Sunday, October 20, 2024
Homeاحکام شریعتزندگی کی حقیقت نماز کی روشنی میں

زندگی کی حقیقت نماز کی روشنی میں

تحریر مولانا محمد دانش رضا منظری(پیلی بھیت) زندگی کی حقیقت نماز کی روشنی میں

زندگی کی حقیقت

     ۔ (مفہوم) اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں ۔,جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا (پ:1، البقرہ:45۔46) ۔

۔{اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کوسید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے ،ان کی شریعت پر عمل کرنے ،سرداری ترک کرنے اور منصب و مال کی محبت دل سے نکال دینے کا حکم دیا گیا اور ا س آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ۔

 اے بنی اسرائیل! اپنے نفس کو لذتوں سے روکنے کے لئے صبر سے مدد چاہو اور اگر صبر کے ساتھ ساتھ نماز سے بھی مدد حاصل کرو تو سرداری اورمنصب و مال کی محبت دل سے نکالنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا، بیشک نماز ضرور بھاری ہے البتہ ان لوگوں پر بھاری نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم رضائے الٰہی کے حصول اور اپنی حاجتوںکی تکمیل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔

         سبحان اللہ! کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ صبر کی وجہ سے قلبی قوت میں اضافہ ہے اور نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں پریشانیوں کو برداشت کرنے اور انہیں دور کرنے میں سب سے بڑی معاون ہیں۔

۔{ بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ گناہوں اور خواہشات سے بھرے ہوئے دلوں پر نماز بہت بوجھل ہوتی ہے اور عشق و محبت ِ الہٰی سے لبریز اور خوفِ خدا سے جھکے ہوئے دلوں پر نماز بوجھ نہیں بلکہ نماز ان کیلئے لذت و سرور اور روحانی و قلبی معراج کا سبب بنتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور اُس مولیٰ کریم کے دیدار کی تڑپ رکھتے ہیں۔

 اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی،نیزاللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی طرف رجوع میں ترغیب و ترہیب دونوں ہیں اور ان دونوں کو پیشِ نظر رکھنا نماز میں خشوع پیدا ہونے کا ذریعہ ہے، گویا نماز میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کا حکم بھی دیا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا۔( تفسیر صراط الجنان) ۔(مفہوم) تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔(سورۂ مریم:59،60)۔

       حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔(مسند امام احمد)۔

 حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے(ابوداؤد:1420)۔

       دنیا میں سب سے بڑی حقیقت جس کو آج تک ہم نے جھٹلایا ہے۔کوئی انسان اس کو ماننے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوا،وہ یہ ہے جو بھی چیز زندہ ہے وہ لچکدار ہے اور جو چیز مرگئی وہ اکڑ جاتی ہے۔ یعنی دنیا میں جو چیز زندہ ہے اس میں لچک ہے اور جو چیز اکڑ جاتی ہے وہ مردہ ہوجاتی ہے۔اب اس دنیا میں دیکھو   جتنے لوگ جھکنے وا لے ہیں وہ سارے کے سارے زندوں میں شامل  ہیں اور جتنے لوگ اکڑنے والے ہیں وہ سب مردوں میں شامل ہیں۔کیونکہ جب درخت زندہ ہوتا ہے تو ہم اس کی شاخوں کو جس طرح چاہتے ہیں موڑ سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق جھکا سکتے ہیں مگر جب یہی درخت مر جاتاہے تو پھر اکڑ جاتا ہے پھر اس میں سے لچک ختم ہوجاتی ہے اب اس کی ٹہنی کو موڑنے سے لچک نہیں آتی بلکہ ٹوٹ جاتی ہے۔

الله تعالی نے ایک ایسا ہی لچکدار عمل انسانوں کے لیے رکھا، اب جو دنیا میں صحت مند زندگی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے وہ اس عمل کو اپنا لے جو انسان اس عمل کو اپنائے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو انسان اس عمل کو ترک کرے گا وہ انسان اس پوری کائنات میں اپنا ہی نقصان کرے گا۔اس عمل میں اللّٰہ تعالیٰ نے ساری کائنات کے انسانوں کے لیے زندگی  و بقا رکھی ہےاور اس میں ایسی صحت کا راز چھپا ہوا ہے جس کو اگر اس کائنات کے بسنے والے انسانوں نے پا لیا تو وہ دنیا میں گزارنے والے اپنےایّام کو پرسکون بنالیں گے، کیوں کہ دنیا میں یہ اصول ہے جو چیز لچک رکھتی ہے وہی زندہ ہوتی ہے اور جو چیز اکڑ جاتی ہے وہ مردہ کہلاتی ہے۔ اب یہ ہماری اپنی مرضی ہے کہ ہم اپنا شمار کن لوگوں میں کروانا چاہتے ہیں زندوں میں یا مردوں میں۔

        اس کائنات میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں کیونکہ  ان لوگوں نے اپنی لچک کو ختم کر لیا ہوتا ہے اور وہ اکڑ جاتے ہیں،وہ بظاہر زندہ نظر آتے ہیں مگر وہ حقیقت میں مردہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل اندر سے سخت ہوچکے ہوتے ہیں،وہ لوگ اس کائنات میں زندہ لاشوں کی طرح ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ لوگ ایسا عمل کرتے ہیں جن کو دیکھ کر دنیا میں رہنے والے لوگ حیران و پریشان ہوجاتے ہیں ان کے مظالم دیکھ کر دل مضطرب ہو جاتے ہیں ان کی درندگی دیکھ کر آنکھیں ششدر حیران ہوجاتی ہیں وہ انسان یہ سب کچھ اس وجہ سے کر رہا ہے کیونکہ وہ دل کا مردہ ہوچکا ہے۔

      اب پیار محبت، شفقت، رحمت، اور نرمی نام کی کوئی چیز ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ اندر سے مر چکا ہے، اس کا دل اندر سے مردہ ہوچکا ہے۔ اب کیوں کہ اس کا دل مردہ ہو گیا تو اب اس کے لیے کوئی خوشی نہیں ہے کوئی مسکراہٹ نہیں ہے،کوئی مسرت و شادمانی نہیں کوئی پیار نہیں کوئی شفقت نہیں یہ کیوں ہوا کیونکہ اس کا دل اندر سے مردہ ہوچکا ہے۔

 اب اس دنیا میں جتنے لوگ دکھی ہیں  پریشان ہیں غمزدہ ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کہ انہوں نے اپنےدل کو مردہ کر لیا ہے۔اب ان کے دلوں کے مردہ ہونےکی وجہ سے کوئی خوشی ان کو خوشی محسوس نہیں ہورہی ہے، کوئی  مسکراہٹ ان کے دل کو تسکین نہیں دے رہی ہے،کوئی تعریف ان کو اچھی نہیں لگ رہی ہے کیونکہ یہ سب اس وقت انہیں محسوس کرنا تھا جب ان کا دل زندہ تھااب ان کا دل مردہ ہو چکا ہے جس وجہ سے یہ تمام باتیں ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

       اللہ تعالی اس کائنات کے تمام انسانوں کو پرسکون زندگی دینا چاہتا ہے، صحت و تندرستی والی زندگی دینا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے اس کائنات کے بسنے والے لوگوں کے لئے ایک  ایسا نظام زندگی مرتب کیا جو اس کائنات کے تمام لوگوں کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہےجس کے مطابق زندگی گزار کر ہم اپنے تمام مسائل کو حل کر سکتےہیں۔ وہ مسائل چاہے معاشرتی ہوں،معاشی،سماجی ہوں،نفسانی ہوں،روحانی ہوں،ہمارے تمام مسائل کا حل چاہے وہ ملکی ہوں یا بین الاقوامی ، کائنات کے تمام انسانوں کے لیے ایسا درستور زندگی اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر نازل کیا ہے جو ہر جگہ ہر ملک ہر قوم کے لیے یکسا مفید اور مؤثر ہے۔ 

        الله تعالی نے جس عمل میں زندگی رکھی ہے اس کو ہم چاہے کوئی بھی نام دےدیں اس کو کسی بھی خاص گروپ، جماعت، مذہب کے ساتھ مربوط کریں،وہ ایک ایسا عمل ہے جس سے کائنات کے بسنے والے تمام لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔ وہ عمل اس کائنات کے اندر رہنے والے تمام افراد کی تمام مشکلات و مصائب کا علاج  ہے۔

اس عمل کے ذریعے کائنات کے اندر جتنی چیزیں ہے بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔اس عمل کے ذریعے ہماری کائنات کی تمام ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔اس عمل  سے ہم اپنے ملکی غیر ملکی بلکہ بین الاقوامی تمام مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔اس عمل کے ذریعے ہمارے معاشرتی، معاشی، جسمانی،نفسانی،روحانی،انفرادی،اجتماعی، تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔اس عمل کے ذریعے صرف اس دنیا کے نہیں بلکہ اس دنیا کے بعد والی دنیا کے بھی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہےجو پوری کائنات والوں کے لیے یکساں مفید ہے۔

کیا وتر کی نماز باجماعت مکرہ تحریمی ہے؟     جواب جانیں

اس عمل کو اگر ہم سو فیصد اس کے اصولوں کے مطابق اپنالیں تو یہ عمل بھی ہمیں اتنے ہی فیصد فائدہ دے گا۔ اور اگر ہم نے اس کو اس کے سو فیصد اصولوں کے مطابق نہ اپنایا بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ پر عمل کیا اور کچھ کو چھوڑ دیا تو یہ عمل بھی ہمیں اتنا ہی فائدہ دے گا۔ یہ عمل ساری دنیا کے بسنے والے لوگوں کے لیے الله تعالیٰ نے زمین پر نازل کیا ہے اور اس کو عمل دینے کے لیے الله تعالیٰ نے ایک خاص پلاننگ کی۔

        سب سے پہلے الله تعالیٰ نے اس کائنات کے سب سے عظیم انسان،جو کائنات کی خاص مخلوق  ہے ان کا انتخاب کیا پھر اس عمل کو دینے کے لیے اس عظیم انسان کو زمین کی پستیوں سے اٹھایا اور آسمان کی بلندیوں پر لے گیا اور پھر اس کائنات والوں کے لیے ایک خاموش پیغام دیا سوچو یہ عمل کتنا عظیم ہے، جس کے لیے اس کائنات کے سب سے عظیم انسان کا انتخاب کیا پھر اس کو لانے کے لیے سب سے عظیم فرشتہ حضرت جبریل علیہِ السلام کا انتخاب کیا پھر سب سے بہترین سواری براق کا انتخاب کیا اور ان سب سے بڑھ کر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے عظیم رسول،نبی، پیغمبر کو سات آسمان سے اوپر  بلایا اور پھر یہ عظیم عمل جو اس کائنات کے لیے سب سے بہترین تحفہ ہے۔ اس تحفے کو اپنے عظیم رسول کے سپرد کیا اور بتایا کہ ہم نے آپ کے ذریعہ سے یہ عظیم عمل اس کائنات میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے تحفہ کے طور پر پسند فرمایا ہے۔

        اب یہ ہماری اپنی مرضی ہے کہ ہم اس عمل کے ذریعے کتنا نفع حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے ہم اپنے کتنے معاشرتی، معاشی، جسمانی، نفسانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی، ملکی، غیر ملکی،بین الاقوامی مسائل کو حل کرکے کامیاب ہوسکتے ہیں،کیونکہ ہر روز اللّٰہ رب العزت کے گھر سے مؤذن پانچ بار اس کامیابی کی طرف بلاتا ہے حی علی الفلاح، آؤ کامیابی کی طرف اب ہم میں سے کون اس کامیابی کو لینے کے لیے تیار ہوتا ہے یہ اب ہم پر ہی منحصر ہے۔ 

        اے مسلمان آج تو رب کی عبادت و بندگی سے دور بھاگتا کیا تو نے کبھی سوچھا یہ وہ عمل ہے جس کا پابند اللّٰہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھی بنایا تا کہ لوگ خدائے پاک کی عبادت اور اس کی بندگی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے یاروں کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں گپ شپ لگانے کا وقت ہے لیکن نماز کے لیے  نہیں ، فضول میں چوراہوں پر بیٹھ کر آنے جانے لوگوں کو پریشان کرنے کا وقت ہے لیکن نماز کے لیے نہیں ،گھنٹوں موبائل پر گیم کھیلنے کا وقت ہے لیکن نماز کے لیے نہیں

ایک دوسرےکی برائی کرنے کا وقت ہے لیکن نماز کے لیے نہیں، امام مسجد کے عیب تلاشنے اور ان کو ذلیل رسوا کرنے کا وقت ہے لیکن نماز کے لیے نہیں، الغرض تمام خرابات و خرافات میں اپنے اوقات کو بے جا ضائع کرنے جا وقت ہے لیکن نماز کے لیےنہیں، پھر بعد میں شکوۂ رنج و الم بیان کرتے ہیں کہ میری گردن میں درد میری کمر میں درد میری بیوی بیمار میرا بچہ بیمار میری اماں بیمار میرے ابا بیمار۔

اے سبوح قدوس رب ہم سے اپنی عبادت کا حق نہ چھین

 الغرض طرح طرح کی بیماریوں، نحوستوں، غربتوں،اور اولاد کی نافرمانیوں کا تذکرہ کرتے  پھرتے، بعض بے علم  ایسے بھی ہوتے ہیں جو مصائب و آلام کی کثرت کی وجہ سے اپنے عقائد و نظریات بھی خراب کرلیتے ہیں۔ بے عمل پیروں کے پاس جاتے ان سے تعویذ گنڈے کرواتے پھرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فلاں میاں جی کے تعویذ سے بیماریاں دور اور نحوستیں ختم  ہوجائیں گی لیکن ہر بار کی طرح  ہوتا وہی ہے کہ کچھ فائدہ نہیں ہوا،ڈاکٹروں کے  ہسپتالوں کے چکر لگاتے لگاتے ایڑیاں گھس جاتی اور ان کی کی گئیں ساری تدبیریں بے سود اور لغو ہوجاتیں ہیں،ایسا کیوں!۔

 ایسا اس لیے ہے کہ جو کام ان کو کرنا چاہیے وہ کرتے ہی نہیں الٹے سیدھے کام کرتے رہتے ہیں اور کچھ اس طرح کے الفاظ کہتے اللّٰہ ہمارا دشمن ہے، ہمارا برا چاہتا ہے اس کو ہمارا خوش رہنا پسند نہیں وغیرہ نعوذ باللّٰہ رب العالمین من ذلک۔ جو کام کرنا چاہیئے وہ یہ ہیں  جیسے کہ نماز اور صبر سے استعانت، اور صدقہ جسکے ترغیب اللّٰہ کے رسول نے خود دی اور فرمایا صدقہ بیماریوں کو ٹال دیتا ہے، کہیں ارشاد فرماتے ہیں کہ صدقہ کے ذریعہ اپنے بیماروں کے لیے شفا و تندرستی حاصل کروں وغیرہ وغیرہ ۔میں یہ نہیں  کہتا دوائی نہ کراؤ تعویذ نہ بنواؤ لیکن یہ سب اس وقت ہی کامیاب ہیں جب نماز و صبر سے استعانت کے ساتھ ان کو  بروئے کار لائے تب تو سود مند ہیں ورنہ بے سود ہیں۔      

  آج سے بلکہ ابھی صدق دل سے تائب الی اللّٰہ ہوکر نماز پنجگانہ کے پابند ہوجائیں اور ساتھ ہی ساتھ ترک شدہ نماز کی قضا کریں اور اعمال بد سے اجتناب کریں اللّٰہ تعالیٰ ہم کو اور تمام مومنین و مومنات کو نماز پنجگانہ کی توفیق عطا فرمائے اور اعمال بد سے گریز کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین

مولانا محمد دانش رضا منظری

استاذ جامعہ احسن البرکات للولی،فتح پور، یوپی، الھند

رابطہ    9410610814
 
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن