ازقلم علامہ مفتی محمد غفران رضا قادری رضوی۔امّ المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف
حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہ
نام خدیجہ والد خویلد بن اسد والدہ فاطمہ بنت زائدہ سن پیدائش 55 سال قبل از بعثت قبیلہ قریش شاخ بنو اسد
زوجیت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 15 سال قبل از بعثت
سن وفات۔۔۔۔۔۔ 10واں نبوی سال ہجرت سے تین برس قبل مقام تدفین۔۔۔۔۔ جنت المعلیٰ قبرستان مکہ مکرمہ کل عمر شریف۔۔۔۔۔ 65 سال تقریباً
نام و نسب
آپ کا نام خدیجہ تھا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے خدیجہ بنت خویلدبن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب، آپ رضی اللہ عنہا کا نسب چوتھی پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتاہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا،بنو اسد اپنی شرافت، ایمانداری اورکاروباری معاملات کی وجہ سے میں لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت و احترام تھا
پچپن کے حالات
آپ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں، مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحم دلی،غریب پروری اور سخاوت آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔یہاں تک کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ” طاہرہ “ یعنی پاک دامن کے لقب سے مشہور تھیں۔مالدار گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھا علاوہ ازیں حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں۔
ازدواجی زندگی
پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد وہ بھی چل بسے تو دنیوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کرزیادہ وقت حرم کعبہ میں گزارتیں۔ جس کے باعث آپ کےمزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی۔ قریش کےنامور صاحب ثروت سرداروں نے آپ رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھجوایا لیکن سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب کو یکسر انکار کر دیا۔
تجارت میں دلچسپی
آپ کے والد محترم خویلد بن اسد اعلی درجے کے تاجر تھے، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی حضرت خدیجہ کے سپرد کردیا۔
تیس سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا تجارت سے وابستہ ہوئیں۔ جس کی وجہ آپ رضی اللہ عنہا حجاز مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں آپ کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملک شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا۔بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اکیلا حضرت خدیجہ کا سامان تجارت مکہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔
طریقہ تجارت
خاتون ہونے کی وجہ سے تجارتی معاملات میں سفر کرنا دشوار بلکہ ناممکن تھا اس لیے کسی کو بطور نیابت سامان تجارت دے کر روانہ کرتیں۔ آپ کے تجارتی نمائندوں کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اُنہیں دی جاتی‘نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ،نصف،تہائی یا چوتھائی وغیرہ مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے جبکہ نقصان کی صورت میں ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا پر ہوتی۔
حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی درخواست پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس پہنچ کر تجارتی معاملات کا عمدہ حساب پیش کیا، جس سے ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت متاثر ہوئیں۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ زندگی کا وہ روشن باب جب وہ ام المومنین بنتی ہیں
تقریباً دس تک معاملات یونہی چلتے رہے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچا پہنچا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سامان تجارت لے کرملک شام جانے کی درخواست کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ اس دوران آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے۔
تجارت میں نفع اور میسرہ کا مشاہدہ
اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نےبے حد برکت دی اورنفع پہلے سے بھی دوگنا ہوا، چونکہ میسرہ دوران سفر قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اخلاق، معصومانہ سیرت کا تجربہ اور معاملہ فہمی کا مشاہدہ کر چکا تھا اس لیے اس نے برملا اس کا اظہار کرتے ہوئےام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت معاملہ فہم، تجربہ کار، خوش اخلاق، دیانت دار، ایماندار، شریف النفس مدبر اورامین وصادق شخص ہیں۔ آ:
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یعلیٰ بن اُمیہ کی بہن نفیسہ بنت امیہ پیغام نکاح لے کر گئیں۔ نفیسہ کا بیان ہے کہ میں آپ کے پاس آئی اور کہا کہ آپ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نادار اور خالی ہاتھ ہوں،کس طرح نکاح کرسکتاہوں؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسی عورت آپ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہو جہ ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو اور آپ کی ضروریات کی کفالت کرنے پر بھی خوش دلی سے آمادہ ہوتو آپ اس سے نکاح کرلینا پسند کریں گے؟ آپ نے دریافت کیا کہ ایسی کون خدا کی بندی ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا خدیجہ بنت خویلد۔
مقام ِنکاح:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفیسہ کو جواب دے دیا کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔نفیسہ نے آکر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اس کی اطلاع دی،پھرباہمی مشاورت سے طے ہوگیا کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آجائیں،چنانچہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اہم شخصیات آپ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔اس لیےآپ کے چچا عمرو بن اَسد اور خاندان کے دیگر بزرگ شریک تھے۔
بوقت نکاح
خطبۂ نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ اوصاف، جلالت شان اور عزت و مقام کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا
ان ابن اخی محمد بن عبداللہ لا یوزن بہ رجل الا رجح بہ شرفانبلا و فضلاً وعقلاً وان کان فی المال قل۔ فان المال ظل زائل و امر حائل۔
ترجمہ:میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہ شان ہے کہ کوئی بھی شخص شرافت، دانائی، فضیلت اور عقلمندی میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ باقی رہا مال و دولت…… یہ سایے کی طرح ڈھلنے اور بدل جانے والی چیز ہے۔
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے500 درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس برس تھی۔آپ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلان نبوت سےتقریبًا 15 سال پہلے ہوا۔
برے ماحول میں نیک فطرت
ذرا آپ تصور کریں عرب کے اس فحش معاشرے میں جہاں صدیوں سے شراب و کباب اور عورت کی آبرو سرِعام بکتی ہو، ایسے میں 25 سال تک جوانی کی اُمنگوں اور جذبات کے ولولوں کو ضبطِ نفس کی پاکیزگی میں ڈھانپ کر کسی نوجوان دوشیزہ سے نہیں بلکہ 40 سالہ بیوہ عورت سے شادی کر کے پاکبازی کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال نہ پہلے ملتی ہے نہ بعد میں، دونوں کا کردار اتنا اجلا اور شفاف کہ دشمن تک کو اخلاقی پہلو پر منفی بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ انتخاب
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ان الفاظ میں موجود ہے
انی رغبت فیک لحسن خلقک و صدق حدیثک۔
ترجمہ:میں نے آپ کو آپ کے حسن اخلاق اورزبان کی سچائی کی وجہ سے اپنے لیے منتخب کیا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےفضائل ومناقب
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ حضرت جبرائیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ آرہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپ کے پاس آجائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچایئے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنایئے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہوگی۔
حضرت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے ان ذالک کان وھو بحرا۔۔۔
یعنی حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی یہ آمد اس وقت ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارحرا میں تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ غارحرا میں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کی پہلی آمد کے بعد کا ہے۔
اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ مکہ کی سب سے زیادہ دولت مند اور بوڑھی خاتون ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے پینے کا سامان گھر پر تیار کر کے مکہ مکرمہ سے اڑھائی تین میل پیدل سفر کرنا بلکہ غار حراکی بلندی تک چڑھنا کس قدر دشوار معلوم ہوتا ہے؟چونکہ یہ عمل خلوص دل سے تھا اس لیے پروردگار عالم اور حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کےسلام پہنچتے ہیں۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بنت خویلد ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کی مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت یاد کرتے اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے، پھر اس میں سے حصے بنا کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے میل جول اور محبت رکھنے والیوں کے ہاں بھیجتے۔
بسا اوقات میں کہہ دیتی…… دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ خدیجہ تو خدیجہ تھی اور ان سے میری اولاد ہوئی۔
نوٹ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہے سوائے حضرت ابراھیم کے یہ حضرت ماریہ قبطیہ کی بطن سے پیدا ہوئے۔
اولاد وامجاد
محدثین کرام نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک جب 30 برس کی ہوئی یعنی رشتہ ازدواج کے تقریباً 5 سال بعدآپ کے پہلے صاحب زادے حضرت قاسم پیدا ہوئے، انہیں کے نام پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کنیت ابو القاسم رکھی، ان کاچھوٹی عمر میں ہی انتقال ہوگیا، ان کے بعد آپ کی سب سے بڑی صاحب زادی زینب پیدا ہوئیں، ان دونوں کی پیدائش اعلان نبوت سے پہلے ہوئی، اس کے بعد صاحبزادے حضرت عبداللہ کی ولادت ہوئی، ان کی پیدائش دور نبوت میں ہوئی اسی لئے ان کو طیب اور طاہر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا انتقال بھی کم سنی میں ہوگیا، پھر ان کے بعد مسلسل تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن رکھے گئے۔
امتیازی خصوصیات
نمبر1: کڑے حالات میں تسلی
نکاح کے تقریباً 15برس بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم نبوت و رسالت کا اعلان عام فرمایا:
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت آپ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے حضرت سید ہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ملی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے پہلے تنہائی میں عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دے دیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارحرا میں کئی کئی راتیں ٹھہرتے، اللہ کی یاد میں مصروف رہتے، کچھ دنوں بعد تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے۔
ایک دن حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اِقْرَأْ یعنی پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا اَنَا بِقَارِیْ میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے بھینچ کر چھوڑ ا۔
اور عرض کی اِقْرَأْ (پڑھئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر وہی جواب دیا میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے چمٹا کر خوب زور سے دبا کر چھوڑا اور پھر پڑھنے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھنے والانہیں ہوں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگے۔
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ o
ترجمہ کنزالعرفان: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔
جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔ انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔۔۔
تفسیر
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ } شانِ نزول:حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں ’’ رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ پر وحی کی ابتداء اچھے خوابوں سے ہوئی،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا۔۔
پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ خَلْوَت پسند ہو گئے اور غارِ حرا میں جانے لگے اور کاشانۂ اَ قدس کی طرف لوٹنے سے پہلے وہاں کئی کئی راتیں ٹھہر کر عبادت کرتے اور(ا تنا عرصہ وہاں رہنے کے لئے) کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے،پھر حضرت خدیجہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف لوٹتے اور وہ اسی طرح کھانے کا بندو بست کر دیاکرتیں یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے پاس حق آ گیا جب کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ غارِ حرا میں تھے یعنی فرشتے نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہا:۔۔۔
پڑھئے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ فرماتے ہیں ’’میں نے کہا:میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر بڑے زور سے دبایا،پھر چھوڑتے ہوئے کہا:پڑھئے۔ میں نے کہا’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔اس نے مجھے پکڑ کر دوبارہ بڑے زور سے دبایا، پھر چھوڑ دیا اور کہا:پڑھئے۔میں نے کہا’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں اس نے مجھے پکڑا اور تیسری بار دبایا ،پھر مجھے چھوڑ کر کہا: ’’اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔( بخاری ، کتاب بدء الوحی ، ۳-باب ، ۱ / ۷، الحدیث: ۳، مسلم ، کتاب الایمان، باب بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۹۴، الحدیث: ۲۵۲(۱۶۰))
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نام کا ذکر کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ،آپ کی طرف جو قرآن نازل کیا گیا اسے اپنے اس رب عَزَّوَجَلَّ کے نام سے شروع کرتے ہوئے پڑھو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔( خازن، العلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۹۳، قرطبی، العلق، تحت الآیۃ: ۱، ۱۰ / ۸۵، الجزء العشرون، ملتقطاً)
تلاوت کرنے سے پہلے ’’ بِسْمِ اللّٰہ ‘‘ پڑھنے کا شرعی حکم
یاد رہے کہ سورت کی ابتداء میں بسم اللّٰہ پڑھنا سنت، ورنہ مُستحب ہے اور اگر تلاوت کرنے والا جو آیت پڑھنا چاہتا ہے اس کی ابتدا ء میں ضمیر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے، جیسے ’’هُوَاللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ‘‘ تو اس صورت میں اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھنے کے بعد بِسْمِ اللّٰہ پڑھنا تاکید کے ساتھ مستحب ہے،اگر تلاوت کرنے والا تلاوت کے درمیان میں کوئی دُنْیَوی کام کرے تو اعوذباللّٰہ اور بسم اللّٰہ پھر پڑھ لے اور اگر ا س نے دینی کام کیا مثلاً سلام یا اذان کا جواب دیا یا سُبْحَانَ اللّٰہ اور کلمۂ طیبہ وغیرہ اَذکار پڑھے تو اَعُوْذُ بِاللّٰہ پھر پڑھنا اس کے ذمے نہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کابیان، ۱ / ۵۵۰-۵۵۱، ملخصاً)۔۔
یہ آیات مبارکہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یاد فرما لیں اور گھر تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے کچھ پسینے کے قطرے موتی بن ٹپک رہے تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: زملونی. زملونی :مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سارا واقعہ سنایا،فرمای
لَقَدْ خَشِيْتُ عَلىٰ نَفْسِ مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے۔
عموماً خواتین ایسے حالات میں گھبرا جاتی ہیں اورتسلی دینےکے بجائے پریشان کن باتیں شروع کر دیتی ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہا ذرہ برابر بھی نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئےفرمایا
کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا، اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ
ترجمہ :خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
نمبر2: اسلام کی خاتونِ اوّل ہونے کا اعزاز
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نزول وحی کے ابتدائی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے بڑےعالم و عامل تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غارحرا میں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام اور نزول وحی کی سرگزشت سن کر پختہ یقین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی بات کہی توآپ رضی اللہ عنہا نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پوری امت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برحق نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
نمبر3: اپنی دولت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر لٹا دی
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ کریم نے دولت مندی کی نعمت سے بھی خوب نوازا تھا،آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام زید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا اور آپ کودین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔
نمبر4: بت پرستی سے بیزاری:
اہل مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے،لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دوچار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔
نمبر5: شِعْبِ ابی طالب میں تین سالہ محصوری:
مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو روکنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے یہاں تک کہ انہوں نےآپ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے سوشل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، کھانے پینے اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا اور یہ بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ایام محصوری کے اس تین سالہ دور میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔
نمبر6: حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں کیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی اس کے بعد تقریباً 24 سال تک آپ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں، اس پورے 24 سالہ دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔
وفات
ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا 24 سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانثار، ا طاعت گزار اور وفا شعار بیوی بن کر زندہ رہیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 64 سال کی عمر پاکرتقریباً ماہ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وفات پا گئیں۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جحون (جنت المعلی) میں آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہاتھوں سے قبر مبارک میں اتارا۔ چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے وطفیل میں مخدومہ کونین زوجہ محترمہ تاجدارِ کائنات امام الانبیاء والمرسلین ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار اقدس پر لاکھوں کروڑوں عربوں انوار و تجلیات کی بارشیں فرماۓ آمین یارب العالمین
گزارش۔۔۔۔۔ آج ١٠واں روزہ ہے افطار کے وقت ضرور فاتحہ خوانی کریں اور اس کا ثواب بالخصوص سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روح مبارکہ کو ایصال کریں اللہ تعالیٰ آپ کے فیض سے پوری امت مسلمہ کو اور بالخصوص اسلام کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو عطا فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
ازقلم۔۔۔۔۔۔ خلیفہ حضور تاج الشریعہ خادم مشن قطبِ اعظم ماریشس حضرت علامہ ابراھیم خوشتر
مفتی محمد غفران رضا قادری رضوی
بانی دارالعلوم رضا ۓ خوشتر و جامعہ رضاۓ فاطمہ قصبہ سوار ضلع رامپور انڈیا
مقیم حال نانکاررانی
سورہ بقرہ کا مختصر تفسیری خلاصہ و اعجاز قرآن بزبان کلام الرحمٰن