Saturday, September 14, 2024
Homeاحکام شریعتروزہ کی اہمیت فضائل و فوائد

روزہ کی اہمیت فضائل و فوائد

تحریر: محمد دانش رضا منظری روزہ کی اہمیت فضائل و فوائد

روزہ کی اہمیت فضائل و فوائد

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لیے  زندگی گزارنے میں معاون و مددگار اشیاء کو پیدا کیا جنکے بغیر انسان کو اپنی زندگی جینامشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے مثلا آسمان کا بطور چھت معلق کرنا اس میں شمس و قمر و کواکب کا رکھنا اور ان كو  پورے عالم کو منور کرنے کی صلاحیت دینا۔  اس میں بادلوں کو  بنانا اور برسنے کی قوت دینا ۔زمین کا پیدا کرنا اور اس میں سبزہ اگانے کی صلاحیت دینا اور پانی کے چشمے بہانا ۔اور چرند و پرند اور حیوان کا پیدا کرنا اور رات و دن کا پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ الغرض پوری دنیا کا پیدا کرنا ان سب کا پیدا کرنا انسان کے لیے آسانی و سہولت   پیدا کرنے کے لیے ہیں۔  اور انسان کو عقل و شعور سے نوازہ تاکہ انسان ان تمام مذکورہ اشیاء میں غور فکر اور تدبر کرکے اپنے خالق حقیقی کو پہچانے اور اسکی بندگی کرے کیونکہ اس نے انسان کو اپنی عبادت و بندگی کے لیے ہی  پیدا کیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (مفہوم) اور میں نے جِنّ اور آدمی اسی  لئے بنائے کہ میری بندگی کریں ۔(پ ۲۷،الذاریات:۵۶)۔

مذکورہ قرآنی مفھوم سے  معلوم ہوا ہمیں بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ہمیں زندگی دینے کا اصل مقصد یہی کہ ہم اس کی عبادت کریں۔اس نے اپنی عبادت و بندگی کرنے کے ہمیں بہت سے اطوار و طرق عطا کئے انہیں میں سے ایک عبادت روزہ بھی ہے جس کے رکھنے کا حکم اللہ نے تمام مومنین و مومنات کو  دیا ہے،جس کے ذریعہ سے انسان اپنی زندگی و آخرت کو باخیر بنا سکے اس لیے ان کا اللہ کے طرف سے عطا کردہ تمام اوامر و نواہی پرکار بند ہونا بھی ان کی زندگی کا عظیم مقصد ہے، کیونکہ ان کا خدا کی بندگی و ریاضت با ضابطہ کرنا عند اللہ مقرب و محبوب ہونے کا سبب ہے اور روز قیامت معبود حقیقی کو خوش کرکے درجات عالی پانے کا سبب ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔(مفھوم)وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی بہت عزت والا،بہت بخشش والا ہے۔(پ ۲۹،الملک:۲)۔

مذکورہ قرآنی مفھوم سے واضح  ہوا کہ اللہ نے ہمیں زندگی اسلئے عطا کی تاکہ وہ دیکھے کتنےبندیں ہیں جو میری حکم کی تابعداری کرتے ہیں اور میری بندگی کرکے توشہ آخرت جمع کرکےکامیاب ہوتے ہیں ۔اور موت کو اسلئے پیدا کیا کہ بعد موت صالحین و نیکوکار بندوں کو اعمال صالحات کرنےکی وجہ سے  جنت کا حقدار بنا کر ان کو ان کے اجر کا انعام و اکرام دے سکے ۔اور کافرین و مشرکین کو بعد موت ان کے اعمال سیئات کی وجہ سے فی النار کرکے ان کے اعمال سیئات کی سزا دے سکے ۔لیکن خیال رہے اللہ تعالی ہماری عبادت و ریاضت کا محتاج نہیں ہے۔تو اس لیے میں نے عزم مصم کیا کہ صیام مفروضہ کے بارے میں کچھ تحریر کردیا دیا جائے تاکہ آپ اس تحریر سے مستفید ہوں۔اللہ تبارک و تعالی مجھے اس کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے  

روزہ 

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کی نفسیاتی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ نفس کی طہارت ، اس میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام او ر نیکیوں میں سبقت حاصل کرنے کی طلب روزے کے بنیادی اوصاف میں سے ہیں۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ ہم روزےکو قرآن وسنت کی روشنی میں رکھنے ، افطار کرنے اور اس کے شرائط وآداب کو بجا لانے کا خصوصی خیال رکھیں۔

روزوں کی فرضیت کا بیان 

(مفہوم)اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔(پ،۲ البقرة: ۱۸۳)  اللہ تعالی نے رمضان کے مہینہ  کے روزے مسلمین و مسلمات پر فرض فرمائیں ہیں جس کا ذکر حدیث رسول میں موجود ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا  ماہ مبارک رمضان تمہارے پاس آیا ہے ، اللہ نے اس کے روز ے تم پر فرض کئے ہیں  ، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین بند کر دیے جاتے ہیں ، اس (ماہ) میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اس کی خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا تو وہ (ہر خیر و بھلائی سے) محروم کر دیا گیا ۔(مشكو’ة۱۹۶۲)۔

رمضان کے روزے ۱۰ شعبان ۲ ہجری میں فرض ہوئے تھے۔( مرأةالمناجيح،ج٣ ،ص ،۱۴۴)۔

رمضان المبارک کا مہینہ آنے پر ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت  پر روزہ رکھنا فرض ہوجاتا  ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (مفھوم) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو اس کے روزے ضرور رکھیں  (پ۲،البقرة: ۱۸۵)۔

بچوں  کو روزہ کب رکھوائے جائیں

اپنے بچوں کو جلد از جلد روزہ رکھنے کی عادت ڈلوائیں۔تاکہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو انہیں روزہ رکھنے پر دشواری نہ ہو۔فقہائے کرام فرماتے ہیں جب بچہ کی عمر دس سال ہوجائے اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اسے ماہ رمضان کے روزہ رکھوائے جائیں۔ اگر پوری طاقت ہونے کے باوجود نہ رکھے تو مار کر رکھوائیں ۔اگر رکھ کر توڑ دے تو قضا کا حکم نہ دیں گے،اور اگر نماز توڑے تو پھر پڑھوائیں گے۔

ہزار مہینوں سے افضل شب قدر

 

روزہ کی تعریف

۔شریعت میں  مسلمان کا صبح صادق  سے آفتاب ڈوبنے  تک بہ نیت عبادت کھانے پینے اور  صحبت  سے روکنے کا نام روزہ ہے۔

روزے کے تین درجے ہیں۔ ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرم گاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا خواص کا روزہ کہ انکے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ پاؤں اور تمام اعضا کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا کہ جمیع ماسوی اﷲ سے اپنے کو بالکلیہ جدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (عامۂ کتب)۔

سابقہ امتوں پر روزوں کی فرضیت کا بیان 

روزہ کا حکم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء کی شریعت میں جاری رہا ہے۔صرف تعیین ایام میں اختلاف رہا ہے اور یہ دین  اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اہم رکن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے  جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سھل ہوجائے۔

سابقہ انبیاء کرام بھی روزہ رکھنے کے بڑے شائق ہوا کرتے تھیں جسکی نظیر اب ہم میں نہیں ملتی اسلئے میں بہتر سمجھتا ہوں کہ وہ احادیث جن میں انبیاء کرام کے روزہ رکھنے کا ذکر ہے بیان کردوں

 حضرت نوح علیہ السلام اللہ کے ایسے جلیل القدر پیغمبر ہیں کہ جو ہمیشہ روزہ رکھا کرتے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ نوح علیہ السلام نے عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا(ابن ماجہ ،۱۷۱۴)۔

حضرت آ دم علیہ السلام ہر مہینہ میں ایام بیض کے روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے  جس کا ذکر حدیث میں ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، آپ آدھی رات سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سوئے رہتے ۔ (ابن ماجہ، ۱۷۱۲)۔

اور حضرت موسی علیہ السلام کی امت عاشوراء کا روزہ بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا کرتی تھی جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے بطور ثبوت ایک حدیث پیش کی جاتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آئے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اور فرعون کو پانی میں ڈبو دیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکریہ میں روزہ رکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔(ابن ماجہ (۱۷۳۴)۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی امت پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے تھے۔انہوں گرمی کی تکلیف سے بچنے کے لئے   خود با خود موسم بہار کے روزے رکھنا لازم کردئے اور بدلنے کے عوض بیس روزے اور بڑھا کر بجائے تیس کے پچاس بنا دئے۔اور یہودیوں پر بھی رمضان کے روزے فرض تھے جنہوں نے ان کو چھوڑ کر ایک عاشوراء کا روزہ رکھنا اختیار کیا تھا۔(تفسیر نعیمی ،ج ،۲،ص ۱۱۹۴) ۔۔

حضرت سلیمان علیہ السلام تین دن مہینے کے شروع میں   تین دن درمیان اور تین  دن آخر  میں (یعنی اس طرح ہر مہینہ میں ۹روزے )رکھا کرتے تھے 

 اور حضور علیہ السلام کی امت پر رمضان  المبارک کے پورے مہینہ کے روزے فرض کئے گیے ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں پر بھی پورے ایک مہینہ کے روزے فرض تھے ایک مرفوع حدیث میں  ہے کہ رمضان کے روزے تم سے  پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ  پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کرلیں اور سوجائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے جماع کرنا حرام ہے (تفسیر مصباحین۔ ج، ۱،ص۴۱۶)۔لکین دھیان رہے اب نا ہی رات میں کھانا پینا حرام ہے اور نا ہی اپنے بیبیوں سے جماع کرنا ۔بلکہ جائز ہے یہ حکم سابقہ امتوں کے لیے تھا اور نبی کریم کے دور میں بھی یہی حکم کئی دن رہا لیکن جب اللہ کے رسول پر( سورۂ بقرہ:۱۸۷)  کانزول ہوا تو حرمت کا حکم منسوخ ہوگیا۔

تو اللہ تعالیٰ نے رات میں کھانا پینا اور اپنی عورتوں سے جماع کرنا حلال کردیا ثبوت کے لیےاس ایت کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے (مفہوم) تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا، وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو ۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمادیا تو اب ان سے ہم بستری کرلو اور جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہوا ہے اسے طلب کرو اور کھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمہارے لئے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی(رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو اور عورتوں سے ہم بستری نہ کرو جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں توان کے پاس نہ جاؤ ۔اللہ یونہی لوگوں کے لئے اپنی آیات کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار ہوجائیں ۔ (پ۲،البقرہ: ۱۸۷)۔

روزے کا مقصد    

            مذکورہ قرآنی مفھوم (پ ،۲ البقرة:۱۸۳)کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو پانا وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔(مفھوم)  اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (پ ۳۰،النازعات:۴۰، ۴۱)۔۔

روزہ قاطع شھوت ہے اور خواہشات پر قابوں اور کنڑول پانے کا ذریعہ جسکا ذکر حدیث میں بھی مذکور ہے۔حضرت عبد الرحمان بن یزید سے مروی ہے کہ میں علقمہ اور اسود رضی اللہ عنھما کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔(بخاری شریف،۵۰۶۶)

     روزوں کو فرض کرنے کی حکمتیں

روزہ میں صدہا حکمتیں ہیں اسی لئے ہر قوم  اسکو عبادت جانتی ہے اگرچہ طریقوں میں قدر اختلاف ہو ۔ہم کچھ حکمتیں بیان کرتے ہیں۔(۱)روح عالم اجسام میں آنے سے پہلے کھانے پینے وغیرہ سے پاک و صاف تھی۔ اسی لیےگناہوں سے بھی محفوظ رہی۔اجزاء جسم کا بھی یہ ہی حال مگر جب یہ دونوں ملے تو جسم روح کی وجہ سے غذاؤں کی حاجت مند ہوئی اور گناہوں میں مبتلا۔تو ضرورت تھی کہ اب بھی کچھ روز ان کو مرغوب غذاؤں سے باز رکھاجائے تاکہ انہیں اپنی پہلی حالت یاد رہے اور پہلے کی طرح اب بھی گناہوں سے بچتے رہیں ۔(۲)نفس اور روح دو دشمن ہیں جن کا مقام جسم انسان ہے ان میں سے ایک کا قوی ہونا دوسرے کے ضعیف ہونے کا سبب ہے۔نفس جسمانی غذاؤں اور لذتوں سے قوی ہوتا ہےاور  روح نیک اعمال سے ۔تو ضرورت تھی کہ کچھ روز بھوکا رکھا جائے تاکہ نفس کمزور ہو۔

 

۔(۳)روزہ میں بھوک اور پیاس کی تکلیف کا پتہ چلتا ہے جس سے غذا اور پانی کی قدر ہوتی ہے اور انسان خدا کا شکر کرتا ہے ۔(۴) روزہ سے بھوکوں پیاسوں پر مہربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اغنیاء و مالدار اپنی بھوک کو یاد کرکے فقیر کی بھوک کا اندازہ لگاتےہیں۔(۵) روزہ رکھنے سے بھوک برداشت کرنے کی عادت رہتی ہے۔اگر کبھی کھانا میسرا نہ ہو تو انسان گھبراتانہیں اور نا ہی دوسںروں کا محتاج ہوتا ہے بلکہ بڑی آسانی کے ساتھ  صبر کرلیتا ہے۔(۶) بھوک بہت سی بیماریوں کا علاج ہے ڈاکٹر اور طبیب کہتے ہیں کہ  فاقہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہے کیونکہ اس سے معدہ کی اصلاح ہوتی ہے۔(۷)۔

(۸)روزہ بدنی عبادت ہے اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو نمود و نمائش سے پاک ہےاس بارے میں ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔‘‘ (ابن ماجہ ۱۷۴۶)۔۔

اللہ تعالی رمضان میں بالخصوص اپنے بندوں کو عام ندا کرتے ہوئے فرماتاہے اے بندے ۔ﷲ کی طرف آ،رسول اﷲ کی طرف آ،جنت کی طرف آ،مسجد کی طرف آ،عبادت کی طرف آ کیونکہ اب عمل قلیل پر جزائے جلیل ملے گی،زمانہ کمائی کا آگیا کچھ کمالے۔ گناہوں سے باز آ،غیراﷲ کی طرف  بھاگنے سے باز آ،رمضان رب کا مہمان ہے اس سے شرم کر۔۔جس کا تذکرہ حدیث میں ہے 

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، جہنم کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا ، اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے اے خیرو بھلائی چاہنے والے آگے آ، اور برائی چاہنے والے باز آ (رک جا) ، اور اللہ کی طرف سے لوگ جھنم سے آزاد کئے جاتے ہیں اور یہ ہر رات ہوتا ہے ۔(مشكو’ة ،۱۹۶۰)۔

حدیث میں مذکور اس آواز کا اثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں بے نماز نمازی ہوجاتے ہیں،بخیل سخی بن جاتے ہیں،بچے اور بیمار جو نماز سے گھبراتے ہیں روزہ پر حریص ہوتے ہیں حالانکہ روزہ نماز سے دشوار ہے روزہ میں عادتا سستی اور نیند بڑھ جاتی ہے مگر پھر بھی مسجدیں بھری رہتی ہیں اور راتیں ذکر اﷲ سے آباد۔رمضان کےمہینہ بھر روزانہ افطار کے وقت بہت سے ہم جیسے گنہگار جو اپنے گیارہ مہینوں کی بدکاریوں کی وجہ سے دوزخ کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں انہیں اﷲ روزہ کی برکت سے معافی دے دیتا ہے فرماتا ہے اگرچہ گنہگار ہیں مگر روزہ دار ہیں  میں نے ان کو بخش دیا 

روزہ اپنےرکھنے والوں کی اور قرآن اپنے پڑھنے والوں کی رب کی بارگاہ  معافی کی سفارش کریں گے اور بے گناہ بندے کی بلندیٔ درجات کی۔ لہذا قرآن و رمضان کی شفاعت سے سارے ہی مؤمن فائدہ اٹھائیں گے،چونکہ قرآن کریم رمضان المبارک ہی میں آیا اور رمضان میں ہی اس کی تلاوت زیادہ ہوتی ہے اور دن میں روزہ رات کو تراویح میں تلاوت قرآن ہوتی ہے اسی لیے یہ  دونوں رب کی بارگاہ میں التجا کریں گے۔قرآن رب کی بارگاہ میں اپنے قاری اور سامع کے حق میں التجا کرے گا    دنیا میں صائم روزہ افطار کرتا تو  اس کی طبیعت آرام کی طرف مائل ہوتی تھی،ہاتھ پاؤں میں سستی پھیل جاتی تھی  اس کے باوجود  نماز عشاء کی اذان کی آواز سنتے ہی تراویح میں مجھے سننے آجاتا تھا۔اور روزہ خدائے تعالی کی بارگاہ میں التجا کرےگا۔

اے مولی یہ تیرے لیے دن بھر بھوک اور پیاس برداشت کرتا تھا مولی اس کے سامنے پانی موجود ہوتا تھا لیکن یہ پانی نہیں پیا کرتا تھا کیونکہ یہ تیرے خوف کو اپنے دل میں بسائے ہوئے تھا۔اورتمام منہیات سے اپنے ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک، زبان، اورقلب و ذہن کی حفاظت کرتا تھا۔ لہذا قرآن و روزہ اپنے قارئین ،سامعین اور صائمین کی رب بارگاہ میں شفاعت کرکے ان کو جنت  دلا کر خوش کریں گے۔جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن بندے کے لیے سفارش کریں گے ، روزہ عرض کرے گا ، اے رب  میں نے دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے اسے روکے رکھا ، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن عرض کرے گا میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا ، اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما ، ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔(مشكو’ة، ۱۹۶۳)۔۔

روزہ کے فوائد

کسی بھی عبادت اور کسی بھی عمل کا سب سے بڑا  فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل ہوجائے اور پرودگار کی رحمت کاملہ اس عمل اور عبادت کرنے والے کو دین اور دنیا دونوں جگہ اپنی آغوش میں چھپالے ظاہرہے کہ اس اعتبار سے روزہ کا فائدہ بھی بڑا عظیم الشان ہوگا مگر اس کے علاوہ روزے  کے کچھ اور بھی روحانی اور  دینی فوائد ہیں جو اپنی اہمیت و عظمت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں ان میں سے کچھ فائدے بیان کئے جاتے ہیں 

روزہ کی وجہ سے خاطر جمعی اور قلبی سکون حاصل ہوتاہے نفس امارہ کی تیزی و تندی جاتی رہتی ہے اعضاء جسمانی اور بطور خاص وہ اعضاء جن کا نیکی اور بدی سے براہ راست تعلق ہوتا ہے جیسے ہاتھ، آنکھ، زبان، کان اور ستر وغیرہ ست ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کی خواہش کم ہو جاتی ہے ۔اور معصیت کی طرف رجحان ہلکا پڑ جاتاہے۔چنانچہ  اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء سیر ہوتے ہیں یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیں ہوتی اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاء بھوکے ہوتے ہیں انہیں کام کی طرف رغبت ہوتی ہے اس قول کی وضاحت یوں سمجھ لیجئے کہ جسم کے جتنے اعضاء ہیں قدرت نےانہیں اپنے مخصوص کاموں کے لیے پیدا کیا ہے مثلا آنکھ کی تخلیق دیکھنے کے لیے ہوئی ہے گویا آنکھ کا کام دیکھناہے ۔۔

لہذا بھوک کی حالت میں آنکھ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے راغب نہیں ہوتی ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہوتاہے تو آنکھ اپنا کام بڑی رغبت کے ساتھ کرتی ہے ہر جائز نا جائز کو دیکھنے کی خواہش کرتی ہے اسی پر دیگر اعضاء کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔روزہ کی وجہ سے دل کدورتوں سے پاک و صاف ہو جاتا ہے کیونکہ  دل کی کدورت آنکھ ،زبان اور دوسرے اعضاء کے فضول کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی زبان کا ضرورت و حاجت سے زیادہ کلام کرنا آنکھوں کا بلا ضرورت دیکھنا اسی طرح دوسرے اعضاء کا ضرورت سے زیادہ اپنے کام میں مشغول رہنا افسردگی دل اور رنجش قلب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ روزہ دار فضول گوئی اور فضول کاموں سے بچارہتا ہے بدیں وجہ اس کا دل صاف اور مطمئن رہتا ہے اسی طرح پاکیزگی دل اور اطمینان قلب اچھے نیک کاموں کی طرف میلان و رغبت اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔

روزہ مساکین و غرباء کے ساتھ حسن سلوک اور ترحم کا سبب ہوتا ہے کیونکہ جو شخص بھوک کا غم جھیل چکا ہوتا ہے اسے اکثر و بیشتر وہ کربناک حالت یاد آتی ہے چنانچہ وہ جب کسی شخص کو بھوکا دیکھتا ہے تو اسے خود اپنی بھوک کی وہ حالت یاد آجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا جذبہ ترحم امنڈ آتا ہے

 روزہ دار اپنے روزہ ہونے کی حالت میں گویا فقراء مساکین کی حالت بھوک کی مطابقت کرتاہے بایں طور کہ جس اذیت اور تکلیف میں وہ مبتلا ہوتے ہیں اسی تکلیف اور مشقت کو روزہ دار بھی برداشت کرتا ہے اس وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ  بہت بلند ہوتاہے جیسا کہ ایک بزرگ بشر حافی کےبارے منقول ہے کہ ایک شخص ان کے پاس جاڑے کے موسم میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا کہ وہ بیٹھے ہوئے کانپ رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنے کپڑے موجود تھےجو ان کو سردی سے بچا سکتے تھے مگر وہ کپڑے الگ رکھے ہوئے تھے۔اس شخص نے یہ صورت حال دیکھ کر ان سے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے سردی کی اس حالت میں اپنے کپڑے الگ رکھ چھوڑیں ہیں۔انہوں نے کہا میرے بھائی فقراء و مساکین کی تعداد بہت زیادہ ہے مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں ان کے کپڑوں کا انتظام کروں لہذا (جو چیز میرے اختیار میں ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں کہ)جس طرح وہ لوگ سردی کی تکلیف برداشت کررہے ہیں اس طرح میں بھی سردی کی تکلیف برداشت کررہا ہوں اس طرح میں بھی ان کی مطابقت کررہا ہوں۔

یہی جذبہ  ہمیں ان اولیاء عارفین کی زندگیوں میں بھی ملتا ہے جن کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کھانے کے وقت ہر ہر لقمہ پر یہ دعائیہ کلمات کہا کرتے تھے۔اللھم لاتواخذنی بحق الجائعین۔اے اللہ مجھ سے بھوکوں کے حق کے بارے میں مواخذہ نہ کرنا۔حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط سالی نے پورے ملک کو اپنے مہیب سایہ میں لے لیا اس وقت آپ کے پاس بے انتہا غلہ کا ذخیرہ ہونے کے باوجود آپ پیٹ بھر کر کھانا صرف اس لیے نہیں کھاتے  تھے کہ کہیں بھوکوں کا خیال دل سے نکل نہ جائے نیز انہیں اس طرح بھوکوں اور قحط زدہ عوام کی تکلیف ومصیبت سے مشابہت اور مطابقت حاصل رہے۔

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کی عظمت

 

رسول اللہ کی سخاوت رمضان میں 

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں اور مہینوں کے با مقابل زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے ویسے بھی کوئی بھی سائل کبھی بھی آپ  کے دروازے سے خالی نہیں لوٹا  جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں ملتے، جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔  (بخاری ۱۹۰۲)۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب ماہ رمضان آتا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے اور ہر سائل کو عطا کیا کرتے تھے ۔ (مشکو’ة، ۱۹۶۶)۔

اغنیاء اور مالدار مسلمانوں سے ایک خاص عرض

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم لوگ ایک پرخطر، پرسوز، کربناک،ماحول سے دوچار ہیں اور گزر رہے ہیں ،یعنی کورنا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں ہم اپنے گھروں میں مقفل ہیں تقریبا ۵۰ ایام لاک ڈاؤن کے گزر چکے ہیں اور ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ایسا کتنے دن اور رہے گا  اس ماحول میں غرباءاور مساکین  بھکمری اور فاقہ کشی کے شکار ہیں بالخصوص وہ لوگ جو فی دن کسب معاش کرتے ہیں تو کہیں جاکر ان کے گھر کا چولھا جلتا ہے تو ایسے لوگوں کا خاص طور پر دھیان رکھے اور اپنے پڑوس میں دیکھے اپنے محلے میں تلاش کریں اور ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کریں اور اگر خود نہ کرسکیں تو مخلص اہل خیر حضرات کو اطلاع دیں تاکہ وہ انکے کھانے پینے کا انتظام کریں لیکن اس بات کا دھیان رکھے کسی کو آناج ،غلہ خورد و نوش کی اشیاء دیتے وقت  فوٹو اور بیڈیوں نکال کر ان کی غریبی کا مذاق نہ بنائے۔ بلکہ اپنے معبود حقیقی کو خوش کرنے کے لیے فرخ دلی سے سخاوت کریں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ 

رمضان کا مبارک مہینہ بھی ھمارے سروں پر سایہ فگن ہے غریب روزہ داروں  کے لیے سحری و افطار کا انتظام کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کریں کیونکہ رسول اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ۔جو کوئی رمضان المبارک میں کسی مسکین کو صدقہ دے تو اس کے لیے اسقدر ثواب ہوگا کہ گویا اس نے دنیا کی تمام چیزیں صدقہ میں دے دیں۔ 

جو کوئی بھو کے کو کھانا کھلائے گا یا روزہ دار کو افطار کرائے گا تو اس کو اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جس نے بقدر پوری زمین کے غیر رمضان میں اللہ کی راہ میں سونا خرچ کیا ہو۔

جو کوئی رمضان المبارک میں کسی ننگے کو کپڑا پہنائے گا تو قیامت کے دن تمام مخلوق کے سامنے اللہ تعالی اس کو ۶۰ ساٹھ لاکھ جتنی حلے(جوڑے) پہنائے گا۔

جو شخص کسی ایسے شخص کو جوتے پہنائے گا جس کو جوتے میسر نہ ہوں تو اللہ قیامت میں اس کو نور کا براق عطا کریگا۔جس پر وہ سوار ہوکر پل صراط سے چمکتی ہوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا (فیضان سنت ۱۰۹۶ تا ۱۰۹۷)۔

ایک ضروری انتباہ

 حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (بخاری شریف ۱۹۰۳)مذکورہ حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنا چاہیے جو روزہ کی حالت میں جھوٹ ،دغا  بے حیائی مکرو فریب  چوری چکاری جیسے  افعال قبیحہ کرتے ہیں اور اپنے روزوں کو  تباہ و برباد کرتے ہیں افعال منہیات   کا با حالت روزہ کرنا گویا اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھنا ہےایسا روزہ رکھنے والوں کو ثواب  نہیں دیا جاتا بلکہ  ایسے لوگوں کے روزوں کو اللہ بروز حشر ان کے منھ پر مار دے گا۔

 تمام لغویات و نواہی سے بچنے کا حکم شریعت مطہرہ کی طرف سے ہر مومن و مومنہ  پر لازم و ضروری ہے اور خاص کر با حالت روزہ۔

قیامت میں مفلس کون 

حد یٹ میں آیا ہے، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے استفسار فرمایا ، کیا تم جانتے ہوں میری امت میں سے قیامت کے دن مفلس کون ہوگا ؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یا رسول اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم جس کے پاس درہم و دینار نہ ہو وہ مفلس ہے۔تو آپ نے فرمایا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ،زکوة،حج لیکر تو آئے مگر ساتھ ہی کسی کو گالی بھی دی ہو،کسی کا مال کھایا ہو،کسی کا خون کیا ہو،کسی کو مارا ہو،تو مدعی آجائیں اور عرض کریں اے پروردگار اس نے مجھے گالی دی ،اس نے مجھے مارا،اس نے میرا مال کھایا،اس نے میرا خون کیا۔تو اس کی نیکیاں ان مدعیوں مظلوموں کو دےدی جائیں تو اگر نیکیاں ختم ہوجائیں اور کوئی نیکی باقی نہ رہے،اور اگر مزید حقدار باقی ہوں تو ان کے گناہ ان پر ڈال دیئےجائیں پھر اسکو دوزخ کا حکم سنایا جائے اور وہ دوزخ میں ڈالا جائے۔(مسلم، ترمذی)۔

یعنی حقیقت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے روز نماز،روزہ،حج،زکوة،ہونے کے باوجود خالی خالی رہےجائے۔

سحری اور افطار روزہ داروں کے لیے رحمت و برکت ہیں  ۔ اس ضمن میں چند احادیث بیان کی جاتی ہیں 

۔حضرت انس ابن مالک سے مروی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔(بخاری شریف ،۱۹۰۲۳)۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ ہمارےروزے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کافرق ہے ۔(مسلم شریف ،۲۵۵۰)۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:سحری کھایا کرو، بلا شبہ سحری کھانے میں برکت ہے۔(نسائی شریف، ۲۱۴۶)۔

ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ سحری تناول فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: بلا شبہ سحری برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے، لہٰذا تم اسے نہ چھوڑو۔(نسائی شریف ،۲۱۶۴)۔

حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان المبارک میں سحری کی دعوت دیتے سنا۔ آپ فرما رہے تھے:آؤ اس مبارک کھانے کی طرف۔(نسائی شریف ۲۱۶۵)۔

 جب افطار کا وقت ہوجائے تو افطار میں جلدی کرنے والوں کو  اللہ تعالی محبوب رکھتا ہے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔(ترمذی ،۷۰۰)۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے ۔(مسلم شریف،۴۵۵۴)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ جب رات آجائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ رکھنے والے کو روزہ افطار کرلیناچاہیے ۔(مسلم شریف،۲۵۵۸)۔

حضرت انس ابن مالک نے کہا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( مغرب ) پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے تھے، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کر لیتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ مل پاتیں تو چند گھونٹ پانی نوش فرما لیتے(ابو داؤد،۲۳۵۶)۔

 حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو وہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ وہ باعث برکت ہے ، اگر وہ نہ پائے تو پھر پانی سے افطار کر لے کیونکہ وہ باعث طہارت ہے ۔(مشکو’ة،۱۹۹۰)۔مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کھجوروں سے روزہ افطار کرنا چاہیے اگر کھجورویں نہ ہوں  تو چھواروں سے افطار کریں اگر یہ بھی نہ تو پانی سے افطار کریں یہی مسنون طریقہ ہے۔

روزہ دار کے ہرافعال پر فرشتے نظر رکھتے ہیں تاکہ وہ جو فعل خیر کریں اور سحری و افطار  کے وقت وہ جتنے لقمے  کھانا کھائیں  یا جتنے قطرے پانی  پیئیں ہر لقمہ  و گھونٹ اور ہر ادا پر ثواب دیا جا سکے ۔

 حضرت زید بن خالد بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے یا کسی مجاہد کی تیاری کرا دے تو اسے بھی اس (روزہ دار یا مجاہد) کی مثل اجر ملتا ہے ۔

مذکورہ حدیث سے  معلوم ہوا جو شخص کسی روزہ دار  کو افطار کراتا ہے تو اس کو روزہ دار کے مثل ثواب ملتا ہے اور روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی بھی نہیں کی جاتی یہ سب روزہ کی برکتیں  ہیں جو اللہ ہمیں عطا کرتا ہے۔

لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم نے روزہ دار کو افطار کرادیا تو ہمیں روزہ دار کے مثل ثواب مل گیا اب ہمیں روزہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حدیث بکل صحیح ہے افطار کرانے والے کو  روزہ دار کے مثل ہی ثواب ملےگا لیکن روزہ کی فرضیت  اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوگی جب تک خود روزہ نہ رکھے اس کو ایسے سمجھ جیسے اطباء حضرات کہتے ہی کہ ایک منقی کھانے سے ایک روٹی کی طاقت آتی  ہے لیکن پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کھانے کی ضرورت پڑتی ہے

روزہ رکھنے والوں کے لیے رب کی جانب سے جو انعام و اکرام ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے ان کو بیان کیا جاتا ہے 

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھے، اللہ تعالیٰ اس ایک دن کی وجہ سے آگ کو اس کے چہرے سے ستر سال کے فاصلے تک دور فرما دے گا۔(نسائی ,۲۲۵۳)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو آدمی ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے گا تو اس کے سب پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔)نسائی،٢٢٠٧)۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ عزوجل کے راستے میں ایک دن روزہ رکھے، اللہ تعالیٰ جہنم کو اس سے سو سال کی مسافت تک دور فرما دے گا۔(نسائی، ۲۲۵۶)۔

حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی حقیقی جزا دوں گا۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک، جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ دوسرا جب وہ اللہ تعالیٰ کو ملے گا، پھر اللہ اسے روزے کا بدلہ دے گا تو وہ خوش ہوگا۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی پاکیزہ تر ہے(نسائی،۲۲۱۵)۔

حضرت سھل سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے ( روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، ( یہ الفاظ ) دو مرتبہ ( کہہ دے ) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ( دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔(بخاری ، ۱۸۹۴)۔

حضرت سھل رضی اللہ تعالی عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا۔( بخاری ۱۸۹۶)۔

حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہو گا اسے «باب الريان» سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہو گا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں ( میں سے کسی ایک دروازہ ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ (بخاری شریف ۱۸۹۷)۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرے (نماز تراویح کا اہتمام کرے) تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، اور جو شخص ایمان و اخلاص اور ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں(مشکوة،۱۹۵۸)۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزے کے سوا ، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ، وہ اپنی خواہش اور اپنے کھانے کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے ۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ، ایک فرحت و خوشی تو اس کے افطار کے وقت ہے جبکہ ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہے ، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے ، اور روزہ ڈھال ہے ، جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش گوئی اور ہذیان سے اجتناب کرے ، اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو وہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں ۔(مشكو’ة,۱۹۵۹)۔

سلمان فارسی رضیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شعبان کے آخری روز ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :۔

 لوگو ! ایک با برکت ماہ عظیم تم پر سایہ فگن ہوا ہے ، اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اللہ نے اس کا روزہ فرض اور رات کا قیام نفل قرار دیا ہے ، جس نے اس میں کوئی نفل کام کیا تو وہ اس کے علاوہ باقی مہینوں میں فرض ادا کرنے والے کی طرح ہے اور جس نے اس میں فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اس کے علاوہ مہینوں میں ستر فرض ادا کیے ، وہ ماہ صبر ہے جب کے صبر کا ثواب جنت ہے ، وہ غم گساری کا مہینہ ہے ، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ، جو اس میں کسی روزہ دار کو افطاری کرائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا اور جہنم سے آزادی کا سبب ہو گی اور اسے بھی اس (روزہ دار) کی مثل ثواب ملتا ہے اور اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔

ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ۔! ہم سب یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ ہم روزہ دار کو افطاری کرائیں ، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما دیتا ہے جو دودھ(لسی) کے گھونٹ یا ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کر دیتا ہے تو اللہ اسے میرے حوض سے (پانی) پلائے گا تو اسے جنت میں داخل ہو جانے تک پیاس نہیں لگے گی اور وہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول (عشرہ) رحمت ، اس کا وسط مغفرت اور اس کا آخر جہنم سے خلاصی ہے ، اور جو شخص اس میں اپنے مملوک سے رعایت برتے گا تو اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے جہنم سے آزاد کر دے گا (مشکو’ة،۱۹۶۵ 

روزہ نہ رکھنے والے کے لیے سخت وعیدیں 

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ صَلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے دن کا ایک روزہ بغیر رخصت بغیر مرض کے چھوڑ دیا تو زمانہ بھر کا روزہ اس کی   قضا نہیں ہوسکتا اگر چہ بعد میں رکھ. بھی لے (بخاری شریف) یعنی وہ فضیلت جو رمضان میں روزہ رکھنے کی تھی اب نہیں پاسکتا۔لہذا ہمیں ہرگز ہرگز غفلت کا شکار ہوکر روزے

جیسی عظیم نعمت نہیں چھوڑنی چاہیئے۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے ایک حدیث نقل کی جس میں بیان کیا گیا کہ جس نے بغیر کسی  عذر شرعی کے  ایک بھی روزۂ رمضان ترک کیا تو وہ ۹لاکھ برس جھنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔

مسلمانوں ہوش میں آؤ کب تک اس دنیا میں گلچھرے اڑاتے رہوگے؟ کیا تمھیں مرنا نہیں ہے؟ کیا اس دنیا میں ہمیشہ اسی طرح دندناتے پھروگے؟ ہرگز نہیں ایک نہ ایک دن موت ضرور آئے گی اور تمھارا رشتۂ حیات منقطع کرکے نرم و نازگ پلنگ اور گداز و آرام دہ تکیوں سے اٹھا کر مٹی پر سلادے گی۔ بہترین ہوا دار ٹھنڈے ٹھنڈے اور ہر طرح کے سامان طرب و راحت کے کمروں  سے اٹھا کر اندھیری قبروں میں پہنچادے گی پھر پچتانے سے کچھ ہاتھ نہ آئےگا ۔ابھی موقعہ ہے گناہوں سے سچی توبہ کرلو اور روزہ و نماز کی پابندی اختیار کرو۔

روزہ دار کا ایمان کتنا پختہ ہے

سخت گرمی ہے،پیاس سے حلق سوکھ رہا ہے،ہونٹ خشک ہورہےہیں،مگر روزہ دار پانی موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی طرف دیکھتا تک نہیں، کھانا موجود ہے ،بھوک کی شدت سے حالت دگرگوں ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھتا۔آپ اندازہ فرمائیں روزہ دار کا خدا پر کتنا پختہ ایمان ہے اور کتنا زبر دست یقین ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ اس کی حرکت ساری دنیا سے تو چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔اس کا اللہ پر یہ یقین کامل روزے کا عملی نتیجہ ہے کیونکہ دوسری عبادتیں کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہے مگر روزے کا تعلق باطن سے ہے۔اس کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

مجوسی جنتی ہوگیا

شہر بخارہ میں ایک مجوسی رہتا تھا۔ایک مرتبہ رمضان شریف میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مسلمانوں کے بازار سے گزررہا تھا اس کے بیٹے نے کوئی چیز اعلانیہ کھانی شروع کردی۔مجوسی نے جب یہ دیکھا تو اپنے بیٹے کو ایک طمانچہ رسید کردیا اور خوب ڈانٹ کر کہا تجھے رمضان شریف کے مہینہ میں مسلمانوں کے بازار میں کھاتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ لڑکے نے جواب دیا، اباجان آپ بھی تو رمضان شریف میں کھاتے ہیں۔والد نے کہا ٹھیک ہے میں بھی کھاتا ہوں ۔مگر چھپ کر اپنے گھر میں کھاتا ہوں،مسلمانوں کے سامنے نہیں کھاتا۔اور اس ماہ مبارک کی بے حرمتی نہیں کرتا۔کچھ عرصہ کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔کسی نے خواب میں اسے جنت میں ٹہلتے ہوئے دیکھا تو اسے بڑا تعجب ہوا پوچھا تو تو مجوسی تھا جنت میں کیسے آگیا؟ کہنے لگا واقعی میں مجوسی تھا لیکن جب موت کا وقت قریب آیا تو اللہ نےاحترام رمضان کی برکت سے مجھے ایمان کی دولت سے اور مرنے کے بعد جنت سے سرفراز فرمادیا۔اللہ ہمیں بھی ماہ صیام کا احترام و ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دیکھا آپ نے ماہ رمضان، روزہ اور روزہ داروں کی تعظیم کے سبب آتش پرست کو اللہ نے نہ صرف دولت ایمان سے مالا مال کردیا بلکہ اس کو جنت کی لازوال نعمتوں سے بھی نواز دیا۔اس واقعہ سے خصوصا ہمارے ان غافل بھائیوں کو درس عبرت حاصل کرنا چاہیے جو مسلمان ہونے کے باوجود ماہ رمضان کا بالکل  احترام نہیں کرتے۔  اول تو وہ روزہ نہیں رکھتے ۔پھر نڈر اور بیباک اتنے کہ لوگوں کے سامنے ہی سگریٹ کے کش لگاتے ہیں بلکہ پان بھی چباتے ہیں حتی کہ بعض تو اتنے بیباک و بے مروت ہوتے ہیں کہ سر عام پانی پیتے بلکہ کھانا تک کھاتے بھی نہیں شرماتے یاد رکھئے۔فقہائے کرام فرماتے ہیں جو شخص بغیر کسی مجبوری کے علی الاعلان جان بوجھ کر کھائے پئے اس کو قتل کردیا جائے۔

ویسے یہ حکم حاکم اسلام کے لیے ہے۔کہ وہ اس قسم کے روزہ خوروں کو سزا دے عوام الناس کا یہ کام نہیں۔ عوام روزہ خوروں کو ممکن ہو تو  سمجھائیں ورنہ انکا ہر طرح سے  بائیکاٹ کریں  تو ہم قوم مسلم کی ذمہ داری ہے کہ اگر با عذر شرعی روزہ نہیں رکھتے تو ماہ رمضان میں روزہ داروں کی تعظیم کریں ان کے سامنے کھانے پینے اور ،بیڑی سگریٹ پان گٹکھا کھانے پینے سے اجتناب کریں ۔ اور اس ماہ مبارک میں روزہ ۔نماز ،نماز تراویح ،اور تلاوت قرآن رکھنے پڑھنے کا خاص خیال رکھیں۔اور غرباء و مساکین و مستحقین ۔کے لیے سحری و افطار کا انتظام کریں اور ان کی  مدد کریں۔ آمین بجاہ النبی الامی الکریم صَلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم۔

تحریر: محمد دانش رضا منظری پیلی بھیت

استاذ جامعہ احسن البرکات فتح پور،یوپی،الھند
 
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن