Saturday, October 19, 2024
Homeاحکام شریعتقربانی اسلام کے لیے فدا کاری کا درس زریں

قربانی اسلام کے لیے فدا کاری کا درس زریں

 تحریر محمد اشرف رضا قادری قربانی اسلام کے لیے فدا کاری کا  درس زریں

قربانی اسلام کے لیے فدا کاری کا درس زریں

  قربانی اسلام کا شعار اور حکم الٰہی ہے۔ جس کی تعمیل میں ہر سال مسلمان عیدالاضحی کی ساعتوں میں قربانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ظاہری قربانی سے نفس کی قربانی کا مبارک سبق ہر سال ملا کرتا ہے۔

جو در اصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کی طرف سے ان کے عظیم فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے۔ اسلام نے یادوں کو زندہ کیا ہے۔ یادیں شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یادوں کے نقوش تازہ کر کے قوم کے مردہ جسموں میں زندگی کی حرارت پیدا کی جا سکتی ہے اور سوئی ہوئی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے قربانیوں کی صبح نمودار کی جا سکتی ہے۔

مثالی قربانی :۔ اطاعت و مولیٰ کی فرماں برداری کی جو مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کی اور اپنے فرزند و آنکھوں کی ٹھنڈک کو ایثار کے لیے پیش کر دیا اس بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:۔

    یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی۔(سورۃ الصّٰفٰت: / ۳۷ ۱۰۲) ’’اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔‘‘ (کنزالایمان)۔

  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب پر بڑی سعادت مندی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو رائے دی وہ استقامت کا درس فراہم کرتی ہے:۔

  یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (سورۃ الصّٰفٰت:/ ۳۷ ۱۰۲) ’’اے میرے باپ! کیجے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔‘‘ (کنزالایمان)۔

  امتحان کی منزل ہے۔ عظیم والد و عظیم فرزند پیکر صبر و رضا بنے ہوئے ہیں۔ ایثار کی ایک ایسی تاریخ رقم ہونے والی ہے جس کے دامن میں صبح قیامت تک امیدوں کے قافلے ٹھہریں گے اور جب بھی آزمائش کی گھڑی آئے گی، ایثارِ ابراہیمی و صبرِ اسماعیلی معین و مددگار ثابت ہوں گے:۔

  فَلَمَّآ اَسْلَمَاوَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔ (سورۃ الصّٰفٰت: / ۳۷ ۱۰۳)۔  ’’تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ۔‘‘۔

  مشیت پر اس صبر و ایثار کے مبارک نظارے خوب ظاہر تھے۔ لیکن جو درس ملنا تھا، جو قربانی کی تاریخ رقم ہونی تھی اس کا قدرت نے ایسا انتظام کیا کہ وہ بعد کو یادگار بن گئی۔

  منیٰ کی مبارک وادی ہے۔ صبر و ایثار کا جلوہ ظاہر ہونے کو ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔

  وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۔ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔ سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ۔ (سورۃ الصّٰفٰت: / ۳۷ – ۱۰۴ ۱۰۹)۔

۔  ’’اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! بے شک تو نے خواب سچ کر دکھائی ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو بے شک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقے میں دے کر اسے بچا لیااور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی سلام ہو ابراہیم پر۔ ‘‘ (کنزالایمان)۔

  ان آیات میں کتنی واضح و ستھری باتیں ہیں قربانی و ایثار کی بزم میں استقامت کی۔ اور عظیم قربانی کی مقبولیت پر فدیے کی۔ پھر یہ کہ اس درسِ زریں کو بعد والوں کے لیے باقی رکھ کر اللہ نے احسان فرمایا۔ ذوقِ ایثار کے جذبے کی ترسیل ہوئی۔ ایسی کہ قیامت تک امتِ مسلمہ ایثار کے دیے طاقِ دل پر روشن کر کے خفتہ جذبات کے لیے جِلا کا سامان کرتے رہے گی۔

درس زریں: اطاعت الٰہی میں رضائے الٰہی ہے۔ اپنی سب سے قیمتی دولت کوراہِ حق میں قربان کر دینا ہی ایمان کا تقاضا ہے جس کی تجدید کے لیے ہر سال قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی سے کئی درس ملتے ہیں

۔[۱] دین کے لیے جب بھی قربانی کی ضرورت آئے اپنا قیمتی سرمایہ نثار کر دینا چاہیے۔اور پیکر صبر و رضا بن کر جینے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔

۔[۲] چوں کہ اس زمانے میں ناموسِ رسالت ﷺمیں توہین کی فضا مسلسل بنائی جا رہی ہے۔ اس لیے تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے اپنی جان، مال، وقت؛ جیسی ضرورت ہو نثار کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے۔

۔[۳] اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت قدس سرہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و بے ادبی کرنے والوں کی خبر لی، ان پر شرعی حکم جاری کیا، ان کی گستاخیوں پر فتوی حسام الحرمین شائع کیا۔ اب ضرورت ہے کہ ایسے گستاخ فرقوں سے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت و صیانت کی جائے۔

ان سے کسی بھی طرح کے اتحاد و اشتراک سے گریز کیا جائے تا کہ ایمان سلامت رہے، عقیدہ بچ جائے۔ ایسے ماحول میں جب کہ گستاخوں سے اشتراک و اتحاد کی وبا عام ہو رہی ہے، ضروری ہے کہ ان سے بچنے کے جتن کیے جائیں۔ گستاخ کی صحبت دین و دنیا دونوں کے لیے مضر و نقصان دہ ہے۔ اس لیے اس سے لوگوں کو بچایا جائے تا کہ ایمان کا جوہر سلامت رہے، صلح کلیت کا ماحول گستاخوں سے محبت و اتحاد سے بنتا ہے، حضور تاج الشریعہ فرماتے ہیں  ؎۔

صلح کلی نبی کا نہیں سنیو

سنی مسلم ہے سچا نبی کے لیے

  بہر کیف عقیدہ کی سلامتی کے لیے صبر و ایثار کی ضرورت ہے

۔[۴] بغیر قربانی کے حق و سچائی کی حفاظت نہیں کی جا سکتی۔ دین کے مقابل ایک دو نہیں درجنوں فتنوں کی یورش و یلغار ہے۔ ایسے ماحول میں ہماری غفلت و بے خبری کا نتیجہ ہے کہ ہر فرقہ بڑھ بڑھ کر حملہ کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ ایثار سے کام لے کر صدق و وفا کے چراغ روشن کیے جائیں۔

۔[۵] عہد اکبری کے الحاد و بے دینی کی فضا پھر قائم ہونے کو ہے۔ اس وقت بھی علما تھے لیکن بڑی تعداد ان کی تھی جو طبیعت کو شریعت پر غالب کر رہے تھے۔ نفس پرستی ایسی کہ امرا و حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے دین کے احکام سے چشم پوشی کر کے برائیوں کو جواز فراہم کیا جا رہا تھا۔

ایسے حالات میں مجدد الف ثانی نے شریعت کی حفاظت کی۔ آج پھر وہی حالات ہیں۔ مصالحت کرنے والوں نے احکام شریعت کو پسِ پشت ڈال کر شریعت بیزاری کا ماحول تیار کر دیا ہے۔ ایثار و قربانی کے ذریعے اس فتنے کو ختم کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ بالخصوص علمائے حق کو چاہیے کہ ایثار پیش کر کے فتنوں کی راہ کو مسدود کریں۔

پیغام عمل  ایمان و عقیدے کی سلامتی و درستی سے دین ابراہیمی کی حفاظت ممکن ہے۔ ایسے ماحول میں جب کہ اندرونی و بیرونی تمام سازشوں کی یورش و یلغار ہے۔

ہر رخ پر رہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔حتیٰ کہ دین کے نام پر بھی فتنوں کی بھیڑ ہے جہاں توہین رسالت ﷺ کو ہی توحید قرار دیا گیا ہے۔ یوں اللہ کے محبوب پاک ﷺ کی بارگاہ سے دوری کی فضا بنائی جا رہی ہے۔ اس لیے عقائد کی سرحدوں کی نگہ بانی بھی کی جائے اور اعمال کا اثاثہ بھی بادِ مخالف کی تیز و تند لہروں سے بچایا جائے۔ ایمان کی سلامتی سے ہی اعمال کی حفاظت ممکن ہے۔

حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی قربانی و صبر کا پیغام ہی یہ ہے کہ اطاعتِ الٰہی میں مداہنت و مصلحت کو دخل نہ دیا جائے بلکہ فدا کارانہ طریقے سے رضائے مولیٰ کے حصول میں سب کچھ تج دیا جائے۔ صبر کا دامن تھامے رہیں، ایثار کے دیپ جلائے رکھیں۔ جبھی کامیابیوں کی صبح تازہ نمودار ہوگی اور نامُرادیوں کی شام ختم ہوگی۔ ضرورت عمل اور استقامت کی ہے۔

  اللہ تعالیٰ ایثار کے اس موسم بہار سے ہمیں مستفیض فرمائے اور قربانیوں کے مقاصد کو سمجھنے کا جذبۂ نافع عطا کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

از قلم : محمد اشرف رضا قادری

چیف ایڈیٹر’’ امین شریعت‘‘ (سہ ماہی)۔

اس کو بھی پڑھیں قربانی اور اس کے فضائل و مسائل از قلم  محمد صادق حسین نعیمی

Flipkart   Bigbasket   Havells

afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن