Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتصحابہ کرام کی توہین موجب لعنت

صحابہ کرام کی توہین موجب لعنت

Add Your Heading Text Here

 از محمد تنویر رضا الازھری صحابہ کرام کی توہین موجب لعنت

صحابہ کرام کی توہین موجب لعنت

صحابی اس سعادت مند انسان کو کہا جاتا ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم ﷺ کا دیدار کیا ہو اور ایمان ہی پر اس کا خاتمہ بھی ہوا ہو ۔

         صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت وشرف کے لئے مذکورہ تعریف ہی کافی ہے کہ انہوں نے حالت ایمان واسلام نبی آخر الزمان ﷺ کے رُخ ِانور کو دیکھنے کی سعادت حاصل کی ۔ وہ چہرہ انور ، جس کی زیارت بحالت ایمان دنیا وآخرت میں فوز و فلاح کا ضامن اور خیر وافضل ہونے کی دلیل ہے ۔

 جیساکہ ترمذی شریف میں فرمان نبوی ہے ۔ عن جَابِرَ بن عَبد اللهِ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وسَلمَ يَقُولُ : “ لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي ۔۔۔” یعنی ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا ۔۔”. اور صحیح بخاری میں ہے ۔ “ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ …” یعنی میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں ، پھر ان کے بعد والے (تابعین)، پھر وہ جو ان کے بعد (تبع تابعین) ہیں ۔

      رسول اکرم ﷺ کے یہ قدسی نفوس صحابہ وہ خوش نصیب ذات تھے جن کے دل ایمان و اخلاص اور تقویٰ و طہارت سے معمور تھے۔ علم وعمل اور اخلاق و کردار کی گہرائی میں سب سے مقدم تھے ، یہی وہ مبارک شخصیات ہیں جن کو اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت اور مدد ونصرت کے لیے منتخب فرمایا تھا ۔ یہ شرف صحابیت اتنا بلند وارفع مقام ہے کہ قرآن وسنت میں اس کی عظمت و جلالت کثرت سے وارد ہے ۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے : ” وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَاَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ “۔

 یعنی ” اور سب سے اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ انکے پیرو ہوئے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ، اور انکے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ، ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں ، یہی بڑی کامیابی ہے “(کنز الایمان)۔

      اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ سورۃ ” الفتح ” کا کثیر حصہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ہے، اسی سورۃ میں بیعت رضوان میں شرکت کرنے والے صحابہ کرام کے بارے میں فرمان ربانی ہے : ” لقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ ۔۔‘‘ ۔

 یعنی ’’ بیشک اللہ ایمان والوں سے راضی ہوا جب وہ اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے ، تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے ، تو ان پر اطمینان اتارا ‘‘ کنز الایمان” ۔ اور اسی بیعت رضوان میں شامل صحابہ کرام کے بارے میں صحیح مسلم ، ابو داؤد اور جامع الترمذی وغیرہ میں ارشاد نبوی ہے کہ : ’’ ان صحابہ میں سے کوئی ایک صحابی بھی نارِ جہنم میں داخل نہ ہوگا ، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی

         یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول کریم ﷺ سے سچی محبت نہیں ہوسکتی ، یونہی صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر رسول اکرم ﷺ کی پیروی کا تصور بھی محال ہے ، کیونکہ صحابہ کرام نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے ، ان حضرات کے ایمان وعقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت وسلامتی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود خالقِ کائنات نے قرآن مقدس میں عطا کی ہے

 چنانچہ سورۃ حجرات میں ارشاد ربانی ہے ۔ ” اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْواتَہم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَّقْویٰ لَہُم مَغْفِرةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ ترجمہ: بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس ، وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لئے پرکھ لیا ہے ، ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے” (کنز الایمان)۔

اور اسی سورۃ کی دوسری آیت میں ہے : ”  ولکن اللّٰہ حَبَّبَ اِلَیْکُم الاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ فِی قُلُوْبِکُمْ وکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالعِصْیَانَ ، اُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ “۔ یعنی ” لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ، اور کفر وحکم عدولی ونافرمانی تمہیں ناگوار کردی، ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں” (کنز الایمان)۔

        مذکورۃ آیات قرآنیۃ اور احادیث نبویۃ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین منصف وعادل اور متبع قرآن وسنت تھے ، وہ لوگ سراپا ادب اور پیکر اخلاص وتقویٰ تھے ، کفر وفسق اور کذب ونفاق سے محفوظ ومامون تھے

بھلا سوچیں ! فکر وتدبر کریں ! مزید ضرورت محسوس ہو تو دقیق نظری اور وسعت ظرفی کے ساتھ غور کریں کہ اتنے اعلیٰ صفات بلند مرتبت اور سعادت مند صحابۂ رسول کے ساتھ بغض وعناد ، کدورت وکینہ کیوں کر روا ہو سکتا ہے ، یقیناً ان نفوس قدسیہ کو برا بھلا کہنا ان پر لعن طعن اورسب وشتم کرنا نہایت ہی مذموم اور قبیح فعل ہے ، بلکہ ان کی تنقیص وتوہین موجب لعنت اور بدبخت و بےدین ہونے کی علامت ہے

 جس کی گواہی آقاۓ کریم ﷺ نے اپنے قولِ پاک میں دی ہے ۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ‏: “‏ لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ‏”‏۔ یعنی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو صحابہ کے ایک مٹھی یا آدھے مد کے برابر بھی نہ ہوگا “۔

یوں  ہی ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” لا تسبوا اصحابی فمن سبهم فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ ۔ یعنی ’’ میرے صحابہ کو گالی مت دو ، جس نے ان کو گالی دی، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔

      احادیث نبویہ سے ثابت ہے کہ ہادئ عالم سرکار دوعالم ﷺ نے اپنے جاں نثار صحابہ کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے ، لہذا کسی صحابی کے مناقب ومحاسن اور اس کی اسلامی مساعی کا انکار کرنا حد درجہ حماقت ہے

مجتہدین کے مطابق صحابہ کو سب وشتم کرنا ذنب کبیر اور لعنت عظیم ہے ، ان نفوس قدسیہ کے بارے میں کف لسانی اور سکوت وخاموشی ہی معقول ومقبول ہے ۔ جیساکہ امام المفسرین علامہ قرطبی اپنی مشہور ومعروف  الجامع لأحکام القرآن ” المعروف بہ تفسیر قرطبی ” میں رقم طراز ہیں

 یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے ، اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا ، اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی ، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں ، اور ہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں، کیوں کہ صحابیت بڑی حرمت وعظمت کی چیز ہے اور نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے “۔ (تفسیر قرطبی ج ۱۶، ص۳۲۲)۔

محترم قارئین ! بلاشبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات وہ ذات تھی جو اپنی دولت وثروت اور احباب واولاد تو کیا، اپنی جانیں بھی نبی پاک ﷺ کے قدموں پر نچھاور کردیتے ۔ وہ نبی کے اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو جاتے ، وہ ہرصورت آقائے کریم ﷺ کے سچے اور کھرے پیرو کار تھے ، انہوں نے ہی قرآن وسنت کو ہم تک پہنچایا ہے ، وہی ان دونوں مصادر کے شاہد عدل ہیں ۔

لہذا ہمیں ان قدسی نفوس صحابہ کی توہین وتنقیص ، سب وشتم اور بغض وعداوت سے قطع نظر ان کے اخلاص وجاں نثاری اور ایثار وقربانی کی قدر کرنی چاہئیے ، انکے علم  وعمل اور اطوار وکردار کی اتباع کرنی چاہئیے، ہر ممکن حد تک ان کے اخلاق عالیہ اور پاکیزہ سیرتوں سے آراستہ پیراستہ ہونا چاہیئے ، یقیناً اسی میں اللہ ورسول کی خوشنودی اور فلاح فی الدارین ہے ۔

دارالعلوم اشاعت الاسلام ، پرتاول ، مہراجگنج

موبائل نمبر : 9125680200

ای میل : tanweerazhari@gmail.com

اس کو بھی پڑھیں    کیا حقیقت میں مولوی کی دوڑ مدرسہ سے مسجد تک

Anazon Bigbasket    Havells   Flipkart

 

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن