حج اور اس کی روحانی قدریں
از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
ارکان اسلام میں حج کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک ہی بار عمر بھر میں فرض ہے، اس میں محنت و مشقت بھی ہے اور خرچ بھی۔
جو جس قدر دور ہے اس کو اتنی ہی مشقت بھی زیادہ اور خرچ بھی، اسی لیے حج کے شرائط میں استطاعت بھی ضروری ہے، جسمانی بھی اور مالی بھی، جس کے پاس مال کی استطاعت نہیں اس پر حج فرض نہیں
لیکن جن کے پاس مال تو ہے لیکن جسمانی طور سے ایسا معذور ہے کہ حج کے ارکان ادا نہیں کرسکتا تو اس پر بھی حج فرض ہے خود نہیں جا سکتا تو حج بدل کرائے
حج ایک ایسی عبادت ہے کہ فرض ہونے پر اس کو ادا کرنا ہی ہے خود نہ ہوسکے تو دوسرے کسی سے کرائے جب کہ نماز، روزہ کا بدل کوئی نہیں ہوسکتا، قضا ہونے پر ادا کرنا لازم ہے
کوئی دوسرا کسی کی نماز نہیں پڑھ سکتا نہ کوئی کسی کا روزہ رکھ سکتا ہے، البتہ قضا کی استطاعت نہ ہو تو فدیہ دے یا اس کی وصیت کر جائے البتہ زکاۃ کسی کی طرف سے دوسرا کوئی ادا کر سکتا ہے لیکن جس پر فرض ہوئی اس کی اجازت ضروری ہے۔ اس طرح حج کی ایک خاص اہمیت ہے خود ادا کرے یا کسی سے کرائے۔
حج میں خدا کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے میں آتی ہیں،حج میں اللہ والوں یعنی اللہ کے محبوب بندوں کی بڑی یادگاریں ہیں۔
خانہ کعبہ اللہ کی نشانی ہے اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم خلیل اللہ و اسماعیل ذبیح اللہ کی یادگار ہے جس پتھر پر انہوں نے تعمیر کی اس کو بھی بطور یادگار باقی رکھا گیا ہے اس کو مقام ابراہیم کے نام سے قرآن نے یاد کیا ہے
اس میں حضرت ابراہیم کے دونوں قدموں کے گہرے نشانات آج بھی موجود ہیں جنھیں ماتھے کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔نہیں، بلکہ دیکھا جاتا ہے اور اس کی تعظیم کا حکم اللہ تعالی نے اس طرح دیا ہے کی طواف کے بعد اس کے سامنے یا قریب میں یا حرم میں کہیں دو رکعت نماز پڑھنا واجب قرار دیا ہے۔
قرآن کریم کا ارشادہے:
وَاتَّخِذُوا مِن مَقامِ اِبراَہِیمَ مصلیًّ(البقرہ: ۲/۱۲۵) ترجمہ: اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے نماز کا جو حکم ثابت ہوتا وہ استحبابی ہے، جیسا کہ تفسیر خزائن العرفان میں ہے۔
صفا و مروہ کی سعی بھی حضرت ہاجرہ کی یادگار ہے جب وہ اپنے ننھے فرزند حضرت اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں نکلیں پہلے صفا پر گئیں پھر مروہ پر دونوں پر چل کر ادھر ادھر دیکھتی تھی کہ شاید کہیں پانی کا سراغ ملے جب سات چکر لگا چکیں تو اپنے فرزند کے پاس آئیں تو آپ کے قدموں میں آب زمزم 2 رواں تھا، جو ایسا بابرکت ہوا کہ ساری دنیا میں اس کو تبرک کے طور پر لے جایا جاتا ہے
اور تبرک سمجھ کر اسے نوش کیا جاتا ہے، اس کو جسمانی و روحانی بیماری کے علاج کے طور پر بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا، مَاءُ زَمزَمَ لِمَا شُرِبَلَہ۔ ﴿الحدیث: الجامع الصغیر للسیوطی, حدیث نمبر:7759 ص۔475﴾
زمزم کا پانی ہر اس مرض کے لیے شفا ہے جس کی نیت سے پیا جائے۔یا جس حاجت وضرورت کی نیت سے نوش کیا جائے، اللہ تعالیٰ وہ حاجت پوری فرماتا ہے۔
آب زم زم کے تعلق سے دو قول ہیں ،ایک یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کے رگڑنے سے یہ چشمہ پھوٹا، دوسرا قول یہ ہے کہ جس وقت آپ پیاس کی شدت سے تڑپ کر اپنی ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہیں خدا کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر اپنے پَروں سے گڑھا بنادیا جس سے پانی نکلنے لگا۔
اور یہی چاہِ زمزم ہے۔ گویا آب زم زم بھی حضرت جبرئیل و حضرت اسماعیل علیہما السلام کی یادگار اور ان کی برکت ہے۔
اس بابرکت چشمے کا پانی نہ کبھی ختم ہوتا ہے نہ کم، جب کہ مکہ و مدینہ اور قرب و جوار کے مسلمان نیز پوری دنیا سے وہاں جانے والے حاجی معتمر اور مسافر و باشندگان اسی اکیلے چشمے سے سیراب ہوتے رہتے ہیں اس طرح یہ خدا کی قدرت و رحمت کی بھی کرشمہ سازی اور نشانی ہے جس کا ماتھے کی آنکھوں سے نظارہ کیا جا رہا ہے۔
آبِ زمزم کی ایک کرامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جو کوئی کھانے کی جگہ اسے پیتا ہے وہ اس کو کفایت کرتا ہے۔ یوں ہی عرفات و مزدلفہ جبل رحمت اور منیٰ بھی یادگاریں ہی ہیں۔ گویا حج خدا کی عبادت کے ساتھ اس کے محبوب و مقبول بندوں کی یادگار بھی ہے۔ ان یادگاروں سے ان مقبولوں کی یاد بھی آتی ہے، اور خداے بزرگ و برتر کی ربوبیت و قدرت کی کرشمہ آرائی بھی آشکار ہوتی ہے۔
دیکھو قرآن نے کیا کہا۔ اِنَّ الصَفاَ وَ المَر٘وَۃَ مِن٘ شَعَآئِرِ اللہِ ﴿بے شک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں سے ہیں۔ البقرہ:۲/۱۵۸﴾ یہ موضوع مستقل بحث و تفصیل کا متقاضی ہے اب اسے یہیں چھوڑ کر اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔
حج اللہ کی عبادت ہے، اسے اللہ ہی کے لیے ادا ہونا چاہیے، ارشاد خداوندی: وَاَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمۡرَۃَ لِلہِ۔﴿البقرہ: ۲/۱۹۶﴾ حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو۔
اور فرمایا: و لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیتِ مَنِ اس٘تَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً۔﴿آلعمران: ۳/۹۷﴾ اور اللہ کے لئے لوگوں پر اللہ کے اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔ مذکورہ دونوں آیات میں اللہ رب العزت نے جس خاص بات کی طرف توجہ دلائی ہے وہ حج کے درمیان اخلاص قلب اور للہیت ہے۔یوں تو ہر عبادت میں اخلاص نیت
3 ضروری ہے لیکن حج کے لیے اللہ عزوجل نے دونوں جگہ بطور خاص للہیت کا درس دیا ہے، کہ یہ اگر یہ نہ ہو تو ہمارے سارے اعمالِحج بیکار اور سارا پیسہ ضائع ہوجاےگا، حج کی راہ میں رضاے الہٰی کو توشہ بنائیں، دنیاوی غرض و غایت اور ریا و نمود کو قریب بھی نہ آنے دیں یہی ہر عبادت کی جان ہے۔
اور چوں کہ حج پوری عمر میں ایک ہی بار فرض ہے اور بالعموم طول طویل سفر سے بھی گزرنا پڑتا ہے، طرح طرح کی نئی نئی چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں جو کچھ سنا تھا کتابوں میں پڑھا تھا، وہ سب مشاہدے کی دنیا میں آنکھوں سے دیکھنے میں آتا ہے
پھر اس پر آج کے دور کی نقاشی خوش نمائی بلند بلند عمارتیں اونچے ٹاور، مزین و مرصع مینارے یہ سب دیکھ کر حاجی انھیں دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، جب کہ سب چھوڑ کر صرف اور صرف رب کائنات کی رضا کی طلب اور ارکان حج کی صحیح ادائیگی میں جی جان سے لگ جانا چاہیے کہ یہی اصل کامیابی ہے۔
خوب صورت دوکانیں چمچماتے سازو سامان نظروں کو خیرہ کرتے اور آدمی کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں
مانا کہ کچھ خریدنا ناجائز نہیں لیکن ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ تو کہیں اور نہیں مل سکتا ، ایسے نیکیوں کے بازار کو چھوڑ کر آدمی پورے طور سے مارکیٹنگ میں لگ جائے تو اس سے بڑی محرومی اور کیا ہوگی
آج تو ساری دنیا کے سامان ہر کہیں مل جاتے ہیں لیکن خانہ کعبہ دیکھنا عبادت، طواف کعبہ عبادت، دنیا میں اور کہیں نہیں انجام دی جا سکتیں۔آدمی نمازیں روز پڑھتا ہے ، روزہ سال میں ایک بار اد ا کرتا ہے مالوں کی زکوٰۃ بھی سال میں ایک بار ادا کی جاتی ہے ۔
لیکن حج و عمرہ کی سعادت تو اسی سرزمین کا حصہ ہے، صفا و مروہ شعائرا للہ سے ہیں، اس کی سعی کے لیے تو یہیں آنا ہوگا، آب زمزم جو ہر بیماری کی شفا کے لیے جس کی نیت کی جائے، مرکز حاجات ہے،اسے دیکھنا اور آنکھوں میں لگانا تو بصارت کا سرمایہ ہے،بس ایمان اور عقیدت سچی ہونی چاہیے۔
ایسے مقدس مقامات سے نظریں ہٹا کر ادھر ادھر دیکھنا دنیا کی رنگینیوں میں کھونا، عجیب تر اور ہزار ہا ہزار حسرت و محرومی کا باعث ہے۔ اس دیارِ مقدس کا لمحہ لمحہ قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے، اپنی جھولیوں کو عبادت اور نیکیوں سے بھرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
حجاج کرام سے گزارش ہے کہ حج جیسی قیمتی اور بابرکت عبادت کو اہتمام سے ادا کریں ،حج سے پہلے غیر ضروری لوازمات اور دعوتوں کے بجاے حج کے مسائل یاد کریں۔اس پر پوری توجہ دیں، سامان لانے کی لسٹ کے بجاے حج کے احکامات کی لسٹ تیار کریں ارکان کیا کیا ہیں اور واجبات کیا کیا ہیں سنتیں کتنی ہیں،کون کون سے گناہ کے ارتکاب پر کفارہ﴿دَم﴾یا صدقہ دینا پڑتا ہے اسے جاننے کی کوشش کریں ۔
غیر ضروری سامان کی طرف دھیان کم دیں کہ اس سے مقصود اصلی میں خلل بھی واقع ہوتا ہے اور راستے میں ان کی وجہ سے دشواریاں الگ پیش آتی ہیں، اچھا سفر وہی ہوتا ہے جو ہلکا اور پرسکون ہو، کھجوروں کا بوجھ پریشان کن ہوتا ہے، تبرکاً تھوڑی کھجوریں
4 لے لیں، باقی احباب میں تقسیم کرنے کے لیے اپنے وطن جا کر لیں ، ہمارے ملک میں تمام اقسام کی کھجوریں با آسانی مل جاتی ہیں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ حج کرنے نہیں آئے ہیں پکنک منانے یعنی سیر و تفریح کرنے آئے ہیں۔
تفریحی مشغلے کے لیے پوری دنیا خالی پڑی ہے ان مقدس مقامات کو اس ارادے سے پاک رکھیں تو بہتر بہت بہتر ہے۔ عورتوں کا حال تو خاص طور سے بڑا خراب دیکھنے میں آتا ہے ان کی بے پردگی اپنے ملک کی طرح یہاں بھی دیکھنے میں آتی ہے، صرف احرام کی حالت میں چہرہ چھپانا منع ہے، باقی جسم کا حصہ تو احرام میں بھی کھولنا منع ہے،لیکن عورتوں کو دیکھا جاتا ہے کی طواف اور سعی کے دوران بھی کلائیاں،گلا، پاوں کے کچھ حصے کھلے ہوتے ہیں بلکہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے لیے بعض عورتیں گھس پڑتی ہیں جب کہ عورتوں اور مردوں دونوں کو حکم ہے کہ (بھیڑ)ہونے کی مشکل میں بوسہ کی جگہ استلام کر لیں ۔
بعض عورتوں کو دیکھا جاتا ہے بوسہ دینے کی کوشش میں اپنے سروں کو بے پردہ کر لیتی ہیں ، جو سخت گناہ ہے اور وہ حرم محترم میں وہ بھی خانہ خدا کی حاضری کے وقت حج یا عمرہ سےقبل اور بعد میں بھی ہوٹلوں میں عورتیں بے پردہ کھاتی پیتی اور غیر محرم مردوں سے ہنسی مذاق کرتی نظر آتی ہیں، پورا یا آدھا سر تو عام طور سے کھلا رکھتی ہیں۔
یہ سب گناہ ہے۔اور وہاں حرم کا ایک گناہ ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے،لہٰذا اس مقدس دیار میں تو گناہوں سے بچنے کا کچھ زیادہ ہی خیال کرنا چاہیے۔
یاد رکھیں عورتیں اگر بے پردگی کا مظاہرہ کریں گی اور ان کو قصداً غیر محرم مرد دیکھیں گے تو مرد کو ایک لاکھ گناہ ہوگا اور عورتوں کو دو لاکھ، ایک تو بے پردگی کا دوسرے مردوں کو گناہ پر اکسانے کا کہ یہ بے پردہ نہ ہوتیں تو مرد انہیں دیکھ کر گناہگار نہیں ہوتے۔ ہاں اچانک نظر کا پڑ جانا پھر اسے ہٹا لینا معاف ہے۔
حج و عمرہ کے مسائل پر چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں علماء نے تصنیف کی ہیں، اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہٗ کی انوارالبشارۃ فی احکام الحج و الزیارہ ،صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت حصہ ششم 6 میں بہت تفصیل سے حج کے مسائل لکھ دیے ہیں۔
فقیہ ملت علامہ جلال الدین احمد امجدی نے حج و زیارت کے نام سے ایک اچھی کتاب تحریر فرمائی ہے۔ رفیق الحرمین کے نام سے امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس عطار قادری نے جو کتاب لکھی ہے بہت عمدہ اور مفصل ہے
اور بھی کئی علماے اہل سنت نے حج و زیارت پر مختصر متوسط اور مفصل کتابیں لکھی ہیں، کتابوں کی بھیڑ میں ایک کتاب’’حج و عمرہ‘‘کے نام سے مبلغ اہل سنت مفکر اسلام حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کی بھی نظر سے گزری، جو نہایت عام فہم، آسان اور مختصر بھی ہے۔اس کتاب کو پڑھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم حج و عمرہ کے افعال انجام دے رہے ہیں۔وہاں کے مناظر دیکھ رہے ہیں ۔
5 حج و عمرہ کے مسائل و فضائل سے آگاہی اور ارکان حج و عمرہ کی صحیح طریقے سے ادائیگی کے لیے مذکورہ کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔یہ کتابیں حج وزیارت کے باب میں عمدہ اضافہ ہیں۔رب کریم ان سے تمام امت مسلمہ کو استفادے کی توفیق بخشے، آمین۔
از: محمد عبد المبین نعمانی قادری
بانی رکن: المجمع الاسلامی مبارک پور،اعظم گڑھ
رابطہ: 9838189592