Wednesday, November 20, 2024
Homeحالات حاضرہنئے بھارت میں جمہوریت مسلمانوں کی مجبوری یا ضرورت

نئے بھارت میں جمہوریت مسلمانوں کی مجبوری یا ضرورت

از قلم فیاض احمد برکاتی مصباحی نئے بھارت میں جمہوریت مسلمانوں کی مجبوری یا ضرورت

نئے بھارت میں جمہوریت مسلمانوں کی مجبوری یا ضرورت

۔15 اگست 1947 کو ہمارا پیارا وطن بھارت انگریزوں کی غلامی سےآزاد ہوا جس میں ہر قوم ہر دھرم کے لوگوں نے بھرپور حصہ لیا ایک طرف گاندھی جی نیتا جی  سبھاش چندر بوس اور سردار پٹیل جیسے ہزاروں اہنساکے پجاری  بھارت کو آزاد کرانے کے لیے لاٸحہ عمل تیار کررہے تھے

وہیں دوسری طرف مولانا ابوالکلا آزاد خان عبدالغفارخان  حسرت موہانی محمد علی جوہر جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی وطن کو آزادی دلانے کےلیے جان کی بازی لگارہے تھے

جہاں ایک طرف چندر شیکھر آزاد اور رام پرشاد بسمل جیسے آزادی کے متوالے پھانسی کے پھندے خوشی خوشی گلے لگارہے تھے وہیں دوسری طرف اشفاق اللہ خان جیسے محبین وطن سولی پر چڑھکر اپنی جانوں کی قربانی پیش کررہے تھے

آزادی ملنے کے ڈھاٸی سال بعد یعنی 26 جنوری 1950 کو ہمارے ملک کے دانشوروں نے عالی جناب بھیم راو امبیڈکر جی کی قیادت میں آزاد بھارت کے لٸے دستور اساسی تیار کیا جس میں اقتدار کسی ایک طبقے کو نہ دیکر جمہور یعنی عام آدمی کو دیا گیا جس میں ہندوستان میں بسنے والے تمام شہریوں کو انکے مذہب سماج اورانکے تہذیب وتمدن کے ساتھ انھیں  زندگی گزارنے کی مکمل آزادی دی گٸی

 ہمارے وطن ہندوستان کے اندر بیشمار ذات دھرم کے لوگ بستے ہیں جوہمارے ملک کی خوبصورتی ہے  جس طرح ایک چمن میں کٸی رنگ کے پھول ہوں تووہ چمن  خوبصورت لگتاہے ویسے ہی ہمارے ملک میں کثرت میں وحدت کا رنگ جھلکتا ہے جسے پوری دنیا گنگا جمنی تہذیب سے جانتی اور پہچانتی ہے

آزادی کے وقت سے ہی  ملک کے ایک خاص طبقے کو ملک کی یہ گنگا جمنی تہذیب بالکل پسند نہ تھی وہ اسے مٹاکر ایک خاص رنگ میں رنگ دیناچاہتا تھا بالخصوص اسلامی تہذیب وثقافت ملک سے مٹا دینا چاہتا تھا  لیکن ابتدا میں جمہوریت کارنگ خالص ہونے کی وجی سے یہ  زعفرانی ٹولہ پورے ملک پر اپنا یہ کیسریا  رنگ نہ چڑھاسکا

ابتدا ہی میں ملک کے تمام شر پسند عناصرنے مل کر ار ایس ایس نام سے ایک غیر سیاسی تنظیم بناٸی ملک کے گوشے گوشے میں اس کی شاخ قاٸم کی گٸی پھر اس تنظیم کی بھی جگہ جگہ الگ الگ نام سے بیشمارذیلی تنظیمیں قاٸم کی گٸیں ۔

پھرمکمل منظم طریقے پر اکثریتی طبقے کےہر ہر فرد تک ہندوتوا یا ہندوراشٹر کی تبلیغ کی گٸی جواس تنظیم کے قیام کا اولین مقصد ہے اسکے لٸے طاقت روپیہ پیسہ پرنٹ میڈیا الکٹرانک میڈیا شوشل میڈیا غرضیکہ تمام ناجاٸز وحرام غیر اخلاقی اور غیر انسانی ذراٸع کا سہارا لیا گیا گاوں گاوں مذہبی پروگرام منعقد کرکے انکے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا اور اسلام ومسلمین کی غلط شبیہ بناکر انکے قلوب واذہان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کازہر بھردیاگیا

پوری پلاننگ کے ساتھ انھوں نے بی جے پی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بناٸی دھیرے دھیرے اسکو پروان چڑھایا اور جب فضا ہموار ہوگٸی تو انھوں نے اپنے پروردہ نریندرمودی کو وزیر اعظم کے طور پر میدان میں اتارا آخرکار انکی ستر سال کی محنت رنگ لاٸی اور انھیں امید سے بڑھکرکامیابی ملی یہاں تک کہ پورے ملک پر بی جے پی کا قبضہ ہوگیا

پہلے کے  پانچ سالوں میں بی جے پی  یاار ایس ایس نے کوٸی اقدام نہیں کیا بلکہ ملک بیرون ملک کا صرف جاٸزہ لیا اپنے مخالفین کو یا تو خرید لیا یا ڈراکر خاموش کر دیا اور جو کسی طرح نہ جھکے توانھیں جیل میں ڈال کر اپنا راستہ صاف کرلیا

مودی سرکار ہر محاذپر  ناکام ثابت ہوٸی پھر بھی ملک کی اکثریت نے مسلم دشمنی میں محض مذہب کے نام پر مودی سرکار کو دوبارہ اقتدار سونپ دیا اس بار براٸے نام سیکولر پارٹیوں نے بھی ہندوراشٹر کے نرمان کے لیے بی جے پی کو اپنے وجود پر ترجیح دیا اسطرح براٸے نام  سیکولر پارٹیوں کابھی  وجود ختم ہوگیا اور مودی سرکار پورے ملک کا تنہا مالک بن گٸی

دوبارہ اقتدار ملنے کےبعد مودی سرکار نے بغیر کسی منافقت کے اپنے منصوبوں کو  عملی جامہ پہنانا شروع کردیا تین طلاق 370 ختم کیا  سی اے اے پاس کیا سبھی نامور مسلم لیڈروں اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کوسلاخوں کے پیچھے ڈالدیا

یہاں تک کہ  دنیا کے سب سے بڑے ملک میں ایک غیر قانونی کام کو قانونی حیثیت دیکر مسجد توڑ کر مسجد کی جگہ مندر کی بنیاد رکھ دیا

کورونا کی آڑ میں جمعہ جماعت رمضان تراویح عید بقرعید قربانی جیسے تمام اسلامی شعاٸر اور اسلامی تہذیب وثقافت پر پابندی لگا دی (اگر مسلمان محلےکی مسجد میں نماز کے لٸے اکٹھے ہوگیے تو پورے محلے میں کورونا پھیل جاٸے گا۔

اگر چہ شوشل ڈسٹنسنگ کےساتھ ہی کیوں نہ اکٹھےہوں جب کہ ٹرین پلین بس شاپنگ مال ر اشن کی دکان اور ایودھیا میں بغیر کسی شوشل ڈسٹنسنگ کے ہزاروں نہیں لاکھوں کا مجمع ہوجاٸے وہاں کورونا کا کوٸی خطرہ نہیں )اس طرح ملک کے مسلموں کوہر طرح سے رسوا اور ذلیل کرکے ہندووں کی نگاہ میں پذیراٸی حاصل کرلیا اور 2024 کا الیکشن بھی آج ہی اپنے نام کرلیا

اس کتاب کو خریدنے کے لیے کلک کریں

کیا ہم سچ میں آزاد ہیں اس مضمون کو بھی پڑھیں 

۔5 اگست کے بعد نریندر مودی کے نٸے بھارت  کا تصور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے انتہاٸی دردناک ہے گاوکشی کے بہانے ار ایس ایس  کے غنڈے یا انتہا پسند یہ ہندو آتنگ وادی کسی بھی مسلمان کی ماب لنچنگ کردیں گے پاکستانی دہشت گرد آتنگ وادی یا غدار کہ کر پولس انھیں جیل میں ڈال دےگی ۔

کسی بیماری کے بہانے حکومت جب چاہےگی اسلامی شعاٸر پر پابندی لگادےگی  کسی بہانے مساجدومدارس پر پابندی لگاکر قوم مسلم کو ان کے دین ومذہب سے بیگانہ کردےگی پھر معاذاللہ صد بار معاذاللہ مرتد بنانے کا جو منصوبہ بند طوفان اٹھےگا۔

اس میں تو اسی کا ایمان سلامت رہےگا جس کا ایمانی رشتہ اللہﷻ ورسول ﷺ سے انتہاٸی مضبوط ہوگا اللہ تعالی اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے اس دن ہم سبھی مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرماٸے آمین ہمارے یہ سارے اندیشے محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہیں کیوں کہ ماضی قریب میں اسپینی مسلمانوں کی تباہی ہماری نگاہوں کے سامنے موجود ہے

اس لیے نریندر مودی کے اس نٸے بھارت میں جمہوریت ہم ہندوستانی مسلمانوں کی مجبوری ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے

انگریزوں کے بعد تقسیم وطن نے ہندوستانی مسلمانوں کو اجاڑ کر رکھ دیا انکی جان مال زمین جاٸیداد عزت آبرو سب کچھ تہس نہس کردیا

مگر چوں کہ مسلمان ایک زندہ قوم کا نام ہے جو سب کچھ لٹنے کے بعد بھی اپنے پرانے زخم بھلا کرایک نٸے حوصلےکے ساتھ اٹھ کھڑی ہوٸی اور اسی جمہوریت کی گھنیری چھاوں میں پلی بڑھی خود بھی مضبوط ہوٸی اور جمہوریت کو بھی مضبوط کیا تعلیم تجارت معیشت اورنوکری میں پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی

دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی پیچھے نہ رہی یہاں تک کہ ملک کے گوشے گوشے میں مساجدومدارس اور دعوتی مراکز کھولے گٸے

مسلم سیاست وقیادت کے طور پر اگر چہ اس قوم نے اب تک کوٸی خاص کامیابی حاصل نہیں کی پھر بھی یہ جمہوریت ہی کا کمال تھا کہ ہمارے ووٹ کو ملک میں ایک مرکزی حیثیت حاصل رہی جس کے ڈر سے یا جس کی لالچ میں حکومت وقت یا براٸے نام ہی سہی سیکولر پارٹیاں ہمارے خلاف کوٸی اقدام کرنے سے ہچکچاتی تھیں

اس کی زندہ وجاوید مثال بابری مسجد کا معاملہ ہے ایودھیا میں 5اگست سے پہلے جوکچھ ہوا اسے غیر قانونی ماناگٕیا جسے میں جمہوریت کےکمال سے تعبیر کرتاہوں لیکن 5اگست کے بعد نریندر مودی کے نٸے بھارت میں اسی ایودھیا میں مندر کا نرمان قانونی حیثیت پاگیا

کل تک جنھٕیں ہم جمہوریت کا محافظ سمجھ کر ان کے جھنڈے اٹھاتے رہے جن کی دری بچھاتے رہے جن کے قدموں میں اپنی قیادت کوڈال دیا آج ان سبھوں نےاپنے بدن سے سیکولرازم کا چولااتار کرپھینک دیا اور ہمارے سامنے پورے ننگے ہوگٸے آج کے اس نٸے بھارت میں ان سبھوں نے الکفر ملة واحدة کا ثبوت پیش کردیا

اس لیے آج جمہوریت ہماری مجبوری نہیں بلکہ ضرورت ہےاور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہمارا قومی فریضہ ہے جسطرح جمہوریت کے نام پر وہ ہمیں آج تک استعمال کرتے آٸے ٹھیک اسی طرح جمہوریت کے نام پر ہم بھی اپنی قیادت مضبوط کرسکتے ہیں جس کے بہت سے امکانات موجود ہیں جو ایک الگ موضوع کا متقاضی ہے 

جس کے لیے قوم کے ہر فرد کو اپنےحصے کا کام کرنا ہوگا جو جس میدان میں ہے وہ وہیں اپنی قوم کو متحد کرنے کی کوشش کرے اوریہ  یاد رکھے کہ اس جمہوری نظام میں انفرادیت کی کوٸی حیثیت نہیں جبتک ہماری  اجتماعیت مضبوط نہیں ہوتی اور جبتک یہاں مسلم قیادت موجود نہیں ہوتی ہماری عبادت گاہیں مدارس اور خانقاہیں اور ہماری اسلامی تہذیب وثقافت بھی محفوظ نہیں رہ سکتیں  

لیکن 5اگست کے  بعد ہماری قوم افراط وتفریط کاشکار ہے

ایک طبقہ اتنا جذباتی ہوچکا ہیکہ اپنی کوتاہیوں اور سیاسی کمزوریوں کا الزام بھی ملک کے جمہوری نظام پر ڈال رہاہے اور وقتی جذبات میں آکر مسجد وہیں بناٸیں گے کا بےوقت نعرہ لگارہا ہے

اوردوسرا طبقہ  ار ایس ایس  بی جے پی یا متشدد ہندووں کی شازشوں سے اتنا بے خبر ہےیا اپنے ایمان پر جمہوریت کو اتنی فوقیت دےرہاہے کہ مندر نرمان کا استقبال کررہاہے

جبکہ اس وقت  ہمیں نہ جذبات میں آ نے کی ضرورت ہے کہ حالات بڑے نازک ہیں  اور نہ مایوس ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم مسلمان ہیں ہمارا ایمان اللہ پر ہے جسکی رحمت بہت وسیع ہے

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ آج ار ایس ایس جو ملک کے سبھی ہندووں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوٸی ہے اسکے پیچھے اس کی ستر سال سےزائد کی بے لوث اور بغیر نام ونمود والی قربانی کارفرماہے

ہم تو ایک اللہ تعالی ایک رسول خدا ﷺایک کتاب اور ایک دین کے پیروکار ہیں ہم پرتو اپنوں کی اصلاح اور غیروں تک اسلام کی تبلیغ فرض ہے ہمارے پاس تو اللہ تعالی کا وہ قرآنی نظام موجود ہے جو ہماری دنیا کوبہتر پرسکون اور پاکیزہ بنانے کا درس دےرہا ہے اور ہمیں اللہ کی زمین پر قرآنی نظام برپا کرکے مخلوق خدا کے ساتھ عدل وانصاف قاٸم کرنے کا مطالبہ کررہاہے اور آخرت کی کامیابی کو ہماری اصل کامیابی قرار دے رہاہے

اللہ کی آزماٸش اور دشمنان اسلام کے اتنے ظلم وستم کے بعدبھی اگر ہم اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرلیں اور اس نظام عدل وانصاف کوبرپاکرنے کیلیے آپسی رنجشوں کو بھلاکر اور اپنی ذاتی فاٸدوں کا گلا گھونٹ کر آپس میں اتفاق واتحاد کرلیں اور بحیثیت قوم مسلم ایک ہوکر ملک میں ایک مضبوط مسلم قیادت کھڑی کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالیں۔

تو  ان شاء اللہ تعالی اللہ کی رحمت بھی ہماری دستگر ہوگی اور ملک کی  دبی کچلی عوام اوراسکےسیکولر پسند غیر مسلم افراد ہماری قیادت میں آنے کو مجبورہونگے اسطرح ہم جمہوریت کو مضبوط کر سکتے ہیں اور جمہوریت کی چھاوں میں اس ملک میں اپناایک  پاٸیدار مسلم قیادت کوبھی  پروان چڑھاسکتے ہیں

لیکن اسکے لیے آپسی اتحاد واتفاق دینی اخوت و حمیت ہمت حوصلہ صبر اور ایک لمبا وقت درکار ہے

نہ ہمسفر نہ کسی ہمنشیں سے نکلے گا

ہمارے پاوں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

اعلیٰ حضرت قدسس رہ اور برطانوی سامراج کی مخالفت اس کو بھی پڑھیں

تحریرفیاض احمد برکاتی مصباحی کشی نگر

ONLINE SHOPPING

گھر بیٹھے خریداری کرنے کا سنہرا موقع

  1. HAVELLS   
  2. AMAZON
  3. TATACliq
  4. FirstCry
  5. BangGood.com
  6. Flipkart
  7. Bigbasket
  8. AliExpress
  9. TTBazaar
afkareraza
afkarerazahttp://afkareraza.com/
جہاں میں پیغام امام احمد رضا عام کرنا ہے
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments

قاری نور محمد رضوی سابو ڈانگی ضلع کشن گنج بہار on تاج الشریعہ ارباب علم و دانش کی نظر میں
محمد صلاح الدین خان مصباحی on احسن الکلام فی اصلاح العوام
حافظ محمد سلیم جمالی on فضائل نماز
محمد اشتیاق القادری on قرآن مجید کے عددی معجزے
ابو ضیا غلام رسول مہر سعدی کٹیہاری on فقہی اختلاف کے حدود و آداب
Md Faizan Reza Khan on صداے دل
SYED IQBAL AHMAD HASNI BARKATI on حضرت امام حسین کا بچپن