ازمحمد زاہد علی مرکزی حضرت صدر الافاضل اور آریہ کا مناظرہ
حضرت صدر الافاضل اور آریہ کا مناظرہ
آریہ پنڈت نے یہ اعتراض کیا کہ توریت، انجیل، زبور اور قرآن شریف یہ چار کتابیں الگ الگ زبانوں میں کیوں نازل ہوئیں؟ ایک ہی مرتبہ، ایک مکمل کتاب کیوں نازل نہ کر دی گئی ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک کتاب نازل کرنے کے وقت (معاذاللہ) خدا سے بھول ہوئی جب یاد آیا کہ فلاں فلاں بات رہ گئی ہے تو دوسری کتاب نازل کی، اس میں بھی بھول سے کچھ باتیں رہ گئیں، تو تیسری اور چوتھی کتاب نازل کی اگر وہ سب باتیں پہلے ہی یاد ہوتیں تو ایک ہی مرتبہ مکمل کتاب نازل کردیتا
پنڈت جی نے بڑے تفاخر سے اچھل اچھل کر اس اعتراض کو پیش کیا اور انھیں یقین تھا کہ ان کا مقابل لاجواب ہوجائے گا اور میدان ان کے ہاتھ رہے گا
فقیر (صدر الافاضل) نے کہا کہ پنڈت صاحب یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ حکیم کے افعال حسب اقتضا حکمت و مصلحت ہوتے ہیں، جس وقت جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو کام میں لاتا ہے ۔ ایک حاذق طبیب ایک وقت مریض کے لیے منضج کا نسخہ لکھتا ہے، پھر وہی اس نسخہ کو موقوف کر کے مسہل کا نسخہ دیتا ہے۔ اس کے بعد اس کو بھی موقوف کرتا ہے تبریدیں پلاتا ہے، پھر انہیں موقوف کر کے مصفیات دیتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں
کہ منضج کا نسخہ لکھتے وقت اس کو مسہل یاد نہ تھا اور مسہل تجویز کرتے وقت تبرید کا علم اس کو نہ تھا اور تبريد دیتے وقت وہ نہ جانتا تھا کہ آخر کار مصفیات دینے ہوں گے، بلکہ یہ سب کچھ حسب اقتضاء حکمت ہے، وہ حکمت اگر آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ کے علم و عمل کا قصور ہے، حکیم پر اعتراض بے جا ہے۔
یہ مضمون میں نے اس تفصیل و توضیح کے ساتھ بیان کیا اور بحمد اللہ جلسہ کے دل نشیں ہوگیا، مجمع سے آفریں آفریں اور مرحبا مرحبا کی صدائیں آنے لگیں، مگر پنڈت جی بہت برہم ہوے، بہت بگڑے، بڑے جوش میں کھڑے ہوے تیوری چڑھ گئی، کہنے لگے : ہم جانتے تھے کہ آپ کے پاس اس اعتراض کا کچھ جواب نہیں ہے اور آپ یہی کہیں گے کہ دین کی بات میں عقل کا کچھ دخل نہیں
اپنی حکمت کو خدا جانے، مگر یہ یہ کہہ دینے سے میرا اعتراض نہیں اٹھا آپ اعتراض کا جواب دیجئے ۔ اس کے ساتھ پنڈت جی نے بڑی تعلی وغیرہ کے کلمات کہے ۔
میں نے کہا کہ پنڈت جی بات تو میں نے معقول کی اور مجمع کے دل نشین بھی ہو گئی میری تقریر پر آپ کوئی جرح بھی نہیں کر سکے اور اس کا کوئی لفظ آپ سے غلط ثابت نہ ہوسکا اس پر اتنا غصہ ہے، ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجئے آپ کے اعتراض کا جواب شافی پیش کر دیا گیا ہے۔
اس متانت کی گفتگو نے پنڈت صاحب کو بہت زیادہ گرم کر دیا اور انہوں نے بہت سخت لب و لہجہ میں پھر اپنے اعتراض کو پیش کر کے جواب طلب کیا۔ میں نے کہا کہ پنڈت جی جواب تو میں شافی دے چکا اور مجمع سمجھ گیا۔ مگر آپ کہتے ہیں کہ جواب نہیں ہوا تو اب میں آپ کی فہم کے لائق جواب عرض کرتا ہوں۔
قرآن پاک کو تو آپ مانتے ہی نہیں، مگر یہ تو آپ کو تسلیم ہے کہ آپ کو تو آپ کے ایشور نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس وقت تو آپ کا قد پانچ چھ فٹ لمبا ہے، منہ پر مونچھیں تاؤ کھارہی ہیں، دانت، داڑھیں موجود ہیں لیکن جب آپ پیدا ہوئے تھے اس وقت نہ آپ کے منہ میں دانت تھے، نہ داڑھیں، نہ یہ لمبی لمبی مونچھیں، نہ یہ قد و قامت
تو کیا آپ کے اعتقاد میں اس وقت ایشور ان سب چیزوں کو بھول گیا تھا۔ آپ کی تو صرف زبان ہلتی ہے، آپ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ایشورسے بھول ہو گئی تھی، لیکن پنڈت جی! اگر آپ کی پیدائش کے وقت جناب کا یہ قدو قامت ہو تا تو والدہ صاحبہ کی شامت تھی۔
یہ جواب سن کر آریہ تو چل دیئے اور پنڈت جی اکیلے رہ گئے، نہ ان سے اٹھا گیا نہ زبان سے ایک لفظ نکل سکا اور مجمع میں تحسین و آفریں کا شور مچ گیا. اس پنڈت کی یہ گفتگوئے نادانی ہی تھی جس پر اس کو اس قدر شرمندگی اٹھانا پڑی ۔(احقاق حق ص 185)۔
پیش کش : محمد زاہد علی مرکزی (کالپی شریف)۔
اس کو بھی پڑھیں حضور تاج الشریعہ قدس سرہ ارباب علم و دانش کی نظر میں