تحریر محمد مجیب احمد الفیضی بلرامپوری رمضان کا تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی اعتکاف اور شب قدر کا ہے
رمضان کا تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی
رمضان المبارک بڑا مقدس اورخیروبرکت والا مہینہ ہے۔ رحمت وانوار میں ڈوبا ہوا یہ بابرکت ماہ صیام بڑاہی پاک اور افضل مہینہ ہے۔
اس مہینے کو رب تعالی نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے ۔اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کو تین عشروں میں تقسیم فر ماتے ہوئے پہلا عشرہ”رحمت “دوسرا بخشش”اور تیسرا جہنم سے آزادی کا قراردیا ہے۔ رب کی توفیق اور اس کی مدد سے پہلا عشرہ ختم ہو چکا ہے۔ اور بفضلہ تعالی دوسرا عشرہ بھی قریب الاختتام ہونے کو ہے۔
اور اس کے بعد پھر آپ اور ہم اس با برکت مہینے کے اس آخری عشرہ میں قدم رکھنے کو ہیں جس کو پیغمبر اسلام حضوررحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم سے آزادی کا عشرہ قرار دیا ہے ۔
اس پاک مہینے کا یہ اخیر عشرہ لوگوں کو اپنے گناہوں سے معافی مانگنے اور رب کے حضور اپنے کئے ہوۓ پر نادم پشیمان کا ہے ۔بندہ جب صدق دل سے اس کے حضور انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ اپنے کئے پر توبہ کرتا اور شرمندہ ہوتا ہے۔ دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرتا ہے۔ تو اللہ جل مجدہ الکریم اپنے اس گناہ گار سیہ کار نالائق بندے کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور اس کے سارے گناہوں کو ا پنے فضل وکرم سے معاف اور درگزر فرمادیتا ہے۔ اور وہ اپنے فضل بیکراں سے اس بندے کے سارے گناہوں کی مغفرت فرماء دیتا ہے ۔ بشرطیکہ گناہوں سے شرابور یہ عصیاں شعار بندہ فساق وفجار کی طرح شریعت مطہرہ پر عمل نہ کرنے والا یہ صغائر وکبائر کا مرتکب بندہ اپنی جبین نیاز کو اس کی بارگاہ صمدیت میں خم تو کرے۔اس سے معافی تو مانگے ان کے سامنے روئے گڑ گڑائے تو سہی ۔
(شعر)
جومانگنےکا طریقہ ہے اسطرح مانگو
در کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا
چنانچہ اللہ رب العزت قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔کہ لاتقنطو من رحمۃ اللہ (القرآن) ترجمہ: اللہ کی رحمت سے نا امید مت ھوؤ۔ مسلمانوں ! نا امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے والوں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ اس وحدہ لاشریک کی بارگاہ بے نیاز میں اپنے گناہ صغائر وکبائرکی معافی مانگنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے سر کو اس کے بارگاہ بے کس پناہ میں سجدہ ریز کر نے کی ہے اس سے رونے اور گڑ گڑانے کی ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس ماہ صیام میں جہنم کے ابواب بند کر دیئے جاتے اور جنت کے ابواب کو کھول دیئے جاتے اور شرکس شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں اس لئے اس عشرے میں خوب خوب گریہ وزاری اور مغفرت کی دعا کرو ۔ اور میرا یقین کہتا ہے کہ آپ کے فواحشات اور بڑےسے بڑےگناہوں کی بھی اس کی رحمتوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کی رحمتوں کا موازنہ عالم کی کسی بھی شی سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔
اس ماہ مقدس میں اعتکاف کی شرعی حیثیت
قرآن حکیم میں ہے۔
۔وانتم عاکفون فی المساجد۔ ترجمہ:اور تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ( القرآن)۔
اعتکاف ایک عر بی زبان کا لفظ ہے ۔ اعتکاف لغت میں! لزوم الشئ وحبس النفس علیہ۔یعنی اپنے اوپر کسی چیز کا لزوم اور اپنے آپ کو اس کیلئے روکے رکہنا ہے ۔اوراصطلاح شرع میں! اس کے متعلق امام بغوی رحمۃاللہ علیہ رقم طراز ہیں: الاعتکاف ھو الاقامۃ علی الشی فقیل لمن لازم المسجد واقام العبادۃفیہ معتکف وعاکف فیہ – ترجمہ: اعتکاف وہ کسی چیز پر ہمیشگی کرنا ہے .پس جو مسجد کو لازم کر لے اور اس میں عبادت پر ہمیشگی کرے تو اس کو عاکف اور معتکف کہا جاتا ہے ۔
اوراس حوالے سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وھو فی اللغۃ:الحبس والمکث واللزوم : وفی الشرع:المکث فی المسجد من شخص مخصوص بصفۃ مخصوصۃ یسمی الاعتکاف:ترجمہ: اعتکاف لغت میں روکنا ٹہرنا اور لازم پکڑنے کا نام ہے اور شریعت کی اصطلاح میں مخصوص شخص کا مخصوص صفت کے ساتھ بہ نیت عبادت مسجد میں ٹہرنے کا نام اعتکاف ہے۔ خلاصہ یہ ھوا کہ اعتکاف شریعت اسلامی کی اصطلاح میں رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھرنے کا نام ہے۔ ایک معتکف کی توجہ اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ۔ کیسے بھی کرکے اس سے اس کا رب راضی ہو جائے۔ اور اسی کو راضی کرنے کے لئے ہمیشہ توبہ استغفار ودیگر اذکار واعمال صالحہ میں منہمک مستغرق رہتا ہے ۔
عیدالفطر لیلۃالجائزۃ اور غریبوں کے امداد کا دن اس مضون کو بھی پڑھیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں
۔(1) اعتکاف واجب۔ (2)۔اعتکاف سنت موکدہ۔ (3) اعتکاف مستحب۔ ہر ایک کی تعریف وتفصیل فقہ کی چھوٹی بڑی کتابوں میں موجود ہے۔
اعتکاف
ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان دنیا میں رہ کر بھی دنیا اور اہل دنیا سے علیحدہ اور کنارہ کش ہو جاتا ہے ۔ حتی کہ اپنے گھر بار اہل وعیال اور اپنے رفیقۂ زندگی کو بھی ترک کردیتا ہے۔ اور اپنے مالک و مولی کی عبادت وریاضت تسبیح وتہلیل اور ذکر واذکار کیلئے مسجد میں اپنے آپ کو خاص کر لیتا ہے۔
چنانچہ فقہاۓ کرام رحمہم اللہ نے ایک معتکف کیلئے مسجد میں رہنا لازمی قرار دیا ہے۔اور شاید اس لئے کہ خانۂ خدا میں رہ کر بندے کا دل و دماغ کا میلان اور اس کا جھکاؤ معبود حقیقی کی طرف ہو گا اور دنیا سے انقطاع ا ور بیزار ہوگا۔
اعتکاف کی فضیلت حدیث کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں اعتکاف کی بڑی فضیلتں آئی ہیں ۔چنانچہ!امہات المؤمنین طیبہ طاہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اعتکاف کرتی تھیں( بخاری )۔
مذکورہ حدیث میں اگر اعتکاف کی عند الشرع اہمیت نہ ہوتی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پرملال کے بعد امہات المومنین پاپندی کے ساتھ اعتکاف نہ کرتیں ۔امہات المومنین کا بعد وصال نبی بھی تواتر کے اعتکاف کرنا اس کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔مسلمانوں کو اس پر خلوص کے ساتھ عمل کرنا چاہئیے۔
اور دوسری حدیث جو حضرت علی ۔(زین العابدین )بن حسین اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ !من اعتکف عشرا فی رمضان کان لحجیتین وعمرتین :بیہقی شعب الایمان ترجمہ: جس شخص نے رمضان الکریم کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو اسے دو حج اور دو عمرہ کاثواب ملتا ہے۔
ایک ور مقام پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی المولی عنہ سے مروی ہے۔ کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ جو شخص رب کی رضا کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے
تو اللہ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ فرما دیتاہے ہر خندق مشرق ومغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(طبرانی الاوسط)۔
شب قدر کی اہمیت وفضیلت
ویسے تو رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ خیر وبرکت کاہے۔ اس کی ہرایک آن رحمتوں اور برکتوں سے بھر پورہے۔ اس کی رحمت وبرکت سے انکارنہیں کیاجا سکتا۔ہمیشہ کی طرح اب بھی رمضان الکریم آخری ساعتوں کا مہمان ہے لیکن جاتے جاتےفرزندان توحید کی جھولی میں ایک ایسا تحفہ دے کے رخصت ہو رہا ہے
۔جسے اسلامی دنیا میں شب قدر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جی ہاں وہی لیلۃ القدر
جس کو شب قدر کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے بڑی رحمت وبرکت والی را ت
ہے چنانچہ اللہ جل مجدہ الکریم نے فکر انسانی کو اس کی عظمتوں سے واقف کروانے اور ا سکی افضلیت کو بتانے کیلئے قرآن حکیم میں شب قدر کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ! لیلۃ القدر خیر من الف شہر( القرآن)ترجمہ :قدرکی رات ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔
متذکرہ بالا آیت مقدسہ سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ خالق عالم نے شب قدر کی ایک رات کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔ پھر پورے مہینے کی برکتوں کا حال کیا ہوگا ! کتنا بد نصیب ہوگا وہ شخص جورمضان المبارک اور شب قدر جیسی عظیم رات پاکر اپنی مغفرت اپنی بخشش نہ کروا پائے ۔اور اس رات کو بھی اور راتوں کی طرح لہو لعب میں گزار دے۔ حرماں نصیبی دامن گیر ہوگی اس شخص کو جو اس رات کو بھی بے رہروی کا شکار ہو کے صرف سونے میں گزار دے ۔بڑی برکت والی رات ہے یہ اعمال کو سنوارنے کی رات ہے۔ مقدر کو جگانے کی رات ہے۔رب کو منانے کی رات ہے ۔اپنی سوئی ہوئی تقدیر کو بیدار کرنے کی رات ہے ۔ ہم جیسے گناہگاروں عصیاں شعاروں کیلئے نکموں کیلئے جہنم سے آزادی یعنی بخشش و مغفرت کی رات ہے ۔
مسلمانوں کو اس رات میں خوب خوب عبادت کرنی چاہئیے۔ رب کی بارگاہ میں صدق دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی رونا گڑگڑانا چاہئیے ۔توبہ استغفار کرنا چاہئیے ۔راتوں رات شب بیداری کرنی چاہئیے۔ زیادہ سے زیادہ عبادت اور تسبیح وتہلیل ودیگر اعمال صالحہ کرنا چاہئیے۔
محمد مجیب احمد الفیضی بلرامپوری
سابق استاذ : دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف
رابطہ نمبر 8115775932