تحریر محمد دانش رضا منظری پیلی بھیت یوپی ہزار مہینوں سے افضل شب قدر
ہزار مہینوں سے افضل شب قدر
رمضان المبارک کا مہینہ بہت ہی رحمتوں،برکتوں کا حامل ہے اس مہینہ کی ہر ساعت ، ہر گھڑی ،رحمت و انوار سے لبریز ہوتی ۔اس مہینہ میں اللہ تعالی ہر انسان کو اپنے رحمتوں سے نوازتا ہے ۔اس مہینہ کی ہر ساعت میں اللہ تعالی لاکھوں جہنمیوں کو جہنم کے عذاب سے نجات دے کر جنت کے باغات و محلات کا حقدار بناتا ہے، اور صالحین کو عظیم مراتب پر فائز کرتا ہے۔
اس مہینہ میں اللہ تعالی لوگوں کے رزق کو بڑھا کر کئی گناہ زیادہ کرتا،اس مہینہ میں انسان اپنے گناہوں سے تائب ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتاہے ،اس مہینہ میں انسان خدائے تعالی کی نافرمانی ،ناشکری کرنے سے حتی الامکان اجتناب کرتا ہے۔لیکن اس مہینہ کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں۔باتفاق علماء جمھور ستائسویں شب ہی شب قدرہوتی ہے۔
اور یہ ایسی شب ہے جس میں اللہ تعالی تمام خاص وعام مومنین پر اپنی خاص خاص نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں کا نزول فرماتا ہے،اور بے شمار ملائکہ رحمت کا زمین پر نزول فرماتا ہے جو لوگ اس رات میں عبادت،ریاضت،تسبیح و تہلیل و تلاوت قرآن و کثرت درود اور ذکر واذکار کرتے ہیں۔انکے لیے اللہ کے مقدس فرشتے رات بھر دعائے مغفرت، رحمت، برکت،اور شفاعت کرتے ہیں۔
شب قدر کی رات میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور بندوں کی زندگی و موت ،امیری ،غریبی ،عزت ،ذلت مال ، اولاد اور ہر اس چیز کا فیصلہ اسی رات میں. کیا جاتا ہےجو اگلے ایک سال تک پیش آنے والے ہیں ۔
کون بندہ آئندہ سال تک دنیا میں روٹی کے کتنے لقمے کھائے گا اور کون کتنے دن بھوکا سوئے گا۔کون بندہ،کن کن مصائب و آلام کا شکارہوگا اورکون ظلم سے نجات پائے گا گویا بندوں کو آئندہ ایک سال تک جو حالات و کوائف پیش آنے والے ہیں سب لیلةالقدر میں ہی بندوں کی تقدیر و قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے ۔
شب قدر میں پوری رات عبادت و ریاضت ودیگر واذکار میں مشغول رہنے سے بندوں کو قربت خداوندی ،اور اجر عظیم نصیب ہوتا ہے۔میں نے عزم مصمم کیا کہ شب قدر کی فضیلت و عظمت قرآن و احادیث کی روشنی میں تحریر کردی جائے تاکہ آپ اس سے خوب استفادہ کرسکیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مجھے اس کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
شب قدر کی رفعت شان اور عظمت و بزرگی کا اندازہ ایسے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن عظیم میں سورۂ قدر کے نام سے پوری ایک سورہ نازل فرما کر
اسکی عظمتوں رفعتوں کا تذکرہ فرمادیا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (مفہوم)۔
(۱)بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔(۲)اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟ (۳)شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(۴)اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔(۵) یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔(پ،۳۰،القدر:۱،۲،۳،۴،۵،)۔
مذکورہ سورت میں شب قدر کے متعدد فضائل مذکور ہیں۔
پہلی فضیلت: یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شب میں قرآن کریم نازل فرمایا، جو نوع انسانی کے لیے ہدایت ہے اور دنیاوی واخری سعادت ہے۔
دوسری فضیلت: اس سورت میں اس رات کی تعظیم اور بندوں پر اللہ کے احسان کوبتانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار کیا گیا۔
تیسری فضیلت: یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
چھوتی فضیلت: اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، فرشتے خیر وبرکت اور رحمت کے ساتھہ نزول کرتے ہیں۔
پانچویں فضیلت: یہ رات سلامتی والی رات ہے، چونکہ اس رات میں بندوں کی عذاب وعقاب سے خلاصی ہوتی ہے۔
چھٹی فضیلت: اللہ تعالیٰ نے اس شب سے متعلق پوری ایک سورت نازل فرمائی جو روز قیامت تک پڑھی جائے گی۔
قرآن عظیم میں اللہ تعالی دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے (مفہوم)حم۔ اس روشن کتاب کی قسم۔ بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا،بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔(پ،۲۵، الدخان: ۱،۲،۳، ) یہ برکت والی رات ماہِ رمضان المبارک ہوتی ہے، جس کی وضاحت اللہ تعالی خود بیان فرماتا ہے (مفہوم)رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا (پ ۲،البقرة: ۱۸۵)۔
لیلةالقدر کی وجہ تسمیہ
اس رات کو لیلةالقدر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ قدر کا معنی تقدیر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(مفہوم) اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا مناصب اندازہ کیا۔اس رات میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال کے لیے جو امور چاہتا ہے وہ مقدر فرمادیتا کہ اس سال کتنے لوگوں پر موت آئے گی کتنے لوگ پیدا ہوں گے، لوگوں کو کتنا رزق دیا جائے گاپھر یہ امور اس جہاں کی تدبیر کرنے والے فرشتوں کو سونپ دئیے جاتے ہیں، وہ چار فرشتے ہیں: اسرافیل، میکائل،عزرائیل،اور جبریل علیھم السلام۔ (تبیان القرآن: ج۱۲،ص ۸۹۱)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:لوح محفوظ سے لکھا جاتا ہے کہ اس سال کتنا رزق دیا جائے گا،کتنی بارش ہوگی کتنے لوگ زندہ رہے گےاور کتنے مرجائیں گے، حضرت عکرمہ رضیَ اللہُ عنہ نے نے کہا لیلةالقدر میں بیت اللہ کا حج کرنے والوں کے نام،ان کے مقامات اور ان کے آباء و اجداد کے نام لکھ دیئےجاتے ہیں،ان میں سے نہ کسی نام کی کمی کی جاتی ہے اور نہ زیادتی۔
اس رات کو لیلةالقدر کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قدر کا معنی عظمت و شرف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : (مفہوم) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی (پ ۷،الانعام:٩١) ۔
حضرت زہری نے کہا اس رات میں عبادت کرنے کی بہت قدر و منزلت اور اس کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔ حضرت ابو بکر وراق نے کہا جس شخص کی کوئی قدر و منزلت نہ ہو جب وہ اس رات کو عبادت کرتا ہے تو وہ بہت قدر و عظمت والا ہوجاتاہے۔ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلةالقدر اس لیے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والی کتاب بہت عظیم الشان رسول ﷺ پر بہت عظمت والی امت کے لیے نازل کی گئی۔
ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلةالقدر اس لیے فرمایاہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بہت خیر و برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے ۔
حضرت سھل فرماتے اس رات کو لیلةالقدر اس لیے فرمایا کہ اس رات میں اللہ تعالی نے مومنین کے لیے رحمت کو مقدر کردیا۔(تبیان القرآن: ج۱۲،ص۸۹۱)حضرت خلیل نے کہا قدر کا معنی تنگی بھی جیسا کہ قرآن مجید ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے(مفہوم) جس شخص پر اس کا رزق تنگ کردیا جائے(پ۲۸،الطلاق:۷)۔
لیلةالقدر کیوں عطاکی گئی
حضرت اما م مالک بیان کرتے ہیں کی انہوں نے ایک معتمد اہل علم سے سناہے،رسول اللہ صَلی اللہ علیہِ وسلم کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ کہ وہ اتنے عمل نہیں کرسکیں گے جتنی لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلةالقدر عطا کی جو ہزار مہنوں سے بہتر ہے۔(موطا امام مالک: ۷۲۱)۔
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں،نبی صلی اللہ علیہِ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا،جو اللہ کی راہ میں ایک ہزار سال تک ہتھیار پہنے رہا اور جہاد کرتا رہا، مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر کی اول کی تین ایات نازل فرمائیں۔(تبیان القرآن:جلد ۱۲،ص۸۹۲) ۔
حضرت علی بن عروہ بیان کرتے ہیں،ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہِ وسلم نے ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے چار شخصوں نے ۸۰ سال تک اللہ کی اس طرح عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کیا اور ان کے نام بتائےحضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل بن العجوز، اور حضرت یوشع بن نون علیہم السلام۔
یہ سن کر اصحاب رسول کو تعجب ہوا،تب آپ کے پاس حضرت جبریل علیہِ السلام آئے اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہِ وسلم آپ کی امت کو اس پر تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اسی(۸۰) سال عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نافرمانی نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز نازل کی ہے پھر آپ کے سامنے سورة القدر کی ابتدائی تین آیتیں تلاوت کیں،اور کہا یہ اس سے افضل ہے جس پر آپ کو آور آپ کی امت کو تعجب ہوا پھر رسول اللہ صَلی اللہ علیہِ وسلم اور آپ کے اصحاب خوش ہوگئے۔(تبیان القرآن:ج ۱۲،ص ۸۹۳)۔
حضرتِ سیدنا مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں،آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کی عمریں سب سے چھوٹی پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شبِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے (تفسیر کبیر، ج ۱۱، ص ۲۳۱)۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدت حکومت پانچ سو مہینے تھی اور ذوالقرنین کی مدت سلطنت بھی پانچ سوماہ تھی، اللہ عزوجل نے اس امت کو لیلۃ القدر عطا کی کہ اس شب کی عبادت کا اجر وثواب ان دونوں بادشاہوں کی مجموعی مدت سلطنت یعنی ایک ہزار ماہ کی حکومت سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات و اوقات کو عبادت کے لیے خاص بنایا۔
اللہ تعالی نے بعض مقامات پر عبادت کرنے کی فضیلت رکھی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہ ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کے برابر ہے اور میری مسجد مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا،دوسری جگہ سوائے مسجد حرام کے ایک ہزار نمازیں پڑھنے کے برابر ہے (اب ماجہ:۱۴۰۶)۔
ان مقامات اور جگہوں کو عبادت کے لیے خاص کرلیا گیا اور ان مقامات پر عبادت کرنے کے ثواب کو بڑھا دیا گیا اسی طرح بعض اوقات کو بھی عبادت کے لیے خاص کرلیا گیا اور ان اوقات میں عبادت کرنے کے اجر و ثواب کو بڑھا دیا گیا، جیسے رمضان کے مہینہ میں نوافِل کا ثواب فرائض کے برابرہے اور فرائض کے ثواب کو ستر درجہ بڑھا دیا گیا اسی طرح لیلةالقدر کی عبادت کو ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ کردیا گیا۔
شب قدر میں نزول حضرت جبریل و ملائکہ رحمت علیہم السلام
قطب ربانی شیخ عبد القادر جیلانی اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضیَ اللہُ عنھما نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لیلةالقدر میں حضرت جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ سدرةالمنتہی سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں، ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں۔
جب وہ زمین پر اترتےہیں تو جبریل علیہِ السلام اور باقی فرشتے چار جگہوں پر اپنے جھنڈے نصب کردیتے ہیں کعبہ پر،سرکار دوعالم کے روضۂ اقدس پر،بیت المقدس کی مسجد پر، طور سینا کی مسجد پر، حضرت جبرائیل علیہِ السلام فرشتوں سے کہتےہیں زمین پر پھیل جاؤ،فرشتے تمام زمین پر پھیل جاتے ہیں، جس مکان یا خیمے یا پتھر یا کسی کشتی میں غرض جہاں کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو،وہاں فرشتے پہنچ جاتے ہیں۔
ہاں جس گھر میں کتا،خنزیر یا شراب ہو یا تصویروں کے مجسمے ہوں،یا کوئی شخص زنا کاری سے جنبی ہو وہاں نہیں جاتے۔وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں کلمہ پڑھتےہیں اور رسول اللہ صَلی اللہ تعالیٰ علیہِ وسلم کی امت کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔
جب فجرہوجاتی ہے تو آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور جب پہلے آسمان کے فرشتوں سے انکی ملاقات ہوتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں، تم کہاں سے آئے ہو؟ فرشتے کہتےہیں، ہم دنیا میں تھے کیونکہ آج محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہِ وسلم کی امت کی لیلةالقدر تھی،آسمان دنیا کے فرشتے کہتےہیں اللہ تعالیٰ نے آج امت محمد صلی اللہ علیہِ وسلم کی حاجات کے سلسلے میں کیا کیا؟فرشتے کہتےہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیک لوگوں کو بخش دیا،بدکاروں کی شفاعت قبول کرلی،پھر آسمان دنیا کے فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کی مغفرت فرمائی اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ فرشتے دوسرے آسمان پر جاتے ہیں اور وہاں اسی طرح گفتگو ہوتی ہے، وعلی ہذا القیاس، وہ فرشتے سدرةالمنتہی،جنت الماوی، جنت نعیم،جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے عرش الہی پر پہنچتے ہیں،وہاں عرش الہی آپ صلی اللہ علیہِ وسلم کی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرتاہے اور کہتاہے اے اللہ مجھے خبر موصول ہوئی ہےکہ گزشتہ رات تونے امت محمدیہ صلی اللہ علیہِ وسلم کے صالحین کو بخش دیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکوکاروں کی شفاعت قبول کرلی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے عرش تو اپنے قول میں صادق ہے،محمد صلی اللہ علیہِ وسلم کی امت کے لیے میرے پاس بڑی عزت و کرامت ہے اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہ دیکھا نہ کسی کان نےسنا،نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال آیا۔(تبیان القرآن:ج ۱۲،ص۸۹۷ تا ۸۹۸)۔
شب قدر میں جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں۔ اور ہر اُس شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں، جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آکر سلام کرتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو اس پر خوف خدا کی ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔
یاد خدا سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں،اور خشیت الہی سے بدن کا رونگٹا رونگٹا کھڑا ہوجاتاہے امام رازی فرماتے فرشتوں کا سلام کرنا کا سلامتی کا ضامن ہے۔سات فرشتوں نے آکر حضرت ابراہیم علیہِ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی شب قدر کے عابدوں پر جب اس رات میں لاتعداد فرشتے آکر سلام کہتےہیں تو کیونکر نہ یہ امید کی جائے کہ جہنم کی آگ ان پر سلامتی کا باغ بن جائے گی۔
شبِ قدر میں عبادت کرنے کی فضیلت
رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری:ج۱،ص۶۲۶) حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں: رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج۳ص۱۳۴)۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب ( حصول اجر و ثواب کی نیت ) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں،
(صحیح البخاری: ۲۰۱۴)علامہ عبد الرؤف مُناوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے ہونے والی مغفرت تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب ہونے والی بخشش کو مہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا۔(فیض القدیر)۔
لیلةالقدر میں عبادت کا طریقہ
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔اس حدیث کی روشنی میں لیلة القدر کی اصل عبادت قیام نماز ہے اس لیے اس رات زیادہ سے زیادہ نوافِل پڑھنے اور توبہ و استغفار کرنے میں کوشش کرنی چاہیے، بندہ خضوع وخشوع اور سوز گداز سے نماز پڑھے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنی کوتاہیوں،تقصیروں،اور گناہوں کو یاد کرکے روئے اور گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے،بار بار استغفار کرے بعض صالحین نے اس رات عبادت کے مخصوص طریقے بتائےہیں۔
علامہ اسماعیل حقی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: بعض صالحین لیلةالقدر میں لیلة القدر کے قیام کی نیت سے دس دوگانے پڑھتے تھے۔بعض اکابر سے یہ بھی منقول ہے،جس شخص نے ہر لیلةالقدر کی نیت سے دس آیات تلاوت کیں وہ لیلةالقدر کی برکات سے محروم نہیں ہوگا۔
فقیہ ابواللّیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شبِ قدر کی کم سے کم دو رکعت ، زیادہ سے زیادہ ہزار رکعات اور متوسط تعداد ۱۰۰رکعات ہیں،جن میں قراءت کی متوسط مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سو مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دورد ِ پاک پڑھے پھر دوسرے دوگانے کے لیے اٹھے اس طرح جتنی نفل چاہے پڑھے۔ (تبیان القرآن:ج ۱۲،ص ۸۹۴)۔
شبِ قدر کی دعا اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔( ترمذی،حدیث:۳۵۲۴) مذکورہ دعا کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔
مسلمانوں سے خاص درخواست
امسال ہم شب قدر کے موقعہ پر اللہ کی بندگی با منظم احسن طرق و اطوار سے کرسکتے ہیں۔کیونکہ پورا ملک کروناوائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے ہر انسان اپنے گھر میں مقیم حال اور کاروبار سے بھی لاتعلق ہے ایسے میں ہم اور آپ فارغ کل شغل ہیں، کوئی معقول حیلہ بھی ایسا نہیں کہ جس کے سبب سے ہم اور آپ شب قدر میں عبادت و رضایت کرنے سے اجتناب کرسکیں۔
شب قدر میں ہر ایک کو اپنے اور اپنے اھل وعیال کے لیے تائب الی اللہ ہوکر اللہ سے خیر و عافیت کی دعا کرنی چاہیے۔ کروناوائرس با شکل وبا و بلا ہمارے سروں پر معلق ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنی جڑوں کو مضبوط و مستحکم کررہا ہے اور لوگ کے مابین زندگی و موت کا کھیل کھیل رہا ہے۔
ہم لوگ قدر کی رات میں اپنے گناہوں پر نادم ، شرمندہ ہوتے ہوئے پہلے اپنی نافرمانی ، ناشکری کی معافی خدا کی بارگاہ میں رو رو کر ،گریہ و زاری اور آہ بکا کے ساتھ طلب کریں اور پھر آئندہ کبھی بھی اسکی نافرمانی، ناشکری نا کرنے کا پختہ عہد کریں اور پھر قرآن،انبیاء، اولیاء ،شھداء، علما ،محدیثین، مفسرین، صدیقین، صالحین ، رمضان المبارک،اور شب قدر کے وسیلے رب کی بارگاہ میں کروناوائرس سے نجات پانے اور اس کے خاتمہ کی دعا عاجزی ،انکساری گریہ و زاری کے ساتھ رو روکر کریں ۔
تاکہ اللہ تعالی ہمیں اور ہماری قوم وملت وملک اور پوری دنیا انسایت کو اس کروناوائرس اور اس جیسی تمام بیماریوں سے محفوظ اور متأثرین کو صحت و شفاء عطا فرمادے اور پوری دنیائے انسایت کو امن و امان اور ماضی کی طرح بحال فرمادے۔ اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی ہماری قوم ،ملت و ملک اور پوری دنیائے انسایت کو کروناوائرس سے نجات و صحت یابی نصیب فرمائے ،کروناوائرس کا دنیا سے نام و نشان مٹا ئے آمین بجاہ النبی الکریم صَلی اللہ تعالی علیہ وسلم