تحریر مجیب احمد فیضی امام حمد رضا اور فن شاعری
امام حمد رضا اور فن شاعری
اللہ جل مجدہ الکریم نے اس روئے زمین پر بنی آدم کی رشد وھدایت اور دین متین کی سر بلندی کے لئے اپنے بہت سے نیک بندوں انبیاء اولیاء اصفیاء علماء کی شکل میں بھیجا۔
مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول اجلال کے بعدفرمان مصطفوی اناخاتم النبین لانبی بعدی کی مہر لگ گئی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداب کوئی نبی نہیں آئے گا۔البتہ اولیائے کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔یہ پاک نفوس قدسیاں ہر دور میں من جانب اللہ بشکل بشری آتے رہیں گے اور راہ حق سے بھٹکے ہوؤں کو طریق مستوی پر گامزن کرتے رہیں گے۔
یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کی زندگیاں مثالی ہوا کرتی ے۔ وہ اپنے تقوی صالحیت پاسدارئ سنت اور تزکیۂ قلوب کے سبب اس اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ صفات الہیہ کے مظہر نظر آتے ہیں۔ اپنی باطنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کا واحد مقصد اورمشن دوسروں کے زنگ آلود قلوب کا صاف وشفاف کرنا ہوتا ہے۔ جو بعثت کے مقاصد میں سے سب سے اہم اور نرالہ مقصد ہے۔
یہ وہ پاک جماعت ہے جن کا قبضہ دلوں پر ہوتا ہے۔یہ تلواروں سے نہیں بلکہ اپنی خدا داد صلاحیت اور نگاہوں کی قوت سے لوگوں کے دلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔ان کی پوری پوری زندگیاں اللہ ورسول کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ اس لئے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین مصطفوی کی خاطر جس جانب کا بھی یہ رخ کرتے ہیں۔ نصرت الہی ان کی تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔خدا کی محبت ان کا اعزاز اور رسول کی اطاعت ان کے لئے صد افتخار ہوتی ہے۔
ان مقربان بارگاہ رب العزت میں سے چودہویں صدی کی ایک زندہ و تابندہ ہستی جنہیں دنیا امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان المعروف اعلی حضرت کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ فاضل بریلوی کی مثالی شخصیت بلاد عرب وعجم میں کسی کے لئے محتاج تعارف نہیں۔آپ کی ذات بڑی عظیم اور با برکت تھی۔
اللہ رب العزت نے آپ کو بہت سی خوبیوں سے نوازا۔پچاس سے زیادہ علوم وفنون پر آپ کو مہارت حاصل تھی۔جن میں تفسیر حدیث فقہ اصول فقہ عقائد کلام تصوف صرف ونحو ادب و بلاغت تاریخ وتہذیب منطق فلسفہ علم نجوم علم رمل وعلم ریاضی اور شعر وسخن جیسے علوم شامل ہیں
علوم عقلیہ ونقلیہ پر کامل دسترس رکھتے تھے۔جدیدوقدیم علوم وفنون میں یگانۂ روز گار تھے۔علوم وفنون کے بحر بیکراں تھے۔ اپنے 54 علوم کا تذکرہ خود فرمایا۔اکیس علوم اپنے والد ماجد سے حاصل کئے۔ وہ علوم جنہیں کت بینی اور اورنظروفکر کے استعمال سے حل فرمایا ان کی تعداد چودہ ہے۔اور وہ علوم جو آپ نے اساتذہ سے تو نہیں پڑھےالبتہ ناقدین کرام سے اجازت ملی ان کی تعداد دس شمار ہوتے ہیں۔
اسی طرح نو علوم اور شمار کرائے ہیں جن کی تعلیم آپ نے کسی استاذ سے نہیں لی۔
آپ جہاں ایک بہت بڑے عالم دین مصنف محدث مدقق مقرر مفتی فقیہ حافظ وقاری اور عمدہ شاعر تھے وہیں پر چودہویں صدی کے مجدد اعظم ہونے ساتھ بہت بڑے عاشق رسول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عشق رسالت کی جھلکیاں آپ کی تحریروں کتابوں اور فتاؤں میں جابجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اعلیٰ حضرت اور فن شاعری
شعر وشاعری بھی مکمل ایک فن ہے۔اس سے ہزارہا تعصب کے باوجود بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے تو اللہ عزوجل نے امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔بے شمار علوم وفنون پر آپ کو دسترس اور ید طولی حاصل تھی۔انہیں علوم وفنون میں ایک فن شعر وشاعری کا بھی ہے۔چنانچہ!! آپ کا اس فن میں کوئی جواب نہیں تھا۔آپ اس میں بھی بےمثال و یکتائے روزگار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو حسان الھند کہا جاتا تھا۔
مبالغہ آرائی کی ایک مثال
غزلیہ شعر وسخن میں اس کی کامیابی کے لیے مبالغہ ایک عظیم وصف کہلاتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ جھوٹ ہے یا سچ۔ لیکن جہاں تک نفس شاعری کا معاملہ ہے تو کسی نے کہا تھا (شعر)۔
درشعر مپیج در و فن او
چوں اکذب اوست احسن اوست۔
یعنی غزلیہ شاعری میں جتنے زیادہ جھوٹ ہو اتنا زیادہ اچھا اور کامیاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ اور مسلم ہے کہ عربی وفارسی ودیگر شعراء نے اپنے کلام میں ہزارہا کوشش کے باوجود بھی مبالغہ کی وساطت سے اپنے ممدوحوں کی شان میں اتنا جھوٹ نہیں بول پائے جتنا کہ احمد رضا خان فاضل بریلوی نے سچ بول کے دکھایا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔شعر
قوی تھے مرغان وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر
لگائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشیہ تھوکتے تھے
امام احمد رضا اور تعظیم نبی ﷺ از مفتی عیسی رضوی قادری
حسن تعلیل کی ایک مثال
کلام میں غیر سبب کو اس طرح سبب بنا کے پیش کرنا کہ لگے واقعتا وہی سبب ہے حالانکہ وہ اس کا اصلی سبب نہ ہو۔ بلکہ سبب کچھ اور ہو اس کو حسن تعلیل کہا جاتا ہے۔ جیسے کسی نے کیا ہی خوب کہا تھا۔
شباب ھاتھ سے جاتا رہا پتا نہ چلا ۔۔ اسی کو ڈھونڈھ رہے ہیں کمر جھکائے ہوئے۔اور ایسے ہی کسی نے کیا خوب لکھا۔ شعر۔۔
کمر خمیدہ نہیں بے سبب ضعیفی میں۔
زمیں تلاش رہی ہے مزار کے خاطر۔
مذکورہ بالا دونوں شعر حسن تعلیل پر مشتمل ہے۔شعر اول ثانی میں کمر جھکنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ما وشما سے مخفی نہیں ہے۔ لیکن یہ حسن تعلیل ہے، جس کو عربی وفارسی کے تمام شعراء اپنے غزلیہ شعروسخن میں برابر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن نعت میں اچھے طریقے سے حسن تعلیل کا استعمال یہ سب کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ امام احمد رضاخان فاضل بریلوی کا حصہ ہے۔
چنانچہ !چاند میں داغ ہے اس کی کئی کئی وجہیں بچپن میں بڑے بزرگوں نے بتائی ہوں گی۔ بعض نے تو یہاں تک بتایا ہوگا کہ ۔بڑھیا چرکھا چلا رہی ہے۔مگر حسن تعلیل کے طور پر فاضل بریلوی کو بھی ملاحظ کریں مزا آجائے۔چنانچہ!! اصلی وجہ کیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں۔ شعر
برق انگشت نبی چمکی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینۂ مہ میں نشان سوختہ
آپ نے اردو عربی فارسی تینوں زباںوں میں نعت گوئی و منقبت قصیدہ نگاری کی ۔آپ کی نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے دو حصے آپ کی حیات ظاہری اور آخری حصہ بعد وصال شائع ہوا۔ عاشقان مصطفی کے واسطے حدائق بخشش اردو نعتیہ شاعری کا ایک انمول تحفہ ہے ۔جو مابین العوام والخواص مقبولیت کے بلند ترین درجات پر فائز ہے۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
محمد مجیب احمد فیضی۔بلرام پوری
رابطہ ۔8115775932