تحریر:محمد مجیب احمد فیضی کاش ہر مومن آسانی سے سمجھ لیتا
کاش ہر مومن آسانی سے سمجھ لیتا
اسلام میں ویسے تو بہت سے مذہبی تیہوار ہیں۔ البتہ ان تیہواروں میں دو تو بہت زیادہ مشہور ومقبول ہیں۔اور وہ دو مشہور تیہوار کوئی اور نہیں بلکہ عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں ,جن کی شہرت ومقبولیت اور ان کے اہم پیغامات سے شاید کسی کو انکار ہو۔ عید الاضحی کا چاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں خوشیوں کی ایک لہر دوڑنے لگتی ہے۔
اور خاص کر چھوٹے چھوٹے نابالغ اسلامی نو نہالوں کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔اپنے تو اپنے ہیں پرایوں کا بھی مخلص حضرات خاص خیال کرتے ہیں۔عیدالفطر کی طرح عید الاضحی بھی پورے عالم اسلام میں نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ان کے اہم پیغامات پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر مزدورں ,غریبوں, لاچاروں ,بے کسوں اور بے بسوں کا اہل خیر حضرات دل کھول کر اعانت کرتے ہیں۔اور یہ حضرات بھی ان کے عطیات کے مکمل مستحق اور خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کمزور اور عطیات کے مستحق طبقے کو بھی اپنی ہانڈیوں میں گوشت پوست کے ابال کی آواز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ جو اپنے آپ میں یقینا قابل تقلید وتحسین ہے۔
آپس میں دعوتیں ملاقاتیں ہوتی ہیں۔لوگ نہایت ہی فرحت وانبساط خوش وخرم اور خلوص کے سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ مصافحہ و معانقہ کے رسم کی ادائیگی کرتے ہوئے درجنوں فرزندان توحید ساتھ میں کھانا تناول فرما کر اتفاق واتحاد کی ایک جید اور اچھوتا مثال پیش کرتے ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ اب کی بار کرونا وائرس کے چلتے تقریبا پوری دنیا میں خصوصیت کے ساتھ مادر وطن ہندوستان میں سخت لاک ڈاون نفاذ کے باعث جہاں ملک اور بیرونئ ممالک کا تقریبا ہر ہر فرد پریشان اور خاص کر مزدور طبقہ روزگاری نہ ہونے کے باعث بھوک جیسی ضروری امر سے جوجھ رہا ہے۔ اس لیے مہاماری کے چلتے بہت ممکن ہے کہ عیدی چہل پہل کی طرح بقرعیدی چہل پہل بھی ماند پڑ جائے۔
یہ جو مسلمان ہر سال مشہور مہینے کی مخصوص تاریخ میں قربانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کیا ہے یہ قربانی ؟کس کی یاد تازہ کرتے ہیں ؟ کیا یہ بلاوجہ کرتے ہیں؟ جی!نہیں ہر گز نہیں۔
قربانی ایک عظیم الشان لاجواب مالی عبادت ہونے کے ساتھ پیغمبر خدا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت بھی ہے ۔حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم کے عہد مبارک سے شروع ہوئی اور امت محمدیہ علی صحبھا والسلام تک مشروع چلی آرہی ہے,ہر مذہب وملت میں اس کا عمل رہا ہے۔
چنانچہ خالق کائنات قرآن حکیم میں ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ:ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ رب العزت نے انہیں عطا فرمائے۔سورۃ الحج۔
اور ایسے ہی ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:فصل لربک وانحر•ترجمہ:اے نبی آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کریں اور قربانی پیش کریں۔
اس آیت کے پیش نظر امام العلماء قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کچھ اس طرح رقم طراز ہیں “آپ فر ماتے ہیں کہ صل سے مراد عید الاضحی کی نماز ہے اور نحر سے مراد قربانی ہے”۔
لیکن !!جہاں تک قربانی کا مسئلہ ہے تو ذہن کے پردے پر باربار یہ سوال اٹھتا ہے۔
آخر قربانی کہتے کسے ہیں یہ قربانی ہے کیا? تو سنئے!!۔
علمائے ملت اسلامیہ نے قربانی کی تعریف کچھ اس طرح فرمائی ہے کہ “مخصوص جانور کو مخصوص دنوں میں بنیت تقرب ذبح شرعی کرنے کا نام قربانی ہے”جی!ہاں
قربانی اللہ کے نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والتسلیم کی ایک عظیم یادگار اورسنت ہے۔جس میں انہوں نے خدائے لم یزل کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے فرزند ارجمند سیدنا وسندنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی راہ خدا میں پیش کیا۔نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم میں وارادے میں کوئی کمی اور نہ جذبۂ ایثار وخلوص میں کوئی کمی۔
حضرت ابراہیم خلیل کی یہ ادا اللہ جل مجدہ الکریم کو اس قدر بھا گئی کہ خالق کائنات نے اپنے خلیل کی اس سنت ویادگار کو ہمیشہ برقرار رکھنے کے لئے امت مسلمہ پر واجب فرمادیا کہ جب جب اسلامیان عالم قربانی کریں گے۔ تب تب میرے خلیل کی یاد تازہ ہوتی رہے۔
اورآج جب بھی قربانی کے ایام قریب آتے ہیں۔ فرزندان توحید کے ہونٹوں پر ایک طرح سے مسکراہٹ کھیل جاتی ہے۔اس طرح سے ہر سال فرزندان توحید اللہ اور اس کے رسول کی حکم کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ابراہیم خلیل کی سنت بھی ادا کرتے ہیں اور آپ کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں۔
اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کے لئے یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کریم کی اطاعت وفرماں برداری میں ہر قسم کی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار ہے اور اپنے مال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کر خالص اللہ اس کے رسول کی محبت اپنے دل میں پیدا کرے۔نیز قربانی کرتے وقت یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئیے کہ قربانی کی طرح دیگر اعمال میں مقصد صرف اور صرف اللہ ورسول کی رضا ہونی چاہئیے۔گویا ایک مسلمان کی زندگی” ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین “کی عملی تفسیر ہونی چاہئیے۔
حدیث مصطفی میں قربانی کی حقیقت
ویسے تو کئی احادیث قربانی کی فضیلت واہمیت کے بارے میں وارد ہیں,البتہ میں چند پر اکتفا کرتا ہوں۔اور ,وہ چند یہ ہیں۔
عن زید بن “ارقم”رضی اللہ عنہ• قال• قال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم•
ما ھذہ الاضاحی? یارسول اللہ! قال• سنۃابیکم ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام • قالوافما لنا فیھا یارسول اللہ ! قال بکل شعرۃحسنۃ
قالوا فاالصوف یا رسول اللہ !قال بکل شعرۃ من االصوف حسنۃ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ,کہ اللہ کے حبیب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے پو چھا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں?(قربانیوں کی حیثیت کیا ہے)۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ, یہ( قربانیاں)تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔صحابۂ کرام( رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا کہ, یارسول اللہ! ہمیں اس کے کرنے سے کیا ملےگا ? ۔
آپ نے فر مایا:ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر پوچھا:اون کے (بدلے میں کیا ملے گا)فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ )۔
۔ 2 ماعمل بن آدم الخ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عید الاضحی کے دن کوئی بھی نیک عمل قربانی کا اللہ جل مجدہ الکریم کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ نہیں۔اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں,سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا۔اور قربانی کا خون زمیں پہ گرنے سے پہلے اللہ رب العزت کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے,لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔ ( جامع ترمذی ج 1 )۔
۔3 اور ایسے ہی ایک مقام پر حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”سمنوا ضحایاکم فانہ علی الصراط مطایاکم” (الحدیث)
ترجمہ:اپنے قربانی کے جانوروں کو خوب خوب فربہ کرو اس لئے کہ وہ تم سب کے پل صراط پر سے گزرنے کے سواری ہیں۔ پس جس پوزیشن کی سواری جس کی ہوگی اس اعتبار سے وہ باآسانی اس سے گزر ےگا۔
متذکرہ بالا احادیث نبویہ میں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے بھی قربانی کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔لیکن ہائے افسوس صد افسوس!!۔
مقالات اشرفی کو خریدنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں کتاب گھر تک پہنچ جاے گی
آج ہم مسلمانوں کی بد قسمتی کہئے کہ ہم ایام قربانی میں کئی کئی ہزار کا دنبہ, بکرا,قربانی کے جانور فقط نام نہاد کے لئے دکہاوا کے لئےخرید تو لیتے ہیں, لیکن اپنے گھروں کے بغل ہی اپنے پڑوسی کی آہوں اس کی سسکیوں اس کی مجبوریوں کی اس کے فاقہ کشی کی خبر گیری نہ کر کے اس کی دعاؤں کو نہ لیتے ہوئے اس کی بد دعاؤں سے بھی نہیں بچ پاتے,یقین مانیں یہ مقام کف افسوس وتعجب بالائے تعجب ہے۔
ہم اتنا بے توجہی کے شکار ہو جائیں گے اس کی طرف ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔جس پاک مذہب میں “أماطۃ الاذی عن الطریق صدقۃ “اور “المسلم اخوالمسلم” اور” لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ “جیسی نفیس اصولوں کا درس دیا گیا ہے اس پاک مذہب ہی کے ماننے والے کو اتنا بے توجہ نہیں ہونا چاہئیے۔
بلکہ اپنے کردار کو سنوارتے ہوئے ایسے موقع پر غریب ومحتاج افراد کو بھی نظر میں رکھنا ہی چاہئیے, وہ بے چارے کیا کریں ان کے پاس بچے تو بہت تو ہوتے پر کچے ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ غیر مستطیع ہوتے ہیں۔
اور پھر ہمارے گھروں میں قربانی ہوتے ہوئے اگر اپنا پڑوسی مسلمان بھائی خرید کر کھائے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم وعار ہونا چاہیئے۔غریب محتاج اپنی غربت و محتاجگی کے باوجود بھی ہمارے سماج اور معاشرہ کے حصہ ہونے کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر سے ہمارا بھائی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر عمل میں خلوص کے ساتھ اسلام کی صحیح سوجھ بوجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر:محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری
بلرام پوری۔سابق استاذ/ دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول
براوں شریف
رابطہ نمبر:8115775932