Friday, November 22, 2024
Homeشخصیاتحضور مجاہد ملت حیات خدمات اور اعترافات ایک جائزہ

حضور مجاہد ملت حیات خدمات اور اعترافات ایک جائزہ

از وزیر احمد مصباحی (بانکا) حضور مجاہد ملت حیات خدمات اور اعترافات ایک جائزہ

حضور مجاہد ملت حیات خدمات اور اعترافات ایک جائزہ

     یہ بات سچ ہے کہ حیات انسانی جب بھی کبھی کسی ایک ہی رو میں مسلسل چلتے ہوئے سست روی کا شکار ہو کر اپنی رمق دمق کھونے لگتی ہے اور شک و شبہات کی بنا پر کسی پُرپیچ ڈگر سے رشتہ ہموار کرنے کے کگار پر ہوتی ہے تو اس وقت وہ اس پریشانی سے نکلنے کے لیے انتہائی شد و مد کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتی ہے اور اس باب میں جہاں اور بھی بہت ساری چیزیں اس کی معاونت میں ہاتھ بڑھاتی ہیں وہیں اسلاف و نیک بختوں کی زندگیوں کے تابندہ نقوش بھی اسے اپنا سمت سفر متعین کرانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

تاریخ کے صفحات اس حقیقت سے پر ہے کہ اسلاف کے تذکروں سے کمک حاصل کر کے لاتعداد بھٹکے ہوئے آہوں نے منزل مقصود کا پتہ لگایا ہے۔ ہاں! اب یہ مضبوط دل والوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے بلند حوصلوں کا بھرم رکھتے ہوئے اس راہ پہ چل کر دکھائے۔

مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ وہ باہمت انسان جنھوں نے پوری دل جمعی کے ساتھ اسلاف کرام سے منسوب، نشیب و فراز میں بکھرے ہوئے تمام پھولوں کو ایک گلدستہ کی شکل میں ہمیشہ اہل عقل وخرد کے سامنے پیش کرنے کا کام کیا ہے اور پوری دیانت و انصاف کے ساتھ اسے قارئین کے خاطر مطالعاتی میز کی زینت بنانے کا مرحلہ طے کیا ہے وہ پر خلوص مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ 

      سیرت و سوانح کا اگر جائزہ لیں تو آپ کو ایسی ہزاروں کتابیں مل جائیں گی جو آج بھی مارکیٹوں میں فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ لائبریریوں میں بھی محفوظ ہیں۔ ہاں! اس امر کی تحقیق میں کے اس میں کتنا مواد کھرا ہے اور کتنا کھونٹا؟ ہو سکتا ہے آپ کو ایک طویل مدت تک سر کھپانا پڑے۔ چند بیتے برسوں میں جو بھی سیرت وسوانح کی بے شمار کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم کڑی حضور مجاہد ملت حیات، خدمات اور اعترافات بھی ہے۔

اس وقت راقم الحروف کے مطالعاتی میز پر یہی کتاب زینت بنی ہوئی ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابھی چند ماہ پہلے ہی لوک ڈاؤن کے ایام میں مولانا رحمت اللہ صدیقی نے اپنی مذکورہ کتاب الجامعۃ الرضویہ، پٹنہ سیٹی کے احاطے میں بطور تحفہ عنایت فرمائی تھی اور آج اس کے مطالعہ کے بعد قدرے تاثراتی اور منہ بھرائی سے دور منصفانہ باتیں رقم کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔

       کتابی نام پر نظر پڑتے ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس میں ماضی قریب کی ایک انتہائی متحرک شخصیت یعنی مجاہد ملت، سراج السالکین حضرت شاہ حبیب الرحمٰن قادری عباسی رحمۃ اللہ علیہ کی گوشئہ حیات سے جڑے تابندہ نقوش موضوعِ سخن بنے ہوئے ہیں۔

یقینا حضور مجاہد ملت کی ذات اپنے آپ میں ایک ایسا جہاں آباد رکھتی تھی جہاں اللہ و رسول کی رضا کے خاطر ہر شئی اسوہ حسنہ کی روشنی میں انجام دی جاتیں۔ آپ کے اندر وحید عصر ہونے کی وہ ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں جن کا اعتراف آپ کے عہد کے ہر کبیر و صغیر نے کیا اور تعظیم و تکریم کی پلکوں پر بٹھایا۔

زمانے کی آنکھ نے وہ دن بھی دیکھا جب قوم مسلم کے سیاسی مسائل کے حل اور حکومت وقت کی غلط پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں آپ کو تقریبا آٹھ مرتبہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ اس سخت گھڑی کا بھی گردش ایام نے بخوبی مشاہدہ کیا جب کوئی سیاسی بازی گر ملک کے کسی خطے میں غربت و افلاس سے جوجھ رہے لوگوں کا ہنستا و مسکراتا ہوا گھر فسادات کی نظر کر دیتا اور آپ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کے لیے میدان میں اتر پڑتے اور حکومت وقت سے دو ٹوک انداز میں ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مانگ کرتے۔

واقعی حضور مجاہد ملت جہاد کے ہر محاذ پر سرخرو نظر آتے ہیں۔ آپ کو رب کریم نے ایسا دھڑکتا ہوا دل عطا فرمایا تھا جو ہر لمحہ عشق رسالت کی سچی ترجمانی کرتا نظر آتا۔ رئیس اڑیسہ ہونے کے باوجود آپ کی زندگی کا اکثر حصہ صرف قومی مسائل کے حل کے لیے سفر میں گزرا، مگر پھر بھی کبھی رب کی عبادت میں کمی نہیں آنے دی۔

اس کتاب کو آن لائن بک کریں گھر تک پہنچ جاے گی

آپ عابد شب زندہ دار کے منصب پر فائز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب پوری دنیا پر سکوت کی چادر تنی رہتی اسی لمحہ دوران مناجات ہی آپ دل کی ساری باتیں اپنے رب  کے حضور کر لیا کرتے۔ قول و فعل سے ہمہ وقت بےغبار عشق رسالت کی ترجمانی کرتے۔ 

      مصنف موصوف نے مذکورہ ساری حقیقتوں سے اچھوتے انداز میں پردہ اٹھایا ہے۔ انداز بیاں اس قدر پرکشش، جاندار اور سلیس ہے کہ وقت مطالعہ دور مجاہد ملت نگاہوں کے سامنے گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے مگر جب سلسلہ قرأت کا بندھ ٹوٹتا ہے تو پھر ذہن کے عقبی دروازے سے یہ شعر برابر کچوکے لگاتا ہے کہ؀

     ہاں! دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو

         دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

طرز تحریر اس قدر تہہ داری سے مزین ہے کہ عبارت میں کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا۔ ایک محرر کو کماحقہٗ کامیابی کی کلید بھی اسی وقت ہاتھ لگتی ہے جب وہ اپنے قارئین پر نہ تو باعتبار اندازِ بیاں بوجھ بنے اور نہ ہی موضوع کے ساتھ دیانت و انصاف تئیں علمی خیانت کا مظاہرہ کرے۔

       فاضل مصنف زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ:٧١/ پر حضور مجاہد ملت کی سیاسی بیداری کے حوالے سے لکھتے ہیں

     ” حضور مجاہد ملت عرش نشین تھے، لیکن خود کو خاک نشین سے زیادہ کبھی نہیں سمجھا۔ ان کی ذات دینی، ملی اور انسانی درد کا پیکر تھی۔ ہم پانی سے وضو کرتے ہیں لیکن وہ اشکوں سے وضو کیا کرتے تھے۔ ہم اپنے گردوپیش کی خبر نہیں رکھتے ہیں، وہ پوری دنیا کو آئینے کی طرح دیکھتے تھے۔ ان کی نگاہ صرف مسلکی سیاست پر نہ تھی بلکہ عالمی سیاست پر بھی تھی۔ اگر آپ کسی دوسری قوم میں پیدا ہوتے تو آپ آپ کی زندگی سے وابستہ ہر سانس کو قرینے سے محفوظ کیا جاتا”۔

       مصنف موصوف نے فکر و شعور کی روشن راہوں کے مخلص مسافر کی حیثیت سے جس خوبی و سلاست کے ساتھ حضور مجاہد ملت کے قیمتی گوشۂ حیات سے نقاب کشائی کرنے کی کوشش کی ہے اسے ایک کامیاب ابتدائیہ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پوری کتاب رطب و یابس سے پاک و صاف و آرائش و زیبائش سے مزین ہے۔ کتاب کے شروع میں سید اولاد رسول قدسی کی ایک منقبت اور حضور مجاہد ملت کی حیات پر حضرت مولانا محمد خالد علی رضوی شمسی نے عنوان “صحرائے مدینہ میں عشق کا طوفان” کے تحت روشنی ڈالنے کی  کام یاب کوشش کی ہے۔

 آپ سوچ رہے ہوں گے کہ فاضل مصنف نے حضور مجاہد ملت کی حیات و خدمات کے لیے الگ الگ باب کا انتخاب کیا ہوگا جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ خود مصنف موصوف نے کتاب میں شامل اپنے طویل ترین تحقیقی مقدمہ ہی میں ان ساری حقیقتوں کو لفظوں کا پیرہن دینے کی کوشش کی ہے۔ مقدمہ ١٢٦/ صفحات پر مشتمل ہے اور پھر اس کے بعد ہی اعترافات و مناقب کے ابواب شامل ہیں۔

      مصنف کی اس خوبی کا میں تہہ دل سے معترف ہوں کے وہ جو بھی سوانحی کتاب ترتیب دیتے ہیں اس میں” اعترافات” کا باب ضرور شامل بزم کرتے ہیں۔ کسی بھی ذات کی رفعت و بلندی کا کماحقہٗ سراغ آپ اسی وقت لگا سکتے ہیں جب یہ بھی جان لیں کہ ان کے ہم عصر فضلا ان سے متعلق کس وہم و گمان کے شکار ہیں۔ اس ضمن میں اگر مجاہد ملت کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے زمانے کے ہر عالم و فاضل اور مفتی و متقی نے اپنے سے بڑھ کر یکتا و بےمثال جانا۔

 خود آپ کے پیر و مرشد حضور حجت الاسلام علامہ حامد رضا خان نے آپ کو ہم عصروں اور فضل و کمال والوں میں قابل فخر، بڑوں کی آنکھ کی پتلی اور فضل و اونچے اخلاق والے فاضل و کامل و لائق ادیب گردانا ہے۔ ورنہ تو اہل علم کے مابین معاصرانہ چشمکیں بھی خوب دیکھی گئیں ہیں۔ بابِ اعترافات میں فاضل مصنف نے اپنی انتھک جہد کا زبردست کرشمہ دکھایا ہے۔ تلاش بسیار کے بعد فرد واحد پر تقریباً ١١٥/ اہل علم و دانش کے گراں قدر بکھرے ہوئے تاثراتی کلمات کو یکجا کر لینا واقعی جگر کاوی کا کام ہے۔

      حضور مجاہد ملت یقیناً ایک بے باک مجاہد تھے۔ آج کتنے ہی منہ میاں مٹھو بننے والے ایسے ان گنت بناوٹی چہرے ہیں جو نام کے آگے پیچھے بھاری بھرکم القابات کے سہارے بےموقع بلند بانگ تو دے لیتے ہیں پر وقت آنے پر اس طرح تہ خانے میں روپوش ہو جاتے ہیں کہ پھر لاکھ ڈھونڈتے نہیں ملتے۔ اس مرد قلندر کی بے باکی کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگائیں کہ وہ اپنے سینے میں کس قدر جوان دل رکھتے تھے کہ اس نےکبھی بھی روباہی کا چہرہ نہیں دیکھا

     ” میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ لاکھوں کے اس مجمع میں حکومت ہند کے ظالم سربراہوں کے وفادار کتے بھی موجود ہیں۔ وہ میری تقریر کے الفاظ نوٹ بھی کر رہے ہوں گے۔ تو اے حکومت کے کتو! یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لو کہ میں اپنی تقریر کا ذمہ دار خود ہوں۔

منتظمین جلسہ، سامعین اور دوسرے مقررین پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ میری حق گوئی کو اگر ظالم حکمراں جرم سمجھتے ہیں تو اس جرم کی سزا بھگتنے کے لیے میں ذاتی طور پر خود تیار ہوں۔ کسی دوسرے کو تختہ مشق ہرگز نہ بنایا جائے۔ اس لیے کہ میں جو کچھ بول رہا ہوں وہ کسی کے اشارے، کنایے پر نہیں، بلکہ یہ میرے ضمیر کی آواز ہے۔ جو میرے ہونٹوں سے نکلنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ میں بولتا ہوں اور بولتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ حق و انصاف کا پرچم ہر جگہ بلند ہوجائے یا میری روح کب قفس عنصری سے پرواز کر جائے”۔ (کتاب ہذا، ص: ٩٠، ٩١)

      مگر افسوس کہ آج ہر گزرتے ایام کے ساتھ عوام و خواص ان کے زریں دروس کو بھلائے جا رہے ہیں، جس قدر ان کی ذات پہ کام ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہو پا رہا ہے اور اس کی جگہ چادر و گاگر نے لے لیا ہے۔ ” آل انڈیا تبلیغ سیرت” اور ” جماعت کل ہند خاکساران حق” جیسی تنظیمیں جو کبھی حکومت وقت سے آنکھیں ملاتی تھیں، وہ آج سر بھی نہیں اٹھا پا رہی ہیں، بلکہ وہ سانس بھی بڑی مشکل سے لے پا رہی ہیں۔

 واقعی! یہ سچ ہے کہ حیات مجاہد ملت کا مطالعہ کرنے پر حضرت ابراہیم بن ادہم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ کی ذات “مردِ جوزاء” کی حیثیت رکھتی تھی۔مفتی عاشق الرحمٰن صاحب قبلہ نے مردِ جوزاء کے جو حالات و صفات گنائے ہیں، مصنف موصوف نے اسے ص: ٩٧، ٩٨ پر انتہائی اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا‌ ہے۔

ان تمام حقیقتوں کا انطباق اگر حضور مجاہد ملت کی ذات پہ کرتے ہیں تو وہ بالکل میل کھاتے ہوئےنظر آتے ہیں۔حضور صدر الافاضل اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنی نگاہ کیمیا اثر سے مجاہد ملت کو وہ کندن بنا‌دیا تھا کہ جس کے وجود کی خوشبو سے ایک عالم مہک اٹھا۔

      زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کا اگر قلم‌جوان ہے تو وہیں ان کا شمار بھی نوجوان قلمکاروں میں ہوتا ہے۔وہ لکھتے ہیں اور بے تکان لکھتے ہیں۔ جس موضوع پہ بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں قلم برداشتہ لکھتے ہیں اور موضوع کے خد و خال سے کھل کر بحث کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دھنک کے سارے رنگ اپنی تحریروں میں سمو لیتے ہیں۔ فکر رضا کی ترویج و اشاعت ان کا واضح نصب العین ہے۔

کتاب پانے کے لیے ابھی آڈر کریں

وہ اسلاف کی حیات سے وابستہ گمشدہ کڑیوں کو اجاگر کرنے کے رسیا ہیں اور اس امر کے لیے مسلسل تحریری و تقریری پلیٹ فارم سے بھی آواز لگاتے رہتے ہیں ( خدا یہ جذبہ سلامت رکھے) یہ بلند حوصلوں ہی کا تو نتیجہ ہے کہ آج زیر تبصرہ کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہے۔ وہ جماعت میں چور دروازوں سے گھس آئے قزاقوں کے خلاف بھی بے باک لکھتے اور بولتے ہیں۔ کتاب ہذا کہ ص: ٩٣/ پر لکھتے ہیں

        حضور مجاہد ملت نے آل انڈیا تبلیغ سیرت کی بنیاد جن مقاصد کے حصول کے لیے رکھی تھی آج یہ تحریک اپنے قیام کے مقاصد کو بھول چکی ہے۔ آج جن لوگوں کا اس پر غاصبانہ قبضہ ہے، اسے وہ لوگ اپنے خالص ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور استعمال بھی صرف انتخابات کے وقت ہوتا ہے۔

اور سودا بھی انتہائی سستا ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی دس بیس ہزار میں اسے خرید لیتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کا سودا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضور مجاہد ملت کو دنیا کی کوئی طاقت کبھی خرید نہیں سکی، لیکن ان کے خوابوں کا تاج محل ” انڈیا تبلیغ سیرت” بڑی آسانی کے ساتھ بک رہی ہے۔

 اس پہ درد مندوں کی شدید توجہ درکار ہے۔ اس کی بازیابی میں اگر درد مند حضرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملی مفادات کی بہت ساری راہیں کشادہ ہو سکتی ہیں۔ اس عمل سے حضور مجاہد ملت کی روح کو تسکین بھی حاصل ہوگی”۔

       واقعی! حضور مجاہد ملت نے تحریک خاکساران حق کو جن اغراض و مقاصد، اصول و ضوابط اور طریقہ کار سے مزین کیا تھا آج وہ ساری چیزیں معدوم ہو گئیں ہیں۔ مصنف موصوف نے کتاب ہذا میں جہاں اور بھی بہت ساری باتیں بیان کی ہیں وہیں حضور مجاہد ملت کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہ کرنے والوں کے خلاف بھی بامقصد تنقیدی تیر چلائے ہیں۔

ہمیں امید قوی ہے کہ علم و عمل سے غافل اور اپنے آپ کو بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے والے بتا کر بیجا ڈنگ ہانکنے والے افراد ضرور اس سے سبق حاصل کریں گے۔

     ‌ کتاب کے آخر میں تقریباً ١١/ افراد کی منقبتیں شامل ہیں، جو انھوں نے بارگاہ حضور مجاہد ملت میں بطور خراج لکھی ہیں۔رجب المرجب ١٤٣٩ھ/ بمطابق ١١،اپریل ٢٠١٨ میں کتاب پریس سے چھپ کر آئی ہے اور اشاعت کا اہم بوجھ  رضا دارالمطالعہ، پوکھریرا، سیتامڑھی، بہار نے برداشت کیا ہے۔ ٢٨٨/ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ٢٥٠/ روپے ہے۔

قارئین کرام میں اگر کوئی صاحب اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ کتب خانہ امجدیہ و مدنی کتاب گھر، مٹیا محل جامع مسجد دہلی اور مکتبہ رحمانیہ رضویہ، بریلی شریف سے حاصل کر سکتے ہیں۔

(تبصرہ نگار: جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)

ہندوستان میں سلسلہ رفاعیہ کی آمد : اس مضمون کو بھی پڑھیں

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن