Wednesday, November 20, 2024
Homeاحکام شریعتزبان کی تباہ کاریاں

زبان کی تباہ کاریاں

 تحریر محمد ایوب مصباحی  مطالعہ : البریقہ شرح الطریقہ زبان کی تباہ کاریاں 

زبان کی تباہ کاریاں

      زبان کی پہلی تباہی جھوٹ ہے جو قبیح تر اور فحش ترین گناہ کبیرہ ہے

                   جھوٹ کی تعریف

    خلاف واقع کی خبر دینا جھوٹ کہلاتا ہے 

                         اقسام

    اس کی دو صورتیں ہیں اگر یہ بلا قصد بولا جاۓ تواس کی معافی کی امیدکی جا سکتی ہے، اس پر دلیل یمینِ لغو ہے، اللہ تعالی فرماتاہے: ”لَا یُٶَاخِذُکُم اللّٰہ بِالَّغوِ فِی أَیمَانِکُم “(الماٸدہ:٨٩) ترجمہ :اللہ تمھیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر (کنز الایمان)۔

         یمینِ لغو کسے کہتے ہیں؟ 

     جھوٹی قسم سچی گمان کرتے ہوۓ کھانے کو یمینِ لغو کہتے ہیں، جیسے کسی نے پیالے میں پانی دیکھ کر یہ قسم کھاٸی کہ اس پیالے میں پانی ہے لیکن نفس الامر میں پیالہ انڈیل دیا گیا تھا

      اور اگر خلافِ واقعہ کی خبر دینا قصدًا ہو تو یہ حرامِ قطعی ہے، اس پر دلیل یہ ارشاداتِ ربانی ہیں ” فَنَجعَل لَعنَتَ اللّٰہِ عَلی الکَاذِبِینَ (آل عمران : ٦١) ترجمہ  تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں(کنز الایمان) وَلَھُم عَذَابُٗ أَلِیمُٗ بِمَا کَانُوا یَکذِبُونَاور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا (کنزالایمان) ۔

       جھوٹ کے حرام قطعی ہونے پر استدلال    جھوٹ پر دردناک عذاب کی وعید ارشاد فرمانا اس پر دال ہے کہ جھوٹ بولنا حرامِ قطعی ہے، نیز فرمایا : وَاجتَنِبُوا قَولَ الزُّورِ(الحج : ٣٠) ، اور بچو جھوٹی بات سے (کنز الایمان)۔

                           قاعدہ کلیہ

       اصولِ فقہ کا ضابطہ ہے کہ مامور بہ کی ضد میں مشغول ہونے سے اگر مقصود بالامر فوت ہوجاۓ تو مامور بہ کی ضد حرام ہوگی اور مذکورہ بالا آیت بھی اسی قبیل سے ہے

       جھوٹ کی حیثیت احادیث کے حوالے سے

      مسندِابو یعلی میں حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ بندہ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک تمسخ، جھوٹ اور جھگڑا نہ چھوڑ دے

      صحیح ابن حبان میں حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوۓ سنا :یقینا جھوٹ انسان کے چہرے کو سیاہ کردے گا

      اس کی تاٸید قرآن کی اس آیتِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے ” یَوم تَبیَضُّ وُجُوہُٗ وَتَسوَدُّ وُجُوہُٗ جس دن کچھ منہ چمکتے ہوں گے اور کچھ کالے ہوں گے(کنز الایمان) ۔

                       کذب کے مراتب

     امام بہیقی نے فرمایا: کہ” قباحت و حرمت میں سب سے سنگین ترین جھوٹ کذب علی اللہ یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے پھر علی سبیل التنزل کذب علی الرسول یعنی رسول پر جھوٹ باندھنا ،پھر انسان کا اپنی نظر میں جھوٹا ہونا پھر پڑوس والوں سے جھوٹ بولنا پھر والدین سے جھوٹ بولنا پھر اعزا و اقربا سے جھوٹ بولنا ، ثم الاقرب فاقرب“ یعنی جو جتنا زیادہ قریبی ہوگا اس سے جھوٹ بولنا اتنا ہی زیادہ سنگین ہوگا

      جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:  جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس بدبو کی وجہ سے ایک میل کی دوری اختیار کرلیتے ہیں

     بیان کیا جاتا ہے کہ جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو توفرشتوں کو اس کے منہ سے بدبو آتی ہے اب یہ بدبو حسی ہوتی ہےیا معنوی اس میں دو احتمال ہیں  بعض علما نے اول کو ترجیح دی اور رہی یہ بات کہ پھر ہم اس بدبو کا ادراک کیوں نہیں کرپاتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اور اس بدبو کے درمیان  حجاب حاٸل ہوتاہے  جس کی تاٸید حضرت احمد بن جابر کی اس حدیث  سے بھی ہوتی ہے ، بیان کرتے ہیں: کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے تو ایک بدبو مرتفع ہوٸی ، ارشاد فرمایا: کیا تم اس بدبو کو جانتے ہو ؟ یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں 

       اسی وجہ سے جمیعِ صوفیہ حضرات کا موقف یہ ہے کہ بندے پر ضروری ہے کہ اپنے ظاہر و باطن کو پاک وصاف رکھے تاکہ بارگاہ الہی میں حاضر ہونے والے انبیا و ملاٸکہ و اولیا میں سے کسی کو اس بدبو سے ایذا نہ پہونچاۓ جو گناہوں اور خصوصًا منہ سے پیدا ہوتی ہے جب وہ جھوٹ بولتا ہے ، اس لیے کہ یہ حضرات پیچھے آنے والی اس بو کو سونگھتے ہیں۔

اسی وجہ سے حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں : بخدا اگر لوگ گناہوں کی بدبو سونگھ لیں جیسے میں سونگھتا ہوں تو کوٸی بھی شخص میرے گناہوں کی بدبو کی وجہ سے میرے ساتھ بیٹھ نہیں سکے گا“؛ تمام ارباب حل و عقد یہاں تک کہ کفار بھی جھوٹ کے قبیح ہونے پر متفق ہیں ( تفسیر کشاف)۔

     حضرت عاٸشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے  فرماتی ہیں: کہ” رسول اللہ ﷺ کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ مبغوض کوٸی عادت نہیں

      سننِ کبری للبہیقی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جھوٹ ایمان کی ضد ہے“ یعنی ایمان کامل کی

               جھوٹ کی ایک اور تقسیم

      جھوٹ کی سب سے سخت قسم بہتان ہے ، بہتان کہتے ہیں کسی انسان کو ایسی براٸی  سے یاد کرنا جو اس میں نہ ہو

      حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزوں کا کوٸی کفارہ نہیں ہے ، اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، قتل ناحق ، مومن کو بہتان لگانا ، یمین ضاٸر جس کے ذریعہ ناحق کسی کا مال حاصل کرے ، میدان کا رزار سے بھاگنا

                     بہتان کی اقسام

       سب سے سخت بہتان جھوٹی گواہی دینا ہے  مسلم شریف میں ہے جس نے اپنی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا حق تلف کرلیا تواللہ تعالی نے اس کےلیے دوزخ واجب کردی اور جنت اس پرحرام کردی اگرچہ تاویل کرتا ہو، تو صحابی نے عرض کی : یارسول اللہ! اگرچہ تھوڑا سا حق ہو ؟ فرمایا: اگرچہ مسواک کےدرخت کی ٹہنی برابر ہو 

     سننِ ابی داؤد للسجستانی میں حضرت خزین بن فاتک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز فجر ادا کی ، جب سلام پھیرا تو آپ کھڑے ہوگیے اور ارشاد فرمایا: “جھوٹی گواہی دینا اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے ، یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرماٸی ” فَاجتَنِبُوا الرِّجسَ مِنَ الأَوثَانِ وَاجتَنِبُوا قَولَ الزُّورِتوتم بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹ بات سے بچو“(کنز الایمان)۔

      حدیث پر ایک اشکال اور اس کا جواب

     اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جب جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے تو جس طرح انسان شرک کرنے سے ایمان سے خارج ہوجاتاہے تو جھوٹی گواہی سے بھی ایمان سے خارج ہونا چاہیے

       اس حدیث کی شرح میں شارحین فرماتے ہے کہ جھوٹی گواہی سے مراد یا تو حلال سمجھ کر گواہی دینا ہے تو جس طرح شرک سے انسان داٸرہ ایمان سے باہر ہوجاتاہے اسی طرح جھوٹی قسم کھانے سے بھی ایمان سے خارج ہوجاۓ گا یا پھر شرک سے مراد شرک اصغر یعنی ریا کاری ہے

       بخاری و مسلم میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں: کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کبیرہ کے بارے میں نہ بتادوں وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا ہے ، خبردار! جھوٹی گواہی دینا ہے اور جھوٹی بات کہنا ہے؛ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا، اور آپ ٹیک لگاکر کھڑے تھے پھر آپ بیٹھ گیے آپ اس کی تکرار بار بار کرتےتھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے کاش آپ خاموش ہوجاٸیں!۔

       بہتان کی دوسری سنگین ترین قسم افترا علی اللہ اور افترا علی الرسول ہے ، اس لیے کہ یہ اسلام کی بنیادوں کو ڈھانے اور شریعت و اسلام میں فساد پیدا کرنے کی طرف لے جاتا ہے ،جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ” وَمَن أَظلَمُ مِمَّن کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا “ (الزمر:٣٢) اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے-ایک اور مقام پر فرمایا: ” إِنَّ الَّذِینَ یَفتَرُونَ عَلَی اللّٰہ الکَذِبَ لَا یُفلِحُونَ “(النحل: ١١٧) بے شک جو جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا

     بخاری و مسلم میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور شخص پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ کذب علی اللہ کے بعد جھوٹ کی یہ سب سے بڑی قسم ہے کیوں کہ یہ دین کی بنیادوں کے ڈھانے کی طرف متأدی ہے۔

اسی سبب سے صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کمی و بیشی کے ڈر سے بہت زیادہ حدیث بیان کرنے کو ناپسند سمجھا اور بعض تابعینِ عظام نبی ﷺ تک حدیث کے مرفوع کرنے سے خاٸف ہوۓ تو انہوں نے انھیں موقوفا روایت کیا اور بولے : کہ صحابی کی طرف حدیث کی نسبت کرنا نبی کی طرف نسبت کرنے سے زیادہ آسان ہے

       نبی پر جھوٹ باندھنے والے کو قتل کرنے اور پھر آگ میں جلانے کا حکم

      کہا گیا ہے کہ اسی وجہ سے ایسے شخص کے قتل اور موت کے بعد اس کے جلانے کا حکم دیا گیا جو نبی پر جھوٹ باندھے  اس لیے کہ قرآن پاک میں ہے کہ  وَمَایَنطِقُ عَنِ الھَوَی إِن ھُوَ إِلّا یُوحٰی ( النجم: ٣،٤) اور وہ کوٸی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے  وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے

     مسلم شریف میں ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناۓ

          نبی پر جھوٹ باندھنا حدِ کفر تک

    امام ذہبی نے فرمایا: کہ حلال شیٕ کو حرام ٹھرانے اور اس کے برعکس اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنا خالص کفر ہے

   اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ موضوع روایت بیان کرنا جاٸز نہیں جیسا کہ ”بحار الفیض“ میں ہے  امام نووی کا بیان ہے کہ کسی بھی روایت کے موضوع ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس کے موضوع ہونے کا گمانِ غالب ہے 

       بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کو تقریبًا دوسو صحابہ کرام نے روایت کیا ہے ، اس حدیث کے علاوہ کوٸی روایت ایسی نہیں جسے عشرہ مبشرہ نے روایت کیا ہو  اسی وجہ سےکہا گیا ہے کہ اگر کوٸی حدیث لفظًا متواتر ہے تووہ یہی ہے

     خلفاۓ راشدین کا روایت حدیث میں احتیاط

     ملا علی قاری اپنی کتاب” موضوعاتِ کبیر“ میں بیان کرتے ہیں : خلفاۓ راشین اور صحابہ کرام اس اندیشے سے” کہ کہیں غلط کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہوجاۓ “ کثرت سے حدیث بیان کرنے سے بچتے تھے، حضرتِ ابوبکر صدیق اور حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنھما اس سے ”جو آپ سے کوٸی ایسی حدیث روایت کرے جو آپ نے نہ سنی ہو“ دلیل طلب کرتے تھے، اور دونوں حضرات اسے خوب ڈراتے دھمکاتے تھے

جھوٹ کا بول بالا   اس کو بھی پڑھیں   از   حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی

 موضوع اور ضعیف روایت کا حکم

     امام نووی سے منقول ہے کہ موضوع روایت بیان کرنا حرام ہے اب خواہ وہ احکام وفضاٸل سے متعلق ہو یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ سے ، لیکن ضعیف روایت عقاٸد و احکام کے علاوہ میں جاٸز ہے

        افترا کی ایک اور قسم 

       افترا علی اللہ کی ایک قسم اللہ تعالی پر انجانے میں جوٹ باندھنا ہے، جس کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلسِنَتُکُمُ الکَذِبَ ھٰذَا حَلَالُٗ وَھٰذَاحَرَامُٗ لِتَفتَرُوا عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ (النحل:١١٦) اور اسے نہ کہو جو تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں  یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو (کنزالایمان)۔

      بغیر علم کے فتوی دینا بھی اسی کی ایک کڑی

      افترا علی اللہ وعلی الرسول میں بغیر علم کے فتوی دینا بھی شامل ہے جو نہایت ہی سنگین گناہ ہے اس بابت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مرعوعا روایت کرتے ہیں کہ”جس نے بغیر علم کے فتوی دیا اس کا گناہ اس پر ہے جس نے فتوی دیا

  توضیح

      بغیر علم کے فتوی دینے کا مطلب یہ ہے کہ مفتی فقہ اور ثقہ میں مشہور ہو اور اجتہاد میں کوٸی خطا نہ ہو یا فقہ اور ثقہ میں مشہور ہی نہ ہو تو اس کا گناہ اسی پر ہے اور اگر فقہ و ثقہ میں مشہور ہو اور اجتہاد میں خطا ہوجاۓ تو اس پر کوٸی گناہ نہیں بلکہ اب تو اجر لازم ہے

                 مفتی کا غیر مناسب اقدام

      فتاوی تاتارخانیہ میں ہے ” مفتی کو کسی خاص مقصد کے پیش نظر  بعض اقوالِ مہجورہ پر فتوی دینا جاٸز نہیں بلکہ اس پر فتوی دے جسے علماۓ مشاٸخ نےاختیار کیا ہے

  فتوی دینے کے شراٸط 

     فتوی کے شراٸط میں سے یہ ہے کہ مفتی انصاف کا محافظ ہو اور صاحبِ دولت و ثروت ، قاضی و حکام اور حکومت کے عہدے داروں کی طرف ماٸل نہ ہو، کتاب کو عزت و احترام کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے، کٸی ایک مرتبہ مسٸلہ کو پڑھے تاکہ سوال واضح ہوجاۓ-

         فتوی دینے میں أٸمہ کی ترتیب کیا رہے؟

   مفتی کو چاہیے کہ فتوی دینے میں قول امام کو مقدم رکھے اس کے بعد امام ابویوسف کے قول پھر امام محمد بن الحسن پھر امام زفر اور حسن بن زیاد کے قول پر فتوی دے

   جامع ترمذی کی حدیث میں ہے کہ ” جو بغیر علم کے فتوی دیتاہے تو آسمان و زمین کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں

قسط دوم کے لیے کلک کریں

قسط سوم کے لیے کلک کریں 

قسط چہارم کے لیے کلک کریں

قسط پیجم کے لیے کلک کریں

کتبہ: محمد ایوب مصباحی

خادم التدریس دارالعلوم گلشن مصطفی 

بہادرگنج ، سلطانپور دوست

مراداباد، یوپی، الھند

 mayyub027@gmail.com

Amazon    Flipkart    Bigbasket    Havelles    

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن