فرمادی اورمسندِ افتا پر بٹھا دیا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ سے ایک دن پوچھا گیا کہ ”اگر بچے کی ناک میں کسی طرح دو دھ چڑھ کر حلق میں پہنچ گیا ہو تو کیا حکم ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا: منہ یاناک سے عورت کا دودھ جو بچے کے جوف میں پہنچے گا ، حرمتِ رضاعت لائے گا۔
یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ کو سب سے پہلے اِس فقیر نے لکھا اور اسی14؍شعبان 1286ھ کو منصبِ اِفتا عطا ہوا ،اور اسی تاریخ سے بِحَمْدِ اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10؍ شوال المکرم1272ھ،روزِ شنبہ ،وقتِ ظہر مطابق14؍جون1856ء،11جیٹھ سدی1913سمبت کو ہوئی تو منصبِ اِفتا ملنے کے وقت فقیر کی عمر13 برس، دس مہینہ ،چاردن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خدمتِ دین لی جارہی ہے وَالْحَمْدُ للٰہ“۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ،ج: ۱، ص: ۶۳، مکتبۃ المدینۃ۔)
آپ کے عہد طفلی کا یہ واقعہ بھی بڑا خوش گوار تھا کہ ایک روز آپ بچوں کے ساتھ مکتب میں پڑھ رہے تھے ، ایک آنے والے بچے نے استاذ کو سلام کیا،انھوں نے وعلیکم السلام کہنے کی بجاے جواب میں کہا :جیتے رہو۔
آپ نے فوراً استاذ صاحب سے عرض کیا:یہ سلام کا جواب تو نہ ہوا ۔ وعلیکم السلام کہنا چاہیے تھا ۔مولوی صاحب اس سے بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ (حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء محمدظفرالدین بہاری ،ج:۱،ص:۱۰۷،ملخصا ،مرکزاہل سنت برکات رضا ،پور بندر ، گجرات۔)
اس قسم کے واقعات سے صاف ظاہر ہےکہ اسلامی شعائر وآداب کی حفاظت وپاسبانی کی جوروایتیں آپ کی دینی ،علمی ،اصلاحی اورتعمیری تاریخ سے وابستہ ہیں ،ان کی ابتدا بچپن ہی سےہوچکی تھی۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہٗ کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر وشعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و کردار، قدیم و جدید علوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت ، احیاے سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد وتقویٰ ، عبادت وریاضت ،اخلاص وللہیت اور روحانیت و عشق رسول میں ان کے معاصرین میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا ۔
آپ کی صداقت وراست گفتاری ، نیک نفسی وپاک بازی ، شرافت نفس اوراعلیٰ ظرفی کے افراد خانہ اور اہل تعلق سب ہی معترف ومداح تھے ،بڑوں کا ادب واحترام ، اساتذہ ، علما ومشائخ کا اعزاز واکرام، ان کے ساتھ محبت و حسن عقیدت اور اس طرح کی بہت سی خوبیوں کےآپ مالک تھے۔
اس لیے آپ کی حیات مبارکہ کے تعلق سے کچھ لکھنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتاہےکہ آپ کے کس وصف جمیل کا ذکر کیاجائے اور کسےترک کیا جائے ،آپ کی ذات گرامی کاحال تو یہ ہےکہ
زفرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست
ساجد علی مصباحی
جامعہ اشرفیہ،مبارک پور
ان مضامین کو بھی پڑھیں اوراپنے احباب کو شئیر کریں
تحفظ ناموس رسالت میں اعلیٰ حضرت کے نمایاں کارنامے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اغیار کی نظروں میں
امام احمد رضا اور اصلاح معاشرہ
جس سمت آگیے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں