Friday, November 22, 2024
Homeشخصیاتڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال و کمال قسط سوم

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال و کمال قسط سوم

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال و کمال قسط سوم

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال

قسط اول اورقسط دوم کے مشمولات پر وارد شدہ سوالوں کے جوابات مرقومہ ذیل ہیں

ان شاء اللہ تعالیٰ قسط چہارم میں شیعہ مذہب کے مطابق عصمت کا مفہوم

 اور حضرت سیدہ طیبہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اجتہادسے متعلق بحث ہوگی، اور قسط دوم کے سوالات سبعہ پر بھی بحث ہوگی۔

سوال اول

کیا اپنے قول وفعل کی صحت کا علم ہوتے ہوئے بھی،محض دفع فتنہ وفساد کے لیے مشروط توبہ کی جا سکتی ہے؟ 

یعنی اس طرح کہاجائے:۔

۔”اگر میرا قول وفعل عند الشرع قابل گرفت ہے تومیں نے توبہ ورجوع کیا“۔

جواب:۔ 

دفع فتنہ وفسادکے لیے سبط پیمبرمرجع الاقطاب حضرت سیدناامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کاتب وحی حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمادی۔حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارک میں اسی عمل کی تحسین فرمائی تھی

اور حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ”سید“ یعنی سردارقوم قراردیا تھا۔ ہاں،اگر مشروط توبہ کے عدم جواز پرکوئی فقہی جزئیہ موجود ہوتو اسی پر عمل کیا جائے۔

سوال دوم:۔ 

متکلم نے حضرت سیدنا پیرمہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کی تشریح میں کہاتھا:”خطا پرتھیں“۔

ماقبل میں جس خطا کا ذکر ہے،وہ معصیت ہے،کیوں کہ ماقبل میں محفوظ عن الخطاکا ذکر ہے اور محفوظ عن لخطا معصیت سے محفوظ رہتے ہیں،نہ کہ خطائے اجتہادی سے۔ اجتہادی خطا کا صدور محفوظ عن الخطا سے ہوتا ہے، پس یہاں خطا سے اجتہادی خطا مراد نہیں ہوسکتی،بلکہ معصیت مراد ہوگی،جس سے محفوظ عن الخطا محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ متکلم کے قول ”خطا پر تھیں“ کا مفہوم ہوگاکہ معصیت پر تھیں۔اصحاب تطہیر کی طرف معصیت کی نسبت یقینا بے ادبی ہے،پھر متکلم پر بے ادبی کا حکم کیوں کرعائدنہیں ہوگا؟

جواب

نہ کتاب (التصفیہ)میں اس مقام پر محفوظ عن الخطا کا ذکر ہے،نہ ہی متکلم کی شرح میں محفوظ عن الخطا کا ذکر ہے،پھر یہ اعتراض ہی لغو اورباطل ہے۔قسط اول میں محض فریق دوم کے اعتراض کا لحاظ کرکے جواب رقم کیا گیا ہے۔ کتاب “التصفیہ بین السنی والشیعہ”میں اس جگہ

 محفوظ عن الخطا کا ذکر نہیں،بلکہ معصوم کا ذکر ہے،اور شیعوں کے اعتقاد کے مطابق ائمہ اہل بیت کے معصوم ہونے کا ذکر ہے۔وہ اہل بیت کو معصوم قراردیتے ہیں۔

شیعوں کے اعتقاد کے مطابق معصوم گناہ،بھول چوک، اجتہادی خطا اورسیاسی امورمیں خطا سے پاک ہوتے ہیں۔شیعوں کے اسی اعتقاد کا رد حضرت پیرمہر علی شاہ قدس سرہ العزیز نے فرمایا اور امکان خطا ثابت فرمایا ہے تو کتابی عبارت میں لفظ خطا سے خطا کی وہ تمام قسمیں مراد ہوں گی، عصمت کے سبب خطا کی جن قسموں کوروافض ناممکن مانتے ہیں۔

اسی طرح لفظ خطا کی تعمیم کا لحاظ کرتے ہوئے خطاکی باقی ماندہ قسمیں بھی مراد ہوں گی۔

روافض کے یہاں معصوم کے لیے (۱)گناہ ومعصیت (۲)خطائے اجتہادی (۳)بھول چوک،سہو ونسیان (۴)اورسیاسی امورمیں خطا نا ممکن ہیں۔

کتاب میں لفظ خطاسے یہاں خطا کی تمام قسمیں مراد ہوں گی۔وہاں مفہوم میں تعمیم کی گئی ہے۔

تاجدار گولڑہ حضرت پیرمہرعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے خطا کے مفہوم میں تعمیم کے لیے ”کسی قسم کی بھی خطا“کا لفظ رقم فرمایا۔ عبارت درج ذیل ہے۔

۔”آیت تطہیرکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہ پاک گروہ معصوم ہیں اور ان سے کسی قسم کی بھی خطا کا سرزد ہونا ناممکن ہے“۔(التصفیہ بین السنی والشیعہ ص۶ ۴)  ۔

اسی عبارت کی تشریح میں متکلم نے کہا:”خطا کا امکان تھا اور خطا پرتھیں“۔

 کتابی عبارت میں ”کسی قسم کی بھی خطا“کا لفظ مذکورہے۔ اس تعمیم کے باوجودکتابی عبارت میں محض معصیت مرادلینا اور خطا کی تخصیص مفہوم معصیت کے ساتھ کردینا ہرگزصحیح نہیں۔

 یہ روافض کا رد ہے۔ روافض معصوم کے لیے خطا کی جن قسموں سے عصمت مانتے ہیں۔وہ تمام قسمیں یہاں مراد ہوں گی،اورلفظ کی تعمیم کا لحاظ کرتے ہوئے روافض کی بیان کردہ قسموں کے علاوہ بھی خطا کی باقی ساری قسمیں مراد ہوں گی، اور لفظ خطا ان تمام معانی کا محتمل ہوگا،جن کا احتمال لفظ خطا میں لغوی طورپر ہے۔

متکلم کی تشریح میں وارد شدہ لفظ خطا میں کن معانی کا احتمال ہے؟ اورکون سامعنی مراد ہوسکتا ہے؟

اگر متعدد معانی مراد ہوسکتے ہیں تو ان میں کس معنی کوترجیح حاصل ہے؟

در اصل متکلم کی شرح میں ہرقسم کی خطا،یعنی خطائے اجتہادی،خطائے معصیت اور خطائے غیرمعصیت (بھول چوک،سہوونسیان جومعصیت نہ ہو)،یہ تینوں معانی ایک ساتھ مرادنہیں ہوسکتے،پس کوئی ایک ہی معنی تشریح میں مراد ہوگا۔کیوں کہ محتمل اور مشترک لفظ کے چند معانی میں سے ایک ہی معنی مراد ہوتا ہے ۔تفصیل درج ذیل ہے۔

۔(الف)اگر وہ خطا، خطائے اجتہادی ہے تو وہ معصیت یا غیر معصیت بھول چوک،سہوونسیان نہیں۔

۔(ب)اگر وہ خطا معصیت ہے تو وہ خطائے اجتہادی اور غیر معصیت بھول چوک،سہوونسیان نہیں۔

۔(ج) اگروہ خطا بھول چوک،سہوونسیان ہے تو خطائے اجتہادی اور معصیت نہیں۔

درحقیقت یہاں کتابی عبارت میں تعمیم ہے،کیوں کہ وہاں ہرقسم کی خطا کا ذکر ہے،اور تعمیم کے مفہوم کو بتانے کے لیے ”کسی قسم کی بھی خطا “کا لفظ مرقوم ہوا۔متکلم کی تشریح میں تعمیم نہیں ہے،یعنی ہرقسم کی خطا مراد نہیں اور نہ مراد ہوسکتی ہے، ور نہ ایک ہی عمل یعنی مطالبہ باغ فدک کا معصیت اورغیرمعصیت ہونا لازم آئے گا، اور ایک ہی عمل کا معصیت وغیر معصیت ہونا محال ہے اورجس سے محال لازم آئے، وہ خود بھی محال ہوتا ہے۔ 

دوسرا استحالہ یہاں یہ ہے کہ اگر متکلم کی شرح میں لفظ خطا کو تعمیم پر محمول کردیا جائے توایک ہی عمل کا موجب اجر وثواب اورموجب ذنب وگناہ ہونالازم آئے گا،اور ایک ہی امر کا موجب ثواب وگناہ ہونا محال ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ خطائے اجتہادی ہونے کی وجہ سے وہ عمل، اجر وثواب کا سبب ہو گا اور معصیت ہونے کے سبب بعینہ وہی عمل ذنب وگناہ کا سبب ہوگا،پس ایک ہی عمل کا فعل گناہ اورفعل ثواب ہونا ثابت ہوا۔یہ محال ہے اور یہ دونوں استحالہ اس وقت لازم آئے گا،جب شرح میں لفظ خطا کوتعمیم پرمحمول کر دیا جائے۔اس کے علاوہ بھی یہاں لزوم استحالہ کی صورتیں موجود ہیں۔

متکلم نے کتاب کی عبارت پڑھی،پھر تشریح کی۔تشریح میں تین بار لفظ خطا کا استعمال ہوا۔ تینوں جگہ لفظ خطا محتمل ہی ہے،اورکسی مفہوم کے مراد لینے کے لیے قرینہ،بیان متکلم یا کسی دلیل کی ضرورت ہوگی۔ متکلم کی شرح میں مذکور لفظ خطا کے مفہوم کے تعین کے لیے ایک قرینہ بھی موجود ہے،اور متکلم کابیان قطعی بھی موجود ہے۔ 

 متکلم کی تشریح مندرجہ ذیل ہے۔اس سے بھی واضح ہوجائے گا کہ محفوظ عن الخطا جس خطا سے محفوظ ہوتے ہیں،یہاں اس کا ذکر نہیں،نہ ہی شرح میں تعمیم ہوسکتی ہے،کیوں کہ شرح میں خطا کو ایک خاص فعل یعنی مطالبہ باغ فدک سے متعلق کردیا گیا ہے۔ اب ایک ہی فعل متضاد صفات کا حامل نہیں ہوسکتا تویہاں متضاد معانی مراد بھی نہیں ہو سکتے۔کتابی عبارت میں اس مقام پر خطا کوکسی فعل سے متعلق نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ائمہ اہل بیت سے متعلق شیعوں کے عقیدۂ عصمت کی تردید ہے۔

متکلم کی تشریح

متکلم نے کہا:”یعنی یہ فرمایا کہ مسئلہ باغ فدک میں اے روافض تم دلیل نہ بناؤکہ معصوم تھیں تومانگنا ہی حق کی دلیل ہے۔ 

یعنی خطا کا امکان تھااورخطا پر تھیں،جب مانگ رہی تھیں تو خطا پرتھیں،لیکن جب آگے سے حدیث آئی تو ان کی یہ شان ہے کہ جن کے جگر کا یہ ٹکڑا ہیں ان کی حدیث سن کر سرتسلیم خم کردیا۔(خطاب اول ازمتکلم)۔

متکلم کا یہ قول کہ حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث نبوی سن کر مطالبہ تر ک فرمادیا،واضح قر ینہ ہے کہ متکلم نے خطا سے خطا اجتہادی مراد لی ہے،کیوں کہ جب حدیث نبوی سن کر مطالبہ ترک فرمادیا تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ حدیث کی عدم معرفت کے سبب قرآن مجید میں بیان کردہ حکم وراثت کی بنیادپرحضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مطالبہ فرمارہی تھیں،پھر جب حدیث نبوی میں مال نبوی کی عدم وراثت کا حکم سماعت فرمائیں تو مطالبہ ترک فرمادیں۔

حدیث نبوی کے علم کے بعد مطالبہ کوترک کرنے کا قول کرنا واضح قرینہ ہے کہ متکلم کی مراد یہ ہے کہ اجتہاد کے سبب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے میراث کا مطالبہ فرمایا تھا،پھرحدیث کی معرفت کے بعد جب اس مطالبہ کا شرعی طورپرکالعدم ہونا ثابت ہوگیا تومطالبہ ترک فرمادیں۔ 

زیدنے بکر کے ہاتھ میں ایک رومال دیکھا اوراس کا رنگ وروپ بالکل زیدکے رومال کی طرح تھا۔ اس نے اپنا رومال سمجھ کر بکر سے اس رومال کا مطالبہ کیا،پھر کسی نے کہا کہ تمہارا رومال تمہارے جیب میں ہے۔اس نے دیکھا کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے تو یہ لاعلمی کے سبب مطالبہ ہوا۔ جب اسے معلوم ہوگیا کہ میرا رومال میرے جیب میں ہے تواس نے مطالبہ ترک کر دیا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ زید کو معلو م ہوگیا کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے،پھر بھی مطالبہ جاری رکھا تو یہ جرم ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ زید کوپہلے ہی سے معلوم ہے کہ اس کا رومال اس کے جیب میں ہے،پھر بھی بکرسے مطالبہ کررہا ہے تو یہ بھی جرم ہے۔

 یہ محض جرم کی شکلوں کی تفہیم کے لیے مثال لکھی گئی ہے۔ واقعہ باغ فدک پر منطبق کرکے بلاوجہ بکھیڑا کھڑا نہ کیاجائے۔

چوں کہ خطا کا ایک معنی خطائے اجتہادی ہے تووہ معنی یہاں مراد ہوسکتا ہے۔ ہاں یہ سوال ممکن ہے کہ جب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قرآن مقدس میں منصوص حکم کے مطابق سوال فرمایا تھا تو اس کو اجتہاد کیوں کہا گیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ متعدد علمانے اس کو اجتہاد کہا ہے۔اب اگر متکلم کو اجتہاد والے اقوال پرہی اطلاع ہوئی، اسی اعتبار سے اس کواجتہاد کہا تو متکلم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اجتہاد کے سبب باغ کا مطالبہ فرمائی تھیں،یا قرآن کی نص قطعی کے پیش نظر؟اس بارے میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآیت میراث میں تعمیم سمجھیں اور میراث انبیا کے خصوصی حکم سے عدم معرفت کے سبب وراثت کا مطالبہ فرمائیں۔

 خاتون جنت حضرت سیدہ طیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اجتہاد کے سبب باغ کا مطالبہ فرمائی تھیں،یا قرآن کی نص قطعی کے پیش نظر؟اس بارے میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آیت میراث میں تعمیم سمجھیں اور میراث انبیا علیہم الصلوٰۃوالسلام کے خصوصی حکم سے عدم معرفت کے سبب وراثت کا مطالبہ فرمائیں،پھر جب حدیث نبوی کا علم وادراک ہوا توآپ نے مطالبہ ترک فرمادیا۔

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال قسط سوم
ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال قسط سوم

آیت قرآنیہ کے حکم میں تعمیم سمجھنے کو بعض علما نے اجتہاد قراردیا،اور بعض علما اس کونص قرآنی پر عمل قرار دیتے ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ یہ اجتہاد ہے یا قرآن کی نص قطعی پر عمل۔ان شاء اللہ تعالیٰ قسط چہارم میں اس موضوع پر بحث ہوگی۔

غلطی اور خطا کا لفظ

اردو زبان میں ارباب فضل وکمال کے لیے غلطی کا لفظ شایان شان نہیں سمجھا جاتا ہے،اور لفظ خطا میں قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی،لیکن اب اس لفظ کے استعمال پر بھی شوروہنگامے ہونے لگے ہیں، پھراب  کسی دوسرے لفظ کی تلاش کرنی ہوگی۔

 علما کی اصطلاح میں ارباب فضل وکمال کے لیے تسامح کا لفظ استعمال ہوتا ہے،لیکن عوام کے درمیان اس کا اطلاق مروج نہیں،نہ ہی عوام اس کا مفہوم سمجھ سکیں گے۔علما کے یہاں ارباب فضل وکمال کے لیے بھی تادم تحریر سہوونسیان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ علما خطا کی تعبیر کے لیے تسامح کا لفظ استعمال کرتے ہیں،لیکن خطائے اجتہادی کے لیے خطائے اجتہادی کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔

تسامح کا لفظ علما اور تعلیم یافتگان تک محدود ہے۔ عوام الناس کے درمیان اس کا استعمال مروج نہیں۔اب عوام کی تفہیم کے لیے لفظ خطا کی جگہ تسامح کا لفظ بولا جائے تو یہ عوام کی سمجھ سے بالاتر لفظ ہوگا۔ 

یہاں اگر متکلم نے ایک ضرورت کے سبب یعنی ایک رافضیہ کی بدگوئی کا جواب دینے کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تو عام استعمال میں اس کا شمار نہیں ہونا چاہئے۔یہاں روافض کے عقیدۂ عصمت کی تردید مقصود تھی، جیسا کہ اصل کتاب میں حضرت پیرمہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت اس کی تردید میں ہے۔ متکلم نے اسی عبارت کی تشریح کی ہے۔ 

عوامی اجلاس میں لفظ خطا کا اطلاق ہوا۔ اگرخواص کی اصطلاح یعنی تسامح کا استعمال ہوتو عام پبلک کو نفس مسئلہ سمجھنا مشکل ہوگا۔خواص اپنی اصطلاح کے اعتبارسے اس لفظ میں کچھ عیب سمجھتے ہیں تو انہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ لفظ خواص کی مجلس میں نہیں،بلکہ عوام کی مجلس میں بولا گیا اورعوام کی تفہیم کے لیے بولا گیا۔

اردوزبان میں آج تک لفظ تسامح عام طورپر مروج نہیں ہے۔ اردو زبان کے اعتبار سے عوامی مجالس میں لفظ تسامح کا استعمال فصاحت سے فروتر ہوگا۔لغوی غرابت کے سبب لفظ تسامح کا استعمال فصاحت سے خارج ہوگا،اور غلطی کا لفظ اہل فضل کے لیے شایان شان نہیں۔ لفظ خطا اس جگہ استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ بھی محل اعتراض میں آگیا تو کسی نئے لفظ کو تلاش کرنا ہوگا۔

سوال سوم

آپ نے کہا کہ قرینہ کبھی قطعی بالمعنی الاخص نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ وہاں یہ احتمال بعید موجود ہوتا ہے کہ متکلم کی وہ مراد نہ ہو، جو قرینہ سے ظاہر وثابت ہورہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب اس بات پر کوئی دلیل ہی نہ ہوکہ متکلم کی کوئی دوسری مراد ہے تو بلادلیل محض اپنے وہم فاسد سے یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے کہ متکلم کی کوئی دوسری مراد ہو، یہ کیوں کرصحیح ہوگا، اور پھر اس کے سبب قرینہ کی قطعیت کیوں کرمتاثر ہوگی؟

 اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ قرینہ قطعی بالمعنی الاخص بھی ہوسکتا ہے،کیوں کہ متکلم کی جداگانہ مراد ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور قرینہ قطعی بالمعنی الاخص ہوگا۔اس احتمال فاسد کے سبب قطعی قرینہ کو قطعی بالمعنی الاعم قرار دینا اور قطعیت بالمعنی الاخص کی نفی کرنا کیوں کر درست ہوگا؟

جواب

قرینہ قطعی ہونے کی صورت میں بھی یہ احتمال بعیدموجود ہے کہ متکلم کی مرادوہ نہ ہو،جس پرقرینہ دلالت کر رہا ہے،گرچہ اس احتمال پر کوئی دلیل نہ ہو، اور جب احتمال پر کوئی دلیل نہ ہوتو وہ احتمال بعید ہوتا ہے،اور احتمال بعید قطعیت بالمعنی الاخص کے لیے مانع ہوتا ہے۔

لفظ کا محتمل ہونا اورکسی معنی میں متعین نہ ہونا یہ احتمال پیدا کرتا ہے کہ یہاں متکلم کی مراد کوئی دوسرا معنی ہو،کیوں کہ لفظ اس معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے جس پرقرینہ دلالت کررہاہے اوراس معنی کا بھی احتمال رکھتا ہے جس پرقرینہ دلالت نہیں کررہا ہے،لیکن وہ لفظ کا معنی ہے۔ اگر اس دوسرے معنی کے مراد ہونے پر کوئی ظنی دلیل بھی ہو تووہاں احتمال قریب ہوگا،نہ کہ احتمال بعید۔

معنی دیگر مراد ہونے پر کسی دلیل کا نہ ہونا قرینہ کوقطعی بنادیا اور معنی دیگر کا احتمال بلادلیل ہونا قرینہ کی قطعیت بالمعنی الاخص کے لیے مانع ہوگیا،پس یہاں قرینہ قطعی بالمعنی الاعم ہوکر رہ گیا۔

واضح رہے کہ معنی دوم کا احتمال بعید اسی وقت ہوگا جب معنی اول مراد ہونے پرظنی یا قطعی بالمعنی الاعم دلیل یا قرینہ ہو۔ اگر لفظ محتمل تھا اوراس کے معنی اول مراد ہونے پر قطعی بالمعنی الاخص دلیل ہے تو وہاں معنی دوم کا احتمال بعید بھی نہیں ہوگا۔

احتمال بعید کے اثرات ونتائج

ضروریات دین کے انکار میں احتمال بعید کے سبب کفر کلامی کاحکم عائدنہیں ہوتا۔اسی طرح ضروریات اہل سنت کے دلائل کے ثبوت میں احتمال بعید موجود ہے،اسی لیے وہ ضروریات دین نہ بن سکیں۔اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ شریعت اسلامیہ میں احتمال بعید یعنی احتمال بلا دلیل کا اعتبارہے۔

کوئی لفظ محتمل ہے،اوروہ دومعنی کا احتمال رکھتا ہے او ر ایک معنی کے مراد ہونے پر کوئی دلیل ہے تو اس معنی کا احتمال،احتمال قریب ہوگا۔دوسرے معنی کے مراد ہونے پرکوئی دلیل نہیں تووہ اس معنی کا احتمال،احتمال بعید ہوگا۔ اب اگر کوئی تیسرے معنی کا احتمال ظاہر کرے اورلفظ اس معنی کا احتمال نہیں رکھتا تو تیسرے معنی کا احتمال،احتمال باطل ہوگا۔احتمال قریب فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں مقبول ہیں۔احتمال بعید متکلمین کے یہاں مقبول ہے،فقہا کے یہاں مقبول نہیں۔ احتمال باطل فقہا ومتکلمین کسی فریق کے یہاں مقبول نہیں۔ 

 وماتوفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم::وآلہ العظیم

طارق انور مصباحی

ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)۔

رکن :روشن مستقبل دہلی

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال قسط اول کے لیے کلک کریں
ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال قسط دوم کے لیے کلک کریں

  1. Amazon
  2. flipkart  
  3. Havells 
  4.   Bigbasket 
  5. AliExpress
  6. TTBazaar 
  7. FirstCry
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن