Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتتراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

تحریر :_محمد ہاشم اعظمی مصباحی تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت  تیسری قسط_____(گذشتہ سے پیوستہ) ۔

تراویح کی تاریخی اور شرعی حیثیت

نماز تراویح اور ائمہ اربعہ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سنتوں اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے مقدس طریقوں کی حفاظت وتدوین  جس جامعیت اور تفصیل کے ساتھ حضرات ائمہ اربعہ نے فرمائی ہے یہ مقام امت میں کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اسی لیے پوری امت ان ہی کی رہنمائی میں پاک سنتوں پر عمل کر رہی ہے__۔

یہ تمام ائمہ بیس رکعت کے قائل ہیں، چودہ سو سال سے شرقاً وغرباً پوری امت کا اسی پہ عمل ہے، بلاد اسلامیہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ،عراق، مصر، بصرہ وکوفہ خصوصاً اسلام کے عظیم مراکز حرمین شریفین اور مسجد اقصٰی وغیرہ میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہے۔گویا یہ عمل متوارث و متواتر ہے  تفصیل پیش خدمت ہے۔

 امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت  :امام الائمہ کاشف الغمہ امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے تمام مقلدین بیس رکعات تراویح کے قائل ہیں۔

 دلیل  1   : علامہ ابن رشد اپنی مشہور کتاب بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں:القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر۔ (ج1ص214)۔

 ترجمہ امام ابوحنیفہ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے، وتر اس کے علاوہ ہیں۔

 دلیل   2    : امام قاضی خان حنفی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:عن ابی حنیفۃ قال القیام فی شھررمضان سنۃ کل لیلۃ سوی الوتر عشرین رکعۃ خمس ترویحات۔(فتاویٰ قاضی خان ج1ص112)۔ 

 ترجمہ:  امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہررات بیس رکعت یعنی پانچ ترویحے وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔

دلیل   3   : علامہ ابن عابدین شامی جو فقہ حنفی کے عظیم محقق ہیں، فرماتے ہیں:۔

( قولہ وعشرون رکعۃ) وھوقول الجمھور وعلیہ عمل الناس شرقاوغربا. (رد المحتار ج2ص495)

 ترجمہ   :  امام اعظم ابو حنیفہ بیس رکعت کے قائل ہیں اور یہی قول جمہور کا ہے اور شرق سے لے کر غرب تک اسی پر پوری امت کا عمل ہے 

ابو عبداللہ امام محمد بن ادریس شافعی  :حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ائمہ اربعہ میں سے مشہور امام ہیں آپ خود فرماتے ہیں:۔

 دلیل    1  :احب الی عشرون۔وکذالک یقومون بمکۃ۔(قیام اللیل ص159)۔

 ترجمہ* مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہے مکہ میں بھی بیس رکعت پڑھتے ہیں۔

دلیل   2    :دوسرے مقام پرارشاد  فرماتے ہیں:وھکذا ادرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ۔(جامع الترمذی ج1ص166 باب ما جاء في قيام شهر رمضان)۔ 

ترجمہ میں نے اپنے شہر مکہ میں لوگوں کوبیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے ۔

 دلیل       مشہور شافعی عالم محقق العصر امام نووی دمشقی فرماتے ہیں:اعلم ان صلوۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء وھی عشرون رکعۃ ۔ (کتاب الاذکار: ص226)۔

 ترجمہ    تراویح باتفاق علماء سنت ہے اوریہ بیس رکعت ہے ۔ 

 شیخ الاسلام امام مالک بن انس  حضرت امام مالک کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعات ہیں جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعات سنت ہیں۔

 دلیل   4 علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے-(بدایۃ المجتہد ج 1ص214)۔

 نوٹ  مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت ہیں یعنی 20 رکعت نماز تراویح سنت اور 16 رکعت نفل ہوگئیں__۔

 امام احمد بن حنبل  :مجاہد علی الاطلاق حضرت امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ بھی بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ چنانچہ فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان امام ابن قدامہ لکھتے ہیں:والمختار عندابی عبداللہ (احمد بن حنبل)فیھا عشرون رکعۃ وبھذا قال الثوری وابوحنیفۃ والشافعی۔ (المغنی لابن قدامہ ج1ص802)۔

 ترجمہ: مختار قول کے مطابق امام احمد بن حنبل بیس رکعت کے قائل تھے اور یہی مذہب  امام سفیان ثوری ،امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ جب عمر فاروق نے صحابہٴ کرام کو ابی بن کعب کی اقتدا میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل کا استدلال یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔(المغنی لابن قدامہ ج2ص139،)۔

 بیس رکعات تروایح اور اسلاف امت  شارح مسلم علامہ نووی فرماتے ہیں کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علما کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعت ہیں، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۸۳)۔

شارح بخاری علامہ عینی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج۷ ص ۱۷۸)۔

حجۃالاسلام حضرت امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج۱ ص ۱۳۲)۔

امام الاولیا شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعت ہیں۔ (غنیہ الطالبین ص ۲۶۷، ۲۶۸)۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب حجة اللہ البالغہ میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت مقرر ہوئی تھیں چنانچہ فرماتے ہیں: تراویح کی تعداد بیس رکعت۔ (حجة اللہ البالغہ ج۲ ص ۶۷) ۔

جاری

قسط اول    پڑھنے کے لیے کلک کریں

قسط دوم پڑھیں

قسط چہارم پڑھیں

 تحریر:۔ محمد ہاشم اعظمی مصباحی

Amazon    Flipkart

 

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن