تحریر محمد صدرِعالم قادری مصباحی شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات
شب قدر عنایات الٰہی کی مقدس رات
جس طرح ماہ رمضان المبارک کوسال کے دوسرے مہینوں پرایک خصوصی فضیلت وشرافت حاصل ہے جودوسرے مہینوں کوحاصل نہیں ۔ اسی طرح سال کی تمام راتوں میں لیلۃ القدرکووہ فضیلت وکرامت حاصل ہے جس سے دوسری راتیں معری ٰوخالی ہیں ۔
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت وعظمت اورشب قدرکی عزت وشرافت کے لئے یہ کیاکچھ کم ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کودفعۃً نازل فرمانے کے لئے اسی ماہ مقدس اوراسی متبرک رات کوانتخاب فرمایا ۔ جیساکہ شہررمضان الذی اُنزل فیہ القرآن ، انا انزلناہ فی لیلۃ القدر والی آیات کریمہ میں اس کاذکرفرمایاگیا ۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ جس طرح قرآن کریم لوح محفوظ سے سمائے دنیاتک لیلۃ القدر میں نازل ہوا اُسی طرح سماء دنیاسے حضورنبی اکرم ،شافع امم ﷺ پروحی قرآن کی ابتداء بھی لیلۃ القدرہی میں ہوئی ۔
شب قدرکیا ہے
شب قدردرحقیقت اس مقدس وبابرکت رات کانام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے آئندہ سال کی شب قدرتک کے تمام مقدرات اورمخلوق کے حق میں ہونے والے رزق،موت وحیات کے متعلق جمیع فیصلے فرشتوں کے سپردکئے جاتے ہیں ۔
اسی بناپراس رات کولیلۃ الحکم اورلیلۃ التقدیربھی کہاجاتاہے ۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ تقدیرخلائق کافیصلہ ہی اس شب میں کیاجاتاہے بلکہ وہ تقدیرات اورفیصلے جوازل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مخلوق کے بارے میں صادرفرماچکاہے اورجولوح محفوظ میں پہلے سے لکھے ہوئے ہیں ۔ اس شب میں ان کی نقل ملاءکہ مدبرات کے حوالے کردی جاتی ہے تاکہ وہ اس کونافذ کریں ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ یکتب من ام الکتاب مایکون فی السنۃ من رزق ومطروحیاۃ وموت حتیٰ الحاج’’لوح محفوظ سے( اس مقدس شب میں )رزق،بارش،موت،زندگی یہاں تک کہ حاجیوں کی تعدادنقل کرکے ملاءکہ کودے دی جاتی ہے‘‘ ۔ (تفسیرقرطبی،ج20،ص130)۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتاہے کہ قضاء وقدرتوشعبان کی پندرہویں شب کوہوتی ہے لیکن متعلقہ فرشتوں کوان کی ذمہ داری لیلۃ القدر میں سپردکی جاتی ہے ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ان اللّٰہ لقضی الاقضیۃ فی لیلۃ نصف شعبان ویسلمہا الیٰ اربابہافی لیلۃ القدر’’بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ معاملات کاتصفیہ شعبان کی پندرہویں شب میں فرمادیتاہے اوران کے ذمہ داروں کولیلۃ القدر میں سپردفرمادیتاہے‘‘ ۔ (تفسیرقرطبی،ج20،ص130)۔
علامہ آلوسی نے بعض اہل علم کاقول نقل کیاہے کہ دراصل یہ تین علیٰحدہ علیٰحدہ امورہیں ۔ (۱)پہلاکام تقدیراشیاء کا ہے کہ کونسی چیز کب اورکس حال وکیفیت میں وجودآئے گی یہ فیصلہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیق سمٰوات والارض سے پہلے ازل میں ہی فرمادیاہے ۔ (قدجف القلم بماھوکائن)۔
۔(۲)دوسراکام ان تقدیرات کولوح محفوظ میں لکھ کرملاءکہ کے سامنے ظاہرکرنے کاہے یہ کام شعبان کی پندرہویں رات میں کیاجاتاہے(۳) اورتیسراکام متعلقہ فرشتوں کوان کی ذمہ داریاں سونپے جانے کاہے اس کی تکمیل لیلۃ القدر میں ہوتی ہے ۔ (روح المعانی ،ج30،ص192)
ملاءکہ مدبرات:حضرت مجاہدرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جن ملاءکہ مدبرات کواس شب میں تنفیذاحکام کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ چارہیں ۔ (۱)حضرت جبرئیل ،(۲)حضرت میکائیل،(۳)حضرت اسرافیل،(۴)حضرت عزرائیل علیہم السلام ۔ گویایہ یہ چاروں ملاءکہ تواصل ذمہ دارٹھہرائے جاتے ہیں اورباقی ان کے اعوان وانصارہوتے ہیں ۔
شب قدرکہلائے جانے کی وجہ
امام زہری فرماتے ہیں کہ اس شب کو شب قدراس لئے کہتے ہیں کہ یہ عظیم قدرومنزلت والی رات ہے ۔ شیخ ابوبکروراق فرماتے ہیں کہ اس شب میں عبادت وذکرکی وجہ سے بے عزت وبے قدرلوگ بھی قدرومنزلت حاصل کرلیتے ہیں اس لئے اس کو شب قدرکہاجاتاہے ۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چونکہ اس مبارک رات میں قرآن کریم کانزول ہواجودینی ودُنیوی سعادات وبرکات کاذریعہ اورسرچشمہ ہے اوراس رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے نزول رحمت ،نزول ملاءکہ اوراجابت دعاہوتی ہے اس لئے اس کانام لیلۃ المبارکہ بھی رکھاگیا ۔
شب قدر میں کیا کریں
شب قدراللہ جل شانہ کی طرف سے ایک عظیم الشان انعام ہے اوراس کی قدردانی علامت ایمان اورسعادت دارین کی نشانی ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جوشب قدرپائیں اورعبادت وریاضت ،تلاوت قرآن مجید اورذکرواستغفارسے اس کامکمل حق اداکریں ۔
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضوراکرم،نورمجسم،شاہ بنی آدم ،نبی محتشم ﷺنے ارشادفرمایاکہ جوشخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں اجروثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے)کھڑاہواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ‘‘ ۔
اس روایت میں کھڑے ہونے سے مرادصرف نمازکاقیام ہی نہیں بلکہ خواہ نمازپڑھے یاتلاوت کرے یاذکرواستغفاراورتسبیح وتہلیل میں مشغول رہے تمام عبادات اس میں داخل ہیں ۔ اورثواب کی نیت کامطلب یہ کہ اس کی یہ عبادت محض اخلاص اوراللہ تعالیٰ کی رضا اورحصول اجروثواب کے لئے ہو ۔ ریاء ونمائش مقصودنہ ہو ۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ شب قدر میں دعاواستغفارکرنا
نوافل پڑھنے کے مقابلہ میں افضل ہے اوراگرکوئی شخص تلاوت قرآن کریم اوردعاواستغفاردونوں کوجمع کرے تویہ اوربھی بہترہے ۔
شب قدرکی دعا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضوراکرم،نورمجسم،سیدعالم ﷺ سے ایک بارسوال کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اگرمجھے کسی رات کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شب قدرہے تو میں اس میں کیاکہوں ۔ آپ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ تم اس وقت یہ دعاپڑھو ۔ اللھم انک عفوتحب العفوفاعف عنی ائے اللہ توبہت معاف فرمانے والاہے اورمعافی کوپسندفرماتاہے مجھے بھی تومعاف فرمادے‘‘ ۔ آقائے دوجہاں ﷺ نے اس قدرجامع ترین دعاکی تلقین فرمائی کہ اس کی قبولیت کے بعدتمام مسائل خودبخودحل ہوجاتے ہیں ۔ اگراللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کسی بندہ کومعاف فرمادے تواُسے اِس سے بڑھ کراورکیاچاہئے! ۔
من نہ گوئم کہ طاعتم بپذیرقلم عفوبرگناہم کش
شب قدراس امت کاخاصہ ہے: علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ لیلۃ القدراسی امت کاخاصہ ہے یا اس سے پہلے کی امتوں کوبھی یہ نعمت عطاکی گئی تھی ۔ دُرِّ منثور میں حضرت انس بن مالک سے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کایہ ارشاد منقول ہے کہ شب قدراللہ تعالیٰ نے میری امت کوعطافرمائی پہلی امتوں کویہ نہیں دی گئی ۔ جمہورامت کابھی یہی مذہب ہے اورحافظ ابن کثیرنے اپنی تفسیر میں خطابی سے اس پراجماع کاقول نقل کیاہے ۔
شب قدرعطا کیے جانے کا سبب
اس امت کوشب قدرکایہ بیش بہاوقیمتی انعام عطاکئے جانے کاسبب کیاہوا روایات سے اس کی مختلف وجوہ معلوم ہوتی ہیں ۔ موَطا امام مالک ;231; میں روایت ہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوپہلی امتوں کی عمروں کاعلم ہواکہ بہت لمبی ہوئیں اوران کے مقابلے میں میری امت کی عمریں بہت کم ہیں ،جس کی بناء پرمیری امت کے لوگ پہلی امت کے ساتھ اعمال میں مساوی نہیں ہوسکتے ،اس بات سے حضوراکرم ﷺ کوصدمہ ہواتواللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو شب قدرجیسی بابرکت ومقدس رات عطافرمائی کہ اس ایک شب کی عبادت اوراحیاء ہزارماہ کی عبادت سے بہترہے ۔ (تفسیرقرطبی،ص133،ج20)۔
حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے صحابہَ کرام کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کاذکرفرمایاجواللہ تعالیٰ کی راہ میں مسلسل ایک ہزارماہ تک ہھتیاربندرہا اورجہادکرتارہا ۔ صحابہَ کرام کویہ سن کراس شخص پربڑارشک آیا،توخدائے وحدہٗ لاشریک نے اس کے عوض ان حضرات کوشب قدرعطافرمائی اورسورہَ قدرنازل فرمائی ۔ (تفسیرقرطبی،ص133،ج20)۔
ابوبکربن وَرَّاق کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدتِ حکومت پانچ سو(500)مہینے تھی اورذوالقرنین کی مدت ِسلطنت بھی پانچ سو(500)ماہ تھی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امت کولیلۃ القدرعطاکی اورفرمایاکہ اس مقدس رات میں عبادت کا اجروثواب اُن بادشاہوں کی مجموعی مدت ِسلطنت یعنی ایک ہزارماہ کی حکومت سے بہترہے ۔
شب قدر میں فرشتوں کانزول: اس مقدس شب کی فضیلت کے لئے اتناہی کافی تھاکہ اس کوہزارماہ سے افضل اوربہترقراردیاگیا،لیکن اس کی مزیدعظمت ورفعت کوظاہرکرنے کے لئے فرمایاگیاکہ ’’اس میں فرشتے اورجبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہرکام کے لئے‘‘امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس مقدس شب میں ہرآسمان سے حتیٰ کہ سدرۃ المنتہی سے بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں اورلوگون کی دعاؤں پرآمین کہتے ہیں ۔
محبوب سبحانی ،قطب ربانی ،پیرلاثانی حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبدابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے غنیۃ الطالبین میں ایک طویل روایت نقل فرمائی جس میں ہے کہ شب قدر میں اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کوسدرۃ المنتہی کے سترہزارفرشتوں کے ساتھ زمین پراترنے کاحکم فرماتاہے ۔
وہ نورانی جھنڈے لے کرزمین پراترتے ہیں اورچارمقامات بیت اللہ شریف،بیت المقدس،روضہَ نبوی ﷺ اورمسجد طورسیناء پراپنے جھنڈے نصب کردیتے ہیں اوراس کے بعد وہ تمام روئے ز میں پرمنتشرہوجاتے ہیں اورہرموَمن مردعورت کے گھر میں داخل ہوتے اورامت محمدیہ ﷺ کے لیے استغفارکرتے ہیں ،البتہ وہ گھرجس میں کتا،خنزیر،تصویر،شراب یابدکاری جنبی ہواس میں وہ داخل نہیں ہوتے ۔ (روح المعانی ،ص195،ج20)
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام موَمنین سے مصافحہ کرتے ہیں اوران کے مصافحہ کی علامت یہ کہ قلب میں رقت وانابت الی اللہ،آنکھوں میں معاصی پرندامت کی وجہ سے آنسواورجسم پراللہ تعالیٰ کے خوف وڈرسے کپکپی ولرزہ طاری ہوجائے ۔ (تفسیرابن کثیر،ص235،جلد آخر)۔
عظمت شب قدر قرآن و احادیث کی روشنی میں از تفضل عالم مصباحی
آپ کی مدد کا سب سے زیادہ حق دار البرکات ایجوکیشنل ویلفئیر ٹرسٹ سیمانچل ہے
AlBarkaat Educational and Welfare Trust
45350100013943
IFSC Code
BARB0THAKIS
Bank of Broda Thakurganj Branch.
PhonePay & GooglePay
⬇️
9905084119
جب آپ تعاون کر چکے تو ہمیں نام پتہ و موبائل نمبر کے ساتھ اسکرین شاٹ بھیج دیں تاکہ آپ کی تفصیلات ہمارے پاس موجود رہیں
جزاکم اللہ خیرا
شب قدرکی علامات
حدیث پاک میں حضورنبی رحمت ،شفیع امت ﷺ نے شب قدرکی علامت اورنشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ’’اس مقدس وبابرکت رات کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ کھلی ہوئی چمکدارہوتی ہے ،صاف وشفاف نہ زیادہ گرم اورنہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل گویا اس میں (کثرت انوارکی بناء پر)چاندکھلاہواہے ‘‘ ۔ دوسری روایتوں میں اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے اس کے بعدکی صبح کوآفتاب بے غیرشعاع کے طلوع ہوتاہے بالکل ایسا ٹکیہ کے مانندجیساکہ چودھویں کاچاند ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کواس کے ساتھ نکلنے سے منع فرمادیا‘‘ ۔
امام قرطبی نے عبیدبن عمران کاقول نقل کیا وہ فرماتے ہیں کہ ستائسویں شب میں سمندری سفرپرتھامَیں نے اس شب سمندرکاپانی چکھاتونہایت شیریں اورخوش ذائقہ تھا ۔ (تفسیرقرطبی،ص129،ج20)۔
یہ اوراس قسم کی بہت سی علامات ہیں جواس شب میں پائی جاتی ہیں ۔ کسی کوان کا ادراک واحساس ہوجاتاہے اورکسی کونہیں ۔ مشاءخ رحمہم اللہ نے لکھاہے کہ شب قدر میں ہرشئے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتی ہے حتیٰ کہ درخت زمین پرگرجاتے ہیں اورپھراپنی جگہ سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں ،مگراس قسم کی چیزیں امورکشفیہ سے ہیں جوہرشخص کومحسوس نہیں ہوتے
۔ بہرصورت شب قدراللہ تعالیٰ کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کاپالینا اوراس میں ذکروعبادت میں مشغول رہناسعادت عظمیٰ اورفلاح دارین کاسبب ہے ۔ جوخوش قسمت اس شب مقدس کوپائے اُ سے چاہئے کہ وہ اس شب میں اس دعاکازیادہ وردکرے جوحضوراکرم، نورمجسم ،شاہ بنی آدم ،شفیع امم ﷺ نے ام الموَمنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوتلقین فرمائی جس کاذکراوپرہوچکاہے ۔
شب قدرکے نوافل: حضرت اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ ’’تفسیرروح البیان‘‘ میں فرماتے ہیں ،جوشخص شب قدر میں اخلاص نیت سے نوافل پڑھے گا ۔ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ بزرگان دین رحمہم اللہ المبین اس اخیرعشرے کی ہررات میں دورکعت نفل شب قدرکی نیت سے پڑھاکرتے تھے ۔
نیز بعض اکابرسے منقول ہے کہ جوہررات دس آیات اس نیت سے پڑھ لے تواس کی برکت اورثواب سے محروم نہ ہوگا ۔ اورفقیہ ابواللیث سمرقندی فرماتے ہیں کہ:شب قدرکی کم سے کم نفل نماز دورکعت ہے اورزیادہ سے زیادہ ہزاررکعت (نوافل)اوردرمیانہ درجہ دوسورکعت ہے،اورہررکعت میں اوسط قراء ت یہ ہے کہ سورہَ فاتحہ کے بعدایک مرتبہ ’’سورہَ قدر‘‘اورتین مرتبہ سورہَ اخلاص پڑھے اورہردورکعت کے بعد سلام پھیرے اورسلام کے بعد سرکارمدینہ ،سرورقلب وسینہ ﷺ پردرودپاک بھیجے۔
اورپھرنفل نماز کے لیے کھڑاہوجائے یہاں تک کہ اپنادوسو(200)رکعت کایا اس سے کم یا اس سے زیادہ کاجوارادہ کیاہوپوراکرے توایساکرنا اس شب قدرکی جلالت قدرکوجو کہ اللہ عزوجل نے بیان فرمایا اورجوسرکاردوعالم ﷺ نے اس کے قیام کے متعلق ارشادفرمایاہے اس کے لئے کفایت کریگا ۔ (روح البیان ،ج10،ص483)۔
خدائے وحدہٗ لاشریک کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاگوہوں کہ ہم سب مسلمان بھائیوں کواس مقدس شب کی برکتوں سے مالا مال فرما اورکثرت کے ساتھ ہ میں توبہ واستغفار،تلاوت قرآن مجید،اورادووظاءف،تسبیحات وتہلیلات اوربھی دوسرے نیک عمل کرنے کی توفیق عطافرما آمین بجاہ سیدالمرسلین ۔
تحریر: محمد صدرِعالم قادری مصباحی
جامعہ رضویہ غریب نواز
و خطیب وامام سنی موَمن مسجد،کونانور
ضلع ہاسن(کرناٹک)۔
misbahisadrealamgmcom
0910825408