تحریر: شعیب رضا نظامی فیضی بابری مسجد! تیری آہ سے آئی تباہی ہندستان میں
بابری مسجد! تیری آہ سے آئی تباہی ہندستان میں
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وبیاں رہی کہ تقریبا 500 سالوں سے اجودھیا میں بابری مسجد واقع تھی، جسے ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی تسلیم کیا البتہ یہ واضح نہ ہوسکا کہ کیا اس سے پہلے وہاں مندر تھا یا نہیں بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ ثابت نہ ہوسکا کہ اس سے پہلے مندر تھا یا مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی۔
لیکن ہاے افسوس 500 سالوں تک مسجد کے وجود کو نظر انداز کرکے “اس سے پہلے وہاں مندر تھا” کے شک کی بنا پر، ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ثبوتوں کو نظر انداز کرکے ملک کی اکثریت کی آستھا کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے غیروں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ “بات تو آپ کی درست ہے لیکن میرا کھونٹا یہی رہے گا“۔
فہم وفراست سے وابستگی رکھنے والا چھوٹے سے چھوٹے بچے پر بھی اس فیصلہ کا کھوکھلا پن واضح ہے۔ لیکن کیا کیا جائے؟ فیصلہ ہونے سے پہلے ہی ہمیں اور صرف ہمارے قائدین کو بلا بلا کر سمجھایا جارہا تھا کہ فیصلہ چاہے جو بھی ہو کوئی آواز نہیں اٹھنی چاہیے، کوئی احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہم نے بھی بے وقوفوں کی طرح اثبات میں سر ہلایا؛ اس کی دو وجہ ہوسکتی ہے ایک تو یہ کہ ہم بے بس تھے کہ فیصلہ انھیں کے حق میں ہوگا آواز اٹھانے سے، احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا حکومت بھی انھیں کی ہے۔
لیکن یہ وجہ سراسر بے وقوفی پر مبنی ہے کیوں کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی جمہوریت ہے، جس کی جھلکیاں ہم نے سی۔اے۔اے۔ وغیرہ کے خلاف دیکھی۔ اور دوسری وجہ یہ کہ ہم نے ملک کی عدالتوں کے پیمانۂ انصاف پر کچھ زیادہ ہی اعتبار کرلیا جب کہ اس کا پیمانہ اسی وقت سے ہچکولے کھا رہا تھا
جب سابق 4 ججوں نے عوام کی عدالت کا رخ کرتے ہوئے اپنا درد بیان کیا تھا۔ اور ہوا بھی وہی فیصلہ ہمارے خلاف آیا اور کچھ ہی دنوں امریکہ کی سیر کرنے کے بعد جب منصف کی وطن واپسی ہوئی تو راجیہ سبھا کی رکنیت مل گئی۔
خیر یہ تو ہونا ہی تھا، فیصلہ آیا ہم خاموش رہے ہمارے قائدین نے بھی چپی سادھ لی اور سیکولرزم کا نعرہ دے کر دھوکہ دینے والی سیاسی پارٹیوں کی تو دلی مرادیں پوری ہوگئیں۔ اگر چہ اس وقت وہ اپنے ووٹ بینک کی فکر میں خوشی کا اظہار نہ کرسکے لیکن بھومی پوجن کے دن آخر دل کی بات زباں پہ آ ہی گئی اور حد تو کہ جو لوگ ہماری قیادت کی قسمیں کھاتے پھرتے تھے وہ بھی خاموشی کے بستر پہ نظر آئے ہاں اس وقت بھی ملت کا ایک مرد مجاہد میدان میں نظر آیا جس نے بر سر پیکار ہو کر عدالت کے اس فیصلہ کو للکارنے کی ہمت جٹائی۔
المختصر! فیصلہ ہوگیا، مسجد کی جگہ مندر کو مل گئی اور ہمیں بھیک میں دوسری جگہ پانچ ایکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا گیا۔ ہم خاموش ہوکر رہ گئے ہماری زبانوں کی گویائی سلب ہوگئی پھر خدا نے ہمارے کرموں کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور ملک کے ایوانوں میں ہمارے خلاف کالا قانون پاس کیا گیا، جس میں صرف اور صرف ہم سے ہماری شہریت کا ثبوت مانگا جائے گا۔
ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں سے ثبوت مانگا جائے گا انھوں نے پیش کیا تو بھی سہی نہ دیا تو بھی سہی کہ انھیں بہ ہر حال شہریت ملنی طئے ہے۔ اب بات جب ہمارے اوپر ذاتی طور سے آئی اور ملک میں ہمارا وجود خطرے میں پڑا تو ہم نے چیخیں مارنی شروع کردی، راگ الاپنا شروع کیا۔ اس سے پہلے جب خانہ خدا میں بتوں کی پوجا کا حکم آیا تو ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
یہی سے ہندستان میں تباہی کا دور شروع ہوا پہلے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا وجود خطرے میں آیا اور ملک گیر پیمانے پر احتجاجوں نے حکومت کی ناک میں دم کر دیا پھر قدرت نے تباہی کے دائرہ کو وسعت دینی شروع کی، فیصلہ کے دو ماہ بعد ہی ملک میں کورونا نے دستک دی اور رفتہ رفتہ اپنی ہلاکت سے خوف ودہشت کا دوسرا نام بن گیا اور آج حال یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں جہاں کورونا وائرس کے اثرات ختم ہونے کو ہیں وہی ہندستان میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے۔
خود جہاں کورونا وائرس نے جنم لیا آج وہیں کی زمیں کورونا سے پاک نظر آرہی ہے لیکن ہمارے ملک میں روزانہ ایک نیا ریکارڈ بنتے جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اس قدر متأثر ہوچکی ہے کہ آج ایک ساتھ 23 سرکاری کمپنیوں کی نیلامی ہو رہی ہے۔
اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک پر جس طرح پڑوسی ممالک نے آتش فغان نظریں جمائی ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان سے ہمارے تعلقات تو کبھی استوار نہیں تھے لیکن چین کو کیا ہوا اس نے لداخ میں ہماری زمین پہ قبضہ جما لیا اور احتجاج کرنے پر بیسوں ہندستانیوں کو مار گرایا۔
نیپال کو کس نے اکسا دیا کہ اس نے ہمارے ملک کا بڑا حصہ اپنے نقشے میں شامل کرلیا اور کارروائی کہیں یا طاقت کی نمائش مگر تاریخ میں پہلی بار تین ہندستانیوں کو نیپال پولیس نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد بھوٹان جیسی کمزور ریاستوں نے بھی آنکھ دکھانی شروع کردی۔
غرض کہ گزشتہ ٨/٩ مہینوں سے ملک میں ہلاکت وتباہی کا دور دورہ ہے، چین وسکون نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی پورا ملک اپنے سب سے بدترین دور سے گزر رہا ہے، ہندستان نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ساری مصیبتوں کا ایک ساتھ سامنا نہ کیا تھا اور یہ سبھی تباہیاں شروع ہوئیں اس وقت سے جب سے بابری مسجد کا فیصلہ آیا۔ اب اسے اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔
تری آہ سے آئی تباہی ہندستان میں
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار گورکھ پور
رابطہ 9792125987
کچھ تو ہے جس کی ہردہ داری پے اس کو بھی پڑھیں
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع