Friday, November 22, 2024
Homeمخزن معلوماتسیاست کے حمام میں سب برہنہ ہیں

سیاست کے حمام میں سب برہنہ ہیں

ہمارے ملک ہندوستان میں ہونے والے دنگے فسادات کی تاریخ طویل بھی ہے اور بہت پرانی بھی، ایک اندازہ کے مطابق آزادی کے بعد سے ہونے والے بھیانک قِسم کے دنگے جن میں عوام شدید جانی مالی نقصان سے دوچار کئے گئے ایسے فسادات کی تعداد تقریباً ساٹھ سے ستّر ہزار تک پہنچتی ہے۔ سیاست کے حمام میں سب برہنہ ہیں

سیاست کے حمام میں سب برہنہ ہیں

 

اور یہ حقیقت ہےکہ: ” دنگے فسادات ہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں“۔ کبھی تو اپنے مذہب کی اجارہ داری اور بالا دستی قائم کرنے کےلئے اور کبھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملنے والی شہہ اور اشارے پر اور کبھی الیکشن میں ہونے والی ہار جیت کے نتیجوں میں اور کبھی بدلہ کی سیاست اور اِنتقامی جذبہ سے آگ و خون کا یہ لاوا پھوڑا جاتا ہے۔

کو انہدامِ بابری کے موقع پر ملک گیر پیمانے پر پھوٹنے والے درد ناک و المناک فسادات کے مناظر ابھی لوگوں کے دل و دماغ سے صحیح طور پر چَھٹے بھی نہ تھے کہ ایک اور خوں چکا واردات کو دیکھنے کا اتفاق ہو گیا، ہوا کچھ یوں کہ ایک دہائی بعد  میں آہنسا کے سب سے بڑے پُجاری گاندھی جی کی سرزمین کہلانے والی ریاست گجرات میں بھیانک نسل کشی کی جاتی ہے۔

 جس میں بلوائ انسانی روپ ڈھار کر شیطان کو بھی مات دے دیتے ہیں اور انتہائی بے دردی اور سفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوٹ مار، قتل و غارت گری اور اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عفت و عصمت کو ریزہ ریزہ ہوتے اور کمسِن نونہالوں کو تلوار بھالے کی نوک پر اُچھالتے ہوئے اپنی انھیں آنکھوں سے دیکھنا پڑا۔

 اس خوفناک اور بھیانک خوں ریزی کو دیکھ کر پتھر دل انسانوں کے کلیجے آج بھی منھ کو آجاتے ہیں، اور اس بھیانک فساد کو دیکھ کر اس وقت کے وزیراعظم ‘اٹل بہاری واچپئی’ اور صدرِ جمہوریہ ‘کے آر نارائن’ بھی خود کو نہ روک سکے تھے اور انہوں نے سی ایم گجرات کو جو کہ بد قسمتی سے اب ہم سب کے پردھان سیوک ہیں، انہیں راج دھرم نبھانے کا مکلف کیا تھا۔ اٹل جی نے تو اس مسلم نسل کشی اور مذہب کی بنیاد پر کی گئی خوں ریزی کی خبر سے متاثر ہو کر یہاں تک کہا تھا کہ اب میں کیا منھ لےکر بیرونِ ملک جاؤں گا۔

خوں ریز فسادات کا یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما بلکہ گجرات فسادات کی ٹیسیں ابھی زخم خوردہ جسموں میں محسوس کی جا رہی تھیں کہ ایک بار پھر مسلمانوں کی نسل کشی کی تاریخ کو بڑے پیمانے پر دہراتے ہوئے یکطرفہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

اسلام کی صدا بہار صداقت کا چہرہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ

 یہ آگ و خون کا گھناؤنا کھیل ملک کے سب سے بڑے صوبے یوپی کے ضلع ‘مظفرنگر’ میں کھیلا گیا، جہاں اس وقت سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی جو خود کو مسلمانوں کا مسیحا اور سیکولر پسندی کا لبادہ اوڑھے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔

 اس فساد میں بھی بلوائیوں نے پورے پورے محلے اجاڑ دئے، گاؤں کے گاؤں صاف کر دئے اور نہ جانے کتنے لوگوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ مسلم عورتوں کی عزت و ناموس کو پامال کیا گیا، بندوق کی نوک پر دوشیزاؤں سے منھ کالا کرنے کے بعد انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا جن کا آج تک کوئ سُراغ تک نہ لگایا گیا۔

ظلم ہو رہا ہے حد سے سوا ہے کیا اس کی کوئی دوا ؟

 ملک میں ہونے والے فسادات میں کوئ بھی فساد اور کوئ بھی جھگڑا ایسا نہیں ہے جس میں مساجد کو نقصان نہ پہنچایا گیا ہو، مساجد میں رکھے قرآن کریم کی بےحرمتی اور توہین نہ کی گئی یا ان کو نذرِ آتش نہ کیا گیا ہو، یا اسی طرح مسلم مکانوں کو نشان زد کرنے کے بعد وہاں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار نہ کی گئی ہو؟۔

 یہ تمام باتیں اس مدعیٰ کو ثابت کرنے کےلئے کافی ہیں کہ فساد جب بھی ہوتا ہے وہ دراصل منظّم پلانننگ کے تحت ہوتا ہے اور اس میں سرکار کی منشا شامل ہوتی ہے، سرکار چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو اس سے مبرا نہیں ہو سکتی۔

فروری کو مشرقی دہلی میں آباد لوگوں کے ساتھ پولیس کی موجودگی میں جس طرح سے ننگا ناچ اور آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی کیا اسے دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ یہ منظم سازش اور مشترکہ پلانننگ کے تحت ہوا ہے؟۔

 کہاں سو رہی تھی عآپ سرکار جس نے الیکشن سے قبل دہلی کو مثالی راجدھانی بنانے کا وعدہ اہلِ دہلی سے کیا تھا، اور کیوں خاموشی سادھے رہے وزیرِاعلی اروند کیجریوال جنہوں نے 16/فروری کو حلف اٹھاتے ہوئے خود کو دہلی کا بیٹا قرار دیا تھا اور 63/سیٹوں پر ملی جیت کی خوشی میں انہوں نے پوری دہلی کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں پیار کا بوسہ دیا تھا۔

 اور کہا تھا کہ: “غضب کر دیا دہلی والو تم نے” کیا باشِندگانِ دہلی کو یہی صلہ اور پہلا تحفہ ہے عام آدمی پارٹی کی طرف سے کہ آج دہلی اُجڑ چکی ہے، مائیں اپنے لختِ جگر اور دُلاروں کو اپنی نظروں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر سِسک رہی ہیں، آگ اور خون سے کھیلی اس ہولی میں جن کے پیارے شہید ہوئے ہیں اب کون ان کے آنسوؤں کو پونچھےگا اور کون ان کا سہارا اور مداوا ہوگا؟۔

 دہلی، جو ملک کی راجدھانی ہے جہاں ہر وقت بیرونی ممالک کے لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے اور جہاں لوگ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کو پسند کرتے ہوں، وہ دہلی جیسے پُرامن و پُرسُکون شہر تصور کیا جاتا ہو، وہاں غریب عوام کے خون کی ندیاں بہائ گئیں اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ رچ کر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے اس کے بعد پھر بھی سارا الزام مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسباب تلاشے جا رہے ہیں کہ مسلمان ہی اس واردات کو انجان دینے والے ہیں۔

اجمیر معلیٰ میں اعلیٰ حضرت

جبکہ سب جانتے ہیں کہ دنگا کرانے کےلئے کس نے ماحول بنایا؟ کس نے پڑوسی ریاست سے کرایہ پر بلوائیوں کو بلایا؟ اور کس نے پولیس کی موجودگی میں علی الاعلان دھمکی اور وارننگ دی؟۔

 سب کو معلوم ہے کہ دنگائی کون لوگ جنہوں نے پولیس کی مدد سے مسلم علاقوں میں سنگ باری کی اور لاٹھی ڈنڈوں سے گھر دوکان کے دروازے شیشے توڑ کر کھلے عام تباہی مچائی؟،

 چن چن کر مسلم گھروں کو آگ کے حوالہ کیا گیا، ان میں موجود عورتوں بچوں کو بُری طرح سے زد و کوب کیا گیا جس میں لوگ زخمی بھی ہوئے اور شہید بھی۔ خوف وہراس کا آج بھی یہ ماحول بنا ہے کہ لوگ گھروں میں محصور ہیں اور باہر نکلتے ڈر رہے ہیں۔

دختران حوا کا بلند مقام بلند حوصلہ

اگر وقت رہتے ہمارے حکمرانوں نے کپل مشرا اور ٹھاکر جیسے لوگوں کی طرف دی جانے والی وارننگ اور مسلسل آنے والی دھمکیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حفاظتی انتظامات کئے ہوتے اور ان کو زبان بند رکھنے کے آڈر کئے ہوتے تو شاید فساد کی نوبت نہ آتی اور دہلی آگ کی لَپٹوں میں آنے سے بچ جاتی ۔

مگر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا؛ اور کیا بھی کیسے جا سکتا تھا کیونکہ “یہاں سیاست کے حمّام میں سب ننگے ہیں” اور ہر ایک کو اپنی اصلیت اور سنگھ سے دیرینہ وابستگی

کا دَم بھرنا ہے۔

 محمد قاسم ٹانڈوی

رابطہ۔۔۔ 09319019005

 mdqasimtandvi@gmail.com

 flipkart         Amazon      bigbasket

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن