و حامدا::ومصلیا و مسلما کیا معبودان ہنود پیغمبر و نبی تھے؟
اللہ تعالی کا حکم ہے کہ ہم کسی بھی مذہب کے معبودان باطل کو برا بھلا نہ کہیں۔
رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:۔ ۔ ” ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم” (سورہ انعام:ایت108)۔
نہ کسی دھرم کے معبود کو برا بھلا کہنا جائز ہے،نہ ہی اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا جائز ہے۔
بھارت میں رام مندر کی بنیاد رکھ دی گئی ہے
اب نہ جانے،کتنے مفاد پرست لیڈر و نیتا اور مجاور و ملا، رام کو پیغمبر بتانے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں کا دین و ایمان برباد کریں گے۔
رام کے وجود پر ہی سوالیہ نشان ہے۔ کوئی صحیح اور معتبر تاریخ رام کے وجود کو ثابت نہیں کرتی۔
۔”راماین” افسانوی طرز پر لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ہے۔
نبی و رسول گناہوں سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں۔جس سے گناہ کبیرہ مثلا قتل،زنا کاری وغیرہ صادر ہو،وہ پیغمبر نہیں ہو سکتا۔
پھر جو پیغمبری کے لائق نہ ہو، وہ معبود کیسے ہو سکتا ہے؟
پیغمبری کا امکان اور پیغمبری کا ثبوت
خیال رہے کہ پیغمبری کا امکان الگ امر ہے اور پیغمبری کا ثبوت الگ امر ہے۔
پیغمبری کے ثبوت کے لئے قران و حدیث کے حوالوں کی ضرورت ہے۔
محض پیغمبری کے امکان کے لئے متعدد امور کا ثابت ہونا ضروری ہے۔
چند امور مندرجہ ذیل ہیں۔
۔1_اس کا وجود ثابت ہو۔
وہ کوئی افسانوی کردار نہ ہو۔
رام کا وجود ثابت نہیں۔
۔ 2 -اس کا مومن ہونا ثابت ہو۔
کوئی کافر پیغمبر نہیں ہو سکتا۔
رام کا مومن ہونا ثابت نہیں۔
۔ 3 -گناہ کبیرہ سے اس کا پاک ہونا ثابت ہو۔
نبی و رسول گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔
جس سے گناہ کبیرہ مثلا ظلم کے طور پر قتل،بدکاری و زناکاری وغیرہ کا صدور ہو، وہ پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے؟
قوم ہنود کی روایتوں سے رام کے وجود کا پتہ چلتا ہے اور قوم ہنود کی انہی روایتوں میں رام سے متعلق ایسے امور بیان کئے جاتے ہیں جو دین خداوندی میں گناہ کبیرہ ہیں۔گرچہ قوم ہنود کے یہاں وہ گناہ نہ ہوں۔
ایسی صورت میں رام کی پیغمبری کا امکان ہی ثابت نہیں ہوتا۔
پیغمبری کا ثبوت بہت دور کی بات ہے۔
در اصل قوم ہنود کی کہانیوں کے علاوہ رام کے وجود پر تاریخی روایات موجود نہیں۔
۔4 -نسب کے اعتبارسے سب پر فوقیت رکھتا ہو۔
رام کو راجپوت اور ٹھاکر مانا جاتا ہے۔
سناتن دھرم میں نسب کے اعتبارسے برہمن افضل و اعلی ہے۔
جب رام راجپوت اور چھتری ہے تو وہ نسب کے اعتبارسے افضل نہیں،پھر وہ پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے؟
الحاصل رام کے لیے پیغمبری کا امکان ہی ثابت نہیں تو پھر پیغمبری کا ثبوت کیسے ہو گا؟
اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے رام اور کرشن کے بارے میں رقم فرمایا کہ قران و حدیث میں ان لوگوں کا ذکر نہیں۔
نہ ہی ان لوگوں کے وجود کا کچھ ثبوت ہے۔
ان لوگوں کے وجود پر ہنود کے تواتر کو اگر حجت مانا جائے تو تواتر ہنود سے ہی ان لوگوں کا لہو و لعب اور فسق و فجور ثابت ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد چہاردہم ص658۔جامعہ نظامیہ لاہور)
فتاوی رضویہ میں اسی مقام پر مزید تفصیل مرقوم ہے۔
طارق انور مصباحی ( پیغام شریعت دہلی)۔
اعزای ایڈیٹر : افکار رضا
انٹرنیشنل اردو ویب سائٹ
www.afkareraza.com
فتاویٰ رضویہ خریدنے کے لیے کتاب پر کلک کریں
اس کو بھی پڑھیں ہندوستان کی جنگ آزادی میں علما و مدارس کا کردار
گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع